0
Thursday 9 May 2013 13:36

"ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا"

"ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا"
تحریر: جنرل (ر) عبدالقیوم
 
سیاست کی سائنس میں Failed leader ،Failed Regime اور Failed State یعنی ناکام قیادت، ناکام حکومت اور ناکام ریاست کی اصطلاحیں، Concepts یا تصورات عام طور پر زیر بحث آتے رہتے ہیں۔ آئیے دیکھیں ان اصطلاحوں کا مطلب کیا ہے؟ ناکام قائدین دراصل وہ افراد ہوتے ہیں جو سیاسی جوڑ توڑ، ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت، دولت یا وراثتی طاقت کے استعمال سے اور غریب عوام کی بے بسیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتدار کے ایوانوں پر قابض تو ہو جاتے ہیں لیکن بعد میں اس اقتدار کو برقرار رکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں نہ اسے چھوڑنے کو ان کا دل کرتا ہے، چونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شائد دوبارہ یہ سونے کی چڑیا انکے ہاتھ نہ لگ سکے۔ اس لئے ان کا نعرہ بقول سید مشاہد حسین، "لٹو اور پھٹو" ہی ہوا کرتا ہے۔ ایسے نام نہاد قائدین سیاسی بھی ہوسکتے ہیں اور غیر سیاسی بھی۔ جمہوری ادوار میں سیاسی نااہل قیادت کا احتساب اسمبلیوں، میڈیا، عدالتوں اور آخر کار عوام کے ہاتھوں بیلٹ باکس کے ذریعے کبھی مکمل اور کبھی نظام کی خرابیوں کی وجہ سے ادھورا ہوتا رہتا ہے اور بے اصول، کرپٹ، نااہل اور بے ایمان لوگوں کو عوام حکوت سے باہر پھینک سکتے ہیں بشرطیکہ سیاسی جماعتوں کی قیادت اہل لوگوں کو ٹکٹ دے۔
 
انتخابی مہم میں ہر سیاسی جماعت بلند بانگ دعوے کرکے عوام کو سبز باغ دکھاتی ہے اور اس سوال کا جواب نہیں دیتی کہ اگر ایک خالص جمہوری دور میں بھی ایک غیر ہر دلعزیز اور نااہل قیادت، جس نے پچھلے پانچ سالوں میں ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، اقتدار میں آسکتی ہے تو کیا موجودہ سسٹم کی ضروری طہارت کئے بغیر ایک کمزور الیکشن کمیشن کی موجودگی اور ایک موثر نظام عدل و احتساب کی عدم موجودگی میں دوبارہ ایسا ہونے کا اندیشہ کیوں نہیں؟ کسی سیاسی جماعت نے بھی اپنے دستور میں نظام کی خامیوں کو جانتے ہوئے بھی مروجہ سسٹم میں ضروری تبدیلی کا عندیہ سیاسی مصلحتوں کی بنیاد پر نہیں دیا بلکہ عوام کو تسلی دی جاتی ہے کہ موجودہ نظام میں رہ کر ہی سب اچھا ہو جائے گا۔ کسی نے کیا خوب کہا:۔
روز وہ آس بندھا جاتا ہے ٹوٹے دل کی
یوں وہ حالات کو بہتر نہیں ہونے دیتا 

جہاں تک غیر سیاسی قائدین کا تعلق ہے تو وہ دنیا بھر میں ایک Bang کے ساتھ اقتدار کے ایوانوں کے دراز قد شاہی دروازوں کو "ٹھڈے" مار کر اپنے لئے کھولتے ہوئے اقتدار پر قابض ہوتے ہیں اور آئین و قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سخت شخصی قوانین کی مدد سے نہ صرف حالات کو عارضی طور پر کنٹرول میں کر لیتے ہیں بلکہ ملک میں فوری طور پر ایک مصنوعی معاشی ربط بھی نظر آنا شروع ہوجاتا ہے۔ جس سے عوام مطمئن ہو جاتے ہیں اور کچھ غیر دور اندیش لوگ تو کیمروں کی آنکھوں کے سامنے آمریت کی آمد پر ایک دوسرے کے منہ میں لڈو بھی ڈالتے نظر آتے ہیں۔ لیکن جب آمر اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے بعد انسانی حقوق کی پامالی کا کام شروع کرتا ہے، عدلیہ کا گلا گھونٹا جاتا ہے اور تاحیات راہبر رہنے کے لئے ڈیکٹیٹر کسی صورت بھی اقتدار سے علیحدگی پر رضا مند نہیں ہوتا اور پاکستان اور اپنی ذات کو لازم و ملزوم قرار دیتا ہے تو پھر آمریت کی آمد کی خوشیوں میں منہ میں ڈالے ہوئے لڈو عوام کے گلے کی ہڈی بن جاتے ہیں اور سانس بند ہونے کے ساتھ آنکھیں باہر نکلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ پھر حکمرانی میں مثالی نظر آنے والے ڈیکٹیٹروں کو عوام دھکے مار کر باہر نکالتی ہے، آمریت کے خاتمے کے ساتھ ہی معاشی خوشحالی کے مصنوعی غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے۔ فلپین کا صدر مارکوس، مصر کا صدر حسنی مبارک اور پاکستان کی مارشل لاء ادوار سے پروئی ہوئی تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔
 
اب ناکام لیڈر سے ہٹ کر ہم ناکام حکومت کی طرف آتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر سیاسی قائد کچھ کر گزرنے کا مصمم ارادہ بھی رکھتا ہو، ساتھ دیانتدار اور بااصول بھی ہو، لیکن اس کی ٹیم میں ناتجربہ کار، نااہل اور کرپٹ افراد یا اس کی جیب میں بقول قائداعظم کھوٹے سکے ہوں تو پھر بھی ناکام حکومتیں ملک کو آگے نہیں چلنے دیتیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ حکومتیں چلانا "ون مین شو" نہیں ہوا کرتا، صرف ایک بہترین ٹیم ورک سے ہی ایک لیڈر بہترین نتائج حاصل کرسکتا ہے۔ پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی قائدین اہل لوگوں کو اس لئے آگے نہیں آنے دیتے کہ کہیں وہ ان کے اقتدار کے لئے خطرہ ہی نہ بن جائیں۔ دوسری طرف صرف پاؤں دبانے اور خوشامد کرنے والے نالائق نورتن اس قابل نہیں ہوتے کہ وہ حکومتی معاملات میں ہاتھ بٹا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی شائد ہی کوئی سیاسی جماعت ایسی ہو جس میں دوسرے یا تیسرے نمبر کی قیادت کو پہلے سے منتخب کرکے اس کو ملکی اور حکومتی معاملات چلانے کے لئے تربیت دی جا رہی ہو۔
 
اب ہم Failed State یا ناکام ریاست کی طرف آتے ہیں۔ ریاست کی ناکامی اس صورت میں ہوتی ہے جب ملک Land Locked ہو اور ساتھ ہی ملک میں معدنی وسائل نایاب ہوں، زمین زرخیز نہ ہو، آبادی نہایت نکمے، سست اور نالائق لوگوں پر مشتمل ہو، موسم اور آب و ہوا زراعت کے لئے موزوں نہ ہو، پانی کی قلت ہو یا سیم اور تھور سے زمینیں تباہ ہوچکی ہوں، کھارے پانی کی وجہ سے پھلدار درخت، سبزیاں اور فصلیں اگانا ناممکن ہو، ملک معاشی اور فوجی لحاظ سے اپنے دفاع کے قابل نہ رہے، ملک اپنے اندرونی اور خصوصاً بیرونی قرضے ادا کرنے کی پوزیشن میں نہ رہے۔ انسانی حقوق پامال ہو رہے ہوں، لوگ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں اور پڑوسی ملک سے آئے ہوئے مہاجرین کو دال روٹی دینا حکومت کے بس میں نہ رہے۔ اس سلسلے میں ایتھوپیا، ارٹریا، سومالیہ، سوڈان اور زمبابوے جیسے ممالک آتے ہیں۔ اس کے علاوہ جن ممالک میں جاگیرداروں کا قبضہ ہو، قانون کی حکمرانی نہ ہو، لسانی اور نسلی تعصبات ہوں، وہ بھی ناکام ریاست کے دائرے میں آتے ہیں۔
 
قارئین، آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ 1960ء سے قبل امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی صرف رنگ اور نسل کی بنیاد پر ہی ووٹ ڈالنے کا حق دیا جاتا تھا۔ اس سے پہلے امریکہ میں جوNatives اور ریڈانڈینز کی قتل و غارت ہوئی وہ ایک کامیاب ریاست کے بالکل شایان شان نہیں تھی۔
قارئین! اگرچہ مذکورہ بالا قباحتوں میں سے بہت ساری پاکستان میں بھی موجود ہیں لیکن اللہ کا کرم ہے کہ بحثیت مجموعی پاکستان کی ریاست نے وہ Thresh hold یا حد عبور نہیں کی، جس کی بنا پر پاکستان کو ایک ناکام ریاست کہا جائے۔ معدنیات کی دولت سے مالا مال ملک، زرخیز زمین، ہر طرح کا موسم، پانچ دریا اور دنیا کا بہترین آبیاری کا نہری نیٹ ورک، جوشیلی قوم جس میں 10 کروڑ سے زیادہ لوگ نوجوان ہیں، چھ لاکھ کی فوج، میزائل قوت اور ایٹمی طاقت ہونے کے ساتھ سمندری حیات سے مالامال 1100 کلومیٹر لمبی اور 200 کلومیڑ گہری سمندری پٹی۔ تیس لاکھ افغان مہاجرین کو اپنے آہنگنوں میں شفقت سے بسانے والی 18 کروڑ نفوس پر مشتمل زندہ قوم اور اللہ کے نام پر حاصل کی جانے والی پاکستانی ریاست کسی لحاظ سے بھی Failed State نہیں۔ ہاں پاکستان کی تاریخ کا ہر باب بغیر کسی شک کے ناکام قیادت اور ناکام حکومتوں کی دردناک داستانوں سے عبارت ہے۔
 
قائد اعظم محمد علی جناح کی پاکستان بننے کے فوراً بعد وفات اور پھر خان لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جو قیادت پاکستان کو میسر آئی، اس کے متعلق اعتماد سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر وہ دیانتداری سے اپنے ذاتی سیاسی مفادات کو ملکی مفادات کے تابع رکھتے تو حالات مختلف ہوتے، لیکن بد قسمتی سے
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے
بدقسمتی سے اقتدار اور دولت کی ہوس ہمارے قائدین کی سب سے بڑی کمزوری رہی ہے، اس جہان فانی کے کرہ عرض پر پڑی ہوئی ہر چیز کو وہ زمین سے اٹھا کر اپنی جیبوں میں ڈالنا اور ہڑپ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سچی بات ہے کہ جن لوگوں کو زمین پر موجود مال و دولت اپنی طرف کھینچے رکھتے ہیں وہ عظیم اور قد آور شخصیات نہیں بن سکتے۔ ڈاکٹر احسان اکبر نے کیا خوب کہا۔
ہمیں زمین بہت کھنچتی ہے اپنی طرف
اب ایسے لوگ کہاں پورا قد نکالتے ہیں 

جب ملک میں کوئی راہبر نظر نہ آئے تو سابقہ سویت یونین کے سابقہ صدر لینن کے بقول حکومت یا کابینہ چورو ں کا باورچی خانہ بن جاتے ہیں۔ پاکستان میں کچھ اسی قسم کی صورت حال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے پاکیزہ جسم پر معمولی داغوں کو دیکھ کر بھی بیرونی طاقتیں پاکستان کو اس وقت تک ایک ناکام ریاست کہتی رہیں گی جب تک ہم اپنے جسم کو ڈھانپ کر اپنی کمزوریوں کا خود علاج نہیں کرتے۔ احمد فراز کے اس شعر پر کالم ختم کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔
 ہر جسم داغ داغ تھا لیکن فراز ہم
بدنام یوں ہوئے کہ بدن پر قبا نہ تھی
خبر کا کوڈ : 261957
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش