0
Tuesday 13 Sep 2011 11:43

نائن الیون ڈرامے کے 10برس بعد

نائن الیون ڈرامے کے 10برس بعد
تحریر:تصور حسین شہزاد 
امریکی قوم نائن الیون کے واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی دسویں برسی منا چکی ہے، اس کی تقریبات پوری دنیا میں امریکی سفارتخانوں میں منعقد کی گئیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس کے دنیا بھر سے خاتمے کا عزم کیا گیا۔ نائن الیون میں مرنے والوں کے لئے تو پوری دنیا سوگوار تھی اورہونا بھی چاہیے، بے گناہ کوئی بھی مر جائے دکھ ہوتا ہے، لیکن یہ دکھ صرف امریکی یا مغربی شہریوں کی ہلاکت پر ہی کیوں محسوس کیا جاتا ہے؟ عراق میں کوئی مسلمان مرے یا افغانستان میں، پاکستان کے کسی شہر میں مرے یا وزیرستان میں ڈرون کا شکار ہو جائے، کسی کو دکھ نہیں ہوتا۔ یہ دو رنگی بذات خود مغربی طاقتوں کے لئے سوالیہ نشان ہے اور یہ واقعات مطالبہ کرتے ہیں کہ امریکیوں سے یہ سوال بھی کیا جائے کہ ان مرنے والوں کا سوگ کیوں نہیں منایا جاتا، حملے امریکہ میں ہوئے، کرنے والے کوئی اور تھے مارے پاکستانی جا رہے ہیں کیوں۔؟
گیارہ ستمبر 2001ء کی صبح جب نیویارک اور واشنگٹن پر دہشت گرد حملے ہوئے تو بظاہر ان واقعات کا ہزاروں میل دور واقعہ جنوبی ایشیا کے ملک پاکستان سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا، کوئی دہشت گرد پاکستان کا باشندہ نہیں تھا، ان کی پشت پناہی کرنے والے دہشت گردی کے اصل منصوبہ ساز پاکستان میں نہیں بلکہ افغانستان میں تھے۔ اگرچہ دہشت گردی کی اس واردات کے فوراً بعد مشرق وسطٰی اور افغانستان کا زیادہ ذکر رہا، لیکن بین الاقوامی سطح پر مذہبی دہشت گردی کے ارتقا پر نظر رکھنے والوں کو پوری طرح اندازہ تھا کہ تاریخ کے سٹیج پر ایک بڑی تمثیل کے ابتدائی منظر کھیلے جا رہے ہیں اور اس کھیل کا مرکزی کردار پاکستان ہو گا۔ 
آج دس برس بعد یہ امر واضح ہو چکا ہے کہ اسامہ بن لادن سمیت القاعدہ کے قریب قریب تمام اہم رہنما یا تو پاکستان سے گرفتار کئے گئے ہیں یا انہیں پاکستان کی زمین پرلا کر ہلاک کیا گیا ہے۔ اب یہ حقیقت بھی پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ 9/11 کے تمام خودکش ہائی جیکر افغانستان میں القاعدہ قیادت سے رہنمائی کے لئے پاکستان سے ہو کر گزرے تھے یا پاکستان کو نشانہ بنانے کے لئے پاکستان سے گزارا گیا تھا۔ افغانستان پر سلامتی کونسل کی دو قراردادوں کی روشنی میں امریکا اور اتحادی افواج کے حملے کے بعد القاعدہ اور طالبان کی بڑی تعداد نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ لی۔ گزشتہ دس برس میں پاکستان کی زمین پر لڑی جانے والی اس لڑائی میں پانچ ہزار سیکورٹی اہلکاروں کے علاوہ تیس ہزار کے قریب شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ امن و امان کی ناگفتہ بہ صورت حال کے باعث پاکستان میں سیاسی عمل کے خد و خال تبدیل ہو کر رہ گئے ہیں۔
 ایک سابق وزیراعظم سمیت متعدد سیاسی رہنماؤں کو قتل کیا گیا ہے۔ صدر اور وزیراعظم سمیت مملکت کے اعلٰی ترین عہدیداروں پر قاتلانہ حملے کئے گئے۔ ان تمام حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف عالمی جدوجہد میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ناخوشگوار صورت حال کا تناظر ہماری تاریخ میں متعدد مواقع پر اختیار کی گئی ایسی پالیسیاں تھیں جن کے نتیجے میں ریاست کی عملداری کمزور ہوئی ہے۔ پاکستان نے ابھی تک اس حقیقت کو پوری طرح تسلیم نہیں کیا کہ سرد جنگ ختم ہوئے ربع صدی گزر چکی ہے اور آج کی دنیا میں کوئی ریاست دفاعی معاملات پر اقتصادی ترقی کو ترجیح دینے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ 
دہشت گردی کی اس جنگ کے پاکستان تک پہنچنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کئی عشروں سے مذہبی قوتوں کو ریاست کے تزویراتی مقاصد حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہماری انسانی ترقی کے اشارعے انحطاط پذیر ہوئے ہیں۔ ہماری معاشرت میں قدامت پسندی بڑھی ہے اور مذہبی نصب العین رکھنے والی مختلف قوتوں نے یہ سمجھنا شروع کر دیا ہے کہ وہ پاکستان کی ریاست پر قبضہ کر کے یہاں کے انسانی اور قدرتی وسائل کو اپنے ترجیحی نکتہ نظر کی ترویج کے لئے استعمال کر سکتی ہیں۔
اب یہ سوال بہت پیچھے رہ گیا ہے کہ پاکستان کو افغانستان میں قائم طالبان حکومت کے خلاف جنگ میں فریق بننا چاہیے تھا یا نہیں۔ کیونکہ ہم نے قومی طور پر اصل غلطی 1979ء میں اس وقت کی تھی جب ہم نے غیر ضروری طور پر افغانستان کے معاملات میں مداخلت کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ امر تاریخی طور پر طے ہے کہ اگر کوئی ریاست اپنی ہمسایہ ریاست کو تزویراتی مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہے تو بالآخر اپنی ہی سرزمین پر اپنی عملداری سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ آج پاکستان کے شمال مشرق میں واقع علاقوں سوات اور دیر وغیرہ سے تعلق رکھنے والے جنگجو عناصر نے اسی طرح افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے جس طرح شمال مغربی علاقوں مثلاً وزیرستان وغیرہ میں افغان طالبان نے ٹھکانے بنا رکھے ہیں۔ 
یہ درست ہے کہ دنیا نے دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن پاکستان کی گومگو کی کیفیت پر مبنی حکمت عملی کے باعث ہماری ریاست کو درپیش خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔ مستقبل قریب میں غیرملکی افواج افغانستان سے واپس چلی جائیں گی۔ چنانچہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف ملنے والی مالی، سیاسی اور اخلاقی تائید میں بھی اسی تناسب سے کمی واقع ہو گی۔ درحقیقت گزشتہ دس برس میں تاخیری حربے استعمال کر کے ہمارے فیصلہ سازوں نے پاکستان کو کہیں زیادہ خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ دنیا کی واحد عالمی قوت امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات سردمہری کا شکار ہو گئے ہیں۔ 
2001ء سے لے کر 2003ء تک پاکستان کو جو سیاسی اور اخلاقی ساکھ میسر تھی اس سے کام لے کر ہمیں ناصرف دہشت گرد عناصر سے پیچھا چھڑانا چاہیے تھا بلکہ پاکستان کی معیشت کو صحیح خطوط پر استوار کرنے کی کوشش بھی کرنا چاہیے تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے یہ موقع ضائع کر دیا ہے۔ اب اگر ہم نے دہشت گردی کے خلاف مؤثر کارروائی کا فیصلہ کیا تو ہمیں اپنے وسائل پر انحصار کرنا پڑے گا۔ اس کوشش میں کامیابی کے امکانات کچھ زیادہ روشن نظر نہیں آتے۔ ضروری ہے کہ ہماری قیادت یکسوئی کے ساتھ ایسی حکمت عملی مرتب کرے جس سے پاکستان کی عالمی تنہائی کو کم کیا جاسکے۔ 
جنوبی ایشیا میں بہت سے ممالک تیزی سے معاشی ترقی کے راستے پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ بھارت، بنگلہ دیش، ایران، ترکی اور سری لنکا سمیت بہت سے ممالک کی شرح ترقی ہم سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر ہم معاشی ترقی کو سیاسی اور حکومتی حکمت عملی کا بنیادی نکتہ قرار نہیں دیتے تو شاید ہم دفاعی مقاصد بھی حاصل نہ کرسکیں۔ چین نے 80ء کی دہائی میں نظریاتی مقاصد کو پس پشت ڈال کر عملیت پسندی اختیار کی تھی۔ بھارت نے 1991ء میں نئی معاشی حکمت عملی اختیار کی تھی۔ 9/11 کے دس برس بعد پاکستان اور دوسرے ممالک کا تقابلی جائزہ لینے سے ان غلطیوں کی نشاندہی کی جا سکتی ہے جن کے باعث ہماری سیاسی، معاشی اور معاشرتی صورتحال اطمینان بخش نہیں ہے۔ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے ہمیں اپنی اجتماعی ترجیحات کو ازسر نو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اہم کام جس قدر جلد شروع کیا جائے اس میں کامیابی کا امکان اتنا ہی روشن ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 98408
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش