0
Tuesday 1 May 2012 03:39

مسائل حل نہ ہوئے تو پورے پاکستان کو جام کر سکتے ہیں، مولانا ناظر عباس تقوی

مسائل حل نہ ہوئے تو پورے پاکستان کو جام کر سکتے ہیں، مولانا ناظر عباس تقوی
مولانا ناظر عباس تقوی کا تعلق صوبہ سندھ کے شہر کراچی سے ہے۔ چونکہ اپنے زمانہ طالب علمی میں آپ کا تعلق امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان سے رہا تھا، اس لئے شروع سے ملی معاملات میں کافی فعال کردار ادا کرتے تھے۔ آپ نے جب سے روحانی لباس زیب تن کیا، تب سے ہی اپنے کندھوں پر ذیادہ ذمہ داری محسوس کرنے لگے۔ یہی وجہ تھی کہ شیعہ علما کونسل میں شمولیت کے بعد کچھ ہی عرصے میں بزرگ علمائے کرام کے ہوتے ہوئے پہلے کراچی کے صدر منتخب ہوئے پھر صوبہ سندھ کے جنرل سیکریٹری بن گئے اور تاحال اس عہدے پر قائم ہیں۔ ریلی ہو یا دھرنا یا ملت کو درپیش کوئی اور مشکل، منفرد اور با اثر لب و لہجہ رکھنے والے مولانا ناظر عباس تقوی جتنی دیر بولتے ہیں، ان کے جملوں میں خلوص ہی خلوص ہی نظر آتا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں گھر کرلیتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو للکارنا ہو یا شیعہ و مسلمان دشمن جماعتوں کو، اس معاملے میں مولانا صاحب اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ خیرپور میں ہونے والی حالیہ لبیک یا حسین ع کانفرنس منعقد کرانے میں بھی آپ کا کافی فعال کردار رہا ہے۔ اسلام ٹائمز نے مولانا ناظر عباس تقوی سے ایک خصوصی انٹرویو کیا ہے جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز:لبیک یا حسین ع کانفرنس کے انعقاد کا مقصد کیا تھا اور آپ نے اس سے کیا مطلوبہ نتائج حاصل کئے ہیں؟
مولانا ناظر عباس تقوی:ہم گذشتہ کچھ عرصے سے سندھ کے دورے پر تھے اور اس دوران ہم خیرپور پہنچے اور وہاں پر لوگوں سے ملاقات کی، علماء، زعماء اور دانشور حضرات سے ملے تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ یہاں شیعوں کو بہت سے مسائل درپیش ہیں، ہمیں یہاں بہت ذیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔ لہٰذا یہاں شیعوں کا ایک بہت بڑا اجتماع ہونا چاہئیے اور پتہ چلنا چاہئیے کہ یہ شیعہ اکثریتی علاقہ ہے اور لوگوں کے دلوں میں جو ایک خوف ہے وہ نکلنا چاہئیے۔ بنیادی مقصد ہمارا یہ تھا کہ یہاں شیعت جو دبی ہوئی ہے، اس کو دوبارہ روح دینا اور ان کو گھروں سے باہر نکالنا۔ ہمارے یہاں کچھ مسائل تھے جن کے لئے ہمیں معلوم تھا کہ ہم پروگرام کریں گے تو وہ مسائل حل ہوں گے اور وہ ہوئے، جن کا میں ابھی تذکرہ کروں گا۔

جب ہم نے یہاں ڈیڑھ مہینہ پہلے لبیک یا حسین ع کانفرنس کا اعلان کیا کہ تو اس دن سے یہاں مسائل پیدا ہونا شروع ہوئے اور آہستہ آہستہ معاملات کو بگاڑا گیا۔ دشمن یہ نہیں چاہتا تھا کہ یہاں کوئی اجتماع نظر آئے اور شیعہ کچھ اس طرح کا پروگرام کریں اور یہ نہ لگے کہ کوئی شیعہ ریاست ہے اور یہاں پروپیگنڈے کئے اور لوگوں پر جھوٹے مقدمات قائم کئے۔ میں خود خیرپور میں ایک ہفتے سے موجود تھا، جب پروگرام نزدیک آنے لگا تو بے گناہ شیعہ افراد کی دکانیں جلائی گئیں اور جب وہ احتجاج کے لئے روڈ پر آئے، جہاں میں خود بھی موجود تھا، مجھ پر اسٹریٹ فائر ( Straight Fire ) کئے گئے جس کے نتیجے میں میرے ساتھ وہاں موجود گیارہ افراد زخمی ہوئے۔  یہاں جان بوجھ کر حالات خراب کئے گئے اور پھر ہم سے کہا گیا کہ ہم آپ سکیورٹی فراہم نہیں کر سکتے، اطلاعات صحیح نہیں ہیں، ان سارے معاملات میں انتظامیہ ملوث تھی۔ ہمیں امید تھی کہ ہم یہاں ایک لاکھ افراد اکٹھے کرلیں گے اور جو صورتحال یہاں بن چکی تھی اس کے مطابق ہم اتنے افراد جمع کرلیتے۔ کراچی سے لے کر کشمور اور سندھ کے ہر علاقے سے لوگ آنے کے لئے تیار تھے، لیکن انتظامیہ کو یہ بات پسند نہیں آئی، جو لوگ کانفرنس کے لئے شامیانہ لگا رہے تھے ان پر فائرنگ کی گئی، شامیانوں کو جلانے کی کوشش کی، وہ بھی ایک مومن کا تھا، پھر میدان میں پانی چھوڑ دیا گیا۔ یہاں کرفیو نافذ کردیا گیا، خوف کا ماحول پیدا کیا گیا اور لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا دیا گیا کہ لوگ یہاں نہ آ سکیں۔

حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے اس پروگرام کو صرف خیرپور ضلع تک محدود کردیا کیونکہ ہم تو یہاں امن قائم کرنے اور لوگوں کو خوف کے عالم سے نکالنے کے لئے آئے تھے، ہمارا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا نہیں تھا۔ ہم نے لوگوں کو یہاں آنے سے منع کردیا لیکن لوگوں کا پھر بھی اصرار تھا کہ ہم آئیں گے، پھر ہم نے کہا جو لوگ خود سے آنا چاہتے ہیں وہ آئیں۔ ہم نے حالات کو دیکھتے ہوئے اپنا پروگرام کرنل شاہ گراﺅنڈ سے امام بارگاہ حیدری میں منتقل کر دیا۔ انہوں نے اتنا شدید اقدام کیا کہ خیر پور میں دفعہ 144 نافذ کر دی اور ڈی آئی جی نے ہمارے لوگوں کو کہا کہ جو گھروں سے باہر نکلے گا میں اس کو گولی ماروں گا، رینجرز طلب کرلی گئی، امام بارگاہ کے چاروں اطراف باڑ لگا دی گئی، امام بارگاہ کے برابر اور اطراف والوں کو کہہ دیا کہ اگر باہر نکلو گے تو گولی مار دیں گے۔

ان سارے اقدامات کے باوجود جب ہم پنڈال میں پہنچے تو اس وقت کل دو علما اور چھ آدمی تھے، ہم نے طے کیا تھا کہ اپنے مقررہ وقت پر لبیک یا حسین ع کا نعرہ لگائیں گے اور پروگرام شروع کریں گے، اس کے بعد گرفتاریاں ہوتی ہیں، لاٹھی چارج ہوتا ہے ہم سب چیزوں کے لئے تیار ہیں۔ الحمد للہ ہم نے نماز ظہر کے بعد لبیک یا حسین ع کا نعرہ لگایا اور پروگرام کا آغاز کردیا، گلی کوچوں میں جو لوگ تھے ان سب نے وہیں سے لبیک یا حسین ع کا جواب دیا، اس کے بعد لوگوں میں تحرک پیدا ہونا شروع ہوا اور لوگ کانفرنس کی طرف بڑھنا شروع ہوئے تو لاٹھی چارج ہوا، کسی کے ہاتھ ٹوٹے، کس کا سر پھٹا، اس کے باوجود لوگ رکاوٹین عبور کرکے آہستہ آہستہ جمع ہونا شروع ہوئے۔ یہاں تک کہ خواتین بھی باہر نکل آئیں اور انہوں نے رینجرز اور پولیس سے مزاحمت کی، آخر کار پولیس اور رینجرز ان کے آگے بے بس ہوگئی اور انہوں نے گھٹنے ٹیک دئیے۔ اتنی مزاحمت کے باوجود کانفرنس میں پندرہ ہزار کے قریب افراد موجود تھے، جس کے گواہ خود وہاں کے مقامی افراد ہیں۔ جتنے افراد بھی گرفتار ہوئے تھے ان سب کو چھوڑ دیا گیا ہے، سوائے ان کے جن کا کورٹ میں چالان پیش کردیا گیا ہے، ان کی ضمانت کے کاغذات بھی ہم نے تیار کرا لئے ہیں اور ان کی ضمانت بھی انشاءللہ ایک دو روز میں ہو جائے گی۔ پانچ سو افراد کے خلاف جو مقدمات قائم کئے گئے تھے ان میں سے کچھ کے نام نکال دئیے گئے ہیں اور کچھ کے آہستہ آہستہ نکال دئیے جائیں گے، کیونکہ ان کی بھی مجبوریاں ہیں، ان کے پیچھے بھی دوسرا گروہ کھڑا ہے اور وہ بھی ان کے سامنے آتا ہے۔ 

الحمد للہ ہم نے نتائج حاصل کئے ہیں۔ وہاں ہر شخص خوش ہے، تشیع وہاں مضبوط ہوئی ہے اور ہر شخص ہم سے وہاں تعاون کرنے کے لئے تیار ہے۔ ہم نے وہاں اعلان بھی کیا ہے کہ ابھی تو ہم نے ضلع تک کے لوگوں کو بلایا ہے، لیکن انشاءللہ بہت جلد ہم ایک لبیک یا حسین ع کنونشن بھی منعقد کرائیں گے اور اس میں پورے سندھ سے لوگ شرکت کریں گے۔

اسلام ٹائمز:کیا اس لبیک یا حسین ع کنونشن کا انعقاد بھی خیرپور میں ہوگا؟
مولانا ناظر عباس تقوی:ابھی ہم صوبائی کابینہ کا مشاورتی اجلاس بلائیں گے، اس میں فیصلہ کریں گے کہ کہاں ہونا چاہئیے، ویسے انتظامیہ نے ہمیں یقین دہانی کرائی ہے اور امید بھی ہے کہ وہ ہم سے بھرپور تعاون کرے گی۔ اگر خیرپور انتظامیہ نے تعاون نہ کیا تو جہاں معاملات طے پا جائیں گے وہاں اس کنونشن کو منعقد کریں گے۔

اسلام ٹائمز:آپ لوگوں کو گھروں سے باہر نکالنے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن یہ فرمائیے گا کہ کیا انتظامیہ سے فرقہ وارانہ دہشت گرد تنظیم کو لگام دینے کے حوالے سے کوئی بات ہوئی ہے؟
مولانا ناظر عباس تقوی:جی اس حوالے سے بات ہوئی ہے اور یہاں کے افراد نے ہمیں بتایا کہ پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ اس تنظیم کے مقامی رہنماﺅں کو گرفتار کرکے ان کو جیل میں ڈالا گیا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے ان پر کوئی ہاتھ ڈالنے والا نہیں تھا، اس وقت ان کے بارہ افراد کو گرفتار کرکے ان کا چالان پیش کردیا گیا ہے، ان کا مقامی صوبہ سندھ کا جو لیڈر تھا وہ یہاں سے فرار ہوگیا ہے اور ان کی کچھ مساجد جہاں سے تکفیر کے نعرے بلند ہوتے تھے ان کو بھی کچھ عرصے کے لئے سیل کردیا گیا ہے۔ انہوں نے بھی اس دن لبیک یا اللہ کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن ان کو نہیں کرنے دی گئی، ان کے مقامی لوگ یہاں نہیں ہیں۔ ہمیں اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ انشاءاللہ جھنڈے اتار لئے جائیں گے اور چاکنگ مٹا دی جائے گی۔ حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے، اگر وہ عملی اقدامات کرتی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ میدان کھلا ہے، ہم پھر یہاں آئیں گے اور احتجاج کریں گے۔

اسلام ٹائمز:کانفرنس میں اتحاد کا بھی عملی نمونہ نظر آیا اور مجلس وحدت مسلمین کے رہنماﺅں نے بھی شرکت کی۔ آپ اس عمل کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
مولانا ناظر عباس تقوی:میں سمجھتا ہوں کہ یہ مسئلہ نہ کسی جماعت کا تھا اور نہ کسی فرد کا تھا، یہ تو قومی نوعیت کا معاملہ تھا، اس قومی مسئلے پر تمام لوگ ہمارے ساتھ متحد تھے، ایم ڈبلیو ایم والے ہمارے ساتھ تھے، مقامی شیعہ رابطہ کونسل ہمارے ساتھ تھی اور دیگر جو ماتمی انجمنیں سب نے ہمارا بھرپور ساتھ دیا اور ہماری تائید کی۔ ان ہی لوگوں کی کاوشیں تھیں جن کی وجہ سے اللہ نے ہمیں کامیاب کیا اور دشمن خائف اور رسوا ہوا۔

اسلام ٹائمز:پاکستان میں حالیہ فسادات فرقہ وارانہ ہیں یا اس کے پیچھے کوئی اور سازش کار فرما ہے؟
مولانا ناظر عباس تقوی:میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہیں، کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی طرح یہاں اس طرح کے حالات پیدا کئے جائیں۔ میں آپ کو بتاﺅں کہ جب یہاں ہمارے لوگوں کی دکانیں جلیں اور پھر احتجاج اور مجھ پر فائرنگ کی گئی تو یہاں کے مقامی مذہبی جماعتوں کے رہنماﺅں نے مجھ سے رابطے کئے کہ مولانا ہم یہاں موجود ہیں، میں نے ان سے کہا کہ آپ لوگ میدان عمل میں نکلیں، ہم یہاں کسی گروہ کے ساتھ بیٹھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ڈی آئی جی نے مجھے فون کیا کہ ہم آپ کو مذاکرات کے لئے بلا رہے ہیں، میں نے کہا کیا وہ دہشت گرد گروہ بھی مذاکرات میں موجود ہوگا؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ لوگ بھی موجود ہیں تو میں نے کہا کہ ہم ان کے ساتھ بیٹھنے کے لئے تیار نہیں ہیں، وہ لوگ غیر مہذب لوگ ہیں، یہ لوگ کسی فرقے کی نمائندگی نہیں کرتے، مجھ سے تمام مسالک کے افراد نے رابطے کئے ہیں، ان لوگوں کو بلائیے ہم ان کے ساتھ بیٹھنے کے لئے تیار ہیں۔ باقی اس گروہ کے ساتھ ہم کسی بھی قسم کی ٹیبل ٹاک کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جس پر ڈی آئی جی کافی خفا بھی ہوا، وہ چاہتا تھا کہ ہم ساتھ بیٹھنے کے لئے تیار ہو جائیں لیکن ہم نے دو ٹوک الفاظ میں واضح جواب دے دیا۔ ہم نے کہا کہ ہم پر امن شہری اور مذہبی لوگ ہیں، مذہبی افراد کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں، کسی ایسے ٹولے کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے کہ جو مذہب کے نام پر دہشت گردی کر رہا ہے۔

اسلام ٹائمز:پاکستان میں جو سازشیں ہو رہی ہیں ان کے لئے آپ کے پاس کیا راہ حل ہے اور آپ نے اب تک اس حوالے سے کیا عملی اقدامات کئے ہیں؟
مولان ناظر عباس تقوی:میں سمجھتا ہوں کہ اس کا سب سے بڑا حل یہ ہے کہ انسان مذاکرات کے راستے کو کھولے اور ہر سطح پر مذاکرات کرے اور ہر جگہ اپنے پیغام کو پہنچائے۔ انسان بعض دفعہ اقدامات بہت کر رہا ہوتا ہے لیکن صحیح جگہ پر اس کا پیغام نہیں پہنچ پا رہا ہوتا ہے۔ ہماری قیادت کی صدر مملکت سے بات ہوئی ہے، ہم نے اپنے مسائل ان کے سامنے رکھ دئیے ہیں۔ ابھی ہم نے اسلام آباد میں کانفرنس بلائی تھی، جس میں ایک ہفتے کے نوٹس پر ہزاروں علماء موجود تھے جنہوں نے پارلیمنٹ کے سامنے مظاہرہ بھی کیا، کسی بڑے معرکے کی طرف جانے اور کوئی بڑا میدان سجانے کے لئے یہ ابتدائی مراحل ہوتے ہیں۔

اب ہم نے 17 , 18, 19 مئی کو اسلام آباد میں ایک اور جنرل کونسل کا اجلاس طلب کرلیا ہے جس میں پورے پاکستان سے نمائندے شرکت کریں گے۔ وہاں پر ہمیں کچھ اہم اقدامات کرنے ہیں اور کچھ پالیسیاں مرتب کرنی ہیں، اس کے بعد ہم اپنی قوم کو لائحہ عمل دیں گے۔ لائحہ عمل کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم کسی تصادم کی طرف جائیں گے یا لوگوں کو مروانے یا کٹوانے کی طرف لے کر جائیں گے بلکہ ہم پر امن لائحہ عمل دیں گے۔ اس سے پہلے ہی ہم سے رابطے ہونا شروع ہوگئے ہیں کہ آپ نظر ثانی کریں ہم آپ سے تعاون کرنے کو تیار ہیں۔ معاملات حل نہ ہوئے تو الحمد للہ ہم اتنی قوت رکھتے ہیں کہ پاکستان کو جام کر سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز:آپ مذاکرات کس سے کرنے کے لئے کہہ رہے ہیں انہی تنظیموں کے ساتھ جن کے ساتھ آپ نے بیٹھنے سے انکار کیا یا حکومت سے؟
مولانا ناظر عباس تقوی:مذاکرات ان گھٹیا لوگوں سے تو نہیں ہو سکتے، ہماری پالیسی ہے کہ اس دہشت گرد ٹولے کے ساتھ نہ بیٹھا جائے۔ مذاکرات تو حکومت سے ہوتے ہیں جن کی ذمہ داری ہے کہ امن و امان قائم کیا جائے اور لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کی جائے۔

اسلام ٹائمز:دفاع پاکستان کونسل کے حوالے سے آپ کا کیا مؤقف ہے؟
مولانا ناظر عباس تقوی:دفاع پاکستان کونسل ایک اتحاد بنایا گیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں ہر ایک کو الائنس بنانے کا حق ہے لیکن میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ یہ لوگ آزاد نہیں ہیں۔ ان کو کسی مقصد کے لیے بنایا گیا تھا اور اب آپ دیکھ لیں کہ آہستہ آہستہ یہ سب تتر بتر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

اسلام ٹائمز:آپ دفاع پاکستان کونسل میں کالعدم تنظیموں کی شرکت کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
مولانا ناظر عباس تقوی:دیکھئے یہ تو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کالعدم جماعتوں کو روکے کیونکہ ایک طرف تو وہ خود ان کو دہشت گرد کہتی ہے اور ان کے لوگ بھی پکڑے جاتے ہیں، سانحہ عاشور سے لے کر ہر دھماکے میں ان کا ہاتھ ہوتا ہے، وزیر داخلہ بھی متعدد بار اس کی نشاندہی کرچکے ہیں۔ یہ تو حکومت کی نااہلی اور ناکامی ہے کہ وہ ان دہشت گردوں کو اتنی کھلی چھوٹ دے دے۔

اسلام ٹائمز:آئندہ انتخابات میں شیعہ علما کونسل کس طرح حصہ لے گی؟ آیا کسی اتحاد کا حصہ ہو گی یا اکیلے انتخابات میں حصہ لے گی؟
مولانا ناظر عباس تقوی:اس کے حوالے سے مرکزی کونسل فیصلہ کرے گی۔ ویسے ہم نے انتخابات میں پہلے بھی حصہ لیا تھا، پچھلے الیکشن میں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا تھا، اگر ایم ایم اے بحال ہوتی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ ہمارے پاس بہت سے آپشنز کھلے ہیں۔ پہلے ہمارے ساتھ کچھ مسائل تھے لیکن اس دفعہ ہمیں کام کرنے کا موقع ملا ہے، لہٰذا ہم ملک بھر سے پورے شد و مد کے ساتھ الیکشن لڑیں گے۔

اسلام ٹائمز:ایم ایم اے کی بحالی کی کوئی امید ہے اور اس کے حوالے سے کوئی کوششیں کی جا رہی ہیں؟
مولانا ناظر عباس تقوی:بہت ساری جماعتیں چاہتی ہیں کہ ایم ایم اے بحال ہو اور چاہتے ہم بھی یہی ہیں کہ ایم ایم اے بحال ہو تاکہ اس سے لوگوں پر ایک اچھا اثر جائے۔ لیکن اگر بحال نہیں ہوتی تو تب بھی ہم الیکشن لڑیں گے۔ کیونکہ اس کے بغیر بھی ہم زندہ تھے، زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔
خبر کا کوڈ : 157935
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش