1
0
Wednesday 15 Jan 2014 21:01

عراق میں دہشتگردی کا کھیل

عراق میں دہشتگردی کا کھیل
تحریر: ثاقب اکبر

اہل پاکستان جو خود خوف ناک دہشت گردی کا شکار چلے آرہے ہیں، انھیں اس کی کب فرصت ہے کہ دنیا میں دیگر جگہوں پر ہونے والی بربریت کے واقعات کی طرف پوری توجہ دے سکیں۔ دیگر جگہوں میں سے ایک سرزمین عراق ہے، جو انبیاء کرامؑ، اہل بیت اطہارؑ اور صحابہ رسولؓ کے سینکڑوں مزارات کو اپنے سینے پر سجائے ہوئے ہے۔ یہ سرزمین طویل عرصے سے لہولہان چلی آرہی ہے۔ امریکی افواج کے اس پر قبضے کے دوران میں دس لاکھ سے زیادہ انسان خاک و خون میں لوٹائے گئے، لیکن امریکی افواج کے انخلاء کے بعد بھی دہشت گردی کا سلسلہ جاری رہا، جو گذشتہ چند برسوں میں نہایت المناک صورت حال اختیار کرچکا ہے۔ افسوس یہ دہشت گردی زیادہ سرکاری مراکز کے ساتھ شیعہ مساجد اور علاقوں میں جاری ہے۔ اس کا شکار وہ غیر ملکی نہتے سیاح بھی بنتے ہیں جو عراق میں انبیاء، اہل بیت اطہارؑ کے مزارات کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ ان میں اب تک بیسیوں پاکستانی بھی لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔

مزید برآں القاعدہ سے تعلق رکھنے والا ایک دہشت گرد گروہ منتخب حکومت کے خاتمے کے لیے اعلانیہ طور پر سرگرم عمل ہے۔ جس نے عراق کے صوبہ الانبار کے شہر رمادی میں 2011ء سے اپنا مرکز قائم کر رکھا تھا۔ یہی گروہ اعلانیہ طور پر شام میں دہشت گرد کارروائیوں میں بھی مصروف ہے۔ یہ گروہ عراق میں بیشتر دہشت گرد کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرچکا ہے۔ پاکستانی قارئین ایسی کارروائیوں اور انھیں قبول کرنے والے گروہوں اور ان کے طریق کار سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔

پاکستان اور عراق میں ہونے والی دہشت گردی اور دہشت گرد گروہوں میں بہت سی مماثلتیں اور مشابہتیں پائی جاتی ہیں۔ عراقی دہشت گرد بھی کسی ریاست، آئین اور منتخب حکومت کو تسلیم نہیں کرتے۔ عراقی دہشت گرد بھی فرقہ وارانہ اور تکفیری فکر کے حامل ہیں۔ وہ اپنے ہم فکر افراد کے علاوہ باقی سب کو گمراہ، کافر، مشرک اور واجب القتل قرار دیتے ہیں۔ وہ کسی قانون قاعدے کو قبول نہیں کرتے۔ وہ بھی سرحدوں کے آرپار ہر طرف اپنی دہشت گردانہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور اپنے کام کو جہاد کہتے ہیں۔ جیسے پاکستان میں ایک تکفیری گروہ اپنے آپ کو مسلمانوں کے اکثریتی فرقے کے نام سے متعارف کرواتا ہے، عراق کا یہ دہشت گرد ٹولہ بھی اسی طرح کے نام اور عنوان سے اپنے آپ کو متعارف کرواتا ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق فقط 2013ء میں دہشت گرد حملوں میں 8868 افراد مارے گئے، جن میں سے7818 سویلین ہیں۔ یو این کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ پانچ برس میں یہ سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں۔ 2013ء کے خونی برس کے فقط آخری مہینے میں 759 افراد مارے گئے جبکہ اسی مہینے میں 1345 افراد شدید زخمی ہوئے۔ 2013ء میں مئی کا مہینہ سب سے زیادہ خونبار ثابت ہوا، جس میں ہلاکتوں اور زخمیوں کی کل تعداد 3154 بتائی گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عراقی حکومت کو اپنے بے گناہ عوام کے اس اندوہناک قتل عام پر خاموشی اختیار کرنی چاہیے، مذاکرات کرنے چاہئیں یا وحشی ظالموں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ یہ بعینیہ وہی سوال ہے جو آج پاکستانی حکومت کو درپیش ہے۔
 
ان قاتلوں اور درندوں سے کیسے نمٹنا چاہیے، جو نہ آئین کو مانتے ہیں نہ ریاست کو، حکومت کو مانتے ہیں نہ قانون کو۔ یہ قاتل مذاکرات کی پیشکش کے جواب میں اس مظلوم قوم پر مزید حملے کرتے ہیں۔ وہ جنازوں، اسکولوں، مدرسوں، مسجدوں، سرکاری مراکز، گرجا گھروں، جلسوں، جلوسوں، اولیاء و صوفیا کے مزاروں پر مسلسل حملے کر رہے ہیں۔ وہ عورتوں، مردوں اور بچوں کو بے دردی سے قتل کیے جا رہے ہیں۔ عراق اور پاکستان میں تقریباً ایک جیسے حالات ہیں۔ البتہ پاکستان میں اہل سنت کی آبادی زیادہ ہے اور عراق میں اہل تشیع کی آبادی زیادہ ہے۔ تاہم جیسے پاکستان میں شیعہ سنی عوام کی اکثریت ان دہشت گردوں سے نالاں ہے، اسی طرح عراق کے شیعہ سنی عوام کی اکثریت بھی ان سے نالاں ہے۔

یوں معلوم ہوتا ہے کہ عراقی حکومت نے بالآخر سفاک درندوں کے خاتمے کے لیے عزم صمیم کر لیا ہے۔ دسمبر2013ء کے آخر میں الانبار میں قائم القاعدہ کا دہشت گرد کیمپ اکھاڑنے سے پہلے وزارت دفاع نے مقامی حکومت اور علاقے کے قبائل سے بھرپور مشاورت کے بعد ایک لائحہ عمل ترتیب دیا اور اپنی کارروائی کا آغاز کر دیا۔ الانبار جو اہل سنت کی اکثریت کا صوبہ ہے، اس صوبہ کے سنی قبائل اس وقت عراقی فوج کے شانہ بشانہ القاعدہ اور اس کے سرپرستوں کے خلاف کارروائی میں مصروف ہیں۔

پاکستانی عوام جانتے ہیں کہ مصر میں الاخوان کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے سعودی عرب نے مصری فوج کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ اخوان کو کچلنے کے لیے مصری فوج کی کارروائیوں کو سعودی تائید اب بھی حاصل ہے۔ علاقے کی خاندانی بادشاہتوں کو بھی ان کے ہاں عوامی تحریکوں کو دبانے کے لیے دامے درمے قدمے سخنے سعودی تعاون حاصل ہے، لیکن عراق کے منتخب وزیراعظم نوری المالکی نے بغداد میں سفارت کاروں کو اس وقت حیران کر دیا، جب انھوں نے ان کے سامنے عراق میں القاعدہ کو دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے سعودی مداخلت اور سرپرستی کے شواہد پیش کئے۔ 13جنوری بروز سوموار عراقی وزیراعظم نے ثبوت سفارت کاروں کے سامنے پیش کئے۔ پاکستانی سیاست میں سعودی مداخلت کو سب پاکستانی جانتے ہیں۔ یہ امر اس وقت زیادہ آشکار ہوگیا جب پاکستان کے جلاوطن وزیراعظم نواز شریف کو سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ اسلام آباد ایئرپورٹ سے زبردستی لے کر سعودی عرب واپس چلے گئے تھے۔

امن و امان کے ذمے دار عراقی ادارے پہلے بھی بہت سے سعودی شہریوں کو دہشت گرد گروہوں سے تعلق کی بنا پر گرفتار کرچکے ہیں۔ اس سلسلے میں 2جنوری کو بھی 7 سعودی دہشت گردوں کو رمادی کے علاقے سے گرفتار کیا گیا تھا، جو عراق کے دارالحکومت بغداد کے مغرب میں واقع ہے۔ ان سعودی دہشت گردوں پر الزام ہے کہ انھوں نے مسلح دہشت گردوں کو منظم کیا اور انھیں دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے امداد فراہم کی۔ یہ خبر المیادین نیوز ویب سائٹ نے جاری کی تھی۔ عراق کی سکیورٹی فورسز علاقے کے سنی قبائل کے تعاون سے ان دہشت گردوں کے خلاف مسلسل کارروائیاں کر رہی ہیں۔ دو ہفتے کے دوران میں الانبار صوبے کے شہر رمادی اور فلوجہ میں کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ 

یو این او کی رپورٹ کے مطابق اس کارروائی کے نتیجے میں جہاں 60 سے زیادہ دہشت گرد مارے جا چکے ہیں، وہاں 11000 سے زیادہ خاندانوں کو علاقے سے ہجرت بھی کرنا پڑی ہے۔ عراقی وزیراعظم نے القاعدہ کے خلاف کارروائیوں کے لیے پوری قوم کو اتحاد کی دعوت دی ہے، تاکہ ملک کو ہر طرح کی دہشت گردی سے پاک کیا جاسکے۔ توقع کرنی چاہیے کہ عراقی حکومت مضبوط ارادے کے ساتھ ان کارروائیوں کو جاری رکھے گی، تاکہ ملک میں امن و امان بحال ہوسکے۔
خبر کا کوڈ : 341475
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
bari khosh aind khabar hai khoda jazae khair dy
ہماری پیشکش