11
0
Saturday 25 May 2013 00:53

آتش فشاں کو قابو کیجئے

آتش فشاں کو قابو کیجئے
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@yahoo.com 

آج اسلحے کی جنگ کا دور ختم ہوچکا ہے۔ اسلحے کی جگہ فکری و نظریاتی لڑائی نے لے لی ہے۔ فکری جنگ دو طرح سے لڑی جاتی ہے۔ کبھی لوگوں کی توجہ کسی ایک نکتے پر مرکوز کی جاتی ہے اور کبھی فکری انتشار پیدا کرکے اصلی اور اساسی نکتے سے توجہ ہٹائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر استعمار نے عرب حکمرانوں کی ساری توجہ ایران کے اسلامی انقلاب پر متمرکز کی ہوئی ہے اور وہ عربوں کو ایران سے ڈرا ڈرا کر تیل لوٹ کر لے جا رہے ہیں اور عربوں کو اسلحہ فروخت کر رہے ہیں۔
گذشتہ کئی سالوں سے عربوں کی ساری توجہ ایران پر لگی ہوئی ہے اور وہ اس بات سے مکمل طور پر غافل ہیں کہ استعماری دنیا انہیں بیوقوف بنا کر ان کا تیل لوٹ رہی ہے۔ اگر عرب حکمرانوں کی فکر سے استعماری پہرہ ہٹا دیا جائے تو عربوں کو صاف نظر آئے گا کہ اصل طاقت استعمار کے جنگی ہتھیاروں میں نہیں بلکہ عربوں کے تیل میں ہے۔

 استعمار کے ہاتھوں فکری طور پر مغلوب ہونے کے باعث عرب ہیرے سے زیادہ قیمتی تیل کو نیلام کر رہے ہیں اور کچرے سے زیادہ بے قیمت اسلحے کو دھڑا دھڑ خرید رہے ہیں۔ آج اکثر عرب حکمران یہ سوچنے پر بھی تیار نہیں ہیں کہ ان کی اصل دولت تو لٹ رہی ہے، ان کے معدنی ذخائر مکمل طور پر غیروں کے ہاتھوں میں ہیں، ان کے سیاسی و اقتصادی فیصلے امریکہ اور یورپ میں ہوتے ہیں، ان کے دل میں اسرائیل کا ناسور جنم لے چکا ہے اور ان کی رگِ جاں بلامبالغہ پنجہ یہود میں آچکی ہے۔ عرب حکمرانوں کی اس فکری غلامی کے باعث اس صدی میں پوری دنیا میں عالمِ اسلام کی وحدت کو سخت دھچکا لگا ہے۔
 
حقیقتِ حال یہ ہے کہ استعمار سے ہم آہنگی کے طور پر عرب بادشاہوں نے اسلام کو ایک آلے کے طور استعمال کیا ہے۔ دنیا میں جتنے بھی پرتشدد واقعات ہوئے، ان میں سلفیت اور وہابیت کے چہرے کو باقاعدہ منصوبے کے طور پر سامنے لایا گیا ہے، حالانکہ اگر دہشت پسندوں کے چہرے سے اسلام کا ماسک ہٹا دیا جائے تو پیچھے خود امریکہ اور سعودی عرب کے حکمرانوں کا چہرہ نظر آتا ہے۔ استماری طاقتیں عرب حکمرانوں کو ایران سے ڈرا کر ایک تو ان کے معدنی ذخائر لوٹ رہی ہیں اور دوسرے عرب حکمرانوں کے ذریعے سلفیت اور وہابیت کو پرتشدد کارروائیوں میں استعمال کرکے لوگوں کو اسلام سے متنفر کر رہی ہیں۔ یہ سارا ظلم اس لئے ہو رہا ہے کہ استعماری طاقتوں نے عرب حکمرانوں کو فکری طور پر محبوس کر رکھا ہے۔
 
اب ذرا پاکستان میں آجائیں اور یہاں کی صورتحال کا جائزہ لیں۔ ہمارے ہاں لوگوں کی فکر کو منتشر کر کے مقاصد حاصل کئے جاتے ہیں۔ ہر روز مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ایک طرف تو دوسری طرف کارخانوں کے بند ہونے کی خبریں، بم دھماکوں کے ساتھ ساتھ ٹارگٹ کلنگ کا خوف، کہیں پر سیاستدانوں کے اختلافات اور کہیں مذہبی رہنماوں کی ہاتھا پائی۔ ہم سب پکڑ دھکڑ، مار دھاڑ، کرپشن، لوٹ مار، دھونس دھاندلی اور سرکاری و غیرسرکاری دہشت گردی میں اس قدر جکڑے ہوئے ہیں کہ ایک عام پاکستانی کو یہ سوچنے کی فرصت ہی نہیں کہ وہ اپنے ملک کے اساسی مسائل کی طرف غور و فکر کرے۔ 

آپ صرف الیکشن کے مسئلے کو ہی لیجئے، انتخابات کے دوران ہمارے ہاں اس قدر فکری انتشار عروج پر رہا کہ عام لوگوں کو کچھ سجھائی ہی نہیں دے رہا تھا کہ وہ کیا کریں اور کس کی بات مانیں۔ ایک ہی مکتب، ایک ہی فرقے اور ایک ہی مسلک کے اندر اتنا فکری انتشار پھیلا ہوا تھا کہ عام پاکستانی کے لئے درست فیصلے کی تشخیص دینا ہی تقریباً ناممکن ہوگیا تھا۔ ہمارے ہاں کئی سالوں پر محیط اس فکری انتشار کا نتیجہ دیکھئے کہ اب ہمارے سیاستدان بھی ہم سے صرف روٹی کپڑے اور مکان کی بات کرتے ہیں، کوئی ہمیں یہ یقین دلاتا ہے کہ میں سعودی عرب کو ہر حال میں خوش کروں گا اور کوئی ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ میں ایران کی گود سے نہیں نکلوں گا اور کوئی ہمیں یہ کہتا ہے کہ میں امریکہ اور یورپ کا اصلی پٹھو ہوں، لہذا میں ہی سارے مسائل کا مشکلکشاء ہوں۔
 
ہم انہی فرعی اور مصنوعی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اور ہمارے ہاں کے معدنی ذخائر بھی اس وقت غیر ملکی کمپنیاں دیمک کی طرح چاٹنے میں مصروف ہیں، ہمارے بہترین طالب علموں کو امریکہ اور یورپ ملازمتیں دے کر ان سے فائدہ اٹھا رہے ہے، لیکن ہمیں اس کا احساس ہی نہیں، ہم نے اپنی شہ رگ کشمیر کو فراموش کر دیا ہے اور اب ہماری نئی نسل کے حافظے سے یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے محو ہوتا جا رہا ہے، لیکن ہمارے پاس اس مسئلے کے حل کے لئے سوچنے کی فرصت ہی نہیں۔ ہمیں نظریہ پاکستان کو بھولے ہوئے ایک عرصہ ہوگیا ہے اور اب ہمارے پاس اسے دہرانے کا وقت ہی نہیں۔ 

اس وقت پوری دنیا میں اس فکری جنگ کا بہترین ہتھیار میڈیا ہے۔ میڈیا صرف ٹیلی ویژن، ریڈیو، اخبار یا ویب سائٹ ہی نہیں بلکہ ہماری اپنی گفتگو اور کردار و رفتار بھی ایک میڈیا ہے۔ البتہ تیز ترین اور موثر ترین میڈیا الیکٹرانک میڈیا ہی ہے۔ آپ الیکٹرانک میڈیا کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ استعماری قوتیں مختلف نیٹ ورکس کے ذریعے پوری امت مسلمہ کی فکر پر کیسے منظم طریقے سے کام کر رہی ہیں۔ لوگوں کے دماغوں میں یہ بیج بویا جا رہا ہے کہ مسلمان علماء اور اسلام سے نفرت کریں یعنی یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ مستقبل کا مسلمان نام کا تو مسلمان ہو لیکن اسلام کو ضابطہ حیات نہ سمجھے اور فکری طور پر کیمونسٹ یا سیکولر بن جائے۔ اس وقت اس منصوبے پر عمل در آمد کے لئے دنیائے اسلام میں فرقہ واریت اور شدت پسندی کو مختلف طریقوں سے راسخ کیا جا رہا ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں میڈیا کی دنیا میں عالمِ اسلام کی طرف سے اسلام کا دفاع کرنے والے لوگ پانچ گروہوں میں تقسیم ہیں۔ 

پہلا گروہ وہ ہے جو میڈیا کے اندر موجود ہے لیکن اسلامی نظریات و افکار سے آشنا نہیں ہے۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو اسلامی نظریات و افکار پر مسلط ہے لیکن میڈیا کے اسرار و رموز سے آگاہ نہیں ہے۔
تیسرا گروہ وہ ہے جو اسلامی نظریات و افکار پر بھی مسلط ہے اور میڈیا کے اسرار و رموز سے بھی آگاہ ہے لیکن اس میں دین کا اس طرح سے درد نہیں ہے جیسے ہونا چاہیے۔ چوتھا گروہ وہ ہے جس کے پاس اسلامی نظریات و افکار، میڈیا کے اسرار و رموز اور دین کا درد سب کچھ موجود ہے لیکن وسائل نہیں ہیں یا محدود ہیں۔ پانچواں گروہ وہ ہے جس کے پاس اسلامی نظریات و افکار، میڈیا کے اسرار و رموز، دین کا درد اور وسائل سب کچھ موجود ہے لیکن یہ گروہ مختلف اکائیوں میں تقسیم ہے۔ 

عالمِ اسلام کو موجودہ بحرانوں سے نجات دلانے کے لئے اس فکری آتش فشاں کو قابو کرنا بہت ضروری ہے۔ عالمِ اسلام کی باہمی غلط فہمیوں کو دور کرنے اور عالمِ کفر کی چالوں کو سمجھنے کے لئے ایک عالمی اسلامی میڈیائی نیٹ ورک کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا نیٹ ورک جو ممالک اور مسالک کی تفریق سے بالاتر ہو اور امت مسلمہ کی نظریاتی و فکری رہنمائی کرے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ فکری جنگ میں کبھی تو لوگوں کی فکر کو کسی ایک نکتے پر لگا کر اور کبھی منتشر کرکے اپنے مقاصد حاصل کئے جاتے ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو مسلمانوں کے ہاں نام کے مسلمان لیکن فکر کے دہشتگرد، کیمونسٹ اور سوشلسٹ مسلسل جنم لیتے رہیں گے۔ غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کے اس دور میں اس فکری آتش فشاں کو قابو کرنے کی تگ و دو کرنا ہم سب کی دینی و ملّی ذمہ داری ہے۔
خبر کا کوڈ : 267193
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
ایک ایسا اسلامی نیٹ ورک ہونا چاہیے جو مشترکات کی طرف مسلمانوں کو لے جائے اور اختلافات سے بچنے نیز دشمن شناسی کا شعور پیدا کرے۔
خوبصورت تجزیہ۔ سبحان اللہ۔
Iran, Islamic Republic of
ہمیں الیکشن اور آپس کے اختلافات میں ڈال کر نواز شریف کے ذریعے تکفیریوں کو سیاست و حکومت میں لانے کا دروازہ کھول دیا گیا۔ اسی طرح اب ہمیں ایران کی گیس کے نام پر دبا کر تکفیریوں کو سیاسی طاقت تسلیم کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔
Iran, Islamic Republic of
دشمن بہت دور کی سوچتاہے جناب
Iran, Islamic Republic of
یعنی ہم مصروف نہیں ہوتے بلکہ ہمیں مصروف کر دیا جاتا ہے۔
United Kingdom
One of your best columns
حافی صاحب ہمیں تو ایک ہی بات پتہ ہے کہ استعمار نہ صرف دور کی سوچ رہا ہے بلکہ دوررس کام کر بھی رہا ہے۔ آپ کب تک صرف لکھتے ہی رہیں گے کچھ تو کریں۔
United States
Wonderful article Nazar Haffi brother!
Mohammad wasim Ali.
Iran, Islamic Republic of
سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ سعودالفیصل نے امریکہ اور اسرائیل کے پراپیگنڈا کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے ایران کا جوہری پروگرام خطے کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔ بھارتی ہم منصب کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سعودی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ایران خطے کے ممالک کو جوہری پروگرام سے نہ ڈرائے،
Iran, Islamic Republic of
برادر گرامی آپ دعا کریں کہ خدا اس حقیر کو بھی آپ کی طرح بڑے بڑے کام کرنے کی توفیق دے، البتہ یہ لکھنے کی چھوٹی سی توفیق بھی آپ جیسے مخلص ناصحین کی نصیحتوں اور دعاوں کی بدولت ہی مجھے نصیب ہے، یہ بھی اپنی جگہ ایک تھکا دینے والا اور سخت محنت طلب کام ہے۔ پھر کچھ بندہ ناچیز کی صلاحیت اور ظرفیت کی بھی بات ہے، یقیناً مجھ میں ان کاموں کی صلاحیت بھی نہیں ہے جو آپ جیسے مجاہدین فی سبیل اللہ انجام دیتے ہیں، آپ سچے دل سے دعا کریں کہ خدا بحق محمد و آل محمد ص میرے حال پر رحم فرمائے اور مجھے اچھی اور بہترین صلاحیتوں سے نوازے، آپ کی دعاوں کا محتاج ۔۔۔احقر حافی
Iran, Islamic Republic of
انتخابات کے دوران ہمارے ہاں اس قدر فکری انتشار عروج پر رہا کہ عام لوگوں کو کچھ سجھائی ہی نہیں دے رہا تھا کہ وہ کیا کریں اور کس کی بات مانیں۔ اس افراتفری کے نتیجے میں پاکستان میں تشکیل پانے والے موجودہ حکومتی سیٹ اپ کی ضرورت پاکستانیوں کے بجائے امریکہ کو تھی۔ عوام الناس ٹھہرے کمی کمین، لوڈشیڈنگ، بے روزگاری، بھوک، ننگ، جہالت اور بیماری ہی ان کا مقدر ٹھہرے گی۔ یوں سمجھیں سیاسی جماعتیں ”امریکی سرکار“ میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔ایک عام پاکستانی کو یہ سوچنے کی فرصت ہی نہیں کہ وہ اپنے ملک کے اساسی مسائل کی طرف غور و فکر کرے۔
متعلقہ خبر
ہماری پیشکش