2
0
Wednesday 2 Nov 2011 13:31
راہ حق میں موت ہمارے لئے سعادت ہے

سپاہ محمد اُسوقت وجود میں آئی جب تشیعُ کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی تھی، ابو تراب نقوی

اسیران کے مقدمات کی پیروی کیلئے ملک گیر سطح پر اسیر فاؤنڈیشن بنانیکی ضرورت ہے
سپاہ محمد اُسوقت وجود میں آئی جب تشیعُ کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی تھی، ابو تراب نقوی
کالعدم سپاہ محمد کے سربراہ سید غلام رضا نقوی محبت اہلبیت (ع) کے جرم میں پندرہ برسوں سے پابند سلاسل ہیں۔ ان کا آبائی علاقہ چک نمبر 463 سکنہ حسن شاہ، ٹوبہ روڈ ضلع جھنگ ہے۔ ان کے جیل جانے کے وقت ان کے بڑے فرزند ارجمند سید ابو تراب رضا نقوی کی عمر صرف آٹھ برس تھی، اس کمسنی میں والد گرامی کے سایہ شفقت سے محروم ہونے کے باعث تین بہنوں اور دو بھائیوں کی کفالت اور گھر کی دیگر اہم اور سنگین ذمہ داریاں ان کے ناتوان کندھوں پر آن پڑِیں۔ گھر میں والد گرامی کی عدم موجودگی کے باعث ان پندرہ سالوں میں کمسن ابو تراب رضا نقوی اور ان کے گھر والوں پر کیا گزری، ان کے والد گرامی کے اہم معاملات، ان کے کسیز کی موجودہ صورتحال، سپاہ محمد کی تشکیل اور فعالیت کے بارے میں اسلام ٹائمز نے سید ابو تراب رضا نقوی سے مفصل گفتگو کی ہے، قوم و ملت کے بارے میں ان کے عزم و ارادے اور درد دل پر مبنی یہ انٹرویو قارئین کے استفادے کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس انٹرویو کا مقصد قارئین کو کالعدم سپاہ محمد اور سید غلام رضا نقوی کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: مولانا غلام رضا نقوی صاحب جب جیل میں گئے اس وقت آپ کی عمر کتنی تھی اور آپ کتنے بہن بھائی ہیں۔؟

سید ابو تراب نقوی:جی اس وقت میری عمر تقریباً آٹھ برس تھی اور اب میں تیئس سال کا ہوگیا ہوں، میرے بابا کو جیل میں گئے ہوئے تقریباً پندرہ برس بیت گئے ہیں، میرے دو بھائی اور تین بہنیں ہیں، اس کے علاوہ گھر کا واحد کفیل ہوں اور والد صاحب کے کیسز کی بھی پیروی کر رہا ہوں۔

اسلام ٹائمز: اس وقت گھر کے کیا حالات ہیں اور کہاں رہائش پذیر ہیں، یہ بھی بتایئے گا کہ غلام رضا نقوی کے جیل جانے کے بعد آپ کا ذریعہ معاش کیا ہے۔؟
سید ابو تراب نقوی: ہم لوگ ٹھوکر نیاز بیگ لاہور میں رہائش پذیر ہیں، پہلے ہم لوگ کرائے کے مکان میں رہتے تھے، تاہم چند سال قبل ایک مومن نے کچھ رقم دی اور کچھ خود سے کوشش کرکے پیسے اکٹھے کئے اور ایک سات مرلے کا مکان لیا ہے۔ جہاں تک ذریعہ معاش کا تعلق ہے تو پہلے ایک مقامی مولانا کے تعاون سے ایک کپڑوں کی دکان بنائی تھی، تاہم تجربہ نہ ہونے اور بابا کے کیسز کی پیروی کے باعث وہ کام زیادہ دیر نہ چل سکا، اس کے بعد اب میں نے ٹھوکر نیاز بیگ میں ایک انٹرنیٹ کیفے بنایا ہے، جس سے کچھ آمدن ہوجاتی ہے۔

اسلام ٹائمز: مولانا غلام رضا نقوی صاحب کی صحت کے بارے میں بتائیں، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں فالج ہوا تھا، جسکے باعث انہیں کافی مسائل کا سامنا ہے۔؟

سید ابو تراب نقوی: مولانا غلام رضا نقوی صاحب اس وقت کیمپ جیل لاہور میں بند ہیں، مجھے ذاتی طور پر ان سے ملے ہوئے ایک ماہ کا عرصہ ہوچکا ہے۔ کافی کمزور ہوچکے ہیں، ایک سال قبل جسم کے دائیں حصے پر فالج کا حملہ ہوا تھا، مناسب علاج معالجہ اور خوراک نہ ہونے کے باعث صحت کافی کمزور ہے، ہاتھ سے جو لکھتے ہیں، وہ سمجھ نہیں آتا، زبان میں لکنت تھی، تاہم اب کافی کور ہوگیا ہے، تاہم اگر مناسب علاج و معالجہ کا بندوبست ہوجائے تو کافی بہتری آسکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: مولانا غلام رضا نقوی صاحب پر کتنے کیسز ہیں اور اب اُنکی موجودہ کیا صورتحال ہے۔؟

سید ابو تراب نقوی: مولانا صاحب پر قتل، اقدام قتل، ناجائز اسلحہ وغیرہ کے کل 79 جھوٹے مقدمات قائم کئے گئے، جن میں سے 78 مقدمات ختم ہوچکے ہیں، اب صرف ایک مقدمہ باقی ہے، جس میں انہیں سزائے موت کی سزاء ہوئی تھی، یہ کیس اس وقت ہائی کورٹ میں چل رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: اس مقدمے کی کیا تفصیلات ہیں، کیسز کی پیروی میں کیا مشکلات درپیش ہیں اور تعاون کون کر رہا ہے۔؟

سید ابو تراب نقوی: 1994ء میں کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کے رہنماء اعظم طارق پر ضلع سرگودھا کے نواحی علاقہ وادھی شاہ پور میں حملہ ہوا تھا، جس میں ان کے 3 محافظ ہلاک ہوئے تھے۔ اس کیس میں انسداد دہشتگردی کی عدالت نے انہیں سزائے موت سنائی، مقدمہ کی پیروی پہلے خرم لطیف کھوسہ کر رہے تھے، تاہم اب چوہدری اصغر علی گل صاحب کو وکیل کیا ہے۔ غلام رضا نقوی صاحب پر جو مقدمات درج ہوئے، اُن میں اکثر جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔ عدالتوں میں کیس کی عدم پیروی، عدالتی نظام کے نقائص اور کچھ مومنین میں خوف و ہراس کے باعث مقدمات تاخیر سے ختم ہوئے۔ کیس کی پیروی کی جاتی تو اب تک رضا نقوی صاحب کب کے جیل سے رہائی پاچکے ہوتے، بذات خود کم عمری کے باعث عدالتی نظام کو سمجھنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا، جس کے باعث کافی سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑا، تاہم اللہ کا خصوصی لطف ہے اور بعض احباب کی انتھک محنت کی بدولت 78 مقدمات ختم ہوچکے ہیں۔
جس مقدمے میں میرے بابا اس وقت جیل میں ہیں اس کی ایف آئی آر 1994ء میں درج ہوئی اور دو سال تک پولیس نے عدالت میں چالان تک پیش نہیں کیا، 1997ء میں نواز شریف کے دور حکومت میں انسداد دہشت گردی کا قانون پاس ہوا مگر پولیس میں چند شیعہ دشمن افسران کی وجہ سے 1994ء کی FIR پر اے ٹی سی سیون اے لگا کر مقدمہ کی سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالت میں شروع کر دی گئی، جس کے بعد مولانا غلام رضا نقوی کو کبھی ڈیرہ غازی خان جیل، کبھی کوٹ لکھپت، کبھی فیصل آباد اور کبھی کیمپ جیل لاہور میں رکھا جاتا رہا۔ مقدمہ کی ہائی کورٹ میں پیروی کے لئے ابتدائی طور پر سردار لطیف کھوسہ صاحب کو وکیل کیا گیا، جس کی فیس ایک مومن نے ادا کی تھی۔ مختصر یہ کہ وکلاء موومنٹ کے دوران کیس کی سماعت رک گئی، پی پی برسر اقتدار آگئی، لطیف کھوسہ گورنر پنجاب بن گئے اور پھر تمام مقدمات اُن کے بیٹے خرم لطیف کھوسہ نے دیکھنا شروع کئے۔ اتفاق ایسا کہ جب کبھی تاریخ ملتی تو وکیل صاحب مصروف ہوتے اور اگر وکیل صاحب فارغ ہوتے تھے تو تاریخ لمبی مل جاتی تھی۔

اسلام ٹائمز: اس پورے عرصہ میں کسی نے کوئی تعاون بھی کیا یا نہیں۔؟
سید ابو تراب نقوی: دہشتگرد تنظیم لشکر جھنگوی کا رہنماء ملک اسحاق 100 سے زائد مقدمات میں ملوث تھا اور سب کو پتہ ہے کہ اس پر مقدمات کتنے سنگین نوعیت کے تھے، تاہم اس کی بیل ہوگئی، کئی مقدمات ختم ہوگئے، اس کی رہائی کے بعد اب چند درد دل رکھنے والے مومنین کرام ہمارے کیس کی جانب متوجہ ہوئے ہیں اور مولانا غلام رضا نقوی صاحب کی رہائی کے لئے کوششیں تیز ہونا شروع ہوئیں ہیں، ابھی ہم نے باہمی مشاورت سے چوہدری اصغر علی گل صاحب کو وکیل کیا ہے۔ ان کے ساتھ 3 لاکھ روپے فیس طے ہوئی ہے، جن میں سے اڑھائی لاکھ روپے جمع ہوچکے ہیں اس میں مجلس وحدت مسلمین نے بھی پچاس ہزار روپے امداد کی ہے، بقایا پچاس ہزار روپے رہتے ہیں، جو امید ہے کہ اللہ اس کا بھی کوئی نہ کوئی سبب پیدا کر دے گا۔ مزید یہ کہ مقدمہ کی سماعت کے دوران چھوٹے موٹے اخراجات اور مناسب افراد کی سرپرستی کیلئے اب مجلس وحدت مسلمین کے قائدین نے حامی بھری ہے۔ امید ہے انشاءاللہ بہت جلد قوم کو میرے بابا کی رہائی کی خوشخبری ملے گی۔

اسلام ٹائمز: سپاہ محمد کے بارے میں عمومی طور پر لوگوں کے خیالات بہت منفی ہیں کہ سپاہ محمد دہشتگرد جماعت تھی اور پلاٹوں پر قبضوں میں ملوث رہی، اس بارے میں آپ کیا کہیں گے۔؟
سید ابو تراب نقوی: سب سے پہلے تو یہ کہ میں سپاہ محمد کا رکن نہیں رہا، جس دور میں سپاہ محمد اپنے عروج پر تھی، اس وقت میری عمر سات یا آٹھ برس تھی۔ میں نے جو کچھ سپاہ محمد کے بارے میں سنا وہ دوسروں سے سنا ہے۔ والد صاحب سے جب جیل میں ملاقات ہوتی ہے تو زیادہ تفصیل سے بات چیت نہیں ہوتی۔ البتہ میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ سپاہ محمد کسی طور پر دہشتگرد جماعت نہ تھی اور نہ ہی دہشتگردی کی وارداتوں میں ملوث تھی۔ اگر آپ اُس وقت کے حالات کا جائزہ لیں کہ سپاہ محمد کن معروضی حالات میں وجود میں آئی، تو آپ بہتر موازنہ کرسکیں گے۔ آئے روز ملک کے کسی نہ کسی حصہ میں شیعہ قوم کے افراد فقط اس جرم کی پاداش میں قتل کر دیئے جاتے تھے کہ اُن کے ساتھ لفظ شیعہ لگتا تھا، امام بارگاہوں اور جلوس عزا پر روزانہ فائرنگ معمول بن چکی تھی، دہشتگرد لشکر جھنگوی، جس کی پشت پناہی امریکہ، سعودی عرب اور افغان جہادی جماعتیں اور ملک کی خفیہ ایجنسیاں کر رہیں تھیں، وہ دہشتگرد گروہ کُھلم کھلا امام زمانہ (ع) کی شان میں گستاخانہ تقاریر کرتے تھے، اس وقت ان کو جواب دینے والا کوئی نہ تھا۔ شیعت کا وجود شدید خطرات سے دوچار ہوچکا تھا۔ ان حالات میں جب مذہب کے نام پر لوگوں کو چُن چُن کر قتل کیا جا رہا تھا تو اس وقت چند غیرت مند افراد نے ملکر سپاہ محمد کی بنیاد ڈالی، جس کا مقصد اہل بیت (ع) کی ناموس کی حفاظت اور تحفظ تشیعُ تھا۔

اب اگر ردعمل کے طور پر اپنے دفاع اور ناموس کی حفاظت کی خاطر چند سرفروش افراد اقدام کرتے ہیں تو کیا آپ اُسے غلط کہیں گے، کیا وہ صحیح تھے جنہوں نے دہشتگردی کی بنیاد ڈالی،؟ ریاستی اداروں کی طرف سے ایسے گروہوں کو وجود بخشا گیا، جن افراد کو محب وطن سمجھ کر جہاد افغان کیلئے تیار کیا گیا، آج وہی انہیں ریاستی اداروں کے لئے وبال جان بن چکے ہیں۔ پاکستان کی پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ کبھی بھی تشیع نہ تو دہشتگردی کی وارداتوں میں ملوث رہی ہے اور نہ ہی ریاست کیخلاف اٹھی ہے، ہمیں مجبور کیا گیا کہ آپ اٹھو اور اپنا دفاع خود کرو، مجھے بتائیں کہ اگر ریاست اور حکومت ہمیں تحفظ دیتی، دہشتگردوں کا قلع قمع کرتی، تو کیا سپاہ محمد بنتی۔؟ بالکل بھی نہیں، لیکن ایسا نہیں ہوا، ہمیں حقیقت پسند ہونا پڑے گا۔

اب آتے ہیں آپ کے اصل سوال کی جانب کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس وقت جب حالات انتہائی مخدوش تھے، آئے روز لاشیں گر رہی تھیں، افراتفری کا عالم تھا، اس وقت سپاہ محمد کے پلیٹ فارم پر کوئی تربیتی سسٹم موجود نہ تھا، جس کے باعث اس سسٹم سے مربوط افراد کی روحانی و فکری تربیت کیلئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں ہوئے تھے، البتہ ایک خطرناک پہلو جس کی طرف اُس وقت ذمہ دار افراد نے توجہ نہیں دی وہ یہ کہ صاف پانی میں چند گندی مچھلیوں کا آنا تھا، قبضہ مافیا اور ایجنسیوں کے افراد سپاہ محمد میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے اور سپاہ محمد کے لبادے میں اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کرتے رہے، جس سے عام مومنین میں سپاہ محمد کا تاثر غلط پیدا ہونا شروع ہوا۔ آج آپ دیکھیں کہ سپاہ محمد کے مخلص افراد جنہوں نے قوم اور ملت کی خاطر اتنی قربانیاں دیں، آج وہ در در کے دھکے کھا رہے ہیں اور گذشتہ پندرہ برسوں سے جیل کی سلاخوں میں بند ہیں، مگر جو لوگ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے سپاہ محمد میں آئے تھے، آج اُن کے پلازے ہیں، ان کا کاروبار بہترین چل رہا ہے، وہ عیش و آرام کی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ میں اسلام ٹائمز کے پلیٹ فارم سے قوم سے اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ خدارا قبضہ مافیا، چوروں اور لیٹروں کا محاسبہ کریں اور مخلص اور قوم و ملت کے نام پر سب کچھ قربان کر دینے والوں سے تعاون کریں، ہم نے کوئی ذاتی جنگ نہیں لڑی۔

اسلام ٹائمز: گھریلو معاملات میں مشکلات محسوس کرتے ہیں، لوگوں کے رویوں کے بارے میں کچھ بتائیں۔؟

سید ابو تراب نقوی: گذشتہ پندرہ برس سے والد پابند سلاسل ہیں، گھریلو ذمہ داریوں کو نبھانا بہت ہی مشکل کام ہے۔ بہنوں کی تعلیم، گھر کا چولہا چلانا، اور اتنے عرصے سے والد کی شفقت سے محروم رہے اور اکثر اوقات اُن کی کمی کو بڑی شدت سے محسوس کرتے ہیں، والد صاحب کی سرپرستی نہ ہونے کے باعث اپنی تعلیم کو جاری نہ رکھ سکا، جس کا افسوس ہے۔ جہاں تک لوگوں کے رویوں کا تعلق ہے تو اکثر لوگ مقدمات کے خوف اور مشکلات کے باعث ہم سے دور ہٹ گئے۔ بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ سپاہ محمد والوں کے پاس بہت پیسے ہیں۔ کبھی کہا گیا کہ زرداری اس تنظیم کی سرپرستی کر رہے ہیں، تو کبھی یہ کہا گیا کہ ایران سرپرستی کر رہا ہے۔ اگر زرداری صاحب کی بات میں حقیقت ہوتی تو زرداری اب ملک کے صدر ہیں اور سب سے بااختیار فرد ہیں، وہ سپاہ محمد کو بحال کرواتے اور اسیران کو جیلوں سے رہا کرواتے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ لہٰذا یہ الزام خود بخود غلط ثابت ہوتا ہے، دوسری بات ایران کی جاتی ہے تو میں بتانا چاہتا ہوں کہ آج تک میں یا میری فیملی کا کوئی فرد ایران نہیں گیا اور نہ ہی ایران سے ہمیں کوئی امداد ملی ہے۔ بعض مخلص مومنین کے رویوں میں بڑی مثبت تبدیلی آئی اور انہوں نے ہمیں ہر مشکل موقع پر سہارا دیا۔ میں ان تمام احباب کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ باقی والد صاحب کی کمی اس وجہ سے زیادہ محسوس نہیں ہوتی کیونکہ اسیری ہمارے آئمہ کی سنت ہے، دین کے نام پر تکالیف کو برداشت کرنا شیعت کی تاریخ ہے، میرے والد کا جرم اسیری صرف محبت اہل بیت (ع) ہے۔ اگر آج ہم اپنا مذہب چھوڑ دیں تو دشمن ہمیں آنکھوں پر بٹھا لے گا، ہم باغیرت قوم کے فرد ہیں، ہم تکالیف اور اذیتیں تو برداشت کرسکتے ہیں مگر ایک لمحہ کے لیے اہل بیت (ع) کی محبت سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں، راہ حق میں موت ہمارے لئے سعادت ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ مولانا غلام رضا نقوی کی رہائی کے لئے کیا اقدامات ہوں تو وہ رہا ہوسکتے ہیں۔؟

سید ابو تراب نقوی: سب سے پہلے ان کی صحت کے حوالے اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے، شیعہ اکابرین کا ایک وفد آئے، جیل خانہ جات کے افراد سے ملاقات کرے اور فالج کے علاج کے لئے ڈاکٹر کی سہولت سمیت جیل کے اندر اچھی خوراک کا بندوبست کروایا جائے اور اندر سے مناسب رابطہ کے لئے اقدامات کروائے جائیں۔ اخبارات کے مطالعہ اور ٹی وی دیکھنے کی سہولت دلوائی جائے، تاکہ وہ جیل سے باہر کی دنیا سے مربوط ہوسکیں، شیعہ قوم کے اندر خوف کی فضاء کو ختم کرنے کے لئے ذاکرین عظام اور علمائے کرام مجالس میں اور نماز جمعہ کے اجتماعات میں غلام رضا نقوی اور دیگر اسیران کی رہائی کے لئے آواز بلند کریں۔ پورے ملک میں پمفلٹس تقسیم کروائے جائیں۔ البتہ گذشتہ دنوں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے پلیٹ فارم سے منعقدہ مک گیر اجتماع میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔ وہاں پر حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ حسن ظفر نقوی صاحب نے غلام رضا نقوی کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ اقدام انتہائی خوش آئند ہے۔ اسی طرح دیگر اکابرین کو بھی بولنا چاہیے۔ نوجوانوں سے اپیل کروں گا کہ وہ اس انٹرویو کو دیگر شیعہ ویب سائٹس پر بھی چلائیں۔ فیس بک اور دیگر سوشل نیٹ ورکس کے ذریعے سے ایک عام شیعہ فرد تک درست معلومات پہنچائی جائیں، تاکہ قوم اپنے محسنوں کی مشکلات سے آگاہ ہوسکے اور اصل حقیقت اُن تک پہنچے۔

اسلام ٹائمز: ملت کے نام کوئی پیغام دینا چاہیں گے۔؟

سید ابو تراب نقوی: میں ذاتی طور پر اور اپنے اہلخانہ کی طرف سے اسلام ٹائمز کے احباب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہمارے مؤقف کو سُنا اور ہماری مشکلات اور مسائل کے حل کے لئے ہماری آواز کو پوری قوم تک پہنچانے میں ہماری مدد کی۔ میں ان تمام احباب کا بہت زیادہ شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اکثر اوقات ہمارا خیال رکھا، ہماری مدد کی۔ خداوند متعال بحق چہاردہ معصومین علیہ اسلام بالخصوص امام صاحب العصر والزمان (ع) ان سب کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔ باقی پیغام کی بات ہے تو میں خود ہدایت کا طلبگار ہوں، پیغامات قوم کے قائدین اور اکابرین دیتے ہیں۔ البتہ چند گزارشات ضرور کرنا چاہوں گا کہ زندہ قوم بننے کے لئے اپنے شہداء کو یاد رکھیں اور اپنے اسیروں کی خبرگیری رکھیں، تاکہ ہم غیرت مند قوم کے غیرت مند فرد بن سکیں، دشمن جو ہمارے وجود کو ختم کرنے کے درپے ہے، اس کا مقابلہ کرنے کے لئے قوم کے اندر وحدت اشد ضروری ہے، امیر مختار کی سیرت کو یاد رکھیں۔
حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں تمام اختلافات کو بھلا کر مشترکات پر اکٹھا ہو جانا چاہیے اور جیسے شہداء کی کفایت کے لئے شہید فاؤنڈیشن کام کر رہی ہے، ویسے ہی اسیران کے اہل خانہ کی کفالت اور اسیران کے مقدمات کی پیروی کے لئے ملک گیر سطح پر اسیر فاؤنڈیشن بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ قوم کے مسائل اور مشکلات کو حل کرنے میں مدد مل سکے۔ ایک اسیر کی مدد خوشنودی خدا ہے۔ ایک اسیر کی مدد خوشنودی محمد و آل محمد (ع) ہے۔ ایک اسیر کی مدد خوشنودی امام زمانہ (ع) ہے۔ ایک اسیر کی مدد ملت کی سربلندی اور قوم کے زندہ ہونے کا ثبوت ہے۔ ایک اسیر کی مدد تشیع کو مضبوط کرنا ہے اور مضبوط تشیع استحکام پاکستان کی ضمانت ہے۔
خبر کا کوڈ : 111283
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
read it
aseerfoundation is a good idea.
ہماری پیشکش