0
Wednesday 13 Feb 2013 21:44

رنگ و بوئے انقلاب اسلامی

رنگ و بوئے انقلاب اسلامی
تحریر: علی ناصر
  
فروری کا مہینہ بہار کی آمد کا مہینہ ہے۔ بہار کو گلوں اور کلیوں کا مہینہ کہا جاتا ہے۔ فارسی کا ایک شعر ہے کہ۔۔۔۔۔
صد بار شنیدیم با یک گل نمی آید بہار
یک بار دیدیم با یک گل صد بہار آمدہ بود

‘‘یعنی کئی بار سنا ہے کہ ایک گل سے بہار نہیں آتی مگر ایک بار دیکھا کہ ایک گل کئی بہاریں لے آیا’’
تاریخ بشریت میں امام خمینی (رہ) کی ملکوتی شخصیت وہ شخصیت ہے جس نے ہمارے ہی زمانے میں اس تعبیر کو سچ کر دکھایا اور عالم بشریت بالخصوص مستضعف اور پا برہنہ عوام کے افکار و سوچ میں ایسی بہار لائے کہ دنیا اس کی شاہد ہے، اور آج دنیا میں اٹھنے والی تمام استبداد سے چھٹکارے کی تحریکیں یعنی قوموں کی خزاں سے بہار کی طرف حرکت اسی بہار یعنی انقلاب اسلامی کی مرہون منت ہے۔ فروری کا مہینہ عالم بشریت کی اسی بہار کی یاد کا مہینہ ہے۔ ہمیں شاید ذرا تاخیر سے اس موضوع پر قلم اٹھانے کی فرصت ملی ہو، لیکن یقین ہے کہ قارئین کے ذہن سے یہ موضوع محو نہیں ہوا ہوگا۔ ہماری بات اس عنوان سے بھی موقع کی مناسبت سے ہے کہ ہم یہاں انقلاب کے واقعات، اہداف، عوامل وغیرہ کی بات نہیں کریں گے، بلکہ انقلاب کی چونتیسویں سالگرہ یعنی 10 فروری 2013ء کے قریب سے دیکھے جانے والے کچھ مشاھدات کا ذکر کریں گے اور وہ ظاہراً انقلاب کی سالگرہ کے دن کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔
 
اس دفعہ ہمیں اپنے کچھ کرم فرماوں کے ساتھ ایران کے دارالحکومت تہران کے مینار آزادی پر ایرانی عوام کو انقلاب کی سالگرہ مناتے دیکھنے کا موقع ملا۔ اپنے ملکوں کی آزادی کا دن دنیا کی ساری قومیں مناتی ہیں مگر ایرانی قوم کی آزادی کی اس خوشی میں ہمیں کچھ ایسا دیکھنے کو ملا جو دوسری جگہوں پر ناپید ہے یا بہت کم ہے۔ میرے پیارے وطن میں ہم بھی 14 اگست کو اپنے پیارے وطن کی آزادی کا دن مناتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں سب سے زیادہ قانون شکنی یوم آزادی اور عید کے دن ہوتی ہے مگر یہاں داستان الگ تھی۔ یوں تو اس دن پورے ایران میں کروڑوں لوگ سڑکوں پر نکلتے ہیں مگر تہران کی عوام کا جوش و خروش دیدنی تھا۔
 
تہران جیسے بڑے شہر کی 12 ملین آبادی میں سے تقریباً نصف آبادی انقلاب کا جشن منانے گھروں سے باہر نکلی ہوئی تھی مگر کہیں کوئی شیشہ نہیں ٹوٹا، کوئی سڑک بند نہیں ہوئی، کوئی لوٹ مار یا چوری سننے میں نہیں آئی۔ مینار آزادی جو کہ اجتماع کی مرکزی جگہ تھی، کے دس راستے پہلے سے مشخص تھے، باقی پورے شہر میں ٹریفک رواں دواں تھی جو کہ ایرانیوں کے بھترین نظم و ضبط کی مثال ہے۔ پاکستانی ہونے کے ناطے یہاں ایک نکتہ نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا اور وہ یہ کہ مینار آزادی پہنچنے کے لیے 10 راستوں میں سے ایک راستہ محمد علی جناح نامی روڈ تھا۔ برصغیر کے اس عظیم سپوت کے نام پہ اس سڑک کا نام ایرانیوں کی دنیا کے عظیم لوگوں کی قدر دانی کی ایک مثال ہے۔
 
