0
Thursday 11 Jul 2013 18:07

دہشتگردی کا زور اور حکومتی تذبذب!

دہشتگردی کا زور اور حکومتی تذبذب!
تحریر: طاہر یاسین طاہر
 
ترجیحات کے تعین کا مسئلہ ہے اور کچھ بھی نہیں! حکومت خواہ کسی بھی جماعت کی ہو، اگر وہ ٹھان لے کہ اس نے معاشرے میں امن قائم کرنا ہے تو اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ تاریخ کے صفحات ایسے سینکڑوں واقعات سے بھرے پڑے ہیں کہ عدم تحفظ کے شکار معاشروں نے کس طرح کسی ایک لیڈر کی دور اندیشی اور جرات مندی کی بدولت ترقی کی منازل طے کیں۔ پی پی پی کی حکومت بھی اس دہشت گردی کو ختم نہ کرسکی، حالانکہ دہشت گردی کے خلاف پی پی پی کا مؤقف نہ صرف بڑا واضح ہے بلکہ اس جماعت نے اپنے کارکنوں سے لے کر اپنے لیڈروں تک کی قربانی دی۔ اے این پی کا قصہ بھی پی پی پی سے زیادہ مختلف نہیں، لیکن اس کے باوجود وہ سیاسی تذبذب ہی تھا جو انھیں کسی ایسی قانون سازی پر آمادہ نہ کرسکا، جس کی بدولت معاشرے پر حملہ آور درندوں سے ریاستی طاقت کے ساتھ نمٹا جا سکے۔ 

قومی انسدادِ دہشت گردی اتھارٹی کی تشکیل تو کی گئی مگر اس سے قومی مفاد کا کوئی کام نہ لیا جاسکا اور یہ طے ہی نہ کیا جاسکا کہ یہ اتھارٹی کس کے ماتحت کام کرے گی۔ سوال پھر وہی بنیادی کہ ترجیحات کا تعین۔ نئی حکومت کے آتے ہی دہشت گردوں نے جس طرح اس کا استقبال کیا یہ بہت سی غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے کافی ہے۔ ہمیں قومی سطح پر ایک ایسی پالیسی بنانا پڑے گی جو ہر قسم کے تشدد کو ریاستی سطح پر کچل ڈالے۔ ایک پالیسی اور ایک سوچ پر متفق ہونا پڑے گا۔ ہمیں اب سمجھ لینا چاہیے کہ یہ جنگ امریکی جنگ سے زیادہ پاکستان کی بقا کی جنگ بن چکی ہے۔ حقائق کو کھلے دل سے تسلیم کئے بغیر مسئلے کا حل ممکن نہیں۔ لوگوں کی دلچسپی مشرف پر آرٹیکل چھ کے اطلاق سے بڑھ کر اپنی جان کے تحفظ سے ہے۔

نون لیگ نے انتخابی مہم کے دوران جہاں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا ’’عہد‘‘ کیا تھا وہاں یہ بھی بڑے یقین سے کہا تھا کہ ہم اقتدار میں آکر ملک میں امن و امان کی صورتحال پر قابو پا لیں گے۔ دہشت گردی کے حوالے سے مذکورہ جماعت ایک خاص مؤقف رکھتی ہے۔’’اپنے لوگوں سے مذاکرات‘‘۔ عمران خان نے تو ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی بات اس تسلسل کے ساتھ کی تھی کہ انھیں طالبان خان تک کہہ کر پکارا گیا۔ لیکن اب جب کہ تحریکِ انصاف کے پی کے اور نون لیگ مرکز، بلوچستان اور پنجاب میں مسندِ اقتدار پر ہیں تو انھیں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے حوالے سے اپنے کیے گئے اقدامات سے قوم کو آگاہ کرنا چاہیے۔ لیکن ایسا ہوا ہی کچھ نہیں تو پھر آگاہی کیسی؟ بیانات کے سلسلے اب نہ تو دہشت گردی روک سکتے ہیں اور نہ ہی دہشت گردوں کے دل میں ہمدردی کا بیج بو سکتے ہیں۔
 
ہمارا المیہ مگر یہ ہے کہ ہم سارے جہاں کی ٹھیکیداری کرنے والے ہیں۔ ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ پورا عالمِ اسلام ہمارے ’’مفید‘‘ مشوروں کے سہارے ہی قائم و دائم ہے اور ہم نے اگر خارجی معاملات سے توجہ ہٹا لی تو عالمِ اسلام کو بڑا نقصان ہوگا۔ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے مگر یہ ان پالیسیوں ہی کا خمیازہ ہے کہ اب پاکستان میں امن کا خواب افغانستان میں امن کے قیام سے مشروط ہوچکا ہے۔ اگر وہاں امن نہیں ہوتا تو یہاں لاشیں گرتی رہیں گی۔ اگر ہم نے واقعی’’بڑا‘‘ بننا ہے تو ہمیں پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ غیر ملکی جنگجو کیونکر وزیرستان میں خیمہ زن ہوئے اور سوات میں ’’طالبانی شریعت کے نفاذ‘‘ میں کون کون سے عناصر مددگار و معاون بنے۔ 

وزیرِاعظم میاں محمد نواز شریف صاحب نے اپنے آفس میں فاٹا سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ سے ملاقات میں کہا کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتے، دہشت گردی ختم کرکے ہی دم لیں گے، ساتھ ہی مذاکرات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مذاکرات کا دروازہ ہر وقت کھلا رہنا چاہیے۔ انھوں نے قبائلی علاقوں کو امن کا تحفہ دینے کی بات بھی کی اور یہ بھی تسلیم کیا کہ دہشت گردی ایک سنگین چیلنج ہے اور اس کے ہوتے ہوئے لوگوں کا معیارِ زندگی بہتر نہیں بنایا جا سکتا۔ لا ریب، معیشت کی بحالی امن کی بحالی سے ہی مشروط ہے، لیکن اہم سوال یہ ہے کہ دہشت گردی تو روز ہو رہی ہے، قومی اتفاقِ رائے کی پالیسی کب بنے گی؟ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اب تک اس سنگین قومی مسئلے سے نمٹنے کے لیے کوئی متفقہ قومی مؤقف کیوں نہ سامنے آسکا؟ 

دہشت گردوں نے جس طرح نئی حکومت کو اپنی طاقت اور موجودگی کا احساس دلایا، اس اسے یہ زعم تو دور ہو جانا چاہیے کہ یہ ہمارے اپنے ہی لوگ ہیں۔ مذاکرات اگر کئے بھی جاتے ہیں تو کس سے کئے جائیں گے؟ کیا صرف کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان ہی دہشت گردی میں ملوث ہے یا اس سے الحاق کرنے والی دہشت گرد تنظیم لشکرِ جھنگوی بھی؟ کیا جنودِ حفضہ سے بھی مذاکرات کئے جائیں گے؟ مولوی صوفی محمد والے گروہ کا کیا بنے گا؟ مولوی فضل اللہ کو کیسے نظر انداز کیا جائے گا؟ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ ریاست جب کسی تنظیم یا گروہ کو اس کی ریاست مخالف سرگرمیوں کی بنا پر کالعدم قرار دیتی ہے اور اسکی متشدد پسندانہ کارروائیوں کی بنا پر اسے دہشت گرد بھی قرار دیتی ہے تو پھر اس کے خلاف بھر پور کارروائی کرنے کے بجائے نیم دلانہ کارروائی کیوں کرتی ہے؟ اور پھر ایسی کیا مجبوری آن پڑتی ہے کہ ان سے مذاکرات کی بات کی جاتی ہے۔؟ ہاں پارلیمنٹ کو ایسی قانون سازی کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے، جس سے دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جاسکے، کیونکہ بہت سے نامزد دہشت گرد قانونی سقم کا فائدہ اٹھا کر ’’با عزت‘‘ بری ہو جاتے ہیں۔ 

اگر کوئی یہ دلیل تراش لاتا ہے کہ امریکہ دوحہ میں طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے تو اس کے لیے اطلاع ہے کہ مذکورہ مذاکرات افغانی طالبان کے بے لچک رویے کی نذر ہوچکے ہیں۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر کہ امریکہ اور طالبان کے اگر مذاکرات ہوتے بھی ہیں تو یاد رہے کہ امریکہ خطے سے جا رہا ہے اور طالبان امریکہ کی کسی بھی ریاست میں سرگرم نہیں جبکہ پاکستان کا مسئلہ دوسرا ہے۔ پاکستان نے اس خطے سے کہیں نہیں جانا اور طالبان اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں سے پاکستانی ریاست کے پرخچے اڑا رہے ہیں۔ یوں اپنی تزویراتی پوزیشن کے حوالے سے پاکستان اور امریکہ کا معاملہ ایک ہی عینک سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ دہشت گردی ایک ثابت شدہ مسئلہ ہے، اس پر لمبی چوڑی کانفرنسیں بلانے کی ضرورت کیا ہے۔؟ پارلیمنٹ موجود ہے اور قابلِ ذکر سیاسی جماعتیں بھی اپنے اپنے مینڈیٹ کے ساتھ۔ تذبذب سے نکلنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف ریاستی طاقت استعمال کی جائے یا پھر مذاکرات کے نام پر ان کی طاقت کو تسلیم کر لیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 282059
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش