0
Saturday 5 Feb 2011 15:46

5 فروری،یوم یکجہتی کشمیر

5 فروری،یوم یکجہتی کشمیر
تحریر:حافظ محمد ادریس
خطۂ کشمیر، ارض فلسطین کے بعد دھرتی کا مظلوم ترین گوشہ ہے۔ اس سرزمین پر بھارت کی درندہ صفت فوجیں اتنی بڑی تعداد میں نہتے کشمیریوں کی نسل کشی پر مامور ہیں کہ اسکی کوئی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ چھوٹی سی آبادی کو لاکھوں درندوں نے گھیر رکھا ہے۔ انکی آبادیاں ویران، کھیت کھلیان اور باغات تباہ حال، عفت مآب بیٹیوں کی عصمتیں پامال اور پوری وادی جنت نظیر آج مقتل کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ ایک لاکھ کے قریب لوگ جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ زخمی اور معذور ہو چکے ہیں۔ ہزاروں مرد و خواتین لاپتہ ہیں اور ہزاروں بھارتی عقوبت خانوں میں ظلم و ستم سہہ رہے ہیں۔ ہزاروں دخترانِ کشمیر کی عفت پامال کی جا چکی ہے۔ پاکستان اس مسئلے کا اہم فریق ہے۔
کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ تحریکِ حریت کشمیر پاکستان سے اپنی وابستگی کا برملا اظہار کرتی ہے۔ افسوس پاکستانی حکومتیں یکے بعد دیگرے مسلسل قوم و ملت کے اس اہم ترین مسئلے کو نہ صرف پس پشت ڈالنے کی مرتکب ہوئی ہیں بلکہ حریت پسند کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی مجرم بھی ہیں۔ نام نہاد سیکولر دانش ور اور لادین طبقات ایک طے شدہ ایجنڈے کے تحت مسئلہ کشمیر کو فراموش کر کے بھارت کیساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے کا راگ الاپ رہے ہیں۔ انکے نزدیک بھارت کی حیثیت "ہمسائے، ماں جائے" کی سی ہے۔ افسوس کہ یہ لوگ خونِ شہدا کی قدر و قیمت سے تو نابلد ہیں ہی، اس بنیادی انسانی غیرت سے بھی محروم ہو چکے ہیں کہ دخترانِ ملت کی عزتیں لوٹنے والوں سے دوستی کیونکر ممکن ہے۔؟
کشمیری حریت پسند روزِ اول سے بھارتی تسلط کے خلاف سراپا احتجاج رہے ہیں۔ روس کیخلاف جہادِ افغانستان نے کشمیریوں کو ولولۂ تازہ اور عزمِ نو بخشا۔ روس کی پسپائی کے بعد کشمیر میں سلگتی ہوئی آگ شعلۂ جوالہ بنی اور مظلوم وادی کے باشندے جذبۂ جہاد سے جھوم اٹھے۔ پہلے بھارتی فوجیں یک طرفہ خون کی ہولی کھیلتی تھیں، اب کشمیریوں نے بھی ہتھیار اٹھا لیے اسکے نتیجے میں بھارتی درندوں کی لاشیں بھی انڈیا کے مختلف شہروں میں جانے لگیں تو بھارتی بنئیے کو احساس ہوا کہ کشمیر کو غلام رکھنا اب انکے بس میں نہیں۔ کشمیری حریت پسند مختلف تنظیموں کے جھنڈے تلے مصروفِ جہاد تھے۔ پھر انھوں نے تحریک حریت کشمیر کو متحدہ پلیٹ فارم کی شکل دی اور سید علی گیلانی کی صورت میں ایک ایسی قیادت خطے کو نصیب ہوئی جو ہر لحاظ سے مثالی ہے۔ جسمانی لحاظ سے بظاہر کمزور، عمر رسیدہ، مختلف امراض سے نڈھال، علی گیلانی عقابی نگاہ اور چیتے کا جگر رکھتے ہیں۔ 
تحریک حریت کی کاوشوں سے مسئلہ کشمیر پھر زندہ ہوا۔ ہماری بھی اس مسئلے کے ضمن میں اہم اور بنیادی ذمہ داریاں ہیں۔ پاکستان اور آزاد کشمیر جہاد کشمیر کا بیس کیمپ ہیں۔ پاکستان اس مسئلے میں مداخلت کار نہیں بلکہ عالمی اداروں کے فیصلوں نے اسے باقاعدہ فریق کا درجہ دیا ہے۔ پاکستانی حکمران معلوم نہیں کیوں بزدلی کی چادر اوڑھے اس مسئلے سے دور بھاگتے ہیں۔
پاکستان میں جماعت اسلامی نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کو اپنی اولین ترجیحات میں شمار کیا ہے۔ 1988ء کے انتخابات میں ملک میں بینظیر بھٹو کی حکومت قائم ہوئی جبکہ پنجاب میں اسلامی جمہوری اتحاد کے تحت میاں نواز شریف وزیر اعلیٰ بنے۔
1989ء کے آخر میں جماعت اسلامی کی ایک مجلس مشاورت میں طے پایا کہ کشمیری حریت پسندوں سے اظہار یکجہتی کے لیے پاکستان بھر میں ایک دن منایا جائے، جس میں ملک کے تمام عناصر و مسالک، حکومتی اور غیر حکومتی ادارے غرض پوری قوم یک زبان ہو کر مسئلہ کشمیر پر آواز اٹھائے۔ اس وقت کے امیر جماعت قاضی حسین احمد نے اس سلسلے میں ایک کمیٹی قائم کی جس نے اس پروگرام کا پورا لائحۂ عمل طے کیا۔ جماعت کی مشاورت میں طے پایا کہ قاضی صاحب حکمرانوں سے ملاقات کر کے انھیں بھی اس مسئلے کی اہمیت سے آگاہ کریں اور اپنا فرض ادا کرنے پر آمادہ کریں۔ قاضی صاحب نے اس سلسلے میں میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کی اور 9 جنوری 1990 کو پریس کانفرنس کے ذریعے جماعتی فیصلوں کے مطابق 5 فروری 1990ء کا دن ’’یوم یکجہتی کشمیر‘‘ کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ اس موقع پر پاکستانی ذرائع ابلاغ نے بھی بھرپور کردار ادا کیا اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اس مطالبے کو خوب اجاگر کیا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف نے سرکاری سطح پر یومِ یکجہتیٔ کشمیر کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ ملک میں ایسی فضا بن گئی کہ وزیراعظم پاکستان، بینظیر بھٹو مرحومہ نے بھی اس مطالبے کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے 5 فروری کو سرکاری تعطیل قرار دے دیا۔ انھوں نے مظفرآباد میں آزاد کشمیر اسمبلی سے بھی خطاب کیا، جس میں بھارتی مظالم کی مکمل تصویر پیش کرتے ہوئے پُرجوش انداز میں تحریک آزادی کشمیر کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ بینظیر بھٹو مرحومہ کی تقاریر میں سے ان کا وہ خطاب بہت جامع اور موثر ہے۔ اس وقت سے لے کر آج کے دن تک پاکستان میں برسرِ اقتدار آنے والی ہر حکومت اگرچہ عملاً مسئلہ کشمیر پر اپنا فرض ادا کرنے سے قاصر اور گریزاں رہی ہے تاہم یہ دن ایک قومی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور اس سے انحراف کسی کے بس میں نہیں۔
کشمیری حریت پسندوں کے حوصلے اللہ کے فضل سے بلند ہیں۔ بھارت کے انتہا پسند اور متعصب ہندو اگرچہ اب تک کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتے رہے ہیں مگر بھارتی پارلیمنٹ اور فوجی حلقوں کے اندر بھی اب یہ صدائے بازگشت پوری دنیا سن رہی ہے کہ وادی کشمیر کو مزید غلامی کے چنگل میں قید رکھنا بھارت کے بس میں نہیں۔ شہیدوں اور غازیوں کا خون پسینہ انشاء اللہ رنگ لائے گا۔
 پوری وادی میں 14 اگست کو یوم آزادی پاکستان، جشن کے طور پر منایا جاتا ہے جبکہ اس کے ایک دن بعد 15 اگست کو بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر تمام کشمیری مناتے ہیں۔ 26 جنوری بھارت کا یوم جمہوریہ ہے، اس روز وادی میں مکمل ہڑتال ہوتی ہے۔ ہر کشمیری کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہوتا ہے ’’بھارتی درندو، واپس جائو۔‘‘ وادیٔ کشمیر میں بھارتی ترنگا لہرانے کی حکومتی کوششیں بھی دم توڑ جاتی ہیں۔
اسکے مقابلے میں ہر کشمیری اپنے مکان کی چھت پر پاکستان کا جھنڈا لہرتا ہے۔ پاکستان کا یوم جمہوریہ 23 مارچ کو پورے جوش و خروش اور ایمانی جذبے کیساتھ پوری وادی میں منایا جاتا ہے اور علی گیلانی اور انکے تمام ساتھی ہر جگہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں۔
5 فروری تاریخی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور اس روز پوری دنیا یہ منظر دیکھتی ہے کہ پاکستانی قوم بڑے شہروں سے لیکر چھوٹی چھوٹی بستیوں تک اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہی ہوتی ہے۔ اس یوم کے تعین کیلئے جن لوگوں نے سوچ بچار کی اور جنھوں نے اس کیلئے دستِ تعاون بڑھایا ان سب کا یہ عمل باعث اجر ہے۔ جو جتنے اخلاص کے ساتھ مظلوم کشمیری بھائیوں کیلئے کام کریگا، اتنا ہی اللہ کے ہاں اجر کا مستحق ہو گا۔ آج پوری دنیا کا منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے۔ عالمِ اسلام تو باالخصوص طویل مدہوشی اور موت کے سناٹے کو توڑ کر بیدار ہو رہا ہے۔
تیونس میں جو چنگاری سلگی، وہ دیکھتے ہی دیکھتے شعلوں میں ڈھل گئی اور اس نے پورے عالمِ عرب، بالخصوص ارضِ نیل کے فرعون صفت حکمرانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اب عرب حکمران ہی نہیں، امریکہ، اسرائیل اور بھارت کو بھی اپنے ارد گرد خطرات منڈلاتے نظر آ رہے ہیں۔ ہمیں جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے سرشار مجاہدینِ کشمیر و فلسطین اور افغانی و عراقی حریت پسندوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ غلامی کی زنجیریں انشاء اللہ ٹوٹ گریں گی اور جبر کا دور ختم ہو جائیگا۔ یہ دن تجدیدِ عہد اور عزمِ نو کی نوید ہے آؤ اپنے اللہ سے عہد باندھیں کہ ہم مکمل آزادی تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ جہاد کرنیوالوں کا ساتھی ہے اور ہم قائد المجاہدین کے اُمتی ہیں۔ تحریک آزادی کشمیر زندہ باد، یوم یکجہتی کشمیر پائندہ باد، بھارتی درندگی مردہ باد۔ لعنت بر امریکہ، بھارت، اسرائیل گٹھ جوڑ!
خبر کا کوڈ : 53412
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش