0
Wednesday 12 Oct 2011 21:51

عالم اسلام میں ابھرتی تحریکیں اور دینی رہنماوں کی بھاری ذمہ داری

عالم اسلام میں ابھرتی تحریکیں اور دینی رہنماوں کی بھاری ذمہ داری
تحریر: ڈاکٹر حسین کچوئیان
گذشتہ بہار کے آخر میں مصر میں "انقاذ الثورۃ" یا نجات انقلاب کے عنوان سے عوامی انقلابات کی دوسری موج پیدا ہونے کے بعد جو تیونس اور یمن میں بھی اپنی مشابہ تحریکوں کے ھمراہ تھی اور آخرکار گذشتہ ماہ میں خطے میں موجود اسرائیلی اور امریکی سفارتخانوں پر عوام کے حملوں پر ختم ہوئی، خطے میں رونما ہونے والے واقعات ان عوامی تحریکوں کا صحیح سمت میں جانے کو ظاہر کرتے ہیں۔ اگرچہ ان انقلابات کے شروع ہوئے ۹ ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اب بھی انکے تشخص کے بارے میں خاص طور پر اسلامی تنظیموں کا انکے بارے میں موقف اور ان عوامی تحریکوں کی رہنمائی کے بارے میں کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔ گذشتہ بہار سے لیکر اب تک جمعہ کے اجتماعات، نعروں، موقف کا اظہار، مختلف بیانیوں، بینرز اور پلے کارڈز میں اگرچہ اسلامی علائم کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے لیکن اسکے باوجود ہمیں اسلامی تنظیموں کی جانب سے اس بارے میں واضح موقف اور ان انقلابات کے اسلامی ہونے پر تاکید نظر نہیں آتی۔ دراصل "جمعہ انقاذ الثورۃ" سے اگلے جمعے کو انجام پانے والے مظاہروں میں جو اسلامی تنظیموں بالخصوص اخوان المسلمین مصر کی دعوت پر انجام پائے، اخوان المسلمین کے قائدین نے کوشش کی کہ خود کو اسلامی حکومت پر مبنی نعروں سے دور رکھیں اور بعض مقامات پر تو اسکی نفی بھی کی۔ تہران میں برگزار ہونے والی اسلامی بیداری کی کانفرنس میں انجام پانے والی تقریروں میں بھی ان ممالک سے آئے مہمانوں میں ایسی مشکلات دیکھی گئیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خطے کے ممالک کے مختلف چوکوں اور جمعے کی نمازوں میں عوامی جدوجہد کے ساتھ ساتھ ایک اور جدوجہد بھی جاری تھی جسکی شدت اگر اس سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں تھی، اور وہ جدوجہد "شناخت کی جدوجہد" تھی۔ اس جدوجہد کی ایک طرف مغربی ممالک اور انکے کٹھ پتلی حکمران ہیں جو اپنی تمامتر توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے خاص طور پر میڈیا اور سیاست کی طاقت کے ذریعے ان عوامی تحریکوں کو جمہوری رنگ دینے اور انسانی حقوق اور سیکولر یا جدید آزادی سے مخصوص مغربی اقدار و تصورات کو عوامی مطالبات کا حصہ بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ عالمی استعماری قوتوں کی جانب سے خطے کے انقلابی عوام کو اسلامی جمہوریہ ایران سے دور کرنے کی خاطر "شناخت کی سیاست" پر مبنی کوششوں کے ساتھ ساتھ ایران کے اسلامی نظام کی سربراہی میں اسلامی مزاحمتی بلاک موجود ہے جو خطے کی مسلمان عوام کے انقلابات کے اسلامی تشخص پر زور دیتا ہے اور انہیں مسلمانوں کے پہلے انقلاب کا قدرتی نتیجہ قرار دیتا ہے۔ اس ساری صورتحال میں جو چیز خاص اہمیت کی حامل ہے وہ اسلامی تحریکوں اور انکے قائدین کا خطے کے ان انقلابات کے بارے میں موقف ہے۔ وہ انتہائی اہم سوال جسکا جواب دینے کی ضرورت ہے یہ ہے کہ مختلف افراد کی جانب سے بیان کئے گئے دلائل سے ہٹ کر آیا انکی جانب سے ان انقلابات کے اسلامی ہونے کی تاکید نہ کرنا ان تحریکوں کی کامیاب پیشرفت کیلئے ایک صحیح حکمت عملی ہے یا نہیں؟۔
ہر جواب دینے سے پہلے اس نکتے کی جانب توجہ ضروری ہے کہ شروع کے چند مہینوں میں ان تحریکوں کی شناخت کے بارے میں ابہام ایک قدرتی اور منطقی چیز ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ تمام اجتماعی انقلابات بشمول تاریخ میں انجام پانے والے عظیم انقلابات اجتماعی اور معاشی مسائل کے خلاف چھوٹے اعتراضات اور احتجاج سے شروع ہوئے اور شروع میں محدود حتی غیرسیاسی مطالبات کے حامل تھے۔ انقلابات صرف تحریکوں کے جاری رہنے اور گہرائی میں جانے سے ہی اجتماعی تکامل کے ذریعے ایک خاص شناخت سے برخوردار ہوتے ہیں اور مخصوص عقیدتی بنیادیں ایجاد کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ خطے میں رونما ہونے والی تحریکوں کے پیش نظر آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ان تحریکوں میں انقلابی پختگی ایک ہی طرح سے دکھائی دے رہی ہے اور روز بروز انکا اسلامی تشخص اور شناخت واضح سے واضح تر ہوتی جا رہی ہے۔
اسکے باوجود اب بھی یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیوں خطے کے ممالک میں اسلامی تحریکیں اجتماعی تبدیلیوں کو صحیح سمت لے جانے اور انہیں عقیدتی تشخص اور شناخت دلوانے کیلئے واضح طور پر کوشش نہیں کر رہیں؟۔ اگر ہم اس بات کی جانب توجہ کریں کہ انقلابات میں شروع کے اعتراضات اور احتجاجات کے ایجاد ہونے کے بعد تمام سیاسی قوتیں انقلاب کو اپنی مطلوبہ آئیڈیالوجی کی جانب گامزن کرنے کیلئے سرتوڑ کوشش کرتی ہیں تاکہ اس انقلاب کی رہنمائی اور لیڈرشپ اپنے ہاتھ میں لے لیں لہذا انکے درمیان شدید رقابت پائی جاتی ہے، تو یہ سوال زیادہ معقول نظر آئے گا۔ دراصل اس حقیقت کو جان لینے کے بعد اسلامی جماعتوں کی کارکردگی انتہائی عجیب اور نامعقول نظر آتی ہے اور اسکی وجوہات کے بارے میں سوال پوچھنے کا بہتر جواز نظر آتا ہے۔ خاص طور پر یہ کہ ان تحریکوں نے دوسرے انقلابات کے برخلاف اپنے اعتراضات کو مذہبی بنیادوں پر انجام دیا اور نماز جمعہ کے اجتماعات اور مذہبی مقامات جیسے مساجد کو اپنے مظاہروں کیلئے انتخاب کیا اور اسلامی نعروں سے اپنے موقف کو بیان کرنے کی کوشش کی۔
اس سوال کا ایک سیدھا سا جواب تیونس اور مصر میں ان تحریکوں کے وجود میں آنے کے انداز پر ایک نظر ڈالنے سے مل سکتا ہے۔ ان تحریکوں کا خودجوش انداز میں جنم لینا کسی طور متوقع اور پیشگوئی کے قابل نہیں تھا اور تیونس میں عوامی تحریک کے شروع ہونے کے چند ہفتوں تک اسکے بارے میں کوئی خبر منتشر نہیں ہوئی تھی۔ اسکے باوجود اعتراضات کا غیرمتوقع طور پر جنم لینا ایک قدرتی اور معمولی امر ہے۔ وہ چیز جو ان تحریکوں میں خاص اہمیت کی حامل ہے امریکہ کی جانب سے آمرانہ حکمرانوں کو میدان سے ہٹانے میں جلدی کرنا ہے جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ تحریکیں مکمل پختگی تک نہ پہنچ سکیں اور خام حالت میں باقی رہ گئیں۔ کیونکہ یہ تحریکیں اپنے شروع کے اعتراضات میں ہی اس سے قبل کہ انکا اسٹرکچر اور انکی لیڈرشپ واضح ہوتی آمرانہ حکمرانوں کے میدان سے غائب ہو جانے کے باعث کامیابی سے ہمکنار ہو گئیں لہذا کسی بھی سیاسی قوت کو ان تحریکوں کی لیڈرشپ اپنے ہاتھ میں لینے کا موقع نہ مل سکا۔ ان تحریکوں کے عوامی ہونے کے باعث کوئی شخص یا گروہ انکی قیادت کا دعوا کرنے سے قاصر ہے اور مغربی میڈیا کی فعالیت کے باعث ان تحریکوں کی قیادت کا سہرا "شباب الثورۃ" نامی ایک نامعلوم گروہ کے سر جڑنے لگا۔
جس چیز نے ان مخصوص حالات میں اسلامی جماعتوں کیلئے آئندہ کارکردگی کا زمینہ فراہم کیا وہ ان تحریکوں کے آغاز میں انکی فعالیت تھی۔ تیونس میں بھی اور مصر میں بھی اسلامی جماعتیں ان تحریکوں کے آغاز میں یا تو نظر نہیں آئیں اور یا پھر دیر سے میدان میں آئیں۔ تیونس میں حکومت کی طرف سے شدید دباو جو "النھضہ" جماعت کے رہنماوں کی جلاوطنی یا قید کی صورت میں موجود تھا اور کسی بھی گروہ یا تنظیم کے بننے میں بڑی رکاوٹ تھا اس تاخیر کا باعث بنا۔ لیکن مصر میں ان اختلافات کے پیش نظر جو اخوان المسلمین کے نوجوانوں اور لیڈران میں تحریر اسکوائر میں جمع ہونے پر وجود میں آئے اخوان المسلمین کے رہنماوں کی جانب سے چند دن کی تاخیر انکی جانب سے صدر حسنی مبارک کے خلاف انقلابی اقدامات کی رہنمائی کرنے سے متعلق عدم آمادگی اور مصر اور خطے کی سیاسی صورتحال کو صحیح طور پر درک نہ کرنے سے مربوط ہے۔
اگرچہ اسلامی جماعتوں کی جانب سے انقلابی تحریکوں کی ابتدا میں غیرفعال ہونا معقول نظر آتا ہے لیکن اگلے مراحل میں انکی سستی بالکل معقول نہیں اور انکی جانب سے حالات کو صحیح طور پر درک نہ کرنے کی نشاندہی کرتی ہے۔ ان جماعتوں کا مسئلہ صرف یہ ہی نہیں کہ انہوں نے فیس بک اور ٹوئٹر جیسے ویب سائٹس کے ذریعے منظم ہونے والے جوانوں کو ان تحریکوں کے اصلی کردار کے طور پر دیکھا ہے اور اسلامی مزاحمتی گروہوں کی جانب سے طویل تاریخ پر مبنی جدوجہد کو نظرانداز کر دیا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے خطے کی صورتحال کو صحیح طور پر نہیں سمجھا اور اپنی جانب سے کنزرویٹو رویہ ظاہر کر کے مغربی دنیا اور امریکہ کے مفاد میں عمل کیا ہے اور انکے وعدوں سے دل کو بہلا رہے ہیں۔
اس سوچ پر کہ مغربی دنیا کی زیرنگرانی طاقت کی منتقلی کا کوئی بہتر نتیجہ نکل سکتا ہے صرف وہی لوگ یقین کر سکتے ہیں جنہوں نے سالہای سال امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے آمر حکمرانوں کے ذریعے سیاسی دباو اور گھٹن کا تجربہ نہ کیا ہو۔ آیا یہ اسلامی جماعتیں جو امریکہ اور مغربی ممالک کو راضی رکھنے کی خاطر خطے کی مسلمان عوام کے حقیقی مطالبات اور تحریکوں کو سرعت بخشنے سے اجتناب کر رہی ہیں، یہ سوچ رہی ہیں کہ خطے کی تاریخ اور موجودہ صورتحال کو صحیح طور پر درک کر رہی ہیں؟۔ تیونس کی اسلامی جماعت "النھضۃ الاسلامی" کے رہنما جو اپنے حامیوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ طاقت کا مظاہرہ نہ کریں اور اپنے جلاوطن رہنماوں کے استقبال کیلئے ائرپورٹ پر اجتماع نہ کریں، مغربی دنیا کی سیاسی اور انٹیلی جنس صلاحیتوں کو کس حد تک درک کر چکے ہیں جنہوں نے بیس سال قبل بن علی کو تیونس پر اس لئے مسلط کیا تھا کہ عوامی اسلامی تحریک برسراقتدار نہ آ سکے؟۔ آیا وہ اور اسلامی تحریکوں کے دوسرے رہنما جو اپنے انٹرویوز، تقریروں اور مذاکرات میں اس بات کا خاص خیال رکھ رہے ہیں کہ ایسی بات نہ کریں جس سے مغربی دنیا خطرے کا احساس کرے اور انہیں اسلامی تحریکوں سے خطرہ محسوس ہو، یہ جانتے ہیں کہ مغربی دنیا کا اسلام اور اسلامی قوتوں سے خوف ان باتوں اور ایسے انداز سے ختم نہیں ہو سکتا؟۔ بلکہ انکا یہ عمل ان تحریکوں کا اسلامی تشخص حاصل کرنے اور عوام کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کیلئے اسلامی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے۔
آیا مغربی دنیا کو تسلیاں دینے اور انہیں اپنی طرف سے مطمئن کرنے کی کوششیں اس منصوبے کے مقابلے میں مناسب حکمت عملی ہے جس کے تحت مغربی ممالک دنیا بھر میں اسلام فوبیا پھیلانے میں مصروف ہے؟۔ وہ مغربی قوتیں جو ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے لیکر اب تک دنیا بھر میں اسلام کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ کرنے اور اسلامی ممالک پر لادین آمر حکمرانوں کو مسلط کرنے میں مصروف رہی ہیں۔ آیا ان اسلامی تحریکوں کو اپنے اہداف کی جانب بڑھانے کیلئے مناسب حکمت عملی یہ ہے کہ مغربی دنیا کو راضی رکھنے اور جمہوریت کے کھیل کو جاری رکھنے کیلئے نوجوانوں کے جوش و خروش کو کنٹرول کیا جائے اور ان تحریکوں کو شکست سے مواجہ کر دیا جائے یا یہ کہ انتہائی رازداری کے ذریعے مغربی ممالک کے اس بھیانک کھیل سے باہر نکلنے کی کوشش کی جائے؟۔
یہ سوچ کہ امریکہ کی سربراہی میں مغربی ممالک کی جانب سے مراکش سے لیکر تیونس اور یمن تک خطے کے ممالک کیلئے بنایا گیا منصوبہ عالم اسلام کیلئے مثبت نتائج کا حامل ہو سکتا ہے اسلامی جماعتوں کی جانب سے سستی اور کنزرویٹو رویہ اختیار کرنے کی بنیادی وجہ ہے۔ تیونس میں مغربی ممالک کو مشتعل نہ کرنے اور انہیں اپنی بابت مطمئن کرنے کی پالیسی کے تحت اسلامی جماعتوں نے عوامی تحریکوں کی قیادت اپنے ہاتھ میں لینے کی بالکل کوشش نہیں کی اور نگران حکومت سے مکمل طور پر تعاون کرتے رہے۔ جبکہ اسی دوران اخوان المسلمین نے بھی اپنے بیانیوں کے ذریعے ایسے عمل کیا ہے کہ ایک طرف اس پر فوجی حکمران کونسل کے ساتھ تعاون کرنے اور اسکے ساتھ خفیہ معاہدے رکھنے کا الزام عائد ہو رہا ہے اور دوسری طرف اپنے اندر کے افراد مخصوصا نوجوان اراکین کی جانب سے نئی تقسیم بندیاں سامنے آنے کے خطرے سے بھی دوچار ہو چکی ہے۔ سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ اسلامی جماعتوں نے اپنی اس پالیسی پر عملدرآمد کو جاری رکھا ہوا ہے جبکہ نگران حکومتیں اور فوجی حکمران اسلام فوبیا کی واضح پالیسیوں کے تحت اسلام اور اسلامی قوتوں کو خطرے کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور امام خمینی کے اسلام اور اسلامی جمہوریہ ایران سے مقابلے کے بہانے اسلام کو برسراقتدار آنے سے روکنے کے بارے میں واضح طور پر موقف کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی مغربی ممالک کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ اعلانیہ طور پر اپنے سفارتخانوں کے ذریعے لادین اور سکولر گروہوں کو منظم کر سکیں اور انہیں امداد فراہم کر سکیں۔
دینی رہنماوں کے بارے میں نگران حکام کی جانب سے وضاحتوں اور امریکہ کی جانب سے واضح موقف اختیار کئے جانے اور اسلام کے برسراقتدار آنے کی مخالفت کا اظہار کرنے کے باوجود اسلامی جماعتوں کی جانب سے ایسی پالیسی پر عمل پیرا ہونا کیا معنا و مفہوم رکھتا ہے؟۔ اگر وہ عراق میں انجام پانے والے تجربے کے دہرائے جانے ہونے کی توقع رکھتے ہیں تو وہ دو باتوں سے غافل ہیں: ایک یہ کہ عراق کی موجودہ صورتحال وہاں موجود اسلامی جماعتوں کا ایران کے عظیم اسلامی انقلاب سے منسلک ہونے اور اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے عراق میں اسلامی مزاحمت کے حق میں مثبت کردار ادا کرنے کا نتیجہ ہے، دوسرا یہ کہ موجودہ اسلامی تحریکیں عراق میں انجام پائے تجربے کے دہرائے جانے ہونے کی توقع نہیں رکھ سکتیں کیونکہ مغربی قوتوں نے عراق میں اپنی ناکامیوں سے سبق سیکھا ہے اور وہ دوبارہ اپنی غلطیوں کو دہرائے جانے نہیں کریں گی۔ اس حقیقت کو سمجھنے کیلئے لیبیا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہ عراق کے تجربے کے دہرائے جانے کی امید ہی تھی جسکی بنیاد پر نیٹو کو مداخلت کا موقع ملا۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ نیٹو نے لیبیا کے مالی وسائل پر قبضہ کرنے کے باوجود ابھی تک فوجی آپریشن کے خاتمے کا اعلان نہیں کیا۔ یہ بات انتہائی واضح ہے کہ مغربی قوتیں اور نیٹو فورسز کس پالیسی کے تحت عمل پیرا ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ تحریکوں اور عالم اسلام کا مستقبل اس سادہ نکتے کو درک کرنے میں پوشیدہ ہے کہ امریکہ کی سربراہی میں مغربی ممالک کی اسلامی ممالک میں جمہوریت قائم کرنے کی پالیسی اور انکی جانب سے اسلامی انقلابات کو جمہوریت طلب تحریکوں میں تبدیل کرنے کی کوششیں اور اسلامی تشخص کو بگاڑ کر ان انقلابات کو ڈیموکریٹک اور سکولر رنگ دینے کی تگ و دو، عالمی استعمار کو نئے تاریخی حالات کے مطابق ڈھالنے کیلئے بنائے گئے بڑے ناپاک منصوبے کا حصہ ہیں۔
اگر اسی طرح جیسے اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تہران میں انجام پانے والی پہلی بین الاقوامی بیداری اسلامی کانفرنس میں تاکید کی ہے، اگر مسلمانان عالم بالخصوص انکے لیڈران مغربی استعماری نظام کے کئی سو سالہ تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے اور مغربی ممالک بالخصوص امریکہ کی تمام پالیسیوں اور منصوبوں کو بدبینی کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے انکے تسلط کے خلاف اٹھ کھڑے نہ ہوئے تو مغربی دنیا کے دوبارہ مسلط ہو جانے کے مقابلے میں انتہائی بھیانک شکست سے دوچار ہوں گے۔ یہ وہ چیز ہے جو قائد انقلاب اسلامی ایران کی جانب سے تہران کانفرنس میں بیانات کی روشنی میں اسلامی جمہوریہ ایران کی سربراہی میں اسلامی مزاحمتی فرنٹ کی موجودگی اور عوامی تحریکوں کی نوعیت کے پیش نظر تقریبا ناممکن ہے۔
خبر کا کوڈ : 105803
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش