0
Monday 8 Apr 2013 20:39

ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان جوہری مذاکرات "بے نتیجہ" مگر ایران کے حق میں، کیوں اور کیسے؟

ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان جوہری مذاکرات "بے نتیجہ" مگر ایران کے حق میں، کیوں اور کیسے؟
تحریر: حسین شریعتمداری

اسلام ٹائمز- ایرانی اخبار کیہان کے ایڈیٹر حسین شریعتمداری نے آج اتوار 7 اپریل کے شمارے میں ایران اور 5+1 گروپ کے درمیان انجام پانے والے جوہری مذاکرات کے بارے میں لکھا ہے:
1.    قزاقستان کے شہر آلماتی سے ملنے والی تازہ ترین خبروں میں کہا گیا ہے کہ ایران اور 5+1 گروپ کے درمیان انجام پانے والے مذاکرات "آلماتی 2" بغیر کسی نتیجہ کے اختتام پذیر ہو گئے ہیں۔ محترمہ کیتھرائن اشتن جو یورپی یونین کی خارجہ سیاست کے امور کی مسئول اور 5+1 گروپ کی نمائندہ ہیں، نے ان مذاکرات کے اختتام پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا:
"دونوں جانب کا موقف ایک دوسرے سے بہت دور ہے لہذا ضروری ہے کہ مذاکرات کار اپنے اپنے دارالحکومت واپس جا کر مذاکرات میں پیش کی جانے والی سفارشات کا بغور جائزہ لیں"۔ 

آلماتی 2 مذاکرات کیوں بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئے؟ اور ان بے نتیجہ مذاکرات کے اختتام پر کس کا پلہ بھاری ہوا ہے؟ ان سوالات کے جواب جاننے کیلئے ضروری ہے کہ ایرانی شمسی سال کے آغاز کے موقع پر مشہد مقدس میں حضرت امام رضا علیہ السلام کے روضہ مبارک بر اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے خطاب پر دوبارہ ایک نظر دوڑائی جائے۔ آپ نے فرمایا:

"اپنے تجربے کی بنیاد پر اور صورتحال پر دقیق نظر ڈالنے کے بعد میری نظر میں امریکہ نہیں چاہتا مذاکرات ختم ہو جائیں۔ امریکی نہیں چاہتے جوہری مذاکرات اپنے منطقی انجام کو پہنچیں اور جوہری تنازعہ حل ہو جائے۔ کیونکہ اگر وہ مذاکرات کو ختم اور ایٹمی تنازعہ کو حل کرنے کے درپے ہوتے تو راہ حل انتہائی آسان اور قریب تھا۔ اس جوہری تنازعہ میں ایران کا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ دنیا اسکا قدرتی حق، یعنی یورینیم افزودہ کرنے کا حق، رسمی طور پر قبول کر لے۔ وہ ممالک جو بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں انکے حکام کو یہ بات تسلیم کر لینی چاہئے کہ ایران کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ پرامن مقاصد کیلئے خود اپنے ملک میں یورینیم انرچمنٹ انجام دے سکے۔ یہ کوئی بڑی توقع ہے؟ یہ وہ بات ہے جو ہم نے ہمیشہ کہی ہے، اور وہ اسی بات کو تسلیم کرنا نہیں چاہتے"۔

2.    ایسے ٹھوس شواہد و مدارک موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ ایران کے ساتھ جوہری تنازعہ میں "بند گلی" تک پہنچ چکا ہے۔ یہ بند گلی دو پالیسیوں کے نکتہ تقاطع پر واقع ہے۔ وہ دو پالیسیاں جنہیں امریکہ چاہتا تھا متوازی طور پر ایران کے مقابلے میں آگے لے کر چلے اور اسلامی جمہوریہ ایران کو اپنے ابتدائی نکتے تک ہی "محدود" کرتے ہوئے بالآخر اسے مکمل طور پر مفلوج کر دے۔ لیکن آج امریکہ کی توقع کے برعکس یہ دو پالیسیاں آپس میں مل چکی ہیں اور جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ان کے درمیان تضاد بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ دو پالیسیاں کون سی ہیں؟

پہلی پالیسی: ایران کے خلاف جوہری تنازعہ کو غیرقانونی طور پر جاری رکھنا تاکہ اس کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا مناسب بہانہ ہاتھ میں رہے۔
دوسری پالیسی: ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں کو جاری رکھنا تاکہ بتدریج ایران کو اسکے اصلی راستے سے منحرف کرتے ہوئے آہستہ آہستہ ایران کے سیاسی نظام کو ہی تبدیل کر کے رکھ دیا جائے۔ 
ان دونوں لائنوں اور ان سے پیدا ہونے والے نتائج کے بارے میں کہنے کیلئے بہت کچھ ہے۔ 

3.    امریکہ کئی وجوہات کی بنا پر نہیں چاہتا اسلامی جمہوریہ ایران کے قانونی حق کو تسلیم کرے اور جوہری تنازعہ کو ختم کر دے۔ ان میں سے چند وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔ یہ وہ وجوہات ہیں جنکا اعتراف خود امریکی حکام بھی رسمی طور پر کر چکے ہیں۔ 

الف)۔ امریکہ ایران کے ساتھ جوہری تنازعہ کو اسکے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اسے ایران کی جانب سے جوہری ہتھیار تیار کئے جانے کی کوئی پریشانی یا خطرہ لاحق نہیں۔ این پی ٹی (NPT) اور اس سے مربوطہ معاہدوں کے قوانین و مقررات کی رو سے، پرامن مقاصد کیلئے ایٹمی فعالیت یر عضو ملک کا جانا اور مانا ہوا حق ہے۔

دوسری طرف کسی بھی ملک میں انجام پانے والے پرامن جوہری سرگرمیوں کا فوجی مقاصد کی جانب منحرف ہو جانے یا دوسرے الفاظ میں Diversion کو روکنے کیلئے این پی ٹی میں کئی تدابیر سوچی گئی ہیں جن میں سے ایک بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے انسپکٹرز کی جانب سے مسلسل انسپکشن کا انجام پانا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران میں بھی این پی ٹی کا عضو ہونے کے ناطے گذشتہ 10 سالوں سے ان انسپکشنز کا سلسلہ جاری ہے اور اسکے علاوہ حساس ایٹمی تنصیبات پر آئی اے ای اے کے انسپکٹرز کی جانب سے کیمرے بھی نصب کئے جا چکے ہیں۔ مزید یہ کہ خود آئی اے ای اے کے مسئولین کے بقول ابھی تک ایران کی ایٹمی سرگرمیوں میں ذرہ بھر انحراف دیکھنے میں نہیں آیا جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ 

آئی اے ای اے کے بورڈز آف گورنرز نے اپنی نومبر 2004ء کی میٹنگ میں ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف مطرح کئے جانے والے تمام اعتراضات کو برطرف شدہ اعلان کیا تھا۔ اس دن سے لے کر آج تک بھی ایسی کوئی علامت نہیں دیکھی گئی جس سے یہ کہا جا سکے کہ ایران اپنے ایٹمی پروگرام کو فوجی مقاصد کی جانب لے جا رہا ہے۔

2012ء کے اواخر میں امریکہ کے 16 انٹیلی جنس اداروں نے اپنی مشترکہ رپورٹ میں رسمی طور پر اعلان کیا تھا کہ انکی وسیع تحقیقات ظاہر کرتی ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے 2003ء سے لے کر آج تک ایسا کوئی اقدام نہیں کیا جس سے یہ ظاہر ہو کہ وہ ایٹمی ہتھیار بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ 

چند ہفتے قبل برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ جک اسٹراو جو ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کرنے والی یورپی ٹرائیکا یعنی فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے تین ارکان میں سے ایک رکن بھی رہے ہیں، نے یہ کھلا اعتراف بھی کیا ہے کہ جوہری تنازعہ میں ایران حق پر ہے اور ہم، مغربی طاقتوں، نے اس کے اس حق سے چشم پوشی کی ہے۔ 

لہذا امریکہ کی جانب سے "بین الاقوامی برادری کی پریشانی" کی جھوٹی آڑ میں اپنی پریشانی کا دعوا ذرہ بھر قانونی اور تکنیکی رنگ نہیں رکھتا۔ پس اصل کہانی ہے کیا؟ اس سوال کا جواب امریکہ کے معروف تجزیہ نگار "ڈیوڈ فروم" کی زبانی سنا جا سکتا ہے۔ فروم نے سی ان ان کی ویب سائٹ پر لکھے گئے اپنے ایک مقالے میں پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے بیان کیا ہے:

"اگر ایران 5+1 گروپ کے سامنے سرتسلیم خم کر لے اور اپنے جوہری پروگرام کو 5+1 گروپ کی مرضی کے مطابق اصلاح کر لے، یعنی رول بیک کر لے، تو امریکہ اور یورپی یونین مجبور ہو جائیں گے اس کے خلاف عائد کی گئی اقتصادی پابندیوں کو بھی ختم کر دیں۔ اور یہ اقدام ایران کے خلاف مغربی مقاصد کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے کیونکہ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا مقصد ایران پر دباو ڈالنا ہے تاکہ دو مقاصد "ایران کے رویئے میں تبدیلی" اور "اسکے سیاسی نظام میں تبدیلی" حاصل کئے جا سکیں"۔ 

ب)۔ ایک اور بڑا مسئلہ جو درحقیقت اصلی ترین وجہ ہے جس کی خاطر امریکہ ایران کے پرامن ایٹمی توانائی کے حصول کے حق کو تسلیم کرنے اور 10 سالہ جوہری تنازعہ کو ختم کرنے سے کترا رہا ہے یہ ہے کہ اگر امریکہ ایران کے اس مسلمہ حق کو تسلیم کر لیتا ہے تو یہ اسلامی جمہوری ایران کیلئے ایک بڑی کامیابی گنی جائے گی جو ایران کو اس قدر استقامت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے خطے کے رول ماڈل میں تبدیل کر دے گی اور تسلط پسندانہ استعماری نظام سے تنگ آئی دنیا اور قوموں میں نئی روح پھونکے جانے کا باعث بن جائے گی۔ یہ امر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے ایک انتہائی ڈراونے خواب سے کم نہیں۔ 

اس بارے میں اگرچہ کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن امریکی تحقیقاتی ادارے "اسٹریٹ فور فاونڈیشن" کی اسٹریٹجک کونسل کے چیئرمین جارج فریڈمن کے اس واضح اعتراف کو بیان کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ وہ کہتا ہے:

"ایران کے ساتھ ہمارا اصلی جھگڑا اس کا جوہری پروگرام نہیں، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایران نے دنیا پر ثابت کر دیا ہے کہ نہ فقط امریکی حمایت کے بغیر بلکہ امریکہ کے مدمقابل رہ کر اور اس کے ساتھ دشمنی کی حالت میں ہوتے ہوئے بھی ایک برتر ٹیکنولوجیکل اور فوجی طاقت میں تبدیل ہوا جا سکتا ہے، اور یہی نظریہ مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں عرب اسپرنگ – یعنی اسلامی بیداری – کا باعث بنا ہے"۔ 

ج)۔ امریکہ ایران کی جوہری سرگرمیوں کو جنگی مقاصد کا رنگ دے کر درحقیقت "ایران فوبیا" پھیلانا چاہتا ہے اور اس طریقے سے خطے کی ڈکٹیٹر حکومتوں کو بڑے پیمانے پر فوجی ساز و سامان اور اسلحہ فروخت کرنے میں مصروف ہے۔ 

یہ ان دسیوں وجوہات میں سے کچھ اہم وجوہات تھیں جن کو ہم نے بیان کیا ہے اور تمام وجوہات پر روشنی ڈالنے کیلئے زیادہ تفصیلی تحریر کی ضرورت ہے۔ 

4.    اگرچہ مذکورہ بالا وجوہات اور اسباب امریکہ کو تشویق دلاتے ہیں کہ وہ ایران کے خلاف جوہری تنازعہ کو جاری رکھے لیکن دوسری لائن، یعنی اقتصادی پابندیوں کی لائن، جس کے بارے میں طے تھا کہ وہ پہلی لائن، یعنی جوہری تنازعہ کی لائن، کے ساتھ متوازی طور پر آگے چلے گی، نے اپنا رخ تبدیل کر لیا ہے۔ 

اقتصادی پابندیاں نہ فقط ایران کی علم اور ٹیکنولوجی کے میدان میں ترقی کی راہ میں رکاوٹ ثابت نہیں ہوئیں اور محترمہ ہیلری کلنٹن کی ایران کی معیشت کو مفلوج کرنے کی آرزو کو پورا نہیں کر سکیں اور جناب براک اوباما کا ایرانی عوام کا اسلامی نظام حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا خواب سچا نہیں کر سکیں، بلکہ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے بقول واضح زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ خطرات اور دھمکیاں ملت ایران کیلئے ایک قیمتی فرصت میں تبدیل ہو چکے ہیں اور ایرانی عوام اور مسئولین کی جانب سے دشمن کا مقابلہ کرنے اور کامیابی کی بلندیاں چھونے کے عزم کا مزید راسخ ہونے کا باعث بنی ہیں۔ 

ایرانی عوام نے بعض مشکلات اور شدائد جیسے مہنگائی وغیرہ کے باوجود 22 بہمن (11 فروری، ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ) کو ملک بھر میں ملین مارچ کر کے دنیا والوں پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان کیلئے اعلی الہی اہداف کی راہ میں پیش آنے والے عارضی مادی مشکلات کی کوئی اہمیت نہیں۔

ایرانی محققین اور سائنس دانوں نے بھی انہیں اقتصادی پابندیوں کے دوران خلاء کو تسخیر کرنے اور خلا میں زندہ حیوان بھیجنے اور عالمی سطح پر اوسط درجہ سے چند گنا زیادہ علمی ترقی کرنے جیسی عظیم علمی کامیابیاں حاصل کر کے دنیا والوں کو انگشت بدہاں کر دیا ہے۔ 

یہ سب کچھ ایسی صورتحال میں انجام پایا ہے جب امریکی وزیر خزانہ کے بقول اقتصادی پابندیوں کے تیر کا رخ مغرب کی جانب ہی ہے۔ 

اسرائیلی اخبار ہارٹس اس بارے میں لکھتا ہے: "ایران کے اندر سیاسی استحکام اور امن و امان اقتصادی پابندیوں کو منہ چڑا رہی ہے"۔ 

گارڈین لکھتا ہے: "مغرب میں پیش آنے والے معاشی بحران نے اقتصادی پابندیوں کا پلڑا ایران کے حق میں بھاری کر دیا ہے"۔ 

گلوبل ریسرچ یہ اعتراف کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ: "امریکہ نے ایران کی تیل کی برآمدات پر پابندی لگا کر یورپی یونین کو خودکشی کرنے پر مجبور کر دیا ہے"۔ 

واشنگٹن پوسٹ لکھتا ہے: "اقتصادی پابندیوں کا دھواں خود امریکہ کی آنکھوں میں جا رہا ہے"۔ 

برطانوی وزیر خارجہ یہ کہتے ہوئے نظر آتا ہے کہ: "برطانیہ کی اقتصادی صورتحال ایسے مرحلہ پر پہنچ چکی ہے کہ اگر ہم نے کچھ کرنے میں تھوڑی دیر کر دی تو ایک بڑے سانحہ سے روبرو ہوں گے"۔ 

5.    ایران کے ساتھ جوہری تنازعہ کا تسلسل وہ امریکی پالیسی تھی جو پہلے سے طے شدہ تھی اور اسکا مقصد اقتصادی پابندیوں پر مبنی متوازی پالیسی کی مدد سے مطلوبہ اہداف کا حصول تھا۔ لیکن موجودہ صورتحال مکمل طور پر برعکس ہو چکی ہے اور یہ دونوں پالیسیاں بری طرح ناکامی کا شکار ہو چکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور مغربی طاقتیں اسلامی جمہوریہ ایران کی روز افزون ترقی میں رکاوٹ ڈالنے کی توانائی سے قاصر ہو چکی ہیں۔ 

6.    ان تمام نکات کا بغور جائزہ لینے کے بعد اب ہم امریکہ کا بند گلی سے روبرو ہونے کو بہتر انداز میں تصور کر سکتے ہیں۔ اگر امریکہ ایران کے ساتھ جوہری تنازعہ کو ختم ہو جانے کی اجازت دیتا ہے تو 10 سال سے جاری جدوجہد اور استقامت میں کامیابی کا سہرا ایران کے سر سجتا ہوا نظر آتا ہے جس سے خطے میں جنم لینے والی اسلامی بیداری کی تحریک مزید زور پکڑ لے گی۔ اور اگر امریکہ اس تنازعہ کو مزید جاری رکھنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ پالیسی نہ فقط بے نتیجہ اور بے اثر ہو چکی ہے اور جوہری ٹیکنولوجی کے میدان میں ایران کی ترقی کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتی بلکہ الٹا ملت ایران اور دنیا کی دوسری اقوام کو عالمی استعماری نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ترغیب دلائے گی۔ 

مزید یہ کہ ایران اپنی پوری طاقت سے جوہری سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے اور وقت کشی کا نقصان صرف امریکہ کو ہو رہا ہے۔ لہذا جرات سے کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ نے ایک ایسا کھیل شروع کیا ہے جس میں ہار ہی ہار ہے اور جیت کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اس قسم کے کھیل سے باہر نکلنے کا واحد اصول یہ ہے کہ ایسا راستہ اختیار کیا جائے جس میں کم ہار کا سامنا کرنا پڑے، اور سود و منفعت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ شواہد اور آثار ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ اس بند گلی سے نکلنے کیلئے ایک آبرومندانہ راستے کی تلاش میں ہے۔ 

7.    اس فوجی حملہ کا آپشن جس کا ذکر امریکی صدر براک اوباما بعض اوقات "میز پر حاضر ہونے" کا کنایہ لگا کر کرتے ہیں تمسخر آمیز لطیفہ کے علاوہ کچھ نہیں۔ رھبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنی مشہد کی تقریر میں اس کا ایسا دندان شکن اور مقتدرانہ جواب دیا ہے جس کی تفصیلات میں جانے کیلئے اس تحریر میں گنجائش نہیں۔ بس اتنا کہیں گے کہ امریکی روزنامے نیویارک ٹائمز کے مطابق "امریکہ ایران پر فوجی حملہ کرنے کیلئے ایک انگلی کے پورے جتنی جرات اور طاقت بھی نہیں رکھتا"۔ 

نارمن ڈینیل اسرائیل کی جانب سے امریکہ کی نمائندگی میں ایران پر فوجی حملہ کرنے کے تمسخر آمیز پروجیکٹ کے بارے میں صدر اوباما کو مخاطب قرار دیتے ہوئے کہتا ہے:
"جناب اوباما، اگر اس کتے – اسرائیل – کو ایران کو کاٹنے کیلئے بھیجیں گے تو ایران اس کتے کے مالک کو بہت شدت سے سرزنش کرے گا"۔ 

اور امریکی جریدے ویکلی اسٹینڈرڈ کے بقول کارٹر سے لے کر اوباما تک امریکی صدور مملکت [امام] خمینی کی اس بات سے اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ "امریکہ کوئی ایسی حماقت کرنے کی جرات نہیں رکھتا"۔ 

آخر میں نتیجے کے طور پر کہیں گے کہ امریکہ کے سامنے صرف ایک راستہ بچا ہے اور وہ یہ کہ اس بند گلی سے نکلنے کیلئے کسی آبرومندانہ راستے کی تلاش کرے۔ لہذا جرات سے کہا جا سکتا ہے کہ:
بے نتیجہ آلماتی 2 مذاکرات کے اختتام پر طاقت کا پلڑا ایک بار پھر اسلامی جمہوریہ ایران کے حق میں بھاری ہو گیا ہے۔ 

 
خبر کا کوڈ : 252633
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش