0
Friday 28 Dec 2012 15:33

طاہرالقادری کا ایجنڈا کیا رنگ لائے گا!

طاہرالقادری کا ایجنڈا کیا رنگ لائے گا!
تحریر: ابن آدم راجپوت

بلاشبہ تحریک منہاج القرآن کے سربراہ علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے مینار پاکستان پر 23 دسمبر 2012ء کو ایک بڑا جلسہ منعقد کیا۔ اسی مقام پر 72 سال پہلے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسے میں قرارداد پاکستان منظور کرکے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کی جدوجہد شروع کی۔ اور سات سال بعد مملکت خداداد حاصل کرلی۔ علامہ طاہرالقادری کے جلسے کے پیچھے لگے پینا فلیکس میں لگی تین تصاویر سے واضح کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ علامہ اقبال نے تصور پاکستان خطبہ الہٰ 1930ء میں دیا، قائداعظم محمد علی جناح نے عوامی جدوجہد کے ذریعے اس مملکت کو انگریزوں کے تسلط اور ہندووں کی اکثریت سے علیحدہ حاصل کیا، اور آج مسلمان اپنی مذہبی رسومات آزادی سے ادا کر رہے ہیں۔ تیسری تصویر ڈاکٹر طاہرالقادری کی تھی جن کے بارے میں لکھا گیا تھا کہ وہ تعمیر وطن کرنے والے لیڈر ہیں۔ اب یہ دعویٰ کس حد تک درست ہے، یہ آئندہ آنے والا ریکارڈ ہی بتا سکتا ہے۔

سیاست نہیں، ریاست بچاو، جلسے نے یقینی طور پر تاریخ رقم کی ہے۔ پہلی بار پاکستانی قوم اور میڈیا نے دیکھا کہ کسی سیاسی جماعت نے اپنے سیاسی جلسے میں پارٹی پرچم کی بجائے صرف قومی شناخت کے ساتھ شرکت کی اور جلسہ گاہ میں ہر جگہ لہراتے سبز ہلالی پرچم قومی وحدت و یگانگت کا ثبوت دے رہے تھے۔ خواتین نے تاریخ کا سب سے بڑا پرچم بھی اسی جلسے میں لہرایا۔ دوسری تاریخ یہ رقم ہوئی کہ گذشتہ چند مہینوں میں یہاں دفاع پاکستان کونسل، مجلس وحدت مسلمین اور سنی تحریک کے جلسے مینار پاکستان پر منعقد ہوئے۔ اب تک تحریک انصاف کے 30 اکتوبر 2011ء جلسے کو بڑا جلسہ مانا جاتا رہا ہے۔ تحریک منہاج القرآن نے عمران خان کے جلسے سے دو گنا جلسہ منعقد کیا اور یہ سب جہاں اس جماعت کے کارکنوں کا کریڈٹ ہے، وہیں میڈیا مہم کا بھی بڑا حصہ ہے۔

تیسری تاریخی بات اس جلسے میں یہ بڑی اہم تھی کہ مینار پاکستان پر ہونے والے اس اجتماع میں دس ہزار مندوبین کو دعوت دی گئی مگر صرف متحدہ قومی موومنٹ، اسلامی تحریک، مجلس وحدت مسلمین اور جمعیت علمائے پاکستان (نیازی گروپ) شریک ہوئیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کے وفود کی شرکت کی امید پوری نہ ہوسکی جبکہ مسلم لیگ (ن) تو اس جلسے کو اپنے خلاف مہم کا حصہ سمجھتی ہے۔ اس میں تو شک کی گنجائش نہیں کہ فوج اور ایٹمی ہتھیار نہیں، سیاسی جماعتیں ہی قوم کو متحد رکھ سکتی ہیں اور اس کا پاکستان میں کئی مواقع پر تجربہ بھی ہو چکا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین کی قرآن و سنت کانفرنس کے بعد تحریک منہاج القرآن کے جلسے میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد نے ثابت کردیا کہ مذہبی جماعتوں سے وابستہ خواتین بھی اپنے سیاسی کردار کے لئے گھروں سے نکل کر میدان سیاست میں آچکی ہیں اور آئندہ عام انتخابات میں اس کا اظہار ماضی کے مقابلے میں زیادہ ٹرن آوٹ کی شکل میں نظر آئے گا۔

علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری چار سال بعد وطن واپس آرہے تھے تو یقینا انہیں دنیا کو بتانے کی ضرورت تھی کہ وہ اپنے سیاسی کردار کے لئے میدان میں آگئے ہیں۔ مگر ان کی اس وقت آمد کہ جب قوم اگلے انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ نئی سیاسی صف بندی کی جا رہی ہے۔ نگران حکومت کی تشکیل کے لئے فہرستوں پر غور کیا جارہا ہے۔ ایسے میں کینیڈا سے ایک شخص آکر انتخابی اصلاحات کا نعرہ لگا کر سیاسی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرے گا اور قوم میں ابہام پیدا کرے گا تو اس کی ملکی سیاسی نظام سے وفاداری کا بھانڈا تو پھوٹ جاتا ہے۔ پھر یہ وہی طاہرالقادری صاحب ہیں کہ جنہوں نے لاہور کے حلقہ این اے 127 سے بڑی مشکل سے کامیابی حاصل کی اور پھر جب اکلوتی نشست سے قومی اسمبلی میں کوئی کردار ادا نہ کرسکے تو مستعفی ہوگئے اور سیاست کو خیر باد کہہ کر علمی اور تحقیقی کاموں میں مصروف ہوگئے۔ وڈیو لنک سے شہر اعتکاف اور عید میلادالنبی کے اجتماعات سے خطاب کرتے رہے۔ اب جن انتخابی اصلاحات کی موصوف بات کررہے ہیں۔ ان میں سے اکثر پر تو الیکشن کمیشن عمل درآمد کروانے کا فیصلہ کرچکا ہے اور کچھ باقی ہیں۔ جو کہ کسی ایک جلسے سے نہیں پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن کی منظوری سے ہوگا۔

اب طاہرالقادری نے حکومت کو 10 جنوری 2013ء تک انتخابی اصلاحات نافذ کرنے کا الٹی میٹم دے کر 14 جنوری 2013ء کو اسلام آباد میں کارکنوں کو پرامن مارچ کی کال دے دی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ 40 لاکھ افراد کا اجتماع ہوگا۔ جو پرامن احتجاج سے نظام کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کرے گا۔ اس سے کیا ہوگا۔ ایک تو امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوگا۔ دوسرا یہ کہ عام ووٹر ابہام کا شکار ہوگا۔ جس سے طاہرالقادری کا حمایتی ووٹر جب انتخابی عمل کا حصہ نہیں ہوگا تو اس سے نقصان پھر مسلم لیگ (ن) کو ہوگا۔ جس سے معلق پارلیمنٹ (hung parliament) تشکیل پانے کی راہ ہموار ہوگی۔ تو اسٹیبلشمنٹ اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کروانے میں آسانی محسوس کرے گی۔ اس لئے پنجاب کے وزیرقانون رانا ثناءاللہ خان کی بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ طاہرالقادری، عمران خان کے بعد اسٹیبلشمنٹ کا دوسرا مہرہ ہیں۔ جو چار سال تک خاموش رہے اور اب انتخابات ملتوی کروانے کی مہم میں شامل ہورہے ہیں۔ لیکن سیاسی جماعتوں کے اب تک کے بیانات اور عزائم سے لگ رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ناکام ہوگی۔ جیسے کہ وہ اس پارلیمان کو اپنا طے شدہ پانچ سال کا مینڈیٹ پورا نہ کرنے کی کوشش میں ناکام ہوئی ہے۔
خبر کا کوڈ : 225726
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش