0
Monday 26 Aug 2013 11:52

مذاکرات، مگر کس کے ساتھ؟

مذاکرات، مگر کس کے ساتھ؟
تحریر: تصور حسین شہزاد

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں نے واشگاف انداز میں کہا ہے کہ حکومت دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے صرف ایک ہی آپشن پر غور کر رہی ہے اور وہ ہے مذاکرات، مذاکرات اور مذاکرات۔ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے اس بات پر اصرار کیا کہ ملک کو درپیش دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کا بہترین اور واحد راستہ صرف مذاکرات ہیں اور اس ضمن میں حکومت اور فوج اس بات پر متفق ہیں اور دونوں ہی مذاکراتی عمل کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ کے غیر مبہم انداز میں شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی اہمیت بارے وضاحت نے ان خدشات کی نفی کر دی ہے جو اس حوالے سے مختلف حلقوں کی جانب سے پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ خاص طور پر طالبان کے مختلف گروہوں کے درمیان مسلم لیگ (ن) کے تازہ ترین موقف پر شدید اختلافات سامنے آنے سے حالات کی گھمبیرتا پریشان کن حد تک فزوں تر ہوتی جا رہی تھی۔

اس حوالے سے رانا ثناء اللہ صوبائی وزیر قانون پنجاب کے اس بیان نے تشویش میں اضافہ کر دیا کہ طالبان سے مذاکرات کے مسئلے پر فوج اور حکومت ایک صفحے پر نہیں ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے رانا ثناء اللہ کے بیان کا فوری نوٹس لیتے ہوئے اسے ان کی انفرادی سوچ قرار دے کر غلط فہمیاں پیدا ہونے سے پہلے ہی ان کا ازالہ کر دیا، جو بعدازاں کسی نادیدہ طوفان کا موجب بن سکتی تھیں۔ وفاقی وزیر داخلہ کی جانب سے بھی یہ خوش آئند اشارہ ملا ہے کہ شدت پسندی کے خاتمے کیلئے حکومت اور فوج میں جتنی ہم آہنگی اور یک سوئی موجودہ دورانیے میں دیکھنے کو مل رہی ہے ایسی پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ ضرورت بھی اسی بات کی ہے کہ آج تمام ذمہ دار ادارے اور افراد ملک کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے کیلئے ایک ہی موقف اپنائیں۔ آج تک اس سیل بلا سے چھٹکارا نہ پائے جانے کی بنیادی وجہ ہی یہی ہے کہ سیاسی و عسکری حلقوں میں دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کے لئے کسی متفقہ طرزعمل پر یکساں موقف اپنانے کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکیں، حالانکہ اس مسئلہ پر حکومتی اور سیاسی سطح پر کئی بار اے پی سی کا انعقاد کیا جاتا رہا مگر یہ سب بے نتیجہ رہیں۔

ابھی حال ہی میں موجودہ حکومت نے ایک اور اے پی سی بلانے کا اعلان بھی کیا، تاریخ بھی دے دی مگر بوجوہ یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی، اس لئے موجودہ حکومت کو اب ازخود اس راستے پر آگے بڑھنے کے لئے خود انحصاری کے تحت اقدام کرنا پڑ رہا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو وزیر داخلہ کے اس دعوے کی تصدیق کرتی ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے فوج اور سیاسی قیادت کی سوچ میں ہم آہنگی پیدا ہوچکی ہے اور دونوں حلقوں کے درمیان تفاوت یا اختلافات کی خبریں بے بنیاد ہیں۔ چوہدری نثار علی خاں نے طالبان سے مذاکرات کے لئے کسی قسم کی پیشگی شرائط عائد کرنے کی بھی تردید کر دی ہے، جس سے یقیناً طالبان کے حلقوں میں پیدا ہونیوالا ردعمل شدت اختیار کرنے سے پہلے ہی ختم ہونے کی امید بندھی ہے۔ وزیر داخلہ کی یہ بات وزن دار ہے کہ مذاکرات کا عمل شروع کرنے سے پہلے ہی طرفین کی جانب شرائط عائد کرنے سے یہ عمل نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکے گا۔ انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ وہ قومی اسمبلی میں گذشتہ دور میں بطور قائد حزب اختلاف شدت پسندوں کے خلاف طاقت کے استعمال کے بجائے مذاکرات کی حمایت کرتے رہے ہیں اور آج جب انہوں نے پاکستان کی سلامتی کو درپیش سنگین بحرانوں کے خاتمے کے لئے اپنی مرضی سے وزارت داخلہ لی ہے تو اپنے اس ویژن کے مطابق دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں مثبت پیشرفت کرنے سے کیوں اقرار نہ کریں گے۔؟

ہم سمجھتے ہیں کہ وزیر داخلہ دہشت گردوں سے مذاکرات کے لئے ضرور سنجیدہ ہیں اور ان کی جدوجہد سے انکار کی کوئی وجہ بھی نہیں، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سا فریق ہوگا جسے وزیر موصوف اپنی مخلصانہ کوششوں میں معاون بنانے کے لئے مذاکرات کی میز پر لاسکیں گے۔ انہیں اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ پاکستان میں منفی سرگرمیوں میں ملوث کوئی ایک گروہ نہیں اور نہ ہی یہ کسی ایک بیرونی طاقت کے ایجنٹ ہیں۔ ہماری خفیہ ایجنسیوں کے پاس یقیناً ان تمام گروہوں اور مبینہ بیرونی طاقتوں کے ایجنٹوں کی تفصیلات ہوں گی، جو پاکستان کو اندرونی طور پر عدم استحکام پیدا کرنے کی مذموم سازشوں میں شریک ہیں۔ کراچی میں سرگرم عمل مختلف گروہ بھی کسی ایک پاکستان دشمن قوت کے ہاتھوں میں نہیں کھیل رہے۔ پاکستان کے اس اہم ترین معاشی مرکز میں بہت سے عناصر اپنے اپنے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں بھی بدامنی پیدا کرنے والے مختلف گروپس ہیں۔ کے پی کے میں بھی کئی گروہوں نے اپنے اپنے دھندے شروع کر رکھے ہیں۔

وزارت داخلہ کے انچارج کی حیثیت سے چوہدری نثار علی خاں کے پاس اپنی ایجنسیوں کی طرف سے موصولہ رپورٹس میں اس بارے میں یقیناً ساری تفصیلات درج ہوں گی، جو وزیر موصوف نے پڑھ بھی رکھی ہوں گی، جن سے وہ اپنی موجودہ پالیسی کے سلسلے میں رہنمائی بھی لے چکے ہوں گے تو کیا ان سب گروہوں سے مذاکرات کے سلسلے میں موثر رابطوں کی کوئی سبیل بن رہی ہے؟ یہ سوال ابھی تشنۂ جواب ہے۔ گو کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے پاکستان میں طالبان کے مبینہ ہمدرد و بہی خواہ مولانا سمیع الحق سے بھی اس معاملے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی اپیل کی تھی ۔تازہ ترین اطلاعات ہیں کہ امریکہ نے بھی افغان طالبان سے مذاکرات کے لئے ایک بار پھر مولانا سمیع الحق سے رابطہ کرکے انہیں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے کہا ہے۔ شنید ہے کہ مولانا فضل الرحمن بھی حکومت پاکستان اور امریکہ سے اسی قسم کے رابطوں کے منتظر ہیں، مگر وزیراعظم کے قوم سے خطاب میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے مذاکرات اور طاقت کے استعمال کی آپشنز کے جواب میں طالبان کی طرف سے اسے اعلان جنگ قرار دے کر مزاحمت جاری رکھنے کے اعلان میں مولانا فضل الرحمن اور سید منور حسن پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے، جس سے یقیناً شدت پسندوں نے رابطہ کاری کے ذرائع محدود کرکے صورت حال میں کسی مثبت تبدیلی کے امکانات مسدود کرکے مایوسی میں اضافہ کر دیا ہے۔

اس تناظر میں وزیر داخلہ مذاکرات، مذاکرات اور صرف مذاکرات کے ایجنڈے کو کیسے بروئے کار لائیں گے؟ وزیراعظم میاں نواز شریف کی اندرون و بیرون ملک انٹرویوز اور بیانات میں شدت پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے اظہار عزم کی تحسین اپنی جگہ، حکومت کی نیت پر شک کرنے کی وجہ تو نہیں مگر قرائن بتا رہے ہیں کہ یہ سارا عمل یکطرفہ طور پر سامنے آ رہا ہے، وہ لوگ جن سے مذاکرات کرکے ہمیں ملک سے شدت پسندی کے خاتمے کی امید دلائی جا رہی ہے، وہ فی الحال اس پر آمادہ نظر نہیں آتے، کسی ایک ڈرون حملے کی ذمہ داری حکومت پاکستان پر ڈال کر مذاکرات سے روگردانی کرنے والوں کا وزیراعظم کی تقریر کا باریک بینی سے جائزہ لئے بغیر اسے حکومت کا اعلان جنگ قرار دینا ان کی عاقبت نااندیشانہ سوچ کا مظہر ہے۔ فوری اشتعال میں آکر بے گناہ انسانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے پر تیار شدت پسندوں کو اپنا طرزعمل تبدیل کرنے پر کون آمادہ کرے گا اور کیسے، اس کا طریق کار کون اور کب طے کرے گا۔؟
خبر کا کوڈ : 295741
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش