1
0
Friday 22 Jun 2012 22:19

ہمارا سب سے بڑا مسئلہ انتشار ہے، تمام امت کو ایک پلیٹ فارم اور مشترکات پر جمع کرینگے، قاضی حسین احمد

ہمارا سب سے بڑا مسئلہ انتشار ہے، تمام امت کو ایک پلیٹ فارم اور مشترکات پر جمع کرینگے، قاضی حسین احمد
ملی یکجہتی کونسل کے صدر جناب قاضی حسین احمد سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان، سابق رکن قومی اسمبلی اور تمام بڑی دینی جماعتوں کے مشترکہ پلیٹ فارم متحدہ مجلس عمل کے سربراہ رہے ہیں۔ ان کا شمار پاکستان کے ان بزرگ سیاستدانوں میں ہوتا ہے جن کا کردار ملک میں ہمیشہ مثبت رہا ہے، خاص طور پر مذہبی جماعتوں کو قریب لانے اور ملک میں جاری فرقہ واریت کو کم کرنے میں ان کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، آپکی کوششوں سے متحارب فرقے آپس میں مذاکرات کی میز پر بیٹھے اور ضابطہ اخلاق تیار کیا گیا۔ قاضی حسین احمد کی کاوشوں کی بدولت ملی یکجہتی کونسل ایک بار پھر فعال ہوگئی ہے اور تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام دوبارہ اس پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے جناب قاضی حسین احمد سے ملی یکجہتی کونسل سے متعلق ایک انتہائی اہم انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل کے اغراض و مقاصد کیا ہیں۔؟ ان مقاصد کے حصول کیلئے دیگر مکاتب فکر کے نوجوانوں کو ساتھ ملانے کی کیا حکمت علمی ہے۔؟

قاضی حسین احمد: ہمارا اس وقت بنیادی طور پر چار نکاتی پروگرام ہے۔ اس میں پہلی بات یہ ہے کہ قدرِ مشترک کیلئے تمام خطیبوں اور امام جمعہ کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ مساجد میں مشترک مقاصد کے بارے میں بات کریں اور یہ ایک بہت بڑا میدان ہے، جس میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں اخلاق، الٰہی کلمات و دیگر موضوعات ہیں، جن پر بات کی جا سکتی ہے۔ بہترین اخلاق، منکرات، معروف و دیگر موضوعات پر بات کریں۔ ان تمام مشترکات پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے یہ ہوگا کہ نوجوان آپس میں اکٹھے ہوں گے۔ اسی طرح آپس میں جو تنازعات پیدا ہو جائیں، ان تنازعات کو حل کرنے کے لیے مصالحتی کمیشن اور تحقیقاتی کمیشن ہو، جو ایک دوسروں کو قریب لانے کا کام کریں۔ اسی طرح اسلامی نظریاتی کونسل کی جو مشترکہ سفارشات ہیں ان کو نافذ و عمل درآمد کرانے کے لیے تحریک چلانا اور اس کے لیے لوگوں کو آمادہ کیا جائے۔ پس اس کا ایک بڑا مقصد یہی ہے کہ تمام دینی جماعتوں کے ذمہ داران و عہدیداران ایک جگہ جمع جائیں۔

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل کو پہلے ختم کیوں کیا گیا تھا اور اب اسے دوبارہ بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے۔؟

قاضی حسین احمد: دراصل ملی یکجہتی کونسل ختم نہیں کی گئی تھی، اس کی ضرورت تھی، ضرورت ہے اور ہمیشہ ضرورت رہے گی۔ صرف یہ غیرفعال ہوگئی تھی۔ ہم اسے تسلیم کرتے ہیں کہ اس کی غیر فعالیت میں ہماری کوتاہی تھی۔ ہمیں فعال ہونا چاہیے تھا کیونکہ پوری امت کو اس کی ضرورت ہے۔ اس وقت ہم نے اس کے لیے جو ایجنڈا مقرر کیا ہے وہ ایجنڈا بھی امت کے لیے ہمیشہ کی ضرورت ہے۔ انشاءاللہ اس کے بہتر نتائج برآمد ہونگے۔

اسلام ٹائمز: کیا ماضی میں ملی یکجہتی کونسل کی عدم فعالیت کی وجوہات کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔؟

قاضی حسین احمد: ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں اب ہمیں پیچھے کی طرف دیکھنے کی بجائے آگے بڑھنا چاہیے اور آگے کی طرف دیکھنا ہے۔ ماضی سے ہمیں کچھ لینا دینا نہیں، مستقبل میں کیا مسائل درپیش آسکتے ہیں، ان کو مدنظر رکھنا چاہئے۔

اسلام ٹائمز: دفاع پاکستان کونسل کی موجودگی میں ملی یکجہتی کونسل کی ضرورت کیوں پیش آئی۔؟

قاضی حسین احمد: دفاع پاکستان کونسل کا ایک متعین ایجنڈا ہے اور وہ ہے امریکہ اور نیٹو افوج کی سپلائی لائن کو روکنا۔ اس ایجنڈے میں ہم سب ان کے ساتھ ہیں۔ اس کے ساتھ ملی یکجہتی کونسل کا کوئی تضاد نہیں ہے۔ لہٰذا یہ تاثر غلط ہے کہ ملی یکجہتی کونسل دفاع پاکستان کی ضد میں بنائی گئی ہے۔ ملی یکجہتی کونسل پہلے سے قائم تھی، جسے دوبارہ فعال کیا گیا ہے، تاکہ امت کو پیش آنے والے مسائل کو ملکر حل کیا جاسکے۔

اسلام ٹائمز: بعض افراد کا خیال ہے کہ اگر علامہ ساجد علی نقوی اور مولانا فضل الرحمان کو دفاع پاکستان کونسل میں شامل کر لیا جاتا تو اس سے بہتر نتائج برآمد ہوسکتے تھے، بجائے یہ کہ ملی یکجہتی کونسل کو دوبارہ فعال کیا جاتا، آپ اس بارے میں کیا کہیں گے۔؟

قاضی حسین احمد: علامہ ساجد علی نقوی اور مولانا فضل الرحمن دونوں ہمارے ساتھ ہیں۔ دفاع پاکستان سے ملی یکجہتی کونسل کا کوئی تعلق نہیں ہے، اس بارے میں گذارش کر چکا ہوں کہ ڈی پی سی کا فقط یک نقاطی ایجنڈا ہے، اور وہ ہے نیٹو سپلائی لائن روکنا جبکہ ملی یکجہتی کونسل پوری امت کو اکٹھاا کرنے اور عالم اسلام کے مسائل حل کرنے کیلئے ایک وسیع پلیٹ فارم ہے۔ لہٰذا دونوں کا آپس میں تعلق نہ جوڑا جائے۔

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل میں اس وقت کتنی تنظیمیں شامل ہیں۔؟

قاضی حسین احمد: اس وقت تو ناموں سے بہت ساری تنظیمیں شامل ہیں، لیکن جتنے بھی مسالک ہیں ان سب کی نمائندگی موجود ہے۔ جس میں اہل سنت و الجماعت بریلوی، دیوبندی مکتب فکر، اہل تشیع، اہلحدیث، سلفی، مقلد و غیر مقلد سب لوگ اس میں شریک ہیں اور ان کی مختلف تنظیمیں ہیں۔ اسی طرح مشائخ عظام کی جماعتیں بھی شامل ہیں۔

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل میں مولانا ابوالخیر زبیر اور مولانا سمیع الحق شامل کیوں نہیں۔؟

قاضی حسین احمد: مولانا ابوالخیر سے میری بات ہوئی ہے، انشاءاللہ آئندہ اجلاس میں وہ شریک ہوں گے۔ دیوبندی مکتب فکر کے بہت سارے لوگ ہمارے ساتھ شامل ہیں۔ جیسا کہ مولانا فضل الرحمن صاحب گروپ کے مولانا حافظ حسین صاحب ہمارے سیکرٹری جنرل ہیں۔ ہماری نمائندہ تنظیم اہل سنت والجماعت کے دیوبندی مکتب فکر کے بہت سارے لوگ ہمارے ساتھ شامل ہیں۔

اسلام ٹائمز: وہ افراد جو دوسرے مکاتب فکر کو کافر قرار دیتے ہیں، ان کے بارے میں کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا۔؟

قاضی حسین احمد: ہم کوشش کریں گے کہ ان کو مطمئن کریں اور ان کو اس کام سے باز رکھیں اور امت کو مشترکات پر اکٹھا کریں۔ اس طرح سے جو لوگ تعصبات اور اختلافات پھیلاتے ہیں ان کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ اگر ہم مثبت کام کریں گے تو منفی کام کرنے والوں کی یقینی حوصلہ شکنی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: مولانا ابتسام الٰہی ظہیر نے ملی یکجہتی کونسل کے پہلے اجلاس میں رائے دی تھی کہ ان لوگوں کیخلاف بھی فتوے آنے چاہئیں جو دیگر مکاتب کو کافر سمجھتے ہیں، آپ اس رائے سے کس حد تک متفق ہیں۔؟

قاضی حسین احمد: ہم فتوؤں کی زبان میں نہیں بلکہ مثبت بات کریں گے اور بڑے اچھے طریقے سے بات کریں گے۔ ابھی اہل تشیع کے بہت بڑے مجہتد نے یہ فتویٰ دیا ہے اور اہل تشیع کو نصیحت کی ہے کہ جو تمہیں کافر کہے، تم اس کو بھی کافر نہ کہو۔ یہ بات ابھی ہی مجھے جناب ثاقب اکبر صاحب نے بتائی ہے اور ان کا کہنا تھا کہ جس مجتہد نے یہ فتویٰ دیا ہے وہ آٹھ بڑے مجتہدوں میں سے ایک ہیں۔ رہبر معظم سید علی خامنہ ای کا بھی یہ فتویٰ ہے کہ اہل سنت و الجماعت کے مقدسات کے خلاف بات کرنا اور ان کی توہین کرنا حرام ہے۔ جب اس طرح کی چیزین نچلی سطح تک پہنچائی جائیں گی تو اس کے اچھے نتائج برآمد ہونگے۔

اسلام ٹائمز: آپ کی خدمات قابل قدر ہیں، پوری زندگی آپ نے مختلف مکاتب فکر کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے میں صرف کی ہے اور عملی جہدوجہد کر رہے ہیں، لیکن کیا وجہ ہے کہ ان چیزوں کے اثرات نچلی سطح پر منتقل نہیں ہو رہے یا نظر نہیں آتے۔؟

قاضی حسین احمد: اسی لیے تو ملی یکجہتی کونسل بنائی ہے کہ جو مثبت چیزیں ہیں ان کو پھیلائیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح سے ہمیں یہ تمام چیزیں نچلی سطح پر پہنچانی چاہیں تھیں، اس انداز میں نہیں پہنچا سکے۔

اسلام ٹائمز: کہا جاتا ہے کہ جب آپ کے پاس جماعت اسلامی کی امارت تھی تو جماعت اسلامی کی پالیسی عالم اسلام نظر آتی تھی، مگر کیا وجہ ہے کہ سید منور حسن کا عالم اسلام کی بجائے سعودی عرب کی طرف جھکاو نظر آتا ہے۔؟

قاضی حسین احمد: یہ آپ نے سراسر الزام لگایا ہے۔ جماعت اسلامی کی جو پالیسی تھی اب بھی وہی ہے۔ امیر کے بدلنے سے پالیسی نہیں بدلتی۔ جماعت اسلامی کے اپنے مقاصد ہیں اور لوگوں کو مشترکات پر اکٹھا کرنا یہ جماعت اسلامی کے اہم مقاصدوں میں سے ایک ہے اور جماعت کی پالیسی کی نگرانی جماعت کی شوریٰ کرتی ہے۔

اسلام ٹائمز: عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ لوگ جن کے ہاتھ سینکڑوں لوگوں کے ناحق خون سے رنگین ہیں، جنہوں نے مساجد اور امام بارگاہوں میں خون کی ہولی کھیلی، آج اگر ہم ان کے ساتھ بیٹھ جائیں تو اس سے عوام میں کیا تاثر جائے گا، کیا ایسے لوگوں کا بائیکاٹ نہیں کر دینا چاہیئے۔؟
قاضی حسین احمد: ہم کسی کے ساتھ بائیکاٹ نہیں کرتے، بلکہ سب سے ملتے ہیں اور اچھی ہی بات کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی اچھی ہی بات سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بائیکاٹ کسی مسئلہ کا حل نہیں، ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم انہیں سمجھائیں۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ کچھ لوگ شام، مصر، تیونس اور دیگر ممالک میں عوام کھڑے ہوں تو ان کو سپورٹ کرتے ہیں لیکن بحرین میں عوامی تحریک چلے تو اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔؟
قاضی حسین احمد: میں تو کہتا ہوں کہ یہ بات اچھی نہیں ہے۔ جہاں بھی عوام استبداد، آمریت، ظلم کے خلاف اٹھ کھڑی ہو، اس کو سپورٹ کرنا چاہئے۔ اگر بیداری کے لیے سپورٹ کرنا ہے تو ہر جگہ سپورٹ کرنی چاہیے۔ شام میں بھی سپورٹ کرنی چاہیے، بحرین، مصر، لیبیاء اور جہاں جہاں پر آمریت ہے وہیں پر ہمیں ان کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں اور عوام کی حمایت میں آواز بلند کرنی چاہیے۔

اسلام ٹائمز: عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ کیا سمجھتے ہیں۔؟

قاضی حسین احمد: ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہی انتشار ہے۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف فتویٰ بازی اور آپس میں لڑائی ہے، اگر یہ معاملات حل ہو جائیں، ایک دوسرا کا احترام کریں اور ایک دوسرے کو برادشت کریں تو عالمی سطح پر مسلمانوں کے بارے میں ایک اچھا امیج بنے گا۔

اسلام ٹائمز: ملک کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار کون ہے اور کیا وجہ ہے کہ امریکہ ہمارے ملک میں اس قدر دخل اندازی کرتا ہے۔؟

قاضی حسین احمد: ہمارے اپنے لوگ ہی اس ملک کے ساتھ سب کچھ کر رہے ہیں۔ اگر یہ صحیح ہو جائیں تو باہر سے کس کی جرات ہے کہ وہ آکر مداخلت کرسکے۔ ہم یہی