0
Wednesday 30 Oct 2013 00:46

امریکہ کا اصل چہرہ

امریکہ کا اصل چہرہ
تحریر: محمد علی نقوی

اسلامی جمہوریہ ایران کے ایک سابق وزیر خارجہ نے ایک محفل میں ایک سوال کے جواب میں بڑا خوبصورت اور بر محل جواب دیا تھا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ امریکہ میں بغاوت یا حکومتوں کے خلاف کودتا کیوں نہیں ہوتا جبکہ اکثر ممالک میں آئے روز اسطرح کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ منوچہر متکی نے اپنے مخصوص متبسم چہرے اور نہایت معصومیت کے ساتھ جواب دیا کیونکہ وہاں امریکی سفارتخانہ نہیں ہے۔ متکی کا یہ تبصرہ یا لطیف جملہ امریکی پالیسیوں خاص طور پر اس کی خفیہ ایجنسیوں کی منفی اور غیر قانونی حرکات کا نچوڑ ہے۔ متکی صاجب کی بات اپنی جگہ سوفیصد درست ہے لیکن جب سے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ وغیرہ کا دور آیا ہے، امریکہ نے اپنے سفارتخانوں کے ساتھ ساتھ  اپنے ملک میں ہی ایسی سائبری جنگ شروع کر رکھی ہے کہ جس سے امریکہ کے اپنے دوست بھی محفوظ نہیں۔ جب سے امریکی جاسوسی کے سابق ملازم اسنوڈن نے انکشافات کئے ہیں، ہمارے جیسے لوگوں کی بات کی تائید ہوگئی ہے، جو عرصے سے کہہ رہے تھے کہ امریکہ پوری دنیا کو اپنے انٹیلیجنس نیٹ ورک سے کنٹرول کرنے کا خواہشمند ہے۔ حال ہی میں سامنے آنے والے امریکی جاسوسی اسکینڈلز اس بات کو ثابت کر رہے ہیں۔

امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے سابق افسر نے پریس ٹی وی سے گفتگو میں کہا ہے کہ امریکہ تمام ملکوں کے حکام کی جاسوسی کر رہا ہے۔ وائينہ میڈسن نے پریس ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ دنیا میں کوئی بھی اعلٰی سرکاری عھدیدار جو الکٹرانیک مواصلاتی ذرائع سے استفادہ کرتا ہے، امریکی جاسوسی کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے تمام ملکوں کے حکام کی جاسوسی کرنے کا پلان بنا رکھا ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ نے جرمنی، فرانس، برازیل اور مکسیکو سمیت کئی ملکوں کے سربراہوں کی جاسوسی کی ہے، جس پر ان ملکوں کی حکومتوں نے امریکہ سے وضاحت طلب کرلی ہے اور شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی سی آئی اے کے سابق افسر ایڈورڈ اسنوڈن نے ہزاروں دستاویزات کا انکشاف کیا ہے، جن سے امریکہ کے عالمی جاسوسی پروگرام کی قلعی کھل گئی ہے۔

برطانوی اخبار گارڈین نے پہلی بار امریکہ کی حکومت کی خفیہ دستاویزات کو منظر عام پر لانے والے ایڈورڈ اسنوڈن کی رپورٹ شائع کی ہے، اس رپورٹ میں کہا گیا کہ (این ایس ای) کی جانب سے کروڑوں امریکیوں کا بائیو ڈیٹا جمع کیا گیا ہے۔ جرمنی کے ہفت روزہ جریدے اشپیگل نے بھی اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے فوراً بعد انکشاف کیا کہ جاسوسی کا یہ پروگرام صرف امریکہ کے عوام کی ای میلز اور ٹیلی فونی گفتگو تک محدود نہیں کیا جاسکتا بلکہ واشنگٹن و نیو یارک میں غیر ملکی سفارت خانوں اور شخصیات کی بھی جاسوسی کی جاتی ہے۔ تازہ ترین انکشافات سے نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکہ عالمی مالیاتی بینک سسٹم کے مواصلاتی نظام یعنی سوئیفٹ بینک سسٹم کی بھی دنیا بھر خاص طورپر یورپی ممالک میں بھی جاسوسی کرتا ہے۔ یہ ایسی صورت حال میں ہے کہ یورپی یونین اور امریکہ کے درمیان 2010ء میں طے پانے والے معاہدے کے مطابق صرف دہشتگردوں کے مالی ذرائع کی تلاش کے لئے معلومات فراہم کرنے میں مدد کی جاسکتی ہے اور یہ اطلاعات و معلومات امریکہ کی وزارت خزانہ میں منتقل ہوں۔ 

بہرحال اسنوڈن کے انکشافات سے نشاندہی ہوتی ہے کہ یورپی ممالک اس طرح کے دعوے کرتے ہیں، کے برخلاف (این ایس ای) کی جاسوسی کے پروگرام سے کسی حد تک مطلع ہیں۔ بعض ممالک خاص طور پر برطانیہ کے جاسوسی کے ادارے بھی سرگرم طریقے سے امریکہ کی (این ایس ای) کے ساتھ تعاون کر رہی ہیں۔ اگرچہ یہ پہلی بار نہیں کہ عالمی برادری کا ایک رکن، کسی دوسرے ملک کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لئے سائبر اسپیس سے فائدہ اٹھا رہا ہو، لیکن امریکہ کے جاسوسی کے وسیع پروگرام کے برملا ہونے سے نشاندہی ہوتی ہے کہ مختلف ملکوں کے درمیان جنگ کے لئے سائبر اسپیس سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔

ادھر برطانوی اخبار گارڈین نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے دوسرے ملکوں کے عوام اور اعلٰی رتبہ سرکاری عہدیداروں کے ساتھ ہی پینتیس ملکوں کے سربراہوں کی بھی جاسوسی کی ہے اور ان کے ٹیلیفونی مکالمات سنے اور ریکارڈ کئے ہیں۔ گارڈین نے امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے سابق اہلکار ایڈروڈ اسنوڈن کے ذریعے فراہم کی گئی دستاویزات کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی حکام نے نیشنل سکیورٹی ایجنسی کو جاسوسی کے لئے دو سو ٹیلیفون نمبر دیئے تھے، جن میں پینتیس سربراہان مملکت کے نمبر بھی شامل تھے۔ اسی تناظر میں روس کے ايک سينئر عہديدار کا کہنا ہے کہ امريکہ دنيا ميں سب سے زيادہ جاسوسی کرنے والا ملک ہے۔ 

روسی پارليمنٹ ڈوما ميں بين الاقوامی امور کے کميشن کے سربراہ اليکسی يوشکوف نے امريکہ کی خفيہ ايجنسيوں کے ذريعے دنيا کے مختلف ملکوں کے باشندوں اور حکام کی ٹيلی فونی کالز ريکارڈ کئے جانے کے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امريکہ دنيا ميں سب سے زيادہ جاسوسی کرنے والا ملک ہے۔ اس روسی عہدیدار نے کہا کہ دنيا کا کوئی بھی ملک امريکہ جتنی وسيع پيمانے پر جاسوسی کی سرگرميوں ميں ملوث نہيں ہے۔ انہوں نے کہا کہ امريکہ کا يہ دعویٰ ہے کہ سبھی ممالک ايک دوسرے کی جاسوسی کرتے ہيں بے بنياد ہے۔ روسی پارليمنٹ ميں بين الاقوامی کميشن کے چیئرمين پوشکوف نے کہا کہ امريکا کی طرح کوئی بھی ملک اتنے وسيع پيمانے پر نہ تو جاسوسی کرتا ہے اور نہ ہی دوسرے ملکوں کے شہريوں کی ٹيلی فونی گفتگو ريکارڈ کرتا ہے، اسی لئے اس مسئلے پر جو تنازعہ کھڑا ہوا ہے وہ کافی وسيع پيمانے پر ہے۔ 

واضح رہے کہ دنيا کے مختلف ملکوں منجملہ فرانس اور جرمنی جيسے اپنے اتحادی ملکوں کے خلاف امريکہ کی طرف سے جاسوسی کی خبريں سامنے آنے کے بعد عالمی سطح پر ہنگامہ بپا ہوگيا ہے اور دنيا کے بہت سے ممالک امريکہ کے اس اقدام سے سخت ناراض ہيں۔ روس کے ذرائع ابلاغ نے برطانوی اخبار گارڈين ميں چھپی رپورٹ کے حوالے سے جو سی آئی اے کے سابق کارکن اسنوڈن نے اس اخبار کو فراہم کی تھی خبر دی ہے کہ امريکہ نے دنيا کے پينتيس ملکوں کے اعلٰی حکام اور سربراہوں کے ٹيلی فونی مکالمے ريکارڈ کئے ہيں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکی صدر کی مشیر نے اعتراف کیا ہے کہ امریکی جاسوسی کے اسکینڈل نے کافی مشکلات پیدا کی ہیں۔
 
فرانس پریس نے واشنگٹن سے رپورٹ دی ہے کہ اندرونی سلامتی اور انسداد دہشتگردی کے امور میں امریکی صدر کی مشیر لیزا موناکو نے جمعرات کے دن اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ امریکہ کی جاسوسی کی سرگرمیوں کے مسئلے نے اتحادیوں کے ساتھ امریکہ کے روابط میں مشکلات پیدا کر دی ہیں، امریکی عوام کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ امریکہ کے جاسوسی کے اقدامات غیر قانونی نہیں ہیں۔ ادھر امریکہ کی جاسوسی تنظیم کی سابق رکن سوزان لنڈور نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ واشنگٹن حتی گیارہ ستمبر سے پہلے بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کی بھی جاسوسی کرتا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم لوگوں کی جاسوسی کرتے ہیں، سینئر سفارتکاروں حتٰی سفیروں کی جاسوسی کرتے ہیں اور یہ کام برسوں سے جاری ہے۔ سوزان لنڈور نے کہا کہ جو چیز سی آئی اے کی سابق کارکن کی حیثیت سے میرے لئے بہت دلچسپ ہے وہ یہ ہے کہ میں بہت اچھی طرح جانتی ہوں کہ ہم نے بارہا سلامتی کونسل کے اراکین کی جاسوسی کی ہے، گذشتہ دس برسوں کے دوران یہ ہمارا معمول رہا ہے۔ میں کہتی ہوں کہ حتی گیارہ ستمبر کے حملوں سے پہلے بھی ہم یہ کام کرتے رہے ہیں۔
سوزان لنڈور، جو اب جنگ مخالف گروپ کی فعال رکن ہیں، کہتی ہیں کہ امریکہ اب دنیا کی بڑی طاقت نہیں شمار ہوتا اور اب دنیا والے اس کے اس قسم کے اقدامات کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم دوسرے ملکوں کے شہریوں کو بھی جن کی سرگرمیاں اپنے ملک کے اندر قانونی ہوتی ہیں، لیکن اگر امریکی پالیسی کے خلاف ہوتی ہیں تو انہیں اغوا کرکے یہاں لاتے ہیں اور ان پر مقدمہ چلاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہ چیز ہے جس سے غیر فوجی عام شہریوں کو ڈرنا چاہئے۔ اس سے پہلے ایک برطانوی اخبار نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے مارچ 2013ء میں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ ریکارڈ کی 97 ارب انٹیلی جنس معلومات حاصل کیں۔ سب سے زیادہ ریکارڈ ایران اور پاکستان سے حاصل کئے گئے۔ برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق امریکی ایجنسی نے دنیا بھر میں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کی نگرانی کا جدید نظام قائم کر رکھا ہے، جس کے ذریعے انٹیلی جنس معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔ 

برطانوی اخبار گارڈین نے امریکی سکیورٹی ایجنسی کی انتہائی خفیہ دستاویز حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جس کے مطابق صرف مارچ 2013ء میں دنیا بھر سے 97 ارب انٹیلی جنس معلومات حاصل کی گئیں۔ ایران سے 14 ارب اور پاکستان سے ساڑھے 13 ارب خفیہ معلومات اکٹھی کی گئیں۔ امریکہ کے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ نیٹ ورک سے 3 ارب انٹیلی جنس معلومات حاصل کی گئیں۔ برطانوی اخبار کا کہنا ہے کہ تازہ دستاویزات سے امریکی ایجنسی کے اس دعوے کی تردید ہوتی ہے کہ انٹیلی جنس معلومات کا ریکارڈ نہیں رکھا جاتا۔ ان تمام شواہد اور ثبوتوں کے باوجود اگر کوئی امریکہ پر اعتماد کرتا ہے تو اسکی عقل و فہم پر ماتم کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ امام خمینی تو بہت پہلے کہہ گئے تھے کہ امریکہ سب سے بڑا شیطان ہے جبکہ رھبر انقلاب اسلامی حضرت علی خامنہ ای امریکہ کو ناقابل اعتماد سمجھتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 314893
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش