5
0
Saturday 8 Feb 2014 13:41

طالبان کے نمائندے کی پریس کانفرنس

طالبان کے نمائندے کی پریس کانفرنس
تحریر: طاہر یاسین طاہر
 
اک تماشا سا لگا ہوا ہے، ریاست اپنے کئے کا خمیازہ بھی بھگت رہی ہے۔ دنیا میں اور کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ مسلح گروہ اٹھ کر ریاست کے باسیوں کا قتل عام کریں اور ریاست ان سے مذاکرات، مذاکرات کی بھیک مانگتی رہے۔ میر تقی میر کو یاد کئے بغیر چارہ نہیں، خدائے سخن کا لقب پانے والے اس سید زادے کا کہنا ہے کہ
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

ہم بھی بڑے سادہ ہیں، ریاست جن کے ہاتھوں زخم زخم ہے، مائیں جن وحشیوں کے ہاتھوں اپنی کوکھ کے اجڑنے پر نوحہ کناں ہیں، اور بچے جن ظالموں کے ظلم کی وجہ سے یتیم ہو رہے ہیں، انہی سے یہ امید باندھ بیٹھے کہ وہ ملک میں امن کے قیام کے لیے حکومت سے تعاون کریں گے۔ 

کچھ تجزیہ کار کہتے چلے آرہے ہیں کہ حکومت ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت مذاکرات کا ڈول ڈال رہی ہے، تاکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف شمالی وزیرستان میں آپریشن کیا جاسکے۔ میرا خیال مگر مختلف ہے۔ اگرچہ ریاست کو آپریشن ہی کرنا پڑے گا، مگر وفاقی حکومت اور کالعدم تحریک طالبان کے ماضی کو دیکھا جائے تو دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ نون لیگ کے اندر ایسے بااثر افراد موجود ہیں جو کالعدم سپاہِ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے ’’اکابرین‘‘ سے خاص رشتہء عقیدت رکھتے ہیں۔ نون لیگ نے مذاکراتی کمیٹی بنا کر یہ سمجھ لیا کہ اب مذاکرات ہوں گے اور اسکے بعد کالعدم تحریک طالبان ہتھیار پھینک کر حکومت کے قدموں میں آن گرے گی۔ مگر خواہشیں انسان کا مقدر نہیں سنوارتیں۔  پشاور کے دھماکے سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے شاعرانہ سے نام والے ترجمان نے لاتعلقی کا اظہار کیا تو اسی کالعدم تحریک طالبان نے ایک مقامی ’’امیر‘‘ نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی۔ ایک اور دھماکہ ہوا تو اس کی ذمہ داری جنداللہ نے قبول کر لی۔ بے شک ریاست پر دباؤ بڑھانے کے لیے کالعدم تحریک طالبان پاکستان اپنے ذیلی گروہوں کو کام میں لائے گی۔

لفظوں کی جھاڑ پونچھ کرکے بات کی جائے تو کالعدم لشکر جھنگوی، کالعدم سپاہ صحابہ، جنداللہ، حقانی گروپ، پنجابی طالبان، مولوی نذیر گروپ، قاری الیاس گروپ، کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور غازی فورس، سب فکری طور پر ایک ہی ہیں، ہاں اگر کہیں ان میں اختلاف نظر آئے تو وہ بھتہ اور پیسے کی تقسیم کا ہوگا۔ جہاں تک ریاست کے خلاف کارروائیوں کا تعلق ہے تو یہ سب گروپ ایک دوسرے کے دست و بازو ہیں۔ بات امن یا جنگ کی نہیں، اہداف کی ہے، دہشت گردوں کا ایک واضح ہدف ہے۔ ریاست پر قبضہ اور پھر اس قبضے کے دوران جو بھی اختلاف کرے اسے کافر قرار دے کر قتل کرنا۔ محسن نقوی اس رویے کو بھانپ کر کہہ گیا کہ،
قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ 
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ


اس قتل گاہ میں زندگی وحشیوں کے رحم و کرم پر ہے۔ میرا سوال مگر اپنی جگہ موجود ہے کہ ریاست باغیوں کو کچلنے کے بجائے انھیں پھلنے پھولنے کا موقع کیوں دے رہی ہے؟ مذاکرات کا انجام بلاشبہ وہی ہوگا جو سوات والے مذاکرات کا ہوا تھا۔ ریاست کے اتنے بڑے مسئلے کہ جسے ریاستی بقا کے ذمہ دار ادارے نے ریاست کے لیے بھارت سے بھی بڑا خطرہ قرار دیا، اسے ایک تین رکنی حکومتی کمیٹی کیسے حل کرسکتی ہے؟ اور کمیٹی بھی ایسی جس میں حکومت کی طرف سے کوئی ایسا آدمی شامل نہیں جو بالواسطہ طور پر عوامی نمائندہ ہو؟ کالعدم تحریک طالبان کے نامزد کردہ افراد اور حکومت کی کمیٹی کے نامزد کردہ افراد، فکری طور پر ایک ہی ’’رسم‘‘ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ کیا اس کمیٹی میں ان شہداء کا بھی کوئی نمائندہ ہے، جو طالبانی وحشتوں کے سبب شہادت نصیب ہوئے؟

تازہ ’’فرمان‘‘ مگر سامنے آگیا، اس فرمان کے پردے میں ’’ہدف‘‘ کا پھر سے اظہار بھی کر دیا گیا۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی نامزد کردہ کمیٹی کے ایک رکن مولوی عبدالعزیز، جو لال مسجد اسلام آباد کے خطیب کہلاتے ہیں، نے گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس کرکے ایک بار پھر آئین پاکستان کے تحت مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا۔ یاد رہے کہ2007ء میں بھی یہ مولانا صاحب پاکستانی آئین کو ماننے سے انکار کرچکے ہیں۔ ریاست کی عملداری کو چیلنج کیا اور پھر برقعے میں فرار ہوتے ہوئے پکڑے گئے۔ مولانا کا کہنا ہے کہ طالبان آئینِ پاکستان کو نہیں مانتے، کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے شاعرانہ نام والے ترجمان نے بھی کہہ دیا کہ ’’اگر طالبان کو شریعت کے علاوہ کوئی قانون منظور ہوتا تو جنگ ہی نہ کرتے۔‘‘

لال مسجد کے مولوی عبدالعزیز کی پریس کانفرنس کے بعد آئینی ماہرین سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ آرٹیکل 6 کہاں کہاں لاگو ہوتا ہے؟ سو باتوں کی ایک بات۔ قبائلی روایات اور سلفی رویوں کو کج فہم اسلام سمجھ کر جگ ہنسائی کا باعث بن رہے ہیں۔ کیا شریعت چند ظواہر میں ہی پنہاں ہے؟ کیا ایک خاص وضع قطع کا حامل شخص ہی مسلمان کہلائے گا؟ کیا اب کسی کی شلوار کے پائنچوں کو دیکھ کر اس کے کافر یا مسلمان ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا؟ کیا رواداری، اخوت، ہمدردی، عدل اسلامی تعلیمات نہیں ہیں؟ مولوی کا زور مگر اس بات پر ہے کہ شریعت کے نفاذ کی بات کرو۔ اور شریعت بھی ایسی جیسی کالعدم تحریک طالبان پاکستان والے چاہتے ہیں۔ جس میں کسی کو مولوی سے اختلاف کی جرات نہ ہو۔ اسلام اللہ رب العزت کا پسندیدہ دین ہے۔ علامہ اقبال مولوی کی چالاکیوں کو بھانپ گئے تھے اسی لیے تو کہا کہ
یہی شیخِ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیمِ بوذر ؓ و دلقِ اویسِؓ چادرِ زہراؑ
خبر کا کوڈ : 349536
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

well done tahir sb
VERY NICE
khuda ap ko slamat rakhey bhi jaan
بجا فرما یا آپ نے۔
یہ بھی پوچھتے جایئے کہ اس طالبانی شریعت میں سنی اور شیعہ کا کیا مقام ہوگا؟؟؟
کہیں طالبان کو فٹ بال کھیلنے کے لئے مزید سر مل جائیں گے اور وہ بھی کروڑوں کی تعداد میں؟؟؟
Pakistan has constitution on basis of which our country runs its not just a is peace of paper but the rights of Public is ensured in constitution if still public is suffering then its not because of constitution but because of poor management and establishment
بہت اچھا طاہر بھائی، گلہ اوروں سے نہیں اپنوں سے ہے، جو کامیاب مذاکرات کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔
ہماری پیشکش