4
0
Wednesday 7 Sep 2011 14:21

یہ عید کیسی تھی؟

یہ عید کیسی تھی؟
تحریر:طاہر یاسین طاہر
ہم کتنے الم رسیدہ لوگ ہیں، خوشیاں بھی ہمیں غم کی چادر اورڑھے ہوئے ملنے آتی ہیں۔ دہشتگردوں کی سفاکانہ کارروائیوں کے شکار معاشرے کو تو اب عید کا تہوار بھی لہولہان کر دیتا ہے۔ عجب مخمصہ ہے اس معاشرے کا، اپنے فہم کو پورے معاشرے پر مسلط کرنے کی روایت نے بہت سے نئے اور پیچیدہ مسائل کو جنم دیا ہے۔ اسے تقدیر کا لکھا کہہ کر درگزر نہیں کیا جا سکتا۔ مذہب کے نام پر تفریق پیدا کرنے والوں سے کوئی پوچھے کہ اسلام تو امن و سلامتی، رواداری اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ ”اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو“ تو پھر یہ کون لوگ ہیں جو تفرقہ پیدا کرکے اپنی روزی روٹی کا چکر چلائے ہوئے ہیں؟ المیے بہت سے ہیں اور دکھ بھی گہرا، کراچی سے خیبر تک خون کی لکیریں فکر کا راستہ روک کر کھڑی ہو جاتی ہیں۔
 گاہے مسجد قاسم خان کی انتشار انگیزی کا خیال قلب و جگر کو چھلنی کر دیتا ہے۔ کیا پشاور میں یہ دوسری لال مسجد ہے؟ ان کی شرارتوں پر خاموشی صوبائی حکومت کی کمزوری پر دلیل ہے۔ اپنے ہی دلائل کے جال میں پھنسنے والے ان لوگوں سے کوئی پوچھے کہ آپ تو کہتے ہیں کہ اولی الامر کی اطاعت واجب ہے، اور پھر آپ تو اولی الامر سے مراد حاکم وقت لیتے ہیں، چاہے وہ جیسا بھی ہو۔ کیا حاکم وقت نے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کو تسلیم کرنے کا نہیں کہا ہوا؟ یعنی مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا قیام اس بات کی دلیل ہے کہ چاند کی رویت کا فیصلہ یہی کمیٹی کرے گی۔ انتشار پھیلانے والوں نے رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کیلئے بھی مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اجلاس سے ایک روز قبل اجلاس بلا لیا تھا۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ اب رویت کا مسئلہ مولوی کی بجائے، ماہرین فلکیات کے حوالے کر دیا جائے۔ جو برسوں پہلے یہ تک بتا سکتے ہیں کہ فلاں ملک کے فلاں حصے میں اتنے بج کر اتنے منٹ پر چاند یا سورج گرہن اتنے وقت کیلئے ہو گا، اور ان ماہرین کی پیشنگوئی بالکل درست ثابت ہوتی ہے۔ تو کیا وہ یہ نہیں بتا سکتے کہ آج ملک میں عید الفطر ہو گی یا نہیں؟ مگر مولوی اس پر راضی نہیں۔ اس کی اتھارٹی چیلنج ہوتی ہے اور مولوی کو یہ کسی طور گوارہ نہیں۔ ایسی بات کرنے والے کو تو وہ کافر ہی کہے گا۔ مولوی کو یہ کون سمجھائے کہ سعودی عرب کے ساتھ آپ کی عقیدت بجا مگر تم اپنی عقیدت کی لہر وں میں پاکستانیوں کو تو ساتھ نہ بہا لے جاﺅ۔ کیا عید الضحیٰ پر بھی مسجد قاسم خان کے ہجرے سے "مفت ہی" شہاب الدین پوپلزئی، خیبر پختونخوا میں ایک دن پہلے قربانی کرنے کا فتویٰ جاری کریں گے؟
ہم واقعی ستم زدہ ہیں، مولوی اپنے فہم کو پورے معاشرے پر مسلط کرنے کیلئے تلا ہوا ہے اور اس کا یہ رویہ صدیوں پرانا ہے۔ دائمی مرض سے چھٹکارے کی سبیل تلاش کرنا ہو گی۔ مولوی کے بجائے فہم و تدبر کی پیروی کو رواج دینا ہو گا، اجتہاد کے بارے کیا خیال ہے؟ کیا دو عیدوں والے معاملے نے ہی ہمیں افسردہ کیا؟ نہیں، کوئٹہ میں ہزارہ عید گاہ کی پارکنگ میں ہونے والے خودکش کار بم دھماکے نے بھی تو ہر انسان دوست اور امن پسند شہری کو افسردہ کیا ہے اور اس سے بڑھ کر باجوڑ ایجنسی کی تحصیل ماموند سے تعلق رکھنے والے 25 بچوں کا دہشت گردوں کے ہاتھوں اغوا بھی کوئی کم ستم نہیں۔ منگل کو یہ بچے پاک افغان سرحد کے اوپر سرسبز و شاداب پہاڑی سلسلے میں عید الفطر کی خوشی منانے گئے تھے کہ انہیں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے "مجاہدین " نے اغوا کر لیا۔ بچے آج بھی ظالموں کی حراست میں ہیں۔ 25 بچوں کو یرغمال بنانے کی ذمہ داری کالعدم دہشتگرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کرلی۔ اگرچہ بچوں کی رہائی کیلئے قبائلی طالبان سے مذاکرات کر رہے ہیں اور یہ توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ بچے ایک دو روز میں بازیاب کرا لیے جائیں گے۔
ایک سو سے زائد بچے غلطی سے سرحد پار چلے گئے تھے مگر جب طالبان نے انہیں یرغمال بنانا شروع کیا تو بیشتر بھاگ کر واپس آ گئے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ نے ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ وہ اس موقع کے انتظار میں تھے کہ عید کی خوشیاں منانے کیلئے ماموند قبائل کے بچے پہاڑوں پر سیر و تفریح کیلئے آئیں گے تو ان کو اغوا کر لیا جائے گا۔ ترجمان نے مزید کہا کہ جن بچوں کو اغوا کیا گیا ہے ان کے والدین باجوڑ ایجنسی میں حکومت کے حامی سردار یا ملک ہیں اور وہ امن کمیٹیوں میں شامل بتائے جاتے ہیں۔ بالفاظ دیگر دہشتگرد کالعدم تنظیم کا ترجمان یہ کہہ رہا ہے کہ جو بھی امن کی بات کرے گا اس کے بچے اغوا کر لئے جائیں گے۔ یقینا ایسے درندے امن سے نفرت ہی کرتے ہیں، مولوی فقیر محمد کہتا ہے کہ یرغمال بچوں کی رہائی کا فیصلہ طالبان کی مجلس شوریٰ کرے گی، کیوں؟ اگرچہ باجوڑ مقامی رہنما، طالبان سے مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں مگر اس حوالے سے حکومت کو بھی اعلیٰ سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ تو کیا طالبان تاوان وصول کیے بغیر بچوں کو رہا کردیں گے؟ وہ یقینا باجوڑ میں دوبارہ منظم ہونے کیلئے قبائلی سرداروں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ عید اگرچہ گزر گئی مگر اس عید پر ہونے والے ان سانحات نے امن و امان اور تفرقہ بازی و انتشار کی نئی گرہوں کی بھی نشاندہی کر دی۔ طالبان اسی طرح بچوں کو اغوا کرتے رہیں گے۔ امن دشمنی ان کی سرشت میں ہے۔ مسجد قاسم کی رویت کمیٹی بھی اپنی کج فہمی کو پورے معاشرے پر مسلط کرنے کی کوششوں میں ہے۔ ایسے میں امن پسندوں کیلئے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ پوری قوت سے انتہا پسندانہ روش اور فکر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔
مصنف :
خبر کا کوڈ : 97098
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
سلامت رہیں ٹھیک کہا ہے
United States
سعودی عرب میں ہلال کمیٹی کے ساتھ ساتھ ماہرین فلکیات کی ٹیم بھی موجود ہے انکی پیشیگوئیوں پر بھی عمل نہیں کیا جاتا
, zabardast thair shab kamal ka column likha hai
, zabardast thair shab kamal ka column likha hai
ہماری پیشکش