0
Tuesday 1 Jun 2010 10:40

غزہ میں اسرائیلی قذاقی اور پاکستان پر حملے کی امریکی منصوبہ بندی،کیا مسلم امہ کے بیدار ہونے کا اب بھی وقت نہیں آیا؟

غزہ میں اسرائیلی قذاقی اور پاکستان پر حملے کی امریکی منصوبہ بندی،کیا مسلم امہ کے بیدار ہونے کا اب بھی وقت نہیں آیا؟
اسرائیل نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ کیلئے امداد لے جانیوالے فریڈیم فلوٹیلا پر دھاوا بول دیا۔جس کے نتیجے میں کم از کم 20 افراد جاں بحق اور پچاس سے زائد زخمی ہو گئے ہیں تاہم امدادی قافلے نے اسرائیلی بحریہ کی طرف سے واپس لوٹ جانے کے حکم کو نظر انداز کر دیا۔ دوسری جانب اسرائیل کے اس اقدام کیخلاف امریکہ اور ترکی میں زبردست احتجاج کیا گیا ہے،ترکی میں اسرائیلی سفیر کو طلب کیا گیا۔عالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق غزہ کے شہریوں کیلئے آنیوالے امدادی بحری جہازوں کو روکنے کیلئے اسرائیلی جنگی جہازوں نے بحری ناکہ بندی کر رکھی ہے۔فلسطین کے رکن اسمبلی نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ امدادی جہازوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے،جہازوں میں سات سو امدادی کارکنوں کے علاوہ یورپی یونین کے ارکان اسمبلی بھی سوار ہیں۔ایک پاکستانی نجی ٹی وی چینل کے اراکین بھی اس قافلے میں موجود ہیں۔
غزہ کے پندرہ لاکھ لوگ 2007ء سے انسانی امداد پر اسرائیلی پابندی کے بعد سے سخت مشکلات کا شکار ہیں اور وہاں پانی،دوائوں اور تعمیراتی سامان کی سخت قلت ہے،ان مشکلات کے پیش نظر برطانیہ،یونان،الجیریا،کویت،ملائیشیا اور آئرلینڈ کے چھ جہاز ترکی کی سربراہی میں دس ہزار ٹن امدادی سامان اور سینکڑوں امدادی کارکنوں کے ساتھ غزہ کے لوگوں کی مدد کو پہنچے ہیں،مگر ان جہازوں پر موجود انسانی امداد کو غزہ کے شہریوں تک پہنچنے سے روکنے کیلئے اسرائیلی جنگی جہاز سمندر میں پہنچ گئے ہیں اور انہوں نے علاقے کی ناکہ بندی کر دی ہے۔اسرائیل اور مصر غزہ تک امداد کو پہنچنے سے روکنے کیلئے زمینی سرحدیں پہلے ہی بند کر چکے ہیں۔اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ اگر خبردار کرنے کے باوجود جہاز واپس نہ گئے تو اسرائیلی فورسز ان پرقبضہ کر لیں گی۔
 ادھر اسرائیلی نیوی کے جہاز محصور فلسطینیوں کیلئے امداد لے جانیوالے فریڈم فلوٹیلا کی مانیٹرنگ کر رہے ہیں،امدادی قافلہ ابھی غزہ کی سمندری حدود میں داخل بھی نہیں ہو پایا تھا کہ علی الصبح چار بجے کے قریب اسرائیلی نیوی کے آٹھ جہازوں نے غزہ سے 65 کلو میٹر دور قافلے پر حملہ کر دیا جس میں ہیلی کاپٹروں کا بھی استعمال کیا گیا۔جس میں کم از کم 20 افراد جاں بحق اور پچاس سے زائد زخمی ہو گئے۔جہاز پر موجود افراد کا دنیا بھر سے انٹرنیٹ رابطہ بھی منقطع کر دیا گیا ہے،قافلے میں شامل کارکنوں اور میڈیا اہلکاروں کو حراست میں لے لیا ہے۔ایک عرب ٹی وی چینل کے مطابق فریڈیم فورٹیلا میں شامل ترکی کے بحری جہاز سے ٹیلی فون موصول ہوا ہے کہ اسرائیلی بحریہ نے بحری جہاز پر فائرنگ کی،جس میں بحری جہاز کا کیپٹن زخمی ہو گیا علاقے میں فائرنگ کی آوازیں جاری ہیں۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اسرائیل نے امریکہ کی شہ پر اور اسکی سرپرستی میں ہی اسرائیلی ریاست عربوں کے قلب میں قائم کر کے فلسطینی عوام کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ جس کا مقصد فلسطینی عوام کی جدوجہد آزادی کے آگے بند باندھ کر فلسطین کی آزاد ریاست کو دنیا کے نقشے پر نمودار ہونے سے روکنا ہے۔ابھی دو روز قبل ہی امریکی صدر اوبامہ نے دہشت گردی کیخلاف جنگ سے متعلق نئی امریکی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے اسلام کے فلسفۂ جہاد کی اہمیت کا اعتراف کیا اور اعلان کیا کہ ہماری جنگ جہاد کیخلاف نہیں بلکہ دہشت گردی کیخلاف ہے جبکہ اب امریکی شہ پر اسرائیل کی جانب سے غزہ کے بے بس اور محصور شہریوں کی امداد کیلئے جانے والے قافلے پر دھاوا بولنا،درحقیقت ان امریکی عزائم کو بے نقاب کرنے کے مترادف ہے،جو پوری مسلم امہ کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کیلئے اسکے دل میں موجود ہیں،جن کا اسرائیل اور بھارت کے ذریعے فلسطین اور کشمیر میں عملی مظاہرہ کرانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔امریکی مفادات کی جنگ درحقیقت اسلام کے فلسفۂ جہاد کیخلاف ہی جنگ ہے کیونکہ وہ جذبہ جہاد سے سرشار مسلمانوں کو اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے اور اس بنیاد پر جہادی تنظیمیں امریکہ اور اسکے فطری اتحادی بھارت کے ہدف پر ہیں اور وہ جہاد کو دہشت گردی قرار دے کر پوری مسلم امہ کو اپنے نشانے پر لانا چاہتے ہیں۔ 
دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر امریکہ،بھارت،اسرائیل پر مشتمل شیطانی اتحاد ثلاثہ نے اس خطہ میں اپنے مفادات کی جنگ شروع کر کے درحقیقت خود دہشت گردی کی بنیاد ڈالی ہے اور اس کو فروغ دیا ہے،ورنہ کوئی کلمہ گو مسلمان دہشت گردی کے ذریعے بے گناہ انسانوں کا خون بہانے کا سوچ بھی نہیں سکتا،جبکہ اپنی آزادی کیلئے جہاد کرنے اور دشمن کا مقابلہ کرنے والے آزادی کے متوالوں کو دہشت گرد قرار دے کر حقائق کو چھپایا جا سکتا ہے،نہ آزادی کی کسی تحریک کو دبایا جا سکتا ہے،امریکہ اور بھارت کو اسی بنیاد پر جذبۂ جہاد سے سرشار مسلمانوں سے خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ کہیں فلسطین اور کشمیر پر ان کا تسلط ختم نہ ہو جائے اور مسلم امہ کو متحد ہو کر طاغوتی طاقتوں کے مدمقابل آنے کا موقع نہ مل جائے،چنانچہ جس طرح اسرائیل کی جانب سے نہتے فلسطینی عوام پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں،جس کی تازہ مثال غزہ کیلئے جانے والے امدادی قافلے کو گاجر مولی کی طرح کاٹنے کی صورت میں سامنے آئی ہے،اسی طرح ظالم بھارتی فوجوں کے ہاتھوں مظلوم و بے گناہ کشمیری عوام گزشتہ ساٹھ سال سے زائد عرصہ سے برباد ہو رہے ہیں اور بے بہا جانی و مالی قربانیاں دے رہے ہیں۔ 
کیا اس ننگی دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے دنیا کو متحرک اور بیدار نہیں ہونا چاہئے جبکہ یہ سفاکی ہی ردعمل میں خودکش حملوں کی راہ دکھاتی ہے اس لئے جس نیت اور ارادے کے تحت امریکہ بھارت،اسرائیل باہم متحد ہو کر مسلم امہ کیخلاف صف آراء ہیں،کیا مسلم امہ کیلئے بھی ضروری نہیں ہو گیا کہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہو کر اسلام کے جذبہ جہاد کی بنیاد پر اسلام دشمن طاغوتی طاقتوں کے مقابلہ کیلئے تیار ہو جائیں اور انکی اسلام پر غالب آنے کی سازشوں کا اپنے اتحاد و یکجہتی سے توڑ کریں۔امریکہ کو پاکستان کا ایٹمی قوت ہونا بھی اسی لئے کھٹکتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے اس سے مسلم امہ کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کا موقع ملے گا۔اس لئے اسرائیلی فضائیہ کو ایک بار ہماری ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کیلئے استعمال کیا جا چکا ہے،جس میں اسے منہ کی کھانی پڑی تھی۔
مگر ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی پر کنٹرول کرنے کے امریکی عزائم میں کوئی کمی نہیں آئی۔وہ دہشت گردی کے خاتمہ کی آڑ میں اب ہمیں براہ راست حملے کی دھمکیاں بھی دے رہا ہے،وہ ہمیں تو ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور کرتا ہے مگر اس نے نہ خود اور نہ ہی اسکے فطری اتحادی بھارت نے این پی ٹی پر دستخط کئے ہیں جبکہ اب اسرائیل نے بھی این پی ٹی پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے۔یہ شہ اسے امریکی آشیرباد سے ہی حاصل ہوئی ہے،اگر امریکہ اپنی اور اپنے اتحادیوں کی ایٹمی ٹیکنالوجی کے دفاع کے جواز پیش کرتا ہے اور پاکستان اور ایران کی ایٹمی ٹیکنالوجی پر پابندی عائد کرنے کے اقدامات کرتا ہے تو اس کی نیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا مقصد صرف مسلم امہ کو صف آراء ہونے سے روکنا ہے۔
اس صورتحال میں کیا اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی اور اسلامی کانفرنس کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ امریکہ،بھارت،اسرائیل کے ہاتھ روکنے کیلئے متحرک کردار ادا کرے اور اپنی روایتی غفلت کا لبادہ اتار دے۔
اسرائیلی بحریہ کی جانب سے غزہ کے شہریوں کو امداد سے محروم کرنے کی خاطر پورے امدادی قافلہ کی لوٹ مار اور قتل عام کرنا،ایسا واقعہ ہے جس کی صرف مذمت ہی پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے، یہی مناسب وقت ہے کہ خطہ میں ایک الگ اسلامی بلاک تشکیل دے کر طاغوتی طاقتوں کا راستہ روکا جائے،اس وقت اتفاق سے ترکی اور ایران بھی اس اتحاد کے خواہاں ہیں اور اسرائیل کے تازہ ترین حملے کا اصل شکار تو ترکی ہی بنا ہے،البتہ پاکستان مشرف دور سے بھی زیادہ امریکی بکل میں جا چھپا ہے،کیا پاکستان پارلیمنٹ وطن عزیز کو اس سے نکال کر اس اسلامی بلاک کا خواب پورا نہیں کر سکتی،جو صحیح معنوں میں شیطانی اتحاد ثلاثہ کا مقابلہ کر سکتا ہے،ورنہ یہ ظالم قوتیں تو مسلم امہ کو نیست و نابود کرنے پر تلی بیٹھی ہیں۔
 "روزنامہ نوائے وقت"
پہلے دہشت گردی کے محرکات کا سدباب کریں
خبر کا کوڈ : 27270
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش