سمینار سے خطاب کرتے ہوئے سابق سیکرٹری فنانس محفوظ علی خان نے کہا کہ رکرنٹ بجٹ 76 فیصد ہوتا ہے جبکہ ہر سال بجٹ انکریمنٹل ہوتا ہے جوکہ پچھلے بجٹ میں اضافہ کرکے پیش کردیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس سال بجٹ کی یہ ترجیحات ہونگے۔ اسمبلی میں موجود عوامی نمائندوں کو چاہیئے کہ وہ ٹیکس دینے والی عوام کی رائے اور ترجیحات کو اہمیت دیں تاکہ عوام کی خواہشات و ترجیحات کے حساب سے بجٹ بنے۔ 2009ء میں بلوچستان کا بجٹ 35 ارب روپے تھا جوکہ اس وقت 217 ارب روپے ہیں۔ پھر بھی صوبے میں ترقی نہیں ہورہی۔ کیا عوام کا یہ حق نہیں کہ وہ پوچھیں کہ بہتری کیوں نہیں آرہی اور اس کا ذمہ دار کون ہے۔ کوئٹہ میں پانی کا مسئلہ شدت اختیار کر رہا ہے۔ جس کی وجہ سے آئندہ چند سالوں میں لوگ یہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو جائینگے۔ صوبے کے کاشتکاروں کو بجلی، پانی اور منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے شدید نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ کوئٹہ میں ایک بھی کولڈ سٹوریج موجود نہ ہونے کے باعث کاشتکار اپنا پھل سستا اور جلدی بیجنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ملک کے پی ایس ڈی پی میں سے صرف 65 ارب روپے بلوچستان پر خرچ کئے جاتے ہیں۔ صوبے کا پی ایس ڈی پی نہ تو ساحل، نہ ہی وسائل پر لگایا گیا۔ جس کی وجہ سے صوبے میں ترقی اور ریونیو کا فقدان ہے۔
سمینار سے خطاب کرتے ہوئے پی اینڈ ڈی کے مجیب الرحمان نے کہا کہ صوبائی حکومت نے دو بلوچستان انویسٹرز کانفرنس کروائی۔ جس میں چالیس کے قریب کمپنیاں شریک تھی اور ان میں سے چار کمپنیاں بلوچستان میں کام کرنے آئی مگر پروجیکٹ نہ ہونے کے باعث انہوں نے سرمایہ کاری نہیں کی۔ اس وقت بھی صوبے میں ایک بین الاقوامی کمپنی معدنیات کے لئے کام کر رہی ہے۔ آنے والے برسوں میں سرمایہ کاری کو پچاس ارب روپے تک لے کر جانا ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ سمینار کے آخر میں شرکا سے بھی تجاویز لی گئیں۔
خبر کا کوڈ : 462803
منتخب
26 Apr 2024
25 Apr 2024
25 Apr 2024
25 Apr 2024
25 Apr 2024
24 Apr 2024
24 Apr 2024
24 Apr 2024
24 Apr 2024