یہاں آکر ہمیں معلوم ہوا کہ ایرانی قوم اپنی قیادت سے کتنی محبت اور اس کی اطاعت کرتی ہے۔ ایرانی قوم کو اپنی قیادت کے الہی ہونے کا سو فیصد یقین ہے۔ قائد و رہبر (آیت اللہ خامنہ ای) نے کہا عالمی استعمار کی پابندیوں اور سازشوں کا جواب میدان میں حاضر ہو کر دینا ہے تو ایرانی قوم کا ہر وہ فرد جو گھر سے نکلنے کی استعداد رکھتا تھا، اپنے رہبر کی اس آواز پر گھر سے نکلا۔ ایرانی قوم کو اپنے رہبر کے الہی ہونے کے یقین کے بارے یہ بتانا کافی ہوگا کہ ہم نے جس سے بھی پوچھا آپ آج یہاں کیوں آئے ہیں تو جواب ملا ہم اپنا شرعی فریضہ سمجھ کر یہاں آئے ہیں، ہم اپنے رہبر کے حکم کی اطاعت میں یہاں آئے ہیں۔ ایرانی قوم اپنے رہبر سے والہانہ عشق کرتی ہے۔
 
ہمارے سوالوں کے جواب میں بہت سارے لوگوں کا جواب یہ تھا کہ ‘‘ما بہ عشق رہبر آمدہ ایم’’ یعنی ہم اپنے رہبر کے عشق میں یہاں آئے ہیں۔ اجتماع میں شریک ہر بچے بوڑھے کے ہاتھ میں اپنے رہبر کی تصویر تھی۔ جب ہم نے لوگوں سے ان کے رہبر کے بارے سوال کیا تو ان میں سے کئی اپنے رہبر کا نام لیتے ہوئے فرط جذبات میں اشک بار ہوگئے، جو ان کی اپنی الہی قیادت سے عشق و والہانہ محبت کی علامت ہے۔ ایرانی نئی نسل کے بارے اکثر کہا جاتا ہے کہ انقلاب کے اہداف سے دور ہوتی جا رہی ہے مگر ہم نے یہاں اکثر ظاہراً ماڈرن اور جوان بچے اور بچیوں کو اپنے الہی رہبر کا نام لے کر اشک بار ہوتے دیکھا جو کہ ان کی اپنے رہبر سے گہری وابستگی کی علامت ہے۔
 
ایران پر پوری دنیا کی طرف سے اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ایران کافی مشکلات کا شکار ہے۔ ان مشکلات کا نشانہ مستقیماً ایرانی عوام ہے اور پوری دنیا بھی انہی پابندیوں کے ذریعے ایران کا غرور توڑنے کی امید لگائے بیٹھی ہے مگر ایرانی عوام کا جواب ان پابندیوں کے بارے بڑا واضح تھا۔ کسی کے ماتھے پر کوئی شکن نہیں، کسی کو پابندیوں کیوجہ سے پیش آنی والی مشکلات کا کوئی گلہ نہ تھا، ہزاروں کی تعداد میں پلے کارڈز اور بینرز پر لکھا تھا (پابندیاں یعنی ترقی) (پابندیاں ہمیں نہیں جھکا سکتیں) (ہم اپنی چیزیں خود بنائیں گے خود استعمال کریں گے)، مشکلات کے مقابلے اس طرح کا جواب اور اس طرح کی سوچ اور عزم ہر راستہ خود نکال لینے کے گر سکھا دیتی ہے۔
 
ہر نظام کے اندر چھوٹے موٹے اختلافات موجود رہتے ہیں، مہم یہ ہے کہ وہ اقوام ان اختلافات سے کیسے نمٹتی ہیں۔ ایران میں بھی انتظامی امور کے حوالے سے اداروں میں بعض اختلافات موجود ہیں، اور عوام میں بھی مختلف سوچ و فکر کے حامل طبقات موجود ہیں، مگر ایک بات طے ہے کہ ان چھوٹے موٹے اختلافات کے باوجود اصلی ہدف ایک ہی ہے اور اس پر سب متفق ہیں۔ اس اجتماع سے ایرانی عوام نے دنیا کو جو پیغام دیا ہے وہ یہ کہ ہمارے سارے اختلافات اپنی جگہ پر، مگر ہم اس نظام اور انقلاب کے ساتھ سو فیصد متفق ہیں اور آخر دم تک اس کی حفاظت کریں گے، وہ نظام جو ظلم ستیزی، استبدایت سے نجات، عزت و شرافت انسانی کی بازگشت کی بات کرتا ہے، ہم اس کی حفاظت کی راہ میں آنے والی ہر مشکل کو برداشت کریں گے۔
 
ایرانی عوام کا سیاسی شعور دیدنی ہے۔ ساری دنیا میں حکمران اور راہنما عوام کو گائیڈ کرتے ہیں مگر یہاں عوام راہنماوں اور حکمرانوں کی راہنمائی کرتی ہے، جو کہ ایک جمہوری نظام کی آئیڈئل ترین شکل ہے۔ جب بھی عوام نے محسوس کیا اس کے میدان میں آنے کی ضرورت ہے تو وہ ہزاروں نہیں، لاکھوں نہیں، کروڑوں کی تعداد میں میدان میں آئی اور اپنے حکمرانوں کو متنبہ کیا۔ کچھ عرصہ قبل یہاں امریکہ سے مشروط مذاکرات کی نحیف سی آواز سنی گئی تو عوام نے اس اجتماع میں آکر اپنے نعروں اور تقریروں میں یہ کہہ کر کہ امریکہ سے مذاکرات یعنی موت، اس باب کو سرے سے ہی بند کر دیا۔ عوام کا نقطہ نظر یہ ہے کہ امریکہ سے مذاکرات کس لیے، مذاکرات ہوں تو بین الاقوامی اداروں سے، جو بین الاقوامی برادری کی نمایندگی کرتے ہیں، امریکہ کس کی نمایندگی کرتا ہے،؟ امریکہ کیا حیثیت رکھتا ہے۔؟
 
ایرانی قوم اپنے دشمن کو بڑی اچھی طرح پہچانتی ہے۔ ایرانی قوم جانتی ہے کہ استعمار تعمیر و ترقی کے نام سے آتا اور پھر قوموں کو اپنا اسیر بنا لیتا ہے۔ یہ بات ایرانی قوم پر بڑی اچھی طرح واضح ہے۔ یہاں ہم نے دیکھا نعروں اور تقریروں کا زیادہ تر نشانہ دشمن ہی تھا۔ ہم نے جب عوام سے پوچھا اس دشمن سے آپ کی کیا مراد ہے تو جواب ملا امریکہ، وہ جو قوموں کے وسایل پر قبضہ کرتا، قوموں کو اسیر اور غلام بناتا، وہ جو قوموں کے حقوق پایمال کرتا، وہ جو قوموں کی تحقیر و تذلیل کرتا، وہ جو انسانی کرامت اور شرافت کو پایمال کرتا ہے، وہ ہے ہمارا دشمن یعنی امریکہ۔ ایرانی عوام کی نظر میں ان پر اور دنیا کی مستضعف قوموں پر نازل ہونے والی بلاوں کی اصل وجہ امریکہ ہی ہے۔ ایرانی عوام کا اس تناظر میں سوچنا ان کو دشمن کی سازشوں سے محفوظ رکھتا ہے۔
 ایران کے اسلامی انقلاب کی بقا اور پیشرفت کا اصلی تریں عامل یہی عوام کی فہم و فراست اور عوام کی اپنے حکمرانوں کی پشتبانی ہے۔ ہم نے محسوس کیا ایرانی عوام کے استبداد سے نجات سے لیکر آج تک کی استقامت کے تجربات سے دنیا کی مظلوم قوموں کو ضرور استفادہ کرنا چاہیے، خصوصاً امریکہ کی لگائی ہوئی آگ میں جلنے والی پاکستان کی مظلوم ملت کو اپنے ہمسائیوں کے ان تجربات سے ضرور فایدہ اٹھانا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 239378
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش