0
Saturday 7 Dec 2013 22:38

اسلامی بیداری کی تحریک میں انقلاب اسلامی ایران کا کردار

اسلامی بیداری کی تحریک میں انقلاب اسلامی ایران کا کردار
تحریر: حامد اسلامی 

اسلام ٹائمز- اسلامی بیداری کی تحریک ایک ایسی ناقابل انکار حقیقت ہے جس نے گذشتہ چند سالوں کے دوران عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تحریک انقلاب اسلامی ایران کے سیاسی اہداف خاص طور پر اسلامی انقلاب کو ایران کی جغرافیائی سرحدوں سے باہر تک پھیلانے کی پالیسی کے ساتھ مکمل ہمسوئی رکھتی ہے۔ اسلامی بیداری کی یہ تحریکیں جو انقلاب اسلامی ایران سے شدیدا متاثر نظر آتی ہیں کئی سالوں سے پورے عالم اسلام خاص طور پر مشرق وسطی کے ممالک میں رونما ہوئی ہیں۔ ہمارے اس دعوے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ یہ تمام تحریکیں ایک ہی رنگ میں ڈھلی ہوئی ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں بلکہ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تیونس سے لے کر مصر اور لیبیا تک معرض وجود میں آنے والی ان تمام تحریکوں میں ایک نکتہ اشتراک پایا جاتا ہے اور وہ ان تحریکوں کا "اسلامی" ہونا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام اور حتی مغربی دنیا کے اکثر سیاسی ماہرین خطے میں جنم لینے والی ان تحریکوں کو کچھ حد تک اندرونی فرق ہونے کے باوجود انقلاب اسلامی ایران کا تسلسل قرار دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ 
 
وہ تحریکیں جنہیں اسلامی بیداری کی تحریکوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے درحقیقت دین مبین اسلام کو مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں واپس لانے کی جدوجہد اور کوششیں ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ تحریکیں انسانوں اور انسانی معاشروں کے اندر حقیقی اور خالص اسلام کے ظہور کی نوید دلاتی نظر آتی ہیں چونکہ حقیقی زندگی صرف اور صرف دین سے ہی قابل حصول ہے اور دین کے علاوہ اس کا کوئی منبع نہیں۔ لہذا اسلامی بیداری کی تحریک درحقیقت حقیقی اور خالص اسلام کی روشنی میں ایسی نئی زندگی کا آغاز ہے جس کے دامن میں عدالت، آزادی اور دوسری تمام اعلی اقدار نئے سرے سے زندہ ہو کر پروان چڑھ سکیں گی۔ ایران میں اسلامی انقلاب کو کامیاب ہوئے تقریبا تین عشروں کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس دوران ایران کو امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے شدید یلغار کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ یلغار فوجی، سیاسی، اقتصادی، میڈیا اور ہر اعتبار سے انجام پائی ہے جس کے مقابلے میں اب تک ایران الحمدللہ کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے جو ایران کی گذشتہ تاریخ میں بے مثال بتائی جاتی ہے۔ آج انقلاب اسلامی ایران ایک ایسے دور سے گزر رہا ہے جب وہ دفاعی پوزیشن سے نکل کر حملے کی پوزیشن میں داخل ہو چکا ہے۔ یہ ایک ایسا دور ہے جب انقلاب اسلامی ایران کے اسلامی، ایمانی اور اعتقادی نظریات و افکار بھرپور انداز میں دنیا کے کونے کونے میں پھیل رہے ہیں اور یہ پھیلاو طاقت کے زور پر نہیں بلکہ عقل، منطق، مخلصانہ جدوجہد اور الہی اہداف کے راستے میں استقامت اور پایداری کی برکت سے حاصل ہوا ہے۔ 
 
انقلاب اسلامی ایران اسلامی سوچ اور تفکر کی اٹھان کا نقطہ آغاز تصور کیا جاتا ہے۔ ایک ایسے وقت جب بیسویں صدی عیسوی میں سلطنت عثمانیہ کی کمزوری اور سقوط کے بعد اسلام دن بدن کمزور ہوتا جا رہا تھا، اس صدی کے آخری حصے میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی نے اسلام کے احیاء کے ایک نئے دور کی بنیاد رکھ دی۔ ایران کے اسلامی انقلاب نے اپنے اندر پوشیدہ اعتقادی بنیادوں کے بل بوتے پر ایک طرف موجودہ صورتحال کے خلاف شدید قسم کا ردعمل ظاہر کیا اور دنیا کے نظام میں اسلام کی موجودہ منزلت اور حیثیت کی نسبت اپنی عدم رضایت کا اظہار کیا اور دوسری طرف حقائق کو آشکار کرنے والے اعتقادات کو پیش کر کے دیگر اسلامی تحریکوں کی جانب سے اسلام کے مطلوبہ اہداف کے حصول کیلئے اپنائی گئی اسٹریٹجی پر نارضایتی کا اعلان کیا۔ اس طرح سے انقلاب اسلامی ایران نے جدت پسندی پر مبنی مفروضات کی بنیاد پر تاریخ سازی کو چیلنج کیا اور جدوجہد کو مزید بڑھانے اور روش تبدیل کرنے پر زور دیا لہذا موجودہ صورتحال سے نجات اور مطلوبہ صورتحال کے حصول کیلئے ایک انتہائی مناسب متبادل کے طور پر سامنے آیا۔ ایران میں جنم لینے والی اسلامی تحریک کی روش پوشیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرنے اور اسلامی اقوام کے اندر ذخیرہ شدہ تفکرات و نظریات کو منظم کر کے بھرپور مدیریت اور پوری طاقت کے ساتھ آگے بڑھنے اور حتی دوسری اسلامی تحریکوں سے بھی زیادہ تیزی سے عمل کرنے پر مشتمل تھی۔ لہذا ایران کی اسلامی تحریک دوسری مسلم اقوام کے درمیان موجود نظریاتی تحریکوں کیلئے ایک رول ماڈل کی شکل اختیار کر گئی اور ان کی جانب سے اپنے اہداف اور اسٹریٹجی میں بنیادی تبدیلیاں عمل میں لانے کا باعث بن گئی۔ 
 
ایران میں جنم لینے والی اسلامی تحریک نے مسلمانان عالم کے درمیان اس سوچ کو جنم دیا کہ اس سے قبل جاری اسلامی تحریکوں کی جانب سے پیش کردہ اہداف سے کہیں زیادہ بڑھ کر بڑے اہداف کے حصول کو ممکن بنایا جا سکتا ہے جن میں سے ایک "اسلام کے سنہری دور" کا احیاء اور عظیم اسلامی تہذیب و تمدن کی نشاہ ثانیہ ہے۔ شاید انقلاب اسلامی ایران کی جانب سے اسی عقیدے پر پختہ یقین اس بات کا باعث بنا کہ عالم اسلام میں جاری دوسری اسلامی تحریکیں انقلاب اسلامی ایران کی جانب متوجہ ہو کر اس سے متاثر ہو سکیں۔ لہذا ہم کہ سکتے ہیں کہ عالم اسلام اور حتی زیادہ بڑی سطح پر یعنی پوری دنیا کے مستضعفین پر انقلاب اسلامی ایران کا سب سے بڑا اثر نظریاتی اور فکری پہلو سے ظاہر ہوا ہے۔ لہذا ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے فورا بعد ہی عالم اسلام میں بیداری کی ایک عظیم لہر معرض وجود میں آئی جس نے نہ صرف مسلمانان عالم بلکہ مستضعفین جہان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ان میں انقلابی جوش و جذبہ پیدا کرتے ہوئے انہیں پوری طرح متحرک اور فعال کر دیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انقلاب اسلامی ایران کے بانی حضرت امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کے مخاطبین صرف ایرانی مسلمان نہیں تھے بلکہ وہ تمام مستضعفین جہان کو مخاطب قرار دیتے تھے۔ وہ ہمیشہ اس بات پر تاکید کرتے ہوئے نظر آتے تھے کہ ایران میں جنم لینے والا اسلامی انقلاب پوری دنیا میں مستکبرین کے مقابلے میں مستضعفین کے قیام کی صورت میں پھیل جانا چاہئے۔ رہبر کبیر انقلاب اسلامی ایران حضرت امام خمینی رحمہ اللہ علیہ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ اسلامی جمہوریہ ایران دنیا کی تمام مستضعف اقوام کیلئے ایک رول ماڈل اور ان کی آزادی اور خودمختاری کا نقطہ آغاز ہے۔ دنیا کے ہر کونے میں مسلمان اٹھ کھڑے ہوں بلکہ دنیا کے تمام مستضعفین اٹھ کھڑے ہوں۔ خدا کا وعدہ ہے کہ مستضعفین جہان ایک نہ ایک دن دنیا کے وارث قرار پائیں گے۔ حکومت مستضعفین کا حق ہے اور مستضعفین کی وراثت ہے۔ مستکبرین غاصب ہیں اور انہیں میدان سے نکال باہر کرنے کی ضرورت ہے۔ 
 
مثال کے طور پر جب 2011ء کے آغاز میں تیونس میں ایک عام نوجوان کی جانب سے اعتراض کے طور پر خودسوزی کرنے کے بعد عوامی تحریک کا آغاز ہوا تو مغربی ذرائع ابلاغ نے اس بات کا پرچار کرنا شروع کر دیا کہ یہ تحریک درحقیقت تیونس میں موجود اقتصادی مشکلات کے سبب شروع ہوئی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تیونس میں حزب مخالف کی سب سے بڑی پارٹی اسلامی جماعت "النھضہ" جانی جاتی ہے جو تیونس میں اخوان المسلمین کی ذیلی شاخ تصور کی جاتی ہے اور شدیدا انقلاب اسلامی ایران سے متاثر نظر آتی ہے۔ النھضہ کے اہداف اور اسٹریٹجی انقلاب اسلامی ایران سے الہام یافتہ ہیں اور اس جماعت کے رہنما بھی اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کئے ہوئے ہیں۔ لہذا واضح ہے کہ اس ملک میں جنم لینے والی ہر عوامی تحریک کو اسلامی نقطہ نظر سے ہٹ کر نہیں دیکھا جا سکتا اور معترض عوام کے مطالبات کا بڑا حصہ اسلامی شریعت اور احکام کے نفاذ پر مشتمل ہے۔ یہ وہ مطالبات ہیں جو تیونس کی اسلامی جماعت النھضہ کے رہنماوں کی جانب سے انقلاب اسلامی ایران کے ساتھ قریبی تعلقات کی روشنی میں پروان چڑھے ہیں۔ 
 
حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں موجود مسلمان اقوام اور اسلام پسند تنظیموں اور تحریکوں نے معاشرے کے دوسرے طبقات سے بڑھ کر انقلاب اسلامی ایران کے پیغام کو دل و جان سے حاصل کیا ہے اور اس کے نتیجے میں ایران کی انقلابی قوم کے ساتھ تعلقات استوار کئے ہیں۔ اس بات کا ثبوت وہ رجحانات، اقدامات اور سیاسی موقف کا اظہار ہیں جو ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد عالم اسلام میں معرض وجود میں آئے ہیں یا اگر پہلے سے موجود تھے تو انہیں مزید تقویت حاصل ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انقلاب اسلامی ایران کی جانب سے عالم اسلام پر پڑنے والے اثرات کا بڑا حصہ نظریاتی اور آئیڈیالوجیکل نوعیت کے افکار پر مشتمل ہے۔ 
 
آخر میں اسلامی بیداری کی تحریک میں اسلامی جمہوریہ ایران کے میڈیا چینلز کے کردار پر روشنی ڈالتے ہیں۔ آج کا دور ایک ایسا دور ہے جب معروف مغربی متفکر میک لوہن کے بقول کمیونیکیشن ٹیکنولوجی کی بڑھتی ہوئی ترقی کی بدولت دنیا ایک قصبے کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اس نئے دور میں میڈیا یا ذرائع ابلاغ انتہائی بنیادی اہمیت اختیار کر چکے ہیں کیونکہ یہی وہ ذرائع ہیں جن کی مدد سے عالمی رائے عامہ کو خاص سمت میں ہموار کیا جا سکتا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ چونکہ عالمی صہیونیست نیٹ ورک کے اختیار میں ہیں لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام اور اسلامی ممالک کے خلاف شدید پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مسلمانوں کو دہشت گرد اور عالمی امن کیلئے بڑا خطرہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی دنیا میں موجود مذہبی دہشت گرد گروہ خود امریکہ اور مغربی طاقتوں کی جانب سے ایجاد کئے گئے ہیں اور اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے انہیں کٹھ پتلی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ 
 
