0
Wednesday 8 May 2013 23:04

انتخابی وعدے اور اصل مسائل!

انتخابی وعدے اور اصل مسائل!
تحریر: طاہر یاسین طاہر

لکھنے کو ڈھیروں مسائل پڑے ہیں۔ ملکی، مقامی اور بین الاقوامی، زندگی نے وفا کی تو شام میں امریکی، اسرائیلی اور عرب ممالک کے گٹھ جوڑ پر اگلا کالم لکھوں گا۔ سرِ دست یہ دیکھنا ہے کہ عالمی سطح پر تنہا ہوتے پاکستان کو اس عالمی تنہائی سے نکالنے کی کیا سبیل کی جا رہی ہے؟ سیاسی قیادت اس بارے کوئی واضح مؤقف اختیار کرنے سے گریزاں ہے۔ بس نئے انتخابی نعروں کی دکان سجی ہوئی ہے۔ کیا ہم ڈرون گرا کر دنیا کی نمبر ون طاقت بن جائیں گے؟ یا کیا ہم طالبان سے ’’امن‘‘ مذاکرات کر کے ایک پرامن معاشرہ بن جائیں گے؟ اصل مسئلے پر کم کم گفتگو کی جاتی ہے، البتہ ہمیشہ کی طرح جذباتیت اور سطحی باتیں، وہی دعوؤں اور وعدوں کی گن گھرج۔ 

پیپلز پارٹی کی بات ہی دوسری ہے۔ اشتہار دیا کہ ہم نے گندم کی امدادی قیمت میں تیں گنا اضافہ کیا چنانچہ ووٹ ہمیں دیں۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ اس سے عام آدمی کا بھلا کیسے ہوا جو اس سے ووٹ مانگا جا رہا ہے؟ پی پی پی اپنی انتخابی اشتہاری مہم کے ذریعے اپنے اور بھی بہت سے کارنامے گنوا رہی ہے مگر مذکورہ کارنامہ تو سراسر جاگیرداروں کے فائدے کی بات ہے۔ دیہاڑی دار مزدور جو اب لوڈشیڈنگ کے باعث بےروزگار ہو گیا ہے، بتایا جائے کہ اس کے لیے اس بات میں کتنی کشش ہے کہ پی پی پی نے گندم کی امدادی قیمت میں تین گنا اضافہ کیا؟ ایک عام شخص جو بیچارہ پیدل چلتا ہے، سائیکل یا پھر موٹر سائیکل، اس کے لیے موٹر وے نعمت کیسے ہو گئی؟ مانا کہ موٹر ویز اور میٹرو بس سروس ترقی کی علامات ہوں گی لیکن سوال وہی ہے؟ کیا موٹر سائیکل والے کو موٹر وے پر’’مزہ‘‘ لینے کی اجازت ہے؟ وہاں تو مرسڈیز فراٹے بھرے گی نا! 

بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بہت فوائد ہوں گے مگر یہ پروگرام ملک سے بیروزگاری کا خاتمہ تو نہ کر سکا؟ سیاستدان اس بات پہ بڑے نازاں ہیں کہ جمہوریت نے پانچ سال پورے کیے۔ پاکستانی سیاست کے لیے اچھی روایت، اٹھارویں، انیسویں اور بیسویں ترامیم بھی قابلِ ستائش، این ایف سی ایوارڈ کے بھی بہت سارے جمہوری فائدے ہوں گے۔ صوبائی خودمختاری ترقی اور خوشحالی کیجانب ایک اور قدم ہو گا لیکن اس خودمختاری کو کس صوبے نے، صوبائی خوشحالی کے لئے بروئے کار لایا؟ لوڈشیڈنگ کو وفاقی حکومت کی نااہلی قرار دے کر جان چھڑا لی گئی۔ بیروزگاری اور مہنگائی کو عالمی مسئلہ قرار دے کر عوام کو یہ کیسے امید دلائی جا سکتی ہے کہ بےروزگاری آتے ہی ختم کر دیں گے؟ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا عہد کرنے والے یہ نہیں بتا پا رہے کہ وہ یہ کارنامہ سرانجام کیسے دیں گے؟ انتخابی مہم میں ہر پارٹی اپنا سارا زور حریفوں کے عیب گنوانے اور دلکش وعدے کرنے میں لگا رہی ہے۔ 

وہ دو پارٹیاں جنہیں یہ زعم ہے کہ حکومت تو ان ہی کی بنے گی، ان میں سے ایک اگر ڈرون کو مار گرانے کا اعلان کرتی ہے تو دوسری مسلسل اپنی پالیسی کا اعلان ان الفاظ میں کرتی ہے کہ’’طالبان سے مذاکرات ضرور کریں گے‘‘ یعنی امن کے لئے طالبان کی طرف دیکھا جائے گا۔ آئیے تسلیم کر لیں کہ ملک کو درپیش سب سے بڑے مسئلے دہشت گردی کے حوالے سے ہم بحثیت قوم یکسو نہ ہو سکے۔ سوائے پی پی پی، ایم کیو ایم، اے این پی اور پاک فوج۔ کیا پاک فوج نے دہشت گردی کو ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار نہیں دیا؟ پہلے بھی لکھا تھا، مکرر عرض ہے کہ سری لنکا نے اگر دہشت گردی پر قابو پایا تو اس کی سادہ وجہ سری لنکن سیاسی و عسکری قیادت کا اس بات پر کامل اتفاق کہ اس وحشت سے جان چھڑانا ہے۔ ہم ابھی تک اس بات کا ہی فیصلہ نہ کر سکے کہ یہ جنگ کس کی ہے؟ لاریب کہ بیروزگاری، توانائی بحران اور دہشت گردی اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان کو اس وقت ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو پاکستانی عوام کو ان حقائق سے بھی آگاہ کرے جو ہمیں درپیش ہیں۔ ایٹم بم تو ہم نے بنا ڈالا مگر اس حقیقت سے انکار کیسے ہو گا کہ ملک پر اندھیروں کا راج ہے؟ ہم ملک کو امن کا گہوارہ بنانے کا انتخابی عہد تو کر رہے ہیں مگر اس بات سے انکار کیسے کیا جائے کہ امن لانے کا منصوبہ یہ ہے کہ طالبان سے مذاکرات کر کے ان سے امن کی بھیک مانگی جائے گی؟

میاں نواز شریف، جماعت اسلامی، جے یو آئی (ف) اور پی ٹی آئی بھی، طالبان (تحریکِ طالبان پاکستان اور اس کی ذیلی شاخیں) سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں، مگر وہ جن کے لئے مرا جا رہا ہے وہ تو اس جمہوریت کو ہی کفر کا نظام سمجھتے ہیں، وہ جو پاکستان کے آئین کو ہی تسلیم نہیں کرتے؟ وہ جو اپنے سوا کسی کو مسلمان ہی نہیں سمجھتے؟ یہ امر درست ہے کہ انتخابی مہم میں، ایم کیو ایم جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کی بات کرتی ہے، تو پی پی پی اپنے ان کارناموں کے باعث ووٹ مانگ رہی ہے جو اس کی نظر میں عام آدمی کی زندگی میں سکھ لے آئے۔ ن لیگ توانائی بحران کے خاتمے کا عہد کرتی ہے، لیکن یہ بھول کر کہ پانچ سالوں میں وہ پنجاب میں ایک بھی ایسا پراجیکٹ شروع نہ کر سکے جس سے امید بندھے کہ اندھیرے چھٹ جائیں گے۔ امن کی بات کی جاتی ہے مگر ’’طالبان مذاکرات‘‘ کے ذریعے۔ 

جن بڑے مسائل کی جانب اشارہ کیا گیا سیاسی قیادت ان کا تذکرہ تو کرتی ہے مگر ان کو حل کرنے کا البتہ روڈ میپ نہیں بتایا جاتا۔ سیاسی قیادت ماضی کے کارناموں پہ نازاں ہے اور ان ہی کارناموں کے عوض ووٹ لینا چاہتی ہے۔ مستقبل تاریک نظر آتا ہو تو انسان ماضی کی گھنی چھاؤں میں پناہ لیتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کو طاقت تسلیم کرنے کی بجائے ان کو ریاستی طاقت کی اہمیت بتا دی جائے۔ ایک پرامن معاشرے کے لئے ضروری ہے کہ معاشرے کو اس حال تک پہنچانے والے کرداروں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔ دلکش انتخابی وعدے محفل تو گرما سکتے ہیں لیکن اس سے معاشرے کا کوئی بھلا نہیں ہو سکتا۔
خبر کا کوڈ : 261959
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش