0
Thursday 17 Mar 2011 23:47

عالم عرب میں عوامی بیداری اور سعودی عرب کا مستقبل

عالم عرب میں عوامی بیداری اور سعودی عرب کا مستقبل
تحریر:ہما مرتضٰی
 عالم یہ ہے کہ دنیائے عرب میں عوامی مظاہروں کی تیز آندھی چل رہی ہے اور ہر طرف عوام اپنے انسانی، سیاسی اور سماجی حقوق کے حصول کے لیے انقلابی جذبوں کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ مصر، تیونس، لیبیا، کویت، یمن اور الجزائر تو ایک طرف سعودی عرب میں بھی عوامی مظاہروں میں شدت آتی جا رہی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے تحریک چلا کر اُن ہزاروں قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے، جنھیں بغیر کسی مقدمے کے ایک عرصے سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے پابند رکھا گیا ہے۔ اس سلسلے میں سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے فیس بک پر سعودی شہنشاہ کو ایک ملین ای میل بھیج کر ان دسیوں ہزار افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی اقنا نے خبر رساں ادارے راصد کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ گیارہ مارچ کو سعودی عرب کی طرف سے سکیورٹی کے سخت اقدامات کے باوجود ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور سعودی حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ سعودی فورسز نے ان میں سے ۱۹ افراد کو گرفتار کر لیا۔ سعودی عرب کے صوبہ الاحصاء کے شہر الہفوف کی جامع مسجد کے سامنے سے یہ مظاہرہ شروع ہوا، مظاہرین نے سعودی شاہی حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور اپنے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ پرامن مظاہرین پر پولیس نے تشدد کیا اور نامور عالم دین شیخ علی الوائل کو بھی گرفتار کر لیا۔
دوسری طرف سرکاری ملائوں کی جانب سے مظاہروں میں شرکت کو حرام قرار دے دیا گیا ہے۔ جبکہ اس فتویٰ کے جاری ہونے کے بعد سعودی عرب کے ایک ممتاز صحافی اور سرگرم شخصیت عبدالوہاب العریض نے عوامی مظاہروں کو حرام قرار دینے کے بارے میں سعودی عرب کی سرکاری علماء کونسل کے فتوے کو سیاسی قرار دیا ہے۔ انھوں نے مظاہروں میں شرکت کی اپیل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ آج کے نوجوان مظاہروں کے ذریعے اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں۔ سترہ ہزار سے زائد نوجوانوں نے سماجی چینلوں کے ذریعے آل سعود کے حکمرانوں کے خلاف مظاہروں میں شرکت پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے ایک ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے انقلابی نوجوانوں کے اتحاد نے سماجی چینلوں پر دعوت نامہ جاری کر کے اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب کے حکام کی جانب سے اب بیان جاری کرنے اور درخواستیں کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور حکومت کو سمجھانے اور جلد سے جلد عوام کے مطالبات قبول کرنے پر مجبور کرنے کا واحد راستہ مظاہرے اور دھرنا ہے۔
سعودی عرب کے شاہی خاندان کی ایک نمایاں شخصیت ترکی بن عبدالعزیز آل سعود نے سعودی عرب کے حکمران خاندان کو خبردار کیا ہے کہ فوجی بغاوت یا عوامی انقلاب سے قبل اپنے گھرانوں کے ساتھ ملک سے چلے جائیں۔ قاہرہ میں مقیم ترکی بن عبدالعزیز نے سعودی حکمران خاندان سے کہا ہے کہ ان کا انجام بھی سابق عراقی ڈکٹیٹر صدام اور ایران کے سابق شاہ رضا پہلوی جیسا ہو گا۔ ترکی بن عبدالعزیز نے کہا کہ سعودی حکمران خاندان اب خود کو عوام پر مسلط کرنے کی طاقت کھو چکا ہے اور عوام میں آل سعود کے خلاف بے چینی بڑھ رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ اور برطانیہ پر بھروسہ کر کے خود کو دھوکا نہ دو کیونکہ وہ اپنا نقصان برداشت نہیں کرتے۔
مشرق وسطیٰ کی ایک اہم نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق روسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی سرزمین پر انقلاب کا آغاز ہو چکا ہے اور مشرق وسطیٰ کی حالیہ صورت حال اور اسلامی بیداری کی لہر اس پوری سرزمین پر چھانے والی ہے۔’’میخائل لوکالینن ‘‘نے ترود نامی روزنامے میں لکھا ہے کہ مشرق وسطیٰ کا خطہ نئے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے اور اکثر ماہرین کی رائے ہے کہ دنیائے عرب حالیہ لرزشوں کے نتیجے میں عالمی اسلامی تحریک میں شامل ہو جائے گا۔
ماسکو میں مشرق وسطیٰ انسٹیٹیوٹ کے سربراہ ’’یوگینی ساتا نومسکی‘‘کا کہنا ہے کہ ایک ایسے انقلاب کی لہریں پوری سرزمین نجد و حجاز پر چھا جائیں گی جس کے نتیجے میں یہ ملک دو مغربی اور مشرقی حصوں میں تقسیم ہو جائے گا۔
امریکہ اور اسرائیل سعودی عرب میں حالیہ عوامی تحریک کے پھیلائو سے سخت پریشان ہیں۔ سیاسی ماہرین نے کہا ہے کہ ایسے عالم میں جبکہ امریکہ جمہوریت اور آزادی کے نعرے لگاتا ہے واشنگٹن نے سعودی عرب میں عوامی تحریک کے پھیلنے پر تشویش ظاہر کر کے اپنے دوہرے معیارات کا ثبوت دے دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق بظاہر اوباما سعودی عرب میں امریکہ کے مفادات اور جمہوریت میں توازن برقرار کرنا چاہتا ہے، جو بہر حال ایک متضاد بات ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ اسرائیل کے بعد سعودی عرب خطے میں امریکہ کا سب سے بڑا حامی اور اتحادی سمجھا جاتا ہے۔
امریکی حزب اختلاف کے رہنما اور سابق صدارتی امیدوار جان میکن کے مطابق مشرق وسطیٰ میں اس سیاسی تبدیلی کی لہر پر اسرائیل پریشان ہے۔ سعودی عرب میں اس سیاسی تبدیلی کا امریکہ اور اسرائیل کی خارجہ پالیسی پر کیا اثر پڑے گا اس بارے میں ریپبلکن پارٹی کے رہنما ’’جان میکن‘‘نے اسرائیل کو مشورہ دیا ہے کہ اُسے منتخب حکومتوں سے مذاکرات کرنے اور تعلقات قائم کرنے میں زیادہ آسانی ہو گی۔ امریکہ میں بھی اسرائیل کے حامیوں نے اسرائیل کو مشورہ دینا شروع کر دیا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں ہونے والی تبدیلیوں پر لبیک کہے۔ اسرائیل کو اس بات کا خوف ہے کہ اگر مصر میں انتخابات کے بعد اخوان المسلمین حکومت میں شامل ہوتی ہے تو کیمپ ڈیوڈ سمجھوتا خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ یہ سمجھوتہ اسرائیل کو اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ مصر دیگر ممالک کے ساتھ اس کے خلاف محاذ نہیں بنائے گا۔
ماہرین کے مطابق مشرق وسطیٰ میں اسرائیل گھبرایا ہوا ہے، لیکن بظاہر وہ خاموش ہے اور انتظار کر رہا ہے کہ بدلتے ہوئے حالات کیا شکل اختیار کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اُس کے سرگرمی کے ساتھ اپنے مغربی اور مقامی اتحادیوں سے مشورے بھی جاری ہیں۔ ایسے میں سعودی عرب میں مظاہروں کا شروع ہونا اسرائیل اور امریکہ دونوں کے لئے باعث تشویش ہے کیونکہ تمام اسلامی ممالک میں سعودی عرب امریکہ کا سب سے مضبوط اتحادی ہے۔
26 فروری کی نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق:’’امریکی اتحادی سعودی عرب کو مشرق وسطیٰ میں انقلاب کی موجودہ صورت حال نے ہلا کر رکھ دیا ہے، اب اسے خطے میں تنہا چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہو گا۔‘‘
اب تیونس، مصر، بحرین اور لیبیا کے بعد مشرق وسطیٰ میں حالات تیزی کے ساتھ بدلتے جا رہے ہیں تو سعودی عرب بھی ان حالات و انقلابات کی ہوا سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ مشرق وسطیٰ میں جن ملکوں میں بھی عوامی مظاہرے شروع ہوئے ہیں، وہاں کے حکمران غاصبوں کی طرح نسل در نسل حکمرانی کرتے آ رہے ہیں۔ عوام اب ان سے تنگ آ چکے ہیں۔ ان موروثی بادشاہوں اور آمروں سے نجات پا کر وہ جمہوریت چاہتے ہیں، اقتدار میں اپنا بھی حصہ چاہتے ہیں۔ سعودی عرب میں بھی عوام اسی چیز کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کو بھی حکومت میں شریک کیا جائے۔ اُن کی خواہش ہے کہ سیاسی، معاشی اور معاشرتی فیصلوں میں ان کو بھی شامل کیا جائے۔
 اگرچہ سعودی بادشاہ عبداللہ نے حال ہی میں 23 ارب ڈالر کی رقم تنخواہوں میں اضافے، امدادی رقوم اور تحائف کے لئے مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پھر بھی عوامی مظاہروں میں شدت آتی جا رہی ہے۔ مظاہرین ابتدا میں سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے، لیکن اب ان کے مطالبات بڑھ گئے ہیں۔ تیونس، مصر، لیبیا، بحرین، یمن کے مظاہروں کی حمایت بعض اسلامی ممالک اور چند ایک مغربی ملک بھی کر رہے ہیں جبکہ سعودی عرب نے پہلے یمن کے مظاہرین پر گولہ باری کی اور اب بحرین میں اپنے فوجی ٹینک بھیج کر وہاں کی عوامی تحریک کو کچلنے کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ ان ممالک کے انقلاب کی لہریں کہیں اس کے اپنے ہاں داخل نہ ہو جائیں، لیکن جب ہر طرف انقلاب کی لہریں برپا ہو گئی ہیں تو سعودی عرب اس سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب سعودی عرب کا مستقبل کیا ہو گا۔؟
خبر کا کوڈ : 60173
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش