1
0
Monday 23 Sep 2013 00:47

سید منور حسن، طالبان کے نئے ترجمان؟

سید منور حسن، طالبان کے نئے ترجمان؟
تحریر: ابن آدم راجپوت

امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن کمال کے مذہبی سیاسی رہنما ہیں۔ طنزیہ تقریروں کے لئے واقعی لفظوں کا ذخیرہ رکھتے ہیں اور تقریریں بھی سوالیہ انداز میں مخالف پر تابڑ توڑ حملوں کے ذریعے کرتے ہیں۔ لیکن آج تک ان کے منہ سے طالبان اور القاعدہ کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں نکلا۔ وہ قومی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ان دہشت گرد تنظیموں کی مدح سرائی میں وہ بہترین ترجمانی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ امیر جماعت اسلامی کم اور طالبان کے ترجمان زیادہ لگتے ہیں۔ چند دن انتظار کے بعد قلم اٹھایا ہے کہ شاید کسی سیاسی، مذہبی جماعت یا پھر خود حکومت یا فوج کی طرف سے موصوف کے بیان پر ردعمل سامنے آجائے۔

منصورہ آڈیٹوریم میں مصر اور شام پر ہونے والے سیمینار سے اپنے خطاب میں اپر دیر میں فوجی افسران کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے سید منور حسن نے کہا کہ طالبان کیسے سیز فائر کرسکتے ہیں جبکہ فوج نے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یعنی وہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ طالبان ریاستی فوج ہیں، جس پر باغی حملے کر رہے ہیں۔ انہوں نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ نعوذ باللہ طالبان کے فوج پر حملے جائز اور آئینی ہیں، کیونکہ فوج ان پر حملے کر رہی ہے اور طالبان اپنا دفاع کر رہے ہیں۔ شاباش! منور حسن صاحب ۔۔۔۔۔ شاباش! ۔۔ آپ کو تو تمغہ شجاعت ملنا چاہیے۔ جو پاکستان کے باغیوں کو حق پر سمجھتے ہیں اور ملک کی فوج پر حملوں کو طالبان کا حق قرار دیتے ہیں۔

امیر جماعت اسلامی کی طرف سے اختیار کیا گیا موقف شاید اس لئے ہے کہ جماعت اسلامی اور دیوبند مدارس اور علماء نے قیام پاکستان کی ڈٹ کر مخالفت کرکے کانگریسی نمک خوار ہونے کا ثبوت دیا تھا اور اب یہ ملک دشمن انتہا پسند قوتیں، نہیں چاہتیں کہ مادر وطن میں استحکام پیدا ہو۔ طالبان اور القاعدہ وہ دہشت گرد گروہ ہیں، جنہیں امریکی سی آئی اے نے جہاد افغانستان میں کامیابی کے لئے پیدا کیا، اور پھر کرائے کے ان قاتل جنگجووں کو آزاد چھوڑ دیا۔ اس وقت کی پاکستانی حکومت اور خود فوج میں موجود عناصر بھی اس ناسور کو پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ مگر اب دہشت گردی کے تناظر میں جو صورت حال خود ملک اور فوج کے لئے پیدا ہوگئی ہے، شرمناک اور تکلیف دہ ہے۔

اپر دیر کے علاقے میں میجر جنرل ثناءاللہ خان کی قیادت میں ایک فوجی کانوائے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا کہ صرف آفیسرز کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ باقی کسی گاڑی کو ٹارگٹ نہیں کیا گیا۔ ایک تو خود فوج کو اپنے اندر کالی بھیڑوں کو ڈھونڈنے کی ضرورت ہے، جو دہشت گردوں کو افسران کی نقل و حرکت کے بارے میں مطلع کرتے ہیں۔ دوسرا سید منور حسن صاحب فرمائیں کہ کل جماعتی کانفرنس کے مذاکرات کے فیصلے کے بعد اپر دیر میں جارح کون ہے؟ طالبان یا فوج۔ طالبان نے کل جماعتی کانفرنس کے بعد حکومت کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش قبول کرنے کے بعد حملہ کرکے ثابت کیا ہے کہ جارح تو طالبان ہیں، جنہوں نے حملے کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ فوج سے حالت جنگ میں ہیں۔ جنگ تو دشمن کے خلاف لڑی جاتی ہے۔ ایک پاکستانی ہونے کے ناطے میرے لئے خطرے کی گھنٹی ہے کہ جماعت اسلامی جیسی جماعت طالبان کی ترجمانی اور دفاع شروع کرچکی ہے، تو ارباب اختیار کو سوچنا ضرور چاہئے۔

یہاں مجھے سابق امیر جماعت اسلامی مرحوم قاضی حسین احمد رحمتہ اللہ علیہ شدت سے یاد آرہے ہیں، جن کی گفتگو کے دوران ان کے نورانی چہرے پر مسکراہٹ رہتی۔ انہوں نے ہمیشہ پاکستان اور اس کے عوام کی بات کی۔ وہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ کو امریکہ کی جنگ قرار دیتے، مگر انہوں نے اپنے جانشین سید منور حسن کی طرح طالبان کی ترجمانی کبھی نہیں کی۔ وہ معتدل سیاستدان کے طور پر جانے جاتے تھے۔ مختلف مسالک کے درمیان ہم آہنگی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مرحوم شاہ احمد نورانی اور علامہ ساجد علی نقوی کے ساتھ مل کر قاضی حسین احمد نے ملی یکجہتی کونسل تشکیل دی۔

سید منور حسن نے اپنی تقریر میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپر دیر کے سانحہ میں طالبان کے ہاتھوں فوجی افسران کی شہادت پر بہت غصے میں تھے، لیکن انہیں یہ غصہ سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی فوج کے حملے اور ڈرون طیاروں کے پاکستان پر حملوں پر نہیں آیا۔ شاید منور حسن نہیں جانتے کہ سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد نیٹو سپلائی پاکستان کی طرف سے بند کر دی گئی تھی اور ظاہر ہے کہ وہ صرف سول حکومت کا اپنا فیصلہ نہیں تھا بلکہ فوج ہی کا دباو تھا، جس پر امریکہ کو آنکھیں دکھانی پڑیں۔

میرے لئے منور حسن کی طالبان ترجمانی سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت اور سیاسی قیادت نے باقاعدہ طور پر امیر جماعت اسلامی پاکستان کے بیان کا نوٹس نہیں لیا۔ ایجنسیاں اور فوج بھی ابھی تک متوجہ نہیں ہوئی۔ حکومت کو چاہیے کہ سید منور حسن کے بیان اور پنجاب یونیورسٹی لاہور کے ہاسٹلز میں سے اسلامی جمعیت طلبہ کے رہنما کے کمرے سے القاعدہ کے دہشت گرد کی گرفتاری کے واقعہ کو ملا کر سوچیں کہ ملک دشمن عناصر کہاں کہاں موجود ہیں اور انکے تانے بانے کس سے جاکر ملتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 304342
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بہت خوب، قاضی حسین صاحب اور اس قاضی شریح میں بہت فرق ہے۔
ہماری پیشکش