0
Sunday 13 Oct 2013 14:39

نون لیگ کی عوام کش پالیسیاں

نون لیگ کی عوام کش پالیسیاں
تحریر: طاہر یاسین طاہر
 
موضوعات کا ڈھیر لگا ہوا ہے، بہت سی چیزوں پر لکھنے کو طبیعت آمادہ بھی، لیکن تازہ افتاد کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟ حکومت نے جس طرح عدالتِ عظمٰی کو چکمہ دیا، یہ نون لیگ کی جانب سے عدلیہ کے ’’احترام‘‘ کی ادنٰی سی مثال ہے۔ حکومت اگرچہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ ’’عوامی‘‘ ہے اور اس کا ہر اقدام عوامی مفاد میں ہی ہے، لیکن گیارہ مئی 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں جو حکومت عوام پر ’’مسلط‘‘ ہوئی، اس نے عام آدمی کی زندگی میں دکھوں کا ایسا زہر گھولنا شروع کیا کہ لوگ اپنے کءے پر پچھتا رہے ہیں۔ سادہ بات مگر حکمران قسم کے لوگوں کو سمجھ نہیں آتی۔ سیاستدانوں نے سوائے کھوکھلے نعروں کے پاکستانی عوام کو کیا دیا ہے۔؟ 

میاں نواز شریف صاحب کی جماعت جب اپنی انتخابی مہم چلا رہی تھی تو اس نے بجلی بحران کے خاتمے، روزگار کی فراہمی اور مہنگائی میں کمی کرنے جیسے عوام دوست وعدے کرنا شروع کر دیئے تھے۔ یہی نہیں بلکہ دہشت گردی کو امن مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا، لیکن ابھی تک جو کچھ ہوتا چلا آرہا ہے وہ انتہائی افسوسناک اور المیہ ساز ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے جو دکھ پانچ سالوں میں دیئے نون لیگ کی حکومت وہ سارے کام تین ماہ کے قلیل عرصے میں کر گزری ہے اور ابھی نامعلوم کتنی دشواریاں عوام کو اور سہنا پڑیں گی۔ 

لاریب ملک میں توانائی کا بحران ہے اور اس بحران کا خالق پاکستان کا حکمران طبقہ ہی ہے۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ حکمران طبقے کی غلطیوں کا خمیازہ بھی عام آدمی ہی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس ماہ کی ابتدا میں حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا تھا، جس پر اپوزیشن نے احتجاج کیا، مگر اصل کام عدلیہ کا تھا، بجلی کے نرخوں میں اضانے پر عدالتِ عظمٰی نے ازخود نوٹس لے لیا، اور سوال اٹھایا کہ نیپرا کے ہوتے ہوئے حکومت کس طرح قیمتوں میں اضافہ کرسکتی ہے؟ وزیرِ اطلاعات صاحب نے ہوا کا رخ دیکھ کر نسخہ تجویز کیا اور کہا کہ عوام کو کڑوی گولی نگلنا ہی پڑے گی۔ عدالت اپنے آزاد ہونے کا احساس دلاتی رہتی ہے، حکومت مگر ماہر سیاستدانوں کی ہے، عدالتی حکم تسلیم کیا گیا اور آخرِ کار یہ نوید سنائی گئی کہ حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں کیا گیا اضافہ واپس لے لیا ہے۔
 
لیکن غریب کی خوشی بھی عارضی ثابت ہوئی اور جیسے ہی ہمارے وزیرِ خزانہ صاحب نے امریکہ کی سرزمین پر قدم رنجہ فرمایا تو پھر وہی ہوا جو آئی ایم ایف نے چاہا۔ حکومت نے لمحہ بھر کی دیر بھی نہ کی۔ نیپرا کو کام میں لائی اور عید قربان سے پہلے ہی عوام کو عالمی معاشی ادارے کے مفادات پر قربان کر دیا۔ نیپرا نے بجلی کی نئی قیمتوں کا تعین کر دیا، جس کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق ایک سے 50 یونٹ تک بجلی کی قیمت 2 روپے فی یونٹ ہوگی۔ 51 سے 100یونٹ تک بجلی کی قیمت 5 روپے 79 پیسے فی یونٹ ، 101 سے 200 تک بجلی کی قیمت 8 روپے 11 پیسے فی یونٹ، 201 سے 300 یونٹ تک 12 روپے 9 پیسے فی یونٹ، 301 سے 700 تک فی یونٹ 16 روپے جبکہ 700 سے اوپر بجلی کی قیمت 18 روپے فی یونٹ ہوگی، اور بجلی استعمال نہ کرنے کی صورت میں صارفین کو 75 روپے بل ادا کرنا ہوگا۔
 
قبل ازیں نیپرا نے اعداد و شمار کے ہیر پھیر کے بعد سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں بجلی کی قیمتوں کا وہی فارمولا پیش کیا، جس کا اطلاق وفاقی حکومت نے یکم اکتوبر سے کیا تھا، تاہم سپریم کورٹ نے اسے معطل کرتے ہوئے معاملہ نیپرا کو بھجواتے ہوئے قیمتوں پر نظرثانی کا حکم دیا تھا۔ مگر نظر جو پہلی تھی وہی ثانی بھی ہوئی اور حکومت کے بجائے نیپرا کے ذریعے نرخوں میں اضافے سے آئینی سقم بھی دور ہوا، اور حکومت کو آسانی بھی ہوئی۔ ایک طرف بجلی کے نرخوں میں ظالمانہ اضافہ کیا گیا تو دوسری طرف بجلی کا بحران اسی تاب سے جاری ہے، جو آج سے پانچ سال پہلے تھا اور لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں کوئی کمی نہیں آئی۔ نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی کے مطابق اس وقت بجلی کی پیداوار 12 ہزار 100میگاواٹ ہے جبکہ طلب 16 ہزار میگاواٹ ہوگئی، بجلی کی ہائیڈل پیداوار 4 ہزار 290 میگاواٹ، تھرمل ایک ہزار 660 اور آئی پی پیز سے 6 ہزار 150 میگاواٹ بجلی مل رہی ہے۔ بجلی کی طلب اور پیداوار میں فرق کے باعث شہروں میں 10 سے 12 گھنٹے جبکہ دیہات میں 14 سے 16 گھنٹے بجلی بند رہتی ہے۔ دریں اثنا سیینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی میں گذشتہ سے پیوستہ روز اس وقت دلچسپ صورتحال پیش آئی جب وزیر مملکت عابد شیر علی نے خیبر پختونخوا میں بجلی چوری کی بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بڑے بجلی چوروں کے نام بتا دوں تو سب حیران رہ جائیں۔ 

ہمیں یہ امر تسلیم کرنا پڑے گا کہ بااثر طبقہ بجلی چوری میں نہ صرف ملوث ہے بلکہ بجلی و گیس چوروں کی سرپرستی بھی کرتا ہے۔ سوال مگر وہی بنیادی ہے کہ اگر مختلف گروہ اس قدر طاقتور ہو جائیں تو پھر ریاستی رٹ کو کس طرح بروئے کار لایا جائے گا؟ جہاں تک بجلی چوری یا لوڈشیڈنگ کا معاملہ ہے، تو اگر گذشتہ سے موجودہ حکومت تک، بہتر حکمتِ عملی اختیار کرتیں تو اس مسئلے سے نمٹا جاسکتا تھا، لیکن اس انتہائی اہم اور قومی نوعیت کے معاملے سے نمٹنے کے لیے جز وقتی حل تلاش کرنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔ ماہرین مختلف تجاویز پیش کر رہے ہیں، تھر کول پراجیکٹ بھی حکومت کی عدم دلچسپی کا شکار ہے تو ونڈ پاور انرجی سے کس طرح استفادہ کرنا ہے، اور قدرتی ساحلی پٹی کو کس طرح کام میں لانا ہے، اس پر بھی کوئی سنجیدہ کام ہوتا نظر نہیں آیا، البتہ توانائی بحران کو ٹالنے کا جو انوکھا طریقہ اختیار کیا گیا وہ یہی ہے کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت اس قدر بڑھا دی جائے کہ عام آدمی اس کے استعمال کے تصور سے ہی تھر تھر کانپنے لگے۔
 
المیہ مگر یہ ہے کہ ریاست اپنی ذمہ داریوں سے غافل نظر آتی ہے۔ عوام کو مختلف کارپوریشنوں اور کمپنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ جب جس کا جی چاہتا ہے اپنا خونی ہاتھ عوام کی جیب میں ڈال دیتا ہے۔ عالمی مفادات کی نگہبانی کا عہد کرکے اقتدار میں آنے والے حکمران طبقہ سے کسی خیر کی توقع نہیں۔ وزیرِ خزانہ نے نوید سنائی ہے کہ اب امریکہ کے ساتھ مل کر توانائی کے بحران کو ختم کریں گے۔ تفصیلات میں جانے سے حاصل کیا؟ معاشی ماہرین اس پہ عرق ریزی کریں اور اعداد و شمار کے مختلف زاویوں سے بتائیں کہ ہم توانائی کے اس بحران کا شکار کیوں ہوئے اور اس کا حل کیا ہے؟ میرا سوال مگر بڑا سادہ سا ہے۔ کوئی دو سال ادھر کی بات ہوگی، ایران نے برملا کہا تھا کہ توانائی بحران کے حل سمیت پاکستان کے ہر مسئلے کا حل اس کے پاس موجود ہے، لیکن اس پر ہمیں سابق وزیرِ خارجہ کا یہ بیان بھی یاد آتا ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن پر عالمی تحفظات کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ بہت سی جزیات نے مل کر مسائل کے کل کو جنم دیا ہے۔ 

نون لیگ کو امریکہ اور سعودی عرب البتہ یہ چکمہ دیئے رکھیں گے کہ ہم پاکستان کے سارے مسئلے رفتہ رفتہ حل کر دیں گے۔ آخری تجزیے میں وہ حکومت جو خوف کا شکار ہو اور فیصلہ سازی میں بیرونی دباؤ کے سامنے ڈھیر ہوتی رہے، وہ عوامی بھلائی کا ایک کام بھی انجام نہیں دے سکتی۔ نون لیگ جن پالیسیوں پر تنقید کرکے اقتدار میں آئی ہے، اس نے انہی معاشی پالیسیوں کو تیز رفتاری کے ساتھ نافذ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اسے شاید کوئی جلدی بھی ہے۔ کوئی ایسا انتقامی جذبہ بھی جو عام آدمی کے جسم سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لینے کو بے قرار ہے۔
خبر کا کوڈ : 310713
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش