33
1
Monday 10 Jun 2013 23:03

پاکستان ایمبیسی اور طالب علموں کی دنیا

پاکستان ایمبیسی اور طالب علموں کی دنیا
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@yahoo.com
 

کہتے ہیں کہ ایک صاحب کے پاس بہت دولت تھی، دوست احباب کا حلقہ بھی بہت وسیع تھا، برادری بھی اچھی خاصی تھی، کمپین بھی خوب چلاتے تھے لیکن اس کے باوجود الیکشن میں ہمیشہ ہارجاتے تھے۔ انہیں یہ "مسئلہ" سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر وہ ہمیشہ ہار کیوں جاتے ہیں۔ کئی مرتبہ ہار جانے کے بعد انہیں احساس ہوگیا کہ اس مسئلے کو حل کئے بغیر اب چارہ نہیں۔ بلاخر انہوں نے اس مسئلے کے حل کے لئے دوستوں سے مشورے کئے، برادری کے کھڑپینچوں سے مدد مانگی، بیوروکریٹوں کو رشوت دی، نعرے لگانے والے اور کمپین چلانے والوں کے لئے مال و دولت کی تجوریاں کھول دیں، پیروں فقیروں سے دعائیں کروائیں، مسجدوں میں نیازیں بانٹیں اور اللہ اللہ کرکے ایک مرتبہ پھر الیکشن میں کود گئے، البتہ اس مرتبہ بھی الیکشن کے نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑا اور وہ پہلے کی طرح اس مرتبہ بھی شکست سے دوچار ہوگئے۔

اس مرتبہ شکست کھانے کے بعد انہوں مختلف سیاسی ماہرین سے رجوع کیا، اخباروں کے صحافیوں سے مشاورت کی، برادری کے بوڑھوں سے بات چیت کی، دوستوں کی محفلوں میں یہ شکایت کی کہ انہیں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ ان کے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے، کئی دن گزر گئے تو ایک روز ایک صاحب نے دستِ ادب باندھ کر ان سے عرض کیا کہ جناب مجھے آپ کے مسئلے کا پتہ چل گیا ہے۔۔۔۔
مسئلے کا حل ڈھونڈنے والے نے کہا کہ میں نے ان چند سالوں میں آپ کے ساتھ رہ کر دیکھا ہے کہ آپ کمپین بھی اچھی چلاتے ہیں، دل کے بھی سخی ہیں، ہاتھ کے کھلے ہیں، سوجھ بوجھ اور تعلیم کے اعتبار سے بھی آپ میں کوئی کمی نہیں، بس آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ میں تکبر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ یہ سن کر موصوف نے دوبارہ ایک جلسہ عام کا اعلان کیا اور تقریر میں لوگوں سے کہا کہ میرے بارے میں کچھ افراد کا کہنا ہے کہ میرے اندر تکبر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، حالانکہ اگر مجھ میں تکبر ہوتا تو میں تمہارے جیسے دو دو ٹکے کے لوگوں سے بار بار ووٹ مانگنے آتا۔

یہ تو تھا ان صاحب کا مسئلہ، اب ذرا ہمارا مسئلہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ تقریباً اڑھائی سال کے بعد ہمیں دوبارہ تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی جانے کا شرف حاصل ہوا، اب باہر سے گندی کرسیاں اٹھا دی گئی تھیں، لوگوں کو گیٹ سے اندر داخل ہونے کی اجازت دی جا رہی تھی اور غیر ملکیوں کو بڑے پروٹوکول کے ساتھ الگ سے نمٹایا جاتا تھا۔ ہم نے یہ دیکھا تو خوشی سے پھول گئے کہ لو جی پاکستان ترقی کرگیا، پاکستان ایمبیسی میں انقلاب آگیا ہے اور ہمارے جیسے لوگوں کا تو مسئلہ ہی حل ہوگیا ہے۔

بہرحال ہم اندر ہال میں بیٹھے ہی تھے کہ اپنے اردگرد کچھ اور پاکستانیوں کو بھی منہ بسور کر بیٹھے ہوئے دیکھا، لوگوں کے چہروں پر چھائی ہوئی اداسی اور مرجھاہٹ کو دیکھ کر ہمیں اپنی عاقبت کی بھی فکر لاحق ہوگئی، کچھ افراد سے پوچھ گچھ کی تو پتہ چلا کہ ایمبیسی نے ٹائمنگ 9 سے 11 بجے تک کی لکھی ہوئی ہے، ہر روز لوگوں کو نو سے گیارہ بجے تک بلاوجہ بٹھایا جاتا ہے۔ درمیان میں عملے کا ایک آدمی کچھ دیر کے لئے نمودار ہوتا ہے، فارم تقسیم کرکے دوبارہ غائب ہو جاتا ہے۔ ہم نے یہ سنا تو کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کو بٹھا کر ٹائمنگ پوری کی جاتی ہے، لیکن ایک صاحب بولے کہ آگے تو سنیں، جو شخص فارم دیتا ہے اسے خود بھی نہیں پتہ کہ ان فارموں کو کیسے پر کرنا ہے، وہ فارم دیتے ہوئے آنکھیں جھپکتا رہتا ہے اور زیرِ لب کچھ بڑبڑاتا رہتا ہے اور اس کے بعد اندر چلا جاتا ہے۔ فارم وصول کرنے کے بعد لوگ ایک دوسرے کا منہ تکتے رہتے ہیں کہ ان فارموں کو کیسے پر کریں چونکہ ہر فارم کے اوپر نام، والد کا نام، پاسپورٹ نمبر، مسلمان ہونے کا بیان حلفی، انگوٹھے کا نشان وغیرہ لکھا ہوتا ہے۔

فرض کریں اب جس شخص نے بچے کا پاسپورٹ بنوانا ہے وہ مسلمان ہونے کا بیان حلفی بچے کی طرف سے کیسے لکھے؟ چنانچہ بعض لوگ بچے کی طرف سے یہ فارم پر کرتے ہیں، بعض بچے کے باپ کی طرف سے اور بعض بچے کی ماں کی طرف سے اور اس دوران وہ جتنا بھی متعلقہ شخص سے کچھ پوچھنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ شخص جنتر منتر کی طرح کچھ پڑھ کر چلا جاتا ہے اور مسئلہ ویسے کا ویسا ہی باقی رہتا ہے۔ لوگ بغیر کچھ سمجھے اپنی اپنی صوابدید کے مطابق فارم پر کرتے ہیں اور اس کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔ بلاخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوتی ہیں اور 11 بجے سے کچھ دیر پہلے وہی آدمی ایک ایک شخص کو بلا کر فارم چیک کرنا شروع کرتا ہے اور دھڑلے سے فارموں کو مسترد کرتا جاتا ہے، اب کی بار وہ پہلے کی طرح آہستہ آہستہ نہیں بولتا بلکہ تند و تیز لہجے میں لوگوں کو ڈانٹتا ہے کہ تم نے فارم غلط پر کیا ہے، نالائق آدمی۔۔۔ جاو ۔۔۔اب وقت ختم ہوگیا ہے۔۔۔ 11 بج چکے ہیں۔۔۔ اکثر لوگ یہاں پر ہی مار کھا جاتے ہیں اور اسی ہاہو میں کچھ کے فارم جمع ہو جاتے ہیں اور کچھ بے چارے فارموں کی صورت میں اپنی ناکام حسرتوں کو سمیٹے ہوئے واپس لوٹ آتے ہیں۔ ٹھیک 11 بجے وہ شیر کچھار سے باہر آتا ہے اور لوگوں کو بکریوں کی طرح گیٹ سے باہر کر دیتا ہے۔ لیجئے آج کل پاکستان ایمبیسی میں اس طرح 11 بجائے جا رہے ہیں۔

جن لوگوں کے فارم جمع ہو جاتے ہیں، ان میں سے بعض کو چند دن بعد فون آتا ہے کہ آپ اپنی فیملی کے ساتھ دوبارہ تشریف لائیں، ایک فارم مزید پر کرانا ہے، یا پھر ایک فارم کے کچھ خانے نامکمل رہ گئے ہیں اور یا پھر آپ کی بیگم کا انگوٹھا ایک فارم پر نہیں لگا۔ اب جنہیں واپس نہیں بلایا جاتا وہ جب پاسپورٹ لینے کے لئے آتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ پاسپورٹ پر کبھی بچے کی جگہ ماں کا نام کبھی اس کے بھائی کا نام اور اگر تین چار بچوں کے پاسپورٹ بنوانے ہوں تو پھر تو خدا ہی خیر کرے، پورے کا پورا خاندان بھی بدل سکتا ہے۔۔۔

بہر حال یہ تو وہ باتیں ہیں، جو جاتے ہی لوگوں نے ہمیں بتائیں۔ اب وہ ملاحظہ کیجئے جو ہم نے دیکھا اور ہمارے اوپر بیتا۔ ہمارے دائیں طرف بیٹھے ہوئے ایک صاحب اپنے بچے کا پاسپورٹ بنوانے آئے تھے، وہ بیان حلفی فارم لے کر اس کی ماں کی طرف سے پر کر رہے تھے کہ "میں مسلمان ہوں"۔۔۔ دوسرے صاحب انہیں سمجھا رہے کہ پچھلی دفعہ ہم نے یہ فارم بچے کی ماں کی طرف سے پر کیا تھا اور بعد میں پاسپورٹ میں بھی بچے کی ماں کا ہی نام لکھا ہوا تھا۔ دوسرے صاحب کہہ رہے تھے کہ ہم نے یہ فارم بچے کی طرف سے پر کیا تھا، دو دن بعد ہمیں کہا گیا کہ فیملی کے ہمراہ دوبارہ تشریف لائیں اور ہم سے آج یہی فارم دوبارہ بچے کی ماں کی طرف سے پر کروایا گیا ہے۔ اب رہ گئے باپ کی طرف سے فارم پر کرنے والے تو ان میں سے ایک صاحب توہ مارے بائیں جانب بیٹھے تھے، کہنے لگے ہم نے تو باپ کی طرف سے یہ فارم پر کیا تھا اور آج یہ پاسپورٹ لے کر جا رہے ہیں۔

چنانچہ ان کی بات سن کر کچھ نے باپ کی طرف سے ہی وہ فارم پر کر دیا۔ خدا خدا کرکے فارم وصول کرنے والے صاحب تشریف لائے اور انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے فارموں کو ناقص قرار دینا شروع کر دیا، لوگوں نے کہا کہ جب ہم پوچھتے ہیں تو آپ بتاتے نہیں ہیں، وہ بولے کہ میرے پاس اتنا ٹائم نہیں ہے، تم لوگوں کو سمجھ ہی نہیں آتی، پتہ نہیں تمہارے دماغوں کو۔۔۔ آپ یقین جانیں یہ وہی صاحب تھے کہ جو تھوڑی دیر پہلے کسی سوال کا جواب دیتے ہوئے اس طرح سرا سیمہ ہوجاتے تھے کہ سوال پوچھنے والے کو کچھ سمجھ ہی نہیں آتا تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، لیکن اب وہ اس طرح سے بول رہے تھے کہ الاماں۔

ہمارے سامنے کیسے کیسے معزز طالب علموں کو انہوں نے رسوا کیا۔ وہ لوگ جن کی عمریں ہی درس و تدریس میں صرف ہوگئی ہیں اور جن کا اوڑھنا بچھونا ہی تعلیم اور کتاب ہے، ان لوگوں پر وہ صاحب اپنا علمی رعب جھاڑ رہے تھے کہ تم لوگ کیا پڑھتے ہو؟ دیکھتے نہیں کہ یہاں left thumb لکھا ہے۔ سب آگے سے سر جی، سر جی کر رہے تھے اور "سر جی" فارموں کو ناقص قرار دے رہے تھے، یعنی آج کل سر جی کے ہاتھ بھی کیا خوب مشغلہ آیا ہوا ہے۔ 11 بجے ہمیں بھی سر جی نے طلب کیا، فارموں کو دیکھا اور بولے کہ اب تو 11 بج چکے ہیں، میرے پاس بالکل وقت نہیں، ہم نے سر جی سے عرض کیا کہ "سر جی" آپ نے ہمیں یہاں 9 بجے سے مرغا بنایا ہوا ہے۔ اگر آپ یہ فارم وصول کرلیں تو۔۔۔ بولے مجھے آپ لوگوں نے فارغ سمجھا ہوا ہے، میں بہت مصروف آدمی ہوں۔۔۔ہوں۔۔۔ہوں۔۔ہوں۔۔۔

بہرحال آپ سمجھ گئے ہونگے کہ آج کے دن پاکستان ایمبیسی سے ناکام حسرتیں لے کر لوٹنے والوں میں ہم بھی شامل ہیں۔
اب آپ بتائیں کہ ہمارا مسئلہ کیا ہے۔؟
پاکستان ایمبیسی ہمارے ساتھ ایسا کیوں کرتی ہے۔؟
کیا ایمبیسی رجوع کرنے والوں کے لئے ٹوکن جاری نہیں کرسکتی، تاکہ لوگ اپنی اپنی باری پر متعلقہ شخص کے سامنے بیٹھ کر اپنے فارم پر کریں۔
کیا موجودہ "سر جی" کی جگہ کوئی معقول "سر جی" دستیاب نہیں ہوسکتے۔؟
کیا ایمبیسی کی طرف سے جاری شدہ مبہم فارمز کی جگہ نئے فارم جاری نہیں ہوسکتے۔؟
کیا ضروری ہے کہ لوگوں کو 9 سے 11 بجے تک مرغا بنا کر ایمبیسی میں بٹھایا جائے اور گیارہ بجے انہیں کہا جائے کہ اب وقت ختم ہوگیا ہے۔؟
کیا فارم تقسیم کرنے، وصول کرنے اور پر کرنے کے عمل کو بہتر نہیں بنایا جاسکتا؟ تاکہ لوگوں کو بار بار ایمبیسی کے چکر نہ لگانے پڑیں۔

آئیے ملکر اس مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، البتہ جہاں تک ہماری رائے ہے، ہماری رائے کے مطابق ہم لوگ بھی الیکشن لڑنے والے صاحب کی طرح کمپین بھی اچھی چلاتے ہیں، دل کے بھی سخی ہیں، ہاتھ کے کھلے ہیں، سوجھ بوجھ اور تعلیم کے اعتبار سے بھی ہم میں کوئی کمی نہیں، بس ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم میں تکبر کے بجائے عاجزی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔
"سر جی" 9 بجے سے 11 بجے تک ہمیں مرغا بنائے رکھتے ہیں، فارم پر کراونے میں مدد نہیں کرتے، کسی کی نہیں سنتے اور ہم "سر جی" سر جی" کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں اپنے مسئلے کا پتہ نہیں لیکن ایمبیسی والوں کو ہمارے اس مسئلے کا پتہ چل چکا ہے کہ ہم لوگوں میں بلا کی عاجزی ہے۔ چنانچہ انہوں نے ہم جیسے عاجزی اور انکساری کے پتلوں کو کو دبانے کے لئے "سر جی" کو ہمارے اوپر مسلط کر رکھا ہے۔

ہماری عاجزی اور انکساری کی انتہا دیکھئے کہ پاکستان ایمبیسی میں ہر روز طالب علموں کو اُن کے جاہل اور ان پڑھ ہونے احساس دلایا جاتا ہے، ان کی شخصیت کشی کی جاتی ہے اور انہیں ذلیل کیا جاتا ہے، لیکن طالب علموں کی کوئی تنظیم اس "شخصیت کشی اور ذلت" کے مسئلے کو نہیں اٹھاتی۔ ہم تمام منصف مزاج سیاسی و دینی جماعتوں اور بالخصوص طالب علم تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے اجلاسوں، سیمینارز اور پروگراموں میں تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی کے پاکستانی طالب علموں کے ساتھ اس شرمناک رویے کی مذمت کریں اور ای میل، فیکس نیز ہر ممکنہ ذریعے سے ارباب حل و عقد تک اس سلسلے میں اپنا احتجاج ضرور پہنچائیں۔
خبر کا کوڈ : 272137
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

vip:>::> کیا ایمبیسی رجوع کرنے والوں کے لئے ٹوکن جاری نہیں کرسکتی، تاکہ لوگ اپنی اپنی باری پر متعلقہ شخص کے سامنے بیٹھ کر اپنے فارم پر کریں۔
کیا موجودہ "سر جی" کی جگہ کوئی معقول "سر جی" دستیاب نہیں ہوسکتے۔؟
کیا ایمبیسی کی طرف سے جاری شدہ مبہم فارمز کی جگہ نئے فارم جاری نہیں ہوسکتے۔؟
کیا ضروری ہے کہ لوگوں کو 9 سے 11 بجے تک مرغا بنا کر ایمبیسی میں بٹھایا جائے اور گیارہ بجے انہیں کہا جائے کہ اب وقت ختم ہوگیا ہے۔؟
کیا فارم تقسیم کرنے، وصول کرنے اور پر کرنے کے عمل کو بہتر نہیں بنایا جاسکتا؟ تاکہ لوگوں کو بار بار ایمبیسی کے چکر نہ لگانے پڑیں۔
it is very _important topic,plz continue it
Bohat khoab janab!
students ko hi kuch krna ho ga.....!
بجا فرمایا نذر بھائی۔
ہم لوگ اتنے جھک جاتے ہیں کہ لوگ سجدے سے کم پر راضی نہیں! طلاب محترم اس مسئلہ کا کوئی راہ حل تلاش کریں۔
السلام علیکم
برادر محترم نے بہت خوبصورت اسلوب میں ایک بہت ہی بنیادی مسئلے کو اجاگر کیا ہے، ہم تمام منصف مزاج سیاسی و دینی جماعتوں اور بالخصوص طالب علم تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے اجلاسوں، سیمینارز اور پروگراموں میں تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی کے پاکستانی طالب علموں کے ساتھ اس شرمناک رویے کی مذمت کریں اور ای میل، فیکس نیز ہر ممکنہ ذریعے سے ارباب حل و عقد تک اس سلسلے میں اپنا احتجاج ضرور پہنچائیں۔
،
jawaaad blouch
کیا فارم تقسیم کرنے، وصول کرنے اور پر کرنے کے عمل کو بہتر نہیں بنایا جاسکتا؟ تاکہ لوگوں کو بار بار ایمبیسی کے چکر نہ لگانے پڑیں۔
طاهر جعفری
United States
very good.we are agree with you and rady to play our role.
Iran, Islamic Republic of
ہمیں دیگر ممالک میں بھی طلباء تنظیموں سے رابطے کرکے اس مسئلے کو ہمیشہ کے لئے حل کروانا چاہیے۔ پاکستان ایمبیسی کے سارے نااہل اسٹاف کی برطرفی تک ہمیں احتجاجات کا ایک مضبوط منصوبہ تیار کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ہماری تمام طالب علم دوستوں سے اپیل ہے کہ خدا را اس رسوائی سے نجات کے لئے متحد ہوکر آواز بلند کریں۔ مجھے ان بدبختوں نے فیملی کے ساتھ چار چکر لگوائے۔
مبشر عباس رضوی
سر جی! آپ صرف تہران میں پاکستانی ایمبیسی کا رونا رو رہے ہیں؟ اجی کبھی یہاں چکر لگائیے۔ سارا پاکستان ہی ایسا ہے۔ ہم تو اپنے ہی ملک میں دو گھنٹے کے لئے نہیں، ساری عمر کے لئے مرغے بن کر رہ چکے ہیں۔ اب کبھی سیدھا کھڑا ہونے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو کمر دکھنے لگتی ہے۔
United States
سلام
یہ کویی نیا مسٔلہ نہیں، سالھا سال سے یہی رویے ھیں۔ ایمبیسی اپنی کبھی کوئی ذمہ داری ادا نہیں کرتی، اس کے خلاف ایران اور پاکستان دونوں جگہ ایکشن لینے کی ضرورت ھے۔
Iran, Islamic Republic of
اگر ہم مرغے بنے رہیں گے تو وہ ہمیں مرغا بنائے رکھیں گے۔ لہذا سالہا سال سے مرغا بننے کی رسم اب ہمیں ترک کرنی چاہیے اور پوری دنیا میں احتجاج کی کال دینی چاہیے۔ سر جی سرجی کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ ہماری تمام ممالک میں رہنے والے باشعور لوگوں اور طالب علموں سے گزارش ہے کہ وہ اس سلسلے میں آوازِ احتجاج بلند کریں۔
Iran, Islamic Republic of
ہم آپس میں تو ایک دوسرے کو خوب آنکھیں دکھاتے ہیں لیکن سر جی کے سامنے ہم سب میمنے بن جاتے ہیں۔ اب کوشش کریں کہ سر جی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور سر جی کی گستاخ آنکھوں کے خلاف احتجاج کریں۔
آفتاب کاظمی
Iran, Islamic Republic of
ہم پاکستان مین ہوں یا ایران میں، جب ظالموں کے سامنے سجدے کرتے رہیں گے تو مرغے بنتے رہیں گے۔ لہذا ظلم کے خلاف آواز ہی نہیں علم ِ احتجاج بھی بلند کریں۔
Iran, Islamic Republic of
یہ کوئی نیا مسٔلہ نہیں، سالھا سال سے یہی رویے ھیں۔ ایمبیسی اپنی کبھی کوئی ذمہ داری ادا نہیں کرتی، اس کے خلاف ایران اور پاکستان دونوں جگہ ایکشن لینے کی ضرورت ھے۔ ہمیں اپنے مسئلے کا پتہ نہیں لیکن ایمبیسی والوں کو ہمارے اس مسئلے کا پتہ چل چکا ہے کہ ہم لوگوں میں بلا کی عاجزی ہے۔ ہم پاکستان مین ہوں یا ایران میں، جب ظالموں کے سامنے سجدے کرتے رہیں گے تو مرغے بنتے رہیں گے۔
Iran, Islamic Republic of
Wonderful article Nazar Haffi brother!
واہ آقا صاحب، جب آپ پر بات پڑی تو آپ کو یہ بھی یاد آ گیا کہ ایمبیسی کام نہیں کر رہی، یعنی ایک کالم لکھنے سے مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ حافی نام رکھا ہے تو کام بھی حافی والے کریں جناب۔
United Kingdom
So they prove "It is PAKISTANI Embassy"
Iran, Islamic Republic of
یہ ایک اجتماعی مسئلہ ہے اسے یہ کہہ کر اسے شخصی نہ بنائیں"
واہ آقا صاحب، جب آپ پر بات پڑی تو آپ کو یہ بھی یاد آگیا کہ ایمبیسی کام نہیں کر رہی" البتہ کچھ اخلاقی غیرت کا مطاہرہ بھی کریں، اپنا نام بھی بتائیں، حافی بھائی تو جب تک خود ایمبیسی نہیں گئے اس وقت تک انہوں نے سنی سنائی باتوں پر کالم نہیں لکھا اور یہی حقیقت کا تقاضا ہے۔ آپ کو کیا پتہ کہ وہ صرف کالم لکھتے ہیں ۔۔۔برادر, انسان میں اگر دین نہ ہو تو کم از کم غیرت ہونی چاہیے۔
آپ کے نام کا منتظر محمد علی نقوی
Iran, Islamic Republic of
السلام علیکم
برادر دعا کریں کہ خدا مجھے آپ کی طرح عظیم انسان بنائے اور میں آپ کے نقش قدم پر چل کر بڑے بڑے کام کرسکوں۔
والسلام
آپ کے قدموں کی خاک
احقر
حافی
Iran, Islamic Republic of
اگر ہم مرغے بنے رہیں گے تو وہ ہمیں مرغا بنائے رکھیں گے۔ ہمیں اپنے مسئلے کا پتہ نہیں لیکن ایمبیسی والوں کو ہمارے اس مسئلے کا پتہ چل چکا ہے کہ ہم آپس میں تو ایک دوسرے کو خوب آنکھیں دکھاتے ہیں لیکن سر جی کے سامنے ہم سب میمنے بن جاتے ہیں۔ ہمیں دیگر ممالک میں بھی طلباء تنظیموں سے رابطے کرکے اس مسئلے کو ہمیشہ کے لئے حل کروانا چاہیے۔ پاکستان ایمبیسی کے سارے نااہل اسٹاف کی برطرفی تک ہمیں احتجاجات کا ایک مضبوط منصوبہ تیار کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ہماری تمام طالب علم دوستوں سے اپیل ہے کہ خدا را اس رسوائی سے نجات کے لئے متحد ہوکر آواز بلند کریں۔ یہ کویی نیا مسٔلہ نہیں، سالھا سال سے یہی رویے ھیں۔ہم لوگ اتنے جھک جاتے ہیں کہ لوگ سجدے سے کم پر راضی نہیں! طلاب محترم اس مسئلہ کا کوئی راہ حل تلاش کریں۔
Iran, Islamic Republic of
اللہ کے بندو شکر کرو کہ کوئی تو بولتا ہے، حسد اور تکبر تو ہم میں بھی بہت زیادہ ہے۔ ویسے تو چھپ چھپ کر وار کرنے کے تو ہم ماہر ہیں۔ صرف سر جی ہمیں سیدھا کرسکتے ہیں۔ اب اس اہم مسئلے کو حل کرنے کے بارے میں سوچیں، کوئی مشورہ ہے تو ارسال کریں البتہ حسد کی آگ تو حافی صاحب کو پرسنل ای میل پوسٹ کرکے بھی ٹھنڈی کی جاسکتی ہے۔
یہ ایک اجتماعی مسئلہ ہے، اگر ہم مرغے بنے رہیں گے تو وہ ہمیں مرغا بنائے رکھیں گے۔
رضوان
Iran, Islamic Republic of
کیا ایمبیسی رجوع کرنے والوں کے لئے ٹوکن جاری نہیں کرسکتی، تاکہ لوگ اپنی اپنی باری پر متعلقہ شخص کے سامنے بیٹھ کر اپنے فارم پر کریں۔
کیا موجودہ "سر جی" کی جگہ کوئی معقول "سر جی" دستیاب نہیں ہوسکتے۔؟
کیا ایمبیسی کی طرف سے جاری شدہ مبہم فارمز کی جگہ نئے فارم جاری نہیں ہوسکتے۔؟
کیا ضروری ہے کہ لوگوں کو 9 سے 11 بجے تک مرغا بنا کر ایمبیسی میں بٹھایا جائے اور گیارہ بجے انہیں کہا جائے کہ اب وقت ختم ہوگیا ہے۔؟
کیا فارم تقسیم کرنے، وصول کرنے اور پر کرنے کے عمل کو بہتر نہیں بنایا جاسکتا؟ تاکہ لوگوں کو بار بار ایمبیسی کے چکر نہ لگانے پڑیں۔
اگر ایمبیسی کے نااہل عملے کو برطف نہیں کیا جاتا تو یہ سلسلہ کبھی نہیں رکے گا۔ ہمیں سر جھکائے جوتے کھانے کے بجائے اس ذلت کے خلاف اواز اٹھانی چاہیے۔
Iran, Islamic Republic of
ہمیں صدر اور وزیراعظم پاکستان سمیت تمام اعلٰی حکام کو ای میل، فیکسز اور درخواستوں کے ذریعے رجوع کرنا چاہیے۔ چاہے انفرادی کریں یا اجتماعی طور پر۔ جیسے بھی ممکن ہو۔ دیر نہ کریں۔ ابھی ملکر آواز اٹھائیں تو موثر رہے گی۔ میں نے اس سلسلے میں اپنی دینی زمہ داری سمجھتے ہوئے کچھ اقدامات کر دیئے ہیں۔ آپ سب سے بھی گزارش ہے۔
عباس رضوی
آپ بالکل صحیح فرما رہے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارا مطالبہ یہ ہو کہ ہمیں بار بار تھران جانے کے بجائے ایمبیسی کا ایک یونٹ ( دفتر) قم میں کھولیں، بیشک ہفتے میں دو دن کھلا رہے۔
ایمبیسی والوں کو ہمارے اس مسئلے کا پتہ چل چکا ہے کہ ہم لوگوں میں بلا کی عاجزی ہے۔
Iran, Islamic Republic of
قم میں دفتر کهولنے سے يه مسئلہ حل نہيں ہوگا۔ اگر ہم مرغے بنے رہیں گے تو وہ ہمیں مرغا بنائے رکھیں گے۔ اگر ایمبیسی کے نااہل عملے کو برطرف نہیں کیا جاتا تو یہ سلسلہ کبھی نہیں رکے گا۔ ہمیں سر جھکائے جوتے کھانے کے بجائے اس ذلت کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔
Iran, Islamic Republic of
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم "سر جی" سر جی" کرتے رہتے ہیں۔ ابھی ملکر آواز اٹھائیں تو موثر رہے گی۔ پاکستان ایمبیسی کے سارے نااہل اسٹاف کی برطرفی تک ہمیں احتجاجات کا ایک مضبوط منصوبہ تیار کرنا چاہیے۔
سلام۔
آقایون اگر ایک درخواست بنا کر کچھ لوگوں سے دستخط لے لیے جائیں اور پھر فیکس یا پاکستان کے مختلف علاقوں میں بھیجا جائے۔ جن کے پاسپورٹ کی معیاد 4 سالھ رہ گئی ہے تاکہ اگر ایمبیسی کو ملال بھی آئے تو ہم مرغوں کو قربان ہونے کا ڈر نہ ہو۔
Iran, Islamic Republic of
کچھ تو زمانہ بھی ظالم ہے اور کچھ ہمیں بھی سر جی، سر جی کہنے کی عادت ہو گئی ہے۔ کوئی تو ہمت کرے اور ایک درخواست لکھ کر سب سے دستخط لے کر اس مسئلے کو حل کروائے۔ انشاءاللہ ہم سب متحد ہوکر ساتھ دیں گے۔
سر جی، سرجی کرنے کے بجائے یہ بہترین طریقہ ہے کہ ہم ملکر عملی اقدامات کریں۔
ہماری تمام قائد ملت جعفریہ اور ناصر ملت جعفریہ سب سے گزارش ہے کہ اتحاد کے ساتھ آگے بڑھیں اور ملت جعفریہ کو کچلنے والے اس ایمبیسی کے طاغوت کو شکست دیں۔
Iran, Islamic Republic of
ہماری تمام طالب علم دوستوں سے اپیل ہے کہ خدا را اس رسوائی سے نجات کے لئے متحد ہوکر آواز بلند کریں۔ یہ کوئی نیا مسٔلہ نہیں، سالھا سال سے یہی رویے ھیں۔
Iran, Islamic Republic of
میں بھی چند دن قبل وہاں گیا، اس نے مجھے خود ہی کہا کہ یہ فارم تقسیم پاکستان سے بھی قبل کے ہیں۔۔۔۔، یہ جاننے کے باوجود بھی وہ کسی طرح کی راہنمایی کے لیے تیار نہیں ھے،
بہرحال یہ مسئلہ اجتماعی نوعیت کا ھے اور اسے مل جل کر حل کرنے کی ضرورت ھے، اسے ہر ممکن پلیٹ فارم پر آواز اٹھا کر حل کیا جا سکتا ھے۔
Iran, Islamic Republic of
سر جی کو ہم نے سر پر سوار کر رکھا ہے۔سر جی، سرجی کرنے کے بجائے یہ بہترین طریقہ ہے کہ ہم ملکر عملی اقدامات کریں۔
Iran, Islamic Republic of
ہماری تمام طالب علم دوستوں سے اپیل ہے کہ خدا را اس رسوائی سے نجات کے لئے متحد ہوکر آواز بلند کریں۔ایک درخواست بنا کر کچھ لوگوں سے دستخط لے لیے جائیں اور پھر فیکس یا پاکستان کے مختلف علاقوں میں بھیجا جائے۔
ہماری پیشکش