1
0
Friday 27 May 2011 18:39

مہران بیس کا المیہ

مہران بیس کا المیہ

تحریر:ہما مرتضٰی
 کراچی میں 22 مئی اتوار کی رات ساڑھے دس بجے جدید ترین اسلحہ سے لیس متعدد دہشت گردوں نے شارع فیصل پر واقع پی این ایس مہران بحریہ کی تنصیبات پر راکٹوں اور بموں سے حملہ کر دیا، جس سے نیوی کے دو اورین سی تھری طیارے تباہ ہو گئے۔ نیوی اور رینجرز کے تقریباً 13 اہلکار شہید اور درجن سے زائد زخمی ہو گئے۔ اس غیر متوقع حملے کے بعد طرح طرح کی میڈیا رپورٹیں سامنے آئیں۔ صدر اور وزراء کے بیانات نشر ہوئے، لیکن آخر کار یوں لگتا ہے جیسے کہانی بغیر کسی END کے ختم ہو گئی، جیسے سلسلہ وار ناول ہو جس کا END سالہاسال نہیں ہوتا اور قارئین انتظار کرتے رہ جاتے ہیں کہ اب اگلے ماہ کیا ہو گا، بالکل ایسے ہی پاکستان میں آئے روز دہشت گردی کے واقعات خودکش حملے، دھماکے، فوج کے ٹریننگ سنٹر پر حملے، ان کی بسوں پر راکٹ فائر تواتر سے ہونے والے المیے ہیں کہ ختم ہونے کو نہیں آ رہے اور عوام انتظار کی سولی پر لٹکے ہوئے ہیں کہ اب اگلی دہشت گردی کا واقعہ کہاں ہو گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور فوج نے جو مدافعانہ اور معذرت خواہانہ پالیسی اختیار کر رکھی ہے اسے ترک کر کے ملک میں ہونے والی سازشوں کا پوری قوت سے دوٹوک انداز میں جواب دے۔ یہ ممکن نہیں کہ اب تک حقیقی دشمن ہماری فوج یا سیکورٹی اداروں پر آشکار نہ ہوا ہو۔ مسئلہ فیصلے کا ہے، ایسا فیصلہ جو واقعاً دوٹوک ہو اور جس کا مقصد وطن عزیز کی سلامتی ہو۔ دشمن جتنا بڑا ہے جرات بھی اتنی زیادہ چاہیے ہے اور دشمن جتنا عیار ہے، حکمت بھی اسی پیمانے پر درکار ہے۔ پی این ایس مہران جیسے واقعات ملکی تاریخ میں بہت بڑے ہیں اور ملکی سلامتی کے لیے بڑے خطرے کی علامت ہیں۔ ایبٹ آباد میں امریکی فوجی آپریشن کے بعد کراچی کا سانحہ داخلہ اور خارجہ حکمت عملی میں موجود خامیوں بلکہ بنیادی کمزوریوں کی نشاندہی کرتا ہے۔
یہاں سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشتگرد کس طرح ملک کے سب سے زیادہ حفاظتی حصار میں داخل ہوئے اور کیسے انھوں نے مسلح افواج کو اتنی دیر الجھائے رکھا۔؟ جس طرح دہشت گردوں نے ساری کاروائی کی، اس سے ظاہر تو یہ ہوتا ہے کہ انھیں کسی نے بیس کے اندر کا تمام نقشہ بنا کر سمجھایا ہو اور باقاعدہ ٹریننگ دی ہو کہ کیسے اندر جانا ہے اور کس طرح مزاحمت کا بھرپور جواب دینا ہے۔ یہ کسی شوقیہ یا جنت کے تمنائی دہشت گرد کا کام نہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کا ایک ایسا وسیع نیٹ ورک تیار ہو چکا ہے جو جدید ترین اسلحہ سے ہی لیس نہیں بلکہ اعلیٰ مہارت کے حامل انسٹرکٹرز بھی رکھتا ہے۔
سینئر انٹیلی جنس ذرائع نے ایک اہم انگریزی روزنامے کو بتایا ہے کہ یہ انڈین خفیہ ایجنسی ”را“ اور اسرائیلی ”موساد“ اور امریکی سی آئی اے کے ایک مشترکہ آپریشن تھا جس میں ہو سکتا ہے کہ مخالف لابی القاعدہ کے گروپ کا استعمال کیا گیا ہو۔
ایک عام آدمی تک یہ سمجھ چکا ہے کہ جن دہشتگردوں نے مہران بیس پر حملہ کیا انھیں سب سے بڑا ٹارگٹ ”اورین سی تھری “ طیارے تباہ کرنے کا دیا گیا تھا اور یہ بات آن دی ریکارڈ ہے کہ بھارت نے امریکہ کی طرف سے پاکستان کو یہ طیارے دیے جانے کی شدید مخالفت کی تھی۔ پاکستان کے یہ قیمتی دفاعی اثاثے ضائع ہونے پر سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو ہی ہوا ہے اور ایجنسیوں کے پاس یہ اطلاعات موجود ہیں کہ القاعدہ اور طالبان کے ایک گروپ نے افغانستان میں قائم بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ”را“ کے ایک بیس کیمپ میں بھارتی فوج سے تربیت حاصل کی ہے۔ ان ایجنسیوں نے اس کیمپ میں القاعدہ اور بھارتی فوج کی مشترکہ کاروائیوں سے حکومت کو بھی آگاہ کیا تھا۔ جی ایچ کیو راولپنڈی پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کا تعلق بھی اسی تربیتی کیمپ سے تھا۔ 
سانحہ مہران کی ابتدائی تحقیقات میں پاک بحریہ نے بیرونی ہاتھ ملوث ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پاک بحریہ کو دہشت گردوں کی تیاری اور اپنے ہدف کے بارے میں مکمل معلومات پر حیرانی ہے جس میں ٹاور پوزیشن، راکٹ موومنٹ، فریکوئنسی، گشت، خفیہ کیمرے غرض تمام تر جزئیات شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ دہشت گرد کورنگی کی جانب سے عمارت میں داخل ہوئے، جہاں انھوں نے نالے کے کنارے پر اُگی جھاڑیوں کو کیموفلاج کے طور پر استعمال کیا۔ چار دیواری تک پہنچنے کے بعد انھوں نے ایسے طاقتور دھماکہ خیز مواد سے دیوار میں سوراخ کیا، جس سے چنگاریاں کم نکلیں اور آواز کی گونج نہیں ہوئی۔ سیڑھیوں کے ذریعے دیوار پر چڑھنے کے بعد انھوں نے کرنٹ دوڑتے تار کاٹ ڈالے۔ سیکورٹی اہلکاروں کا کہنا تھا کہ تاریکی میں دیکھنے والی عینکیں پہنے سیاہ ٹی شرٹس میں ملبوس حملہ آور روسی ساخت کے ہینڈ گرنیڈ، راکٹ لانچرز، بندوقوں اور خودکش جیکٹوں سے لیس تھے۔ 
سوچنے کی بات ہے کہ نام نہاد طالبان کے پاس ایسی چیزیں کہاں سے آگئیں۔ کیا ہمارے ذمہ دار ادارے یہ سوچنے کے لیے تیار ہیں کہ کہیں طالبان کے نام کے پیچھے امریکہ، اسرائیل اور بھارت کے پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو تباہ و برباد کرنے کے منصوبے میں یک دم شدت تو نہیں آگئی۔
بہت سے دفاعی ماہرین کی رائے ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایک مضبوط اور مربوط نظام موجود ہی نہیں ہے۔ بعض کے نزدیک ریمنڈ ڈیوس کے پاس سے جس طرح کی معلومات حاصل ہوئی ہیں ان کی روشنی میں پورے انٹیلی جنس نیٹ ورک کی اوورہالنگ کی ضرورت ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے پاس سے بہت سی حساس عمارتوں اور مقامات کی تصاویر نیز نقشے بھی برآمد ہوئے تھے۔ یہ امریکی خفیہ سرگرمیوں کا بہت بڑا ثبوت ہے۔ مہران بیس پر حملے کا تانا بانا کہیں نہ کہیں ریمنڈ کیس سے ضرور جا ملتا ہے۔ 
ہو سکتا ہے کہ مزید انوسٹی گیشن سے یہ بات منظر عام پر آ جاتی، لیکن امریکہ نے پوری سیاسی قوت صرف کر کے اسے رہا کروا لیا۔ کبھی جان کیری کا پاکستان آنا، کبھی ہیلری کا سابق وزیر خارجہ شاہ محمود کو فون کرنا اور تو اور امریکی صدر باراک اوبامہ کا پریس کانفرنس تک کر ڈالنا، اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستان میں سی آئی اے کا اہم ترین مہرہ پاکستان کے ہاتھ آ گیا تھا، جس کی رہائی فوری طور پر ازحد ضروری سمجھی گئی۔ ایک اہم تجزیہ کار کی رائے میں اب پوری قوم اور پاکستانی حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ پاکستان کو نہ تو امریکہ دل سے دوست مانتا ہے اور طالبان بھی پاکستان کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ اب پاکستانیوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا وہ دو جنگیں ایک ساتھ لڑ سکتے ہیں یا کسی ایک کو دشمن جان کر دوسرے سے ہم آہنگی کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔
امریکہ کی منافقانہ دوستی سے اس کی کھل کر سامنے آنے والی دشمنی ہی اچھی ہے۔ وہ دوستی کی آڑ میں پاکستان کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ دھماکے، خودکش حملے، ٹارگٹ کلنگ اور ڈرون حملے پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی اور امریکی غلامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ وہ درحقیقت ہمارے ایٹمی اثاثوں کو نشانہ بنا کر یہ ثابت کرنا چاہ رہا ہے کہ پاکستان کے جوہری اثاثے محفوظ نہیں، تاکہ وہ سلامتی کونسل کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کے خلاف نیٹو کے ساتھ مل کر کاروائی کر سکے۔ پاکستان کے حوالے سے یہ امریکہ کا آخری ہدف معلوم ہوتا ہے۔
اگر پاکستان اپنی دفاعی اور خارجہ پالیسی پر نظرثانی نہیں کرتا تو یہ انجام سامنے دیوار پر لکھا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ عبارت سمجھنے کے لیے کسی افلاطون کی عقل درکار نہیں۔ ان حالات میں ضروری ہو جاتا ہے کہ پاکستان چین اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید بہتر بنائے اور طالبان کے وہ گروہ جو پاکستان کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے تیار ہوں اور پاکستان میں انتہا پسند اور فرقہ پرست گروہوں سے قطع تعلق کر لیں اُن سے مذاکرات کے نتیجے میں افغانستان سے نیٹو افواج کے نکلنے کا راستہ ہموار کرے، ورنہ زمانے کی آواز آتی رہے گی: 

ع مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں

خبر کا کوڈ : 74923
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ye sunb es lie hai q k hum INDIA specific hain not Global Specific,,, 70 % budge shirf india ko counter karny k lie spend hota hai,,, see nuclear doctrine of pak,,,:-))))))
منتخب
ہماری پیشکش