0
Saturday 8 Feb 2014 22:56

طالبان مذاکراتی کمیٹی کا گھٹتا ہوا حجم

طالبان مذاکراتی کمیٹی کا گھٹتا ہوا حجم
تحریر: زاہد مرتضی

حکومت کی تجویز کردہ چار رکنی کمیٹی سے مذاکرات کیلئے طالبان کی طرف سے جس پانچ رکنی کمیٹی کے ناموں کا اعلان کیا گیا تھا، ان اراکین کا تعلق جے یو آئی، جماعت اسلامی، لال مسجد، تحریک انصاف سے ہے، یہ جماعتیں طالبان سے مذاکرات کی پرجوش حامی تصور کی جاتی ہیں، طالبان نے ان جماعتوں پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا اور حکومت سے مذاکرات کیلئے اپنی کمیٹی کا حصہ بنا ڈالا، ایک دن گزرنے کے بعد ہی اس کمیٹی پر خود ان جماعتوں کے اندر سے تحفظات آنا شروع ہوگئے، تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے تحریک طالبان کی طرف سے اپنا نام سامنے آنے پر اسی دن کہہ دیا کہ طالبان کو کمیٹی کے لئے اپنی جماعت میں سے کسی شخصیت کا نام دینا چاہیئے۔ ایک دن بعد تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس میں باضابطہ طور پر عمران خان کو طالبان کی نمائندگی سے منع کر دیا گیا۔ کور کمیٹی کا کہنا تھا کہ حکومت کی کمیٹی میں شامل رستم شاہ مہمند کا تعلق تحریک انصاف سے ہے، لہذا رستم شاہ مہمند ہمارے موقف کی نمائندگی کریں گے۔
 
تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس سے کچھ دیر قبل کمیٹی کے ایک اہم رکن اور فادر آف طالبان سمجھے جانیوالے مولانا سمیع الحق اپنی پریس کانفرنس میں عمران خان کی کمیٹی میں شمولیت کے معاملے پر کافی پر اعتماد تھے، دیکھنا یہ ہے کہ کمیٹی میں شمولیت سے انکار کے فیصلے پر وقتی طور پر صورتحال میں جو ڈرامائی تبدیلی آئی ہے، اس میں عمران خان کے سمیع الحق جیسے پرانے ساتھیوں کی ان کے بارے میں کیا رائے بنتی ہے۔ ایک بات طے ہے کہ قدم پیچھے ہٹانے سے عمران خان اور طالبان دوست عناصر میں تعلقات کی نوعیت شاید کچھ بدل جائے۔ دوسری طرف عمران خان کو نواز لیگ اور دوسری مخالف سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی تنقید کا نشانہ بننا پڑا کیونکہ عمران خان ایک طرف تو طالبان سے مذاکرات کے زبردست حامی ہیں لیکن جب مذاکرات کا وقت آیا ہے تو قدم پیچھے ہٹا لئے، اس لئے مخالفین تنقید کا یہ موقع ہاتھ سے یونہی تو نہیں چلے جانے دینگے۔

دوسرا نقطہ، کچھ دن قبل جب مولانا سمیع الحق طالبان کمیٹی کے ہمراہ پہلی پریس کانفرنس کیلئے میڈیا کے سامنے نمودار ہوئے تو پانچ رکنی کمیٹی میں سے ان سمیت جماعت اسلامی کے پروفیسر ابراہیم اور لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز تین اراکین موجود تھے جبکہ عمران خان اور جے یو آئی کے مولانا کفایت اللہ غائب تھے، بعدازاں معلوم ہوا کہ عمران خان اپنی جماعت کی کور کمیٹی جبکہ مولانا کفایت اللہ جے یو آئی کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں شریک تھے۔ تحریک انصاف کی کور کمیٹی کا فیصلہ آ جانے کے بعد جے یو آئی کی مجلس عاملہ کے اجلاس کا فیصلہ بھی سامنے آگیا، جو تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے فیصلے سے کسی قدر سخت تھا، فیصلے کے مطابق جے یو آئی نے بھی مذاکراتی عمل کا حصہ بننے سے انکار کر دیا، مجلس عاملہ کے فیصلے کے مطابق حکومت نے مذاکرات شروع کرنے سے قبل جے یو آئی سے کوئی مشاورت نہیں کی، لہذا ہم اس مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں ہونگے، ساتھ ہی ساتھ مجلس عاملہ نے بھی کہہ دیا کہ ہمیں ان مذاکرات کی کامیابی کی کچھ زیادہ توقع بھی نہیں، جے یو آئی کے اس فیصلے کو مذاکرات کے مستقبل سے متعلق ایک اچھی خاصی بدشگونی تصور کیا گیا، جبکہ طالبان کی طرف سے بھی اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا گیا، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی گفتگو کو سامنے رکھا جائے تو وہ بھی جہاں کمیٹی کی تشکیل سے مطمئن نظر نہیں آتے، وہیں انہیں بھی اس بات پر تعجب ہے کہ طالبان نے مذاکراتی کمیٹی کیلئے اپنی جماعت سے لوگوں کے ناموں کا اعلان کیوں نہیں کیا۔

اس صورتحال کو سامنے رکھا جائے تو یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ طالبان کی کمیٹی کی تجویز سے کم از کم ان کی دو حامی جماعتوں کے اندر اتفاق نہیں پایا جاتا، یعنی تحریک انصاف اور جے یو آئی میں۔ یوں اس طرح طالبان کی پانچ رکنی مذاکراتی کمیٹی سمٹ کر تین رکنی کمیٹی کی شکل اختیار کر گئی، طالبان نے کمیٹی کے اراکین کی تعداد کی پوری کرنے کیلئے دو نئے نام سامنے لانے کی بجائے اسی تین رکنی کمیٹی سے کام چلانے کا اعلان کر دیا، البتہ مولانا سمیع الحق اتنی جلدی میں تھے کہ اس بات کا انتظار کئے بغیر کہ کمیٹی دو اراکین کی عدم موجودگی کے باعث پوری نہیں، حکومتی کمیٹی کے کوآرڈینیٹر عرفان صدیقی اور ایک دوسرے رکن میجر (ر) عامر سے ٹیلی فون پر رابطہ کرکے جہاں پہلے رابطے کا آغاز کر لیا وہیں اگلے روز ملاقات کے لئے بھی وقت مانگ لیا۔ 

پہلی میٹنگ طے شدہ وقت اور دن کو اسلئے نہ ہوسکی کیونکہ حکومتی کمیٹی نے طالبان کمیٹی سے کچھ وضاحتیں طلب کیں تھیں، اس بات پر مولانا سمیع الحق ناراض ہو کر اکوڑہ خٹک واپس چلے گئے اور کہہ گئے کہ جب بھی حکومتی ٹیم نے میٹنگ کے لئے بلایا حاضر ہو جائیں گے۔ حکومت کمیٹی نے فوراً شام کو ہی روابط کرکے اگلے ہی دن میٹنگ کے لئے وقت معین کر لیا اور میڈیا میں بھی یہ وضاحت کر دی کہ طالبان کمیٹی سے جو وضاحتیں طلب کی گئی تھیں، ان کا جواب مل گیا ہے، لہذا کل ضرور میٹنگ ہوگی۔ اگلے روز خیبر پختونخوا ہاﺅس اسلام آباد میں چار گھنٹے تک جاری رہنے والی دونوں کمیٹیوں کی میٹنگ میں جو نقاط زیر بحث لائے گئے، ان کی وضاحت میٹنگ کے آخر میں دونوں کمیٹیوں کی طرف سے سامنے لائے گئے مطالبات سے ہوتی ہے، حکومتی کمیٹی نے اپنے مطالبات پیش کئے کہ مذاکرات آئین کی حدود کے اندر ہی ہونگے، ان مذاکرات کا دائرہ کار شورش زدہ علاقوں تک محدود ہوگا، یعنی شمالی وزیرستان یا فاٹا تک، تیسرا نقطہ یہ تھا کہ چونکہ قوم خوشخبری کی منتظر ہے، لہذا مذاکرات مختصر ترین مدت میں مکمل کئے جائیں گے۔

طالبان کمیٹی نے حکومتی کمیٹی سے انکے مینڈیٹ کی وضاحت اور دائرہ اختیار کی وضاحت مانگ لی، یعنی حکومتی کمیٹی اگر میٹنگ میں کوئی معاملہ طے کرتی ہے تو اس پر عملدرآمد کی ضمانت دینے میں کس قدر مقتدر ہے، یعنی یہ کمیٹی طالبان کے مطالبات حکومت سے منوانے میں کس قدر قدرت رکھتی ہے۔ دوئم حکومتی کمیٹی طالبان کمیٹی کی وزیراعظم نواز شریف، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے میٹنگ کرائی جائے۔ دونوں کمیٹیوں میں قرار پایا کہ پورے ملک میں شدت پسند کارروائیاں بند ہونی چاہئیں۔ پہلی میٹنگ کے نتائج اس اعتبار سے قابل اطمینان شمار کئے گئے کیونکہ اس میں موجود کور نقطہ پر طالبان نے بھی آئین کے اندر رہتے ہوئے مذاکرات جاری رکھنے کی  شرط کو تسلیم کر لیا ہے، اس  پر کئی ماہرین، دانشوروں اور سیاسی رہنمائوں نے اچھے تبصرے بھی کئے کہ طالبان کو حکومت کمیٹی کی اس عائد کردہ شرط سے کوئی اختلاف نہیں، لیکن یہ خوش فہمی صرف چند لمحوں تک ہی محدود تھی اور اس وقت کافور ہوگئی جب طالبان کی کمیٹی میں شامل ایک اور رکن نے اسی کور نقطہ کو ہی ہدف تنقید کا نشانہ  بنا ڈالا۔
 
مذاکرات کے اختتام پر طالبان کمیٹی کے رکن مولانا عبدالعزیز لال مسجد والے نے مذاکراتی کمیٹی سے علیحدگی کی دھمکی دیدی، کیونکہ انکے مطابق مذاکرات میں شریعت کے نفاذ کی بجائے آئین کی حدود کی بات کی گئی ہے، جو انہیں گوارا نہیں، کمیٹیوں کی میٹنگ  کے دوران مولانا عبدالعزیز اور میجر عامر کے درمیان اچھی خاصی بحث بھی ہوئی، لیکن مولانا عبدالعزیز وقتی خاموشی کے باوجود اپنی بات پر اڑے رہے، اب کوئی انہیں یہ سمجھائے کہ مذاکرات کی بساط تو طالبان کیلئے بچھائی گئی تھی، درمیان میں آپ اپنا ایجنڈہ لیکر کہاں سے ٹپک پڑے، اب جب طالبان کمیٹی کے دیگر ارکان نے متفقہ طور پر حکومتی کمیٹی کی تجاویز سے اتفاق کر لیا ہے تو کیا آپ کے اختلاف رائے کو طالبان کی رائے قرار دیا جائے یا آپ کی شخصی رائے قرار دیا جائے۔
 
یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا طالبان کمیٹی، طالبان شوریٰ یا رہنماﺅں کے وضع کردہ کسی خط کو رہنما اصول بنا کر مذاکرات کر رہی ہے یا یہ کمیٹی اپنے فیصلے کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہے اور جو فیصلہ یہ کمیٹی کریگی وہ طالبان کو بھی قبول ہوگا۔ اگر یہ کمیٹی اسی استحقاق کے ساتھ مذاکراتی عمل کا حصہ ہے تو اسکی کوئی حیثیت بنتی ہے، لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو مذاکرات کے نام پر قوم کی آرزﺅوں اور تمناﺅں کا گلہ گھونٹنے کا اختیار ان صاحبان کو حاصل نہیں۔ مولانا عبدالعزیز کی طرف سے شریعت کے نفاذ کے مطالبے کی حمایت کرکے طالبان نے خود کیمٹی کے باقی ماندہ اراکین کے فیصلوں اور حیثیت کے بارے میں کئی ایک سوالیہ نشان کھڑے کر دیئے ہیں۔ اب اگر طالبان کی رائے بھی وہی ہے جو مولانا عبدالعزیز کی ہے تو کیا سمجھا جائے کہ مولانا عبدالعزیز کے کمیٹی سے علیحدگی کے اعلان کو درحقیقت طالبان کی بھی علیحدگی تصور کیا جائے، اس صورت میں پہلی میٹنگ کے فیصلہ جات کی کیا حیثیت تصور کی جائے۔ اب اس صورتحال میں یہی نظر آ رہا ہے کہ شاید اگلے مرحلے میں مولانا سمیع الحق بھی کمیٹی سے دستبرداری کا اعلان کر دیں اور مذاکرات کا عمل گھوم پھر کی اسی جگہ پر واپس آ کھڑا ہو جہاں سے شروع ہوا تھا۔
خبر کا کوڈ : 349614
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش