6
0
Thursday 4 Apr 2013 19:13

آپکا ووٹ قیمتی ہے

آپکا ووٹ قیمتی ہے
تحریر: سیدہ تسنیم اعجاز 
 
ماضی تو اس بات کا شاہد ہے کہ ووٹ دینے والے بھی ووٹ دے کر کچھ حاصل نہیں کر پاتے، ملکی حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید بگڑتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ ووٹر بھی آزما آزما کر تھک چکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دل برداشتہ ہوکر بہت سے لوگ حق رائے دہی کا استعمال ہی نہیں کرنا چاہتے۔ جس چہرے کی طرف دیکھیں چہرے پر چہرہ محسوس ہوتا ہے اور اصل چہرہ نظر ہی نہیں آتا تو پھر بھروسا کیسے کریں اور ووٹ کسے دیں؟ 

ان سب باتوں کے باوجود ہمیں ووٹ ضرور دینا چاہیے اور بالخصوص پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ باشعور طبقے کو اپنا حق رائے دہی بہر صورت استعمال کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ ماضی کا تجربہ ہی تقاضا کرتا ہے کہ ہمیں مستقبل کو بہتر بنانا چاہیے۔ اگر پڑھے لکھے اور باشعور لوگ ہی حالات کے آگے گھٹنے ٹیک دیں گے تو باقی سادہ لوح عوام تو سیاستدانوں کی چکنی چپڑی باتوں میں آ ہی جائیں گے اور پھر حالات کا ذمہ دار یہ باشعور پڑھا لکھا تعلیم یافتہ طبقہ ہی ہوگا، جس نے دل برداشتہ ہو کر خاموشی کی چادر تان لی ہے۔ ہمیں انہی نقلی چہروں کی بھیڑ میں گھس کر اصلی چہرے تلاشنے ہیں۔ قدرت نے ہماری قسمت کی لکیریں ہمارے ہاتھوں میں دی ہیں، تاکہ جب چاہیں انھیں اپنی قوت ارادی سے بدل ڈالیں۔ استعمار کے مقابلے کے لیے خاموشی کا بائیکاٹ بہت ضروری ہے۔ ہمیں انہی تھکے قدموں اور زخمی دلوں سے نئی طاقت لے کر اپنی نسلوں کے لیے امن کے راستے ہموار کرنا ہوں گے۔
 
عوام خوفزادہ ضرور ہیں، لیکن اس خوف اور مصیبت سے نجات کی راہ انہیں کوئی خوف خدا اور درد دل رکھنے والی قیادت ہی دے سکتی ہے۔ استعمار اور اسلام دشمن عناصر جنہوں نے بیک وقت کئی محاذ ہمارے خلاف کھول رکھے ہیں، ان کا مکمل شعور حاصل کرنا اور اسے صحیح طریقے سے عوام تک منتقل کرنا دراصل عوامی نمائندوں کا فرض ہے، لیکن اگر یہ نمائندے ہی استعماری سازشوں کا حصہ بن جائیں تو پھر ہمارا پرسان حال کون ہوگا۔ لہٰذا ہمارے علماء اور دانشوروں کا یہ قومی اور اخلاقی فرض ہے کہ عوام کو اس وقت اچھے اور باعمل نمائندوں کے انتخاب کا شعور دیں۔ ہر پاکستانی کا ووٹ قیمتی ہے، اسے ضرور استعمال کریں، لیکن انتہائی سمجھداری سے۔ ہماری خاموشی اور ووٹوں کا ضیاع دشمن کے حوصلے بڑھا سکتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ حکومت تو بہرحال کسی کو کرنا ہے۔ ہم ووٹ دیں یا نہ دیں حکومت تشکیل پا ہی جائے گی، پھر ایسے میں ہم ظالم و جابر حکمرانوں کے تسلط کی ذمہ داری کسی پر بھی ڈالیں، بے سود ہے کیونکہ اصل ذمہ دار تو ہم خود ہوں گے، جنہوں نے اپنی بہتری کے لیے ہاتھ پاؤں تک نہیں ہلائے اور ذرا سی کوشش بھی نہیں کی۔
 
یہ اہم بات بھی ملحوظ خاطر رکھیں کہ آزمائے ہوؤں کو آزمانا دانشمندی نہیں۔ اس حدیث نبوی (ص) سے ہم تقریباً سبھی مانوس ہیں کہ: ’’مومن ایک سوراخ سے دوسری مرتبہ نہیں ڈسا جاتا‘‘ تو پھر ایک ہی جیسے نااہل لوگوں کے حق میں بار بار ووٹ دینا کہاں کی عقلمندی ہے۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے آپ پر واضح کرنا ہوگا کہ ہم اپنے ملک میں کس قسم کی قیادت چاہتے ہیں۔ انتہا پسندی کو کسی بھی شکل میں قبول نہ کریں، خواہ وہ دین کے نام پر ہی کیوں نہ ہو۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام ایک ترقی پسند و کمال آفرین ہے، جو رہتی دنیا تک کے انسانوں کی فلاح و بہبود اور ترقی و ارتقا کا ضامن ہے۔ لہٰذا جمود کا شکار مولوی اسلام کی غلط تصویر کشی تو کرسکتے ہیں، اسے قابل عمل اور مکمل ضابطۂ حیات کے طور پر دنیا میں ثابت نہیں کرسکتے۔
 
دوسری طرف وہ سیاستدان ہیں جنہوں نے استعماری طاقتوں کو اپنا خدا سمجھ لیا ہے۔ ان کے عمل ان کی اپنی ہی باتوں کا منہ چڑھاتے ہیں۔ یہ لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جنگ اور سیاست میں سب کچھ جائز ہے۔ لہٰذا جھوٹے وعدے یا کسی بھی قسم کی دھونس دھاندلی سے دریغ نہیں کرتے۔ روٹی، کپڑا اور مکان کے وعدے کرنے والے حکمران اپنے پورے دور اقتدار میں صرف اپنی کرسی کو بچانے کی کوشش کرتے رہے اور ادھر غریب عوام جو کچھ روٹی کپڑا اور مکان تھا وہ بھی گنوا بیٹھے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے، جس کا تخت پسے ہوئے انسانوں کے ارمانوں کی لاشوں پر بچھایا جاتا ہے۔
 
اس ملک میں ایسے بڑے سیاستدان بھی موجود ہیں جو ملکی سالمیت اور ترقی کے وعدے کرتے ہیں، لیکن دوسری طرف اپنے پہلو میں ملکی لٹیروں، غداروں اور دہشت گردوں سے محو راز و نیاز رہتے ہیں۔ خدا جانے عقل کے یہ اندھے کسے دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔ جس ٹہنی پر بیٹھے ہیں اسی پر آری چلائے جا رہے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تبدیلی نہیں آئے گی۔ اجلے پردوں کے پیچھے سے سیاہ چہرے آشکار ہونا شروع ہوچکے ہیں۔ نوجوان بیدار ہو رہے ہیں۔ اس حوالے سے اس وقت ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال حوصلہ افزا ہے۔ پہلے کی نسبت عوام زیادہ باہوش اور باشعور ہیں، جس کے لیے میڈیا کی کارکردگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ میڈیا پر خبروں کے ساتھ ساتھ تبصروں، تنقید اور ٹاک شوز نے عوامی سطح پر سوچنے سمجھنے حتیٰ کہ اظہار خیال کی صلاحیت کو حیرت انگیز حد تک ابھارا ہے۔ عوام جھوٹے اور سچے میں تمیز کرنے لگے ہیں۔ اگرچہ مفاد پرست حکومتوں کی مسلسل غلط پالیسیوں کی وجہ سے معیار تعلیم کچھ خاص بہتر نہیں ہوسکا، تاہم ملک میں سیاسی و اقتصادی دگرگونیوں سے لگنے والے شدید دھچکوں نے عوام کو اپنے مسائل کے سنجیدہ حل کے لیے غور و فکر کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں بعض ریاستی اداروں کی کارکردگی میں مثبت تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے۔
 
الیکشن کمیشن کے حالیہ چند فیصلے جو آزاد فکر اور باشعور عوام کے لیے قابل قبول بھی ہیں اور بڑی سیاسی تبدیلی کا پیش خیمہ بھی۔ جعلی ڈگریوں کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات بھی عوام کے بہتر مستقبل کی نوید ہیں۔ تقریباً چار کروڑ جعلی ووٹوں کو خارج از فہرست کیا گیا ہے۔ ایسے اقدامات کو دیکھ کر امید واثق کی جاسکتی ہے کہ الیکشن میں دھاندلی کے امکانات کم رہ جائیں گے۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ کے بعض جرأت مندانہ فیصلوں نے کمزور عوام کی امیدوں میں نئی روح پھونکی ہے۔ سپریم کورٹ کے سوموٹو ایکشنز دیکھ کر اپنی عدالتوں پر عوام کا اعتماد کافی حد تک بحال ہوا ہے۔ اگر قانون پر عملدرآمد کے حوالے سے ایسے جرأت مندانہ اقدامات کا سلسلہ جاری رہا تو بہت جلد ہمارے وطن عزیز میں ایک بڑی سطح پر مثبت تبدیلی رونما ہوسکتی ہے۔
موجودہ نگران حکومت کے ذمہ داران بھی چونکہ اچھی شہرت کے مالک ہیں تو الیکشن کے صاف شفاف اور بروقت ہونے پر عوام بہت حد تک مطمئن ہیں۔ ان حقائق کے پیش نظر ہمیں اپنے ارادوں کی پختگی کو مزید نکھارنا ہوگا اور شعور و آگہی کا جو سفر شروع ہوچکا ہے اس پر قدم مزید جمائے رکھنے کی ضرورت ہے۔ آستینوں کے سانپ ہوں یا بیرونی دشمن، ہر دو سے یکساں چوکنا رہنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
 
امام خمینی(رہ) نے ایک جگہ فرمایا تھا کہ ’’عالم کے لباس کو نہیں بلکہ اس کے پیچھے چھپی شخصیت کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘ اس حقیقت کو سمجھنے کی جس قدر ضرورت ہمیں آج ہے شاید پہلے نہ تھی، جس طرح دین کے نام پر لوگوں کا برین واش کیا جا رہا ہے اور ان کے مجروح جذبات کو اپنے اپنے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھائے جانے کی منصوبہ بندیاں ہو رہی ہیں تو ہمیں چہروں کے پیچھے چھپے چہرے اور لباس کے پیچھے چھپی شخصیت کو سمجھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔ البتہ دوسروں کو پرکھنے کے ساتھ ساتھ اگر اپنے نفسوں میں نہ جھانکیں تو بات ادھوری رہ جائے گی اور حقیقی منزل کا جو خواب شرمندہ تعبیر ہونے کو ہے سراب بن کر رہ جائے گا۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہر عمل سے پہلے اپنے اندر چھپے گروہی، مذہبی، نسلی، لسانی، علاقائی اور شخصی تعصبات کے ہر بت کو توڑ ڈالیں۔ اپنے آپ کو ایک سچے اور محب وطن پاکستانی کے سانچے میں ڈھال کر سوچیں۔ اپنی آواز کو سچوں کی آواز سے ملائیں اور اپنی رائے کو معمولی نہ سمجھیں۔ اب کے انتخابات میں اپنے ووٹ کا حق ضرور استعمال کریں، لیکن دیانتداری کے ساتھ ووٹ صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر ڈالیں کیونکہ آپ کا ووٹ قیمتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 251530
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بہت اچھا لکھا ہے۔
ap nain acha lika hay...........
ap nain acha lika hay...........

lakin abhi bari gunjaish hay.....
ووٹ کے استعمال کی اہمیت و ضرورت کو محترمہ نے نہایت عمدگی سے اور مدلل انداز سے بیان کیا ہے۔
Please augment your opinion with election statistics available on ECP
website or _from other resources.
ثاقب نقوی صاحب خدا آپ کو جزائے خیر دے اچھا لکھا ہے۔
منتخب
ہماری پیشکش