شمالی افریقہ اور مشرق وسطی میں اسلامی بیداری کی تحریک کے جنم لینے کے ساتھ ہی اسلامی جمہوریہ ایران کے بین الاقوامی چینلز نے ان سیاسی تبدیلیوں اور عوامی اعتراضات کو بھرپور کوریج دینا شروع کر دی۔ ایران کے مختلف انٹرنیشنل نیوز چینلز جیسے "العالم" اور "پریس ٹی وی" نے اپنی خصوصی نشریات کے ذریعے اسلامی بیداری کی تحریک سے متعلق اخبار اور تجزیے اپنے مشاہدین تک پہنچائے۔ ایرانی نیوز چینلز نے مغربی ذرائع ابلاغ کے برعکس شمالی افریقہ اور مشرق وسطی کے اسلامی ممالک میں جنم لینے والی اس تحریک کے اسلامی پہلو کو بہت نمایاں کر کے پیش کیا۔ العالم نیوز چینل نے تیونس میں آمرانہ طرز حکومت کے خلاف شروع ہونے والے عوامی اعتراضات کے آغاز سے ہی اپنی معمولی نشریات کو روک کر خصوصی کوریج دینا شروع کر دی تھی۔ تیونس کے بعد جب مصر میں بھی سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک کے خلاف عوامی احتجاج شروع ہوا تو العالم نیوز چینل مسلسل اس کی لائیو کوریج دیتا رہا اور انتہائی تفصیل سے ان عرب ممالک میں جنم لینے والے اس تاریخی انقلاب کی لمحہ با لمحہ خبریں اپنے دیکھنے والوں تک پہنچاتا رہا۔ العالم نیوز چینل شروع میں تو قاہرہ میں اپنے دفتر کے ذریعے دو رپورٹرز کی مدد سے مصر کی سیاسی صورتحال کو کوریج دینے میں مصروف تھا لیکن بعد میں آہستہ آہستہ مصر کے دوسرے شہروں جیسے سکندریہ، السویس، البحیرہ، الاسماعیلیہ، دمیاط، الشرقیہ، الفیوم اور المیناء میں بھی نئے رپورٹر بھرتی کئے اور اس طرح پورے ملک کے حالات کا جامع تجزیہ پیش کرتا رہا۔ العالم نیوز چینل صدر حسنی مبارک کی مختلف تقاریر کے بارے میں عوامی ردعمل کو منظرعام پر لاتا اور حکومت کی جانب سے مختلف سطح پر پھیلائی جانے والی افواہوں کا مقابلہ کرتا رہا۔ 
 
العالم نیوز چینل ایک ایسے وقت مصر میں اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے تھا جب مصری حکومت نے یہ دھمکی دے رکھی تھی کہ عوامی اعتراضات کے حامی غیرملکی خبررساں اداروں کے خلاف شدید کاروائی کرے گی۔ لہذا صدر حسنی مبارک کے حامی گروہوں کے افراد جہاں کہیں بھی غیرملکی رپورٹرز کو دیکھتے تھے فورا ان پر حملہ ور ہونے کی کوشش کرتے تھے اور ان کے پاس موجود سازوسامان کو توڑ پھوڑ دیتے تھے۔ حسنی مبارک کے حامی دہشت گردوں نے کئی بار العالم نیوز چینل کے رپورٹرز کو اپنے تشدد کا نشانہ بنایا، ان کے کیمرے توڑ دیئے اور بعض اوقات لائیو نشریات کے دوران اسٹوڈیو پر حملہ ور ہو کر توڑ پھوڑ انجام دی۔ اسی طرح بحرین میں جاری اسلامی انقلاب کی تحریک کی کوریج کے دوران بھی العالم نیوز چینل کی راہ میں مختلف انداز سے روڑے اٹکائے گئے۔ ہیکرز نے العالم نیوز چینل کی ویب سائٹ کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا اور اس چینل کی سیٹلائٹ نشریات کو بھی خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔ العالم نیوز چینل نے اس دوران میڈیا ڈپلومیسی کے ذریعے خطے میں نمودار ہونے والی اسلامی بیداری کی تحریک کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی اور اس کے نقطہ نظر کو صحیح طور پر پیش کرنے کی بھرپور کوششیں جاری رکھی ہیں۔ 
 
العالم انٹرنیشنل نیوز چینل جو عربی زبان میں نشر کیا جاتا ہے نے خطے میں اسلامی بیداری کی تحریک کے بارے میں نشر کئے گئے اپنے ایک پروگرام میں بہت پیارے انداز میں ایران کے سابق ڈکٹیٹر رضا شاہ پہلوی اور مصر کے ڈکٹیٹر حسنی مبارک میں موازنہ پیش کیا۔ اس پروگرام میں 1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے کچھ عرصہ قبل رضا شاہ پہلوی کے بیانات اور پیش کیا گیا اور اس کے ساتھ مصر کے ڈکٹیٹر حسنی مبارک کے آخری دنوں کے دوران جاری کردہ بیانات کا موازنہ کیا گیا۔ اس کے بعد ایران میں اسلامی انقلاب کی تحریک اور مصر میں جاری اسلامی بیداری کی تحریک کا خوبصورت انداز میں موازنہ کیا گیا۔ اس پروگرام میں مصر کے ڈکٹیٹر حسنی مبارک کے خلاف جاری عوامی مظاہروں کو خوش آیند قرار دیا گیا اور اس کی کامیابی کو ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کا پھل اور نتیجہ قرار دیا گیا جو اسلامی مشرق وسطی کے قیام کا زمینہ فراہم ہو سکتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ دوسرے بین الاقوامی میڈیا چینلز نے خطے میں رونما ہونے والی اسلامی بیداری کی تحریک کے بارے میں انتہائی دوغلا رویہ اپنا رکھا تھا۔ بین الاقوامی میڈیا نے میڈیا اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بحرین میں جاری انقلابی تحریک کا یکسر بائیکاٹ کر رکھا تھا جو اب تک جاری ہے۔ یہ صرف العالم اور پریس ٹی وی جیسے ایرانی چینل تھے جو بحرین کی انقلابی تحریک کو بھرپور کوریج دیئے ہوئے تھے۔ 
 
نیوز ویب سائٹ "مڈل ایسٹ آن لائن" اس بارے میں لکھتا ہے:
"بین الاقوامی میڈیا میں بحرین کے مسئلے کو لیبیا میں انجام پانے والے حوادث کی نسبت انتہائی کم اہمیت کا حامل ظاہر کیا گیا ہے جبکہ ایرانی نیوز چینل العالم نے اپنے عرب مخاطبین کیلئے بحرین کے موضوع کو لیبیا کی خبروں کے ساتھ اپنی اہم خبروں میں شامل کر کے پیش کیا ہے۔ العالم نیوز چینل کی ویب سائٹ پر اس قسم کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ 14 فروری گروپ نے حکومت کے خلاف اپنی احتجاجی تحریک کو پورے زور و شور کے ساتھ جاری رکھا ہوا ہے اور حکومت کی جانب سے مذاکرات کی دعوت کو ٹھکرا چکا ہے۔ العالم نیوز چینل نے بحرین میں جاری سیاسی کشمکش کی بھرپور کوریج اور اس بارے میں مختلف ٹاک شوز برگزار کرنے کے ذریعے بحرینی عوام کی انقلابی تحریک کو بہت اچھے انداز میں پیش کیا ہے اور اسی طرح یمن میں جاری اسلامی بیداری کی تحریک کی بھی بھرپور کوریج دی گئی ہے"۔ 
خبر کا کوڈ : 326476
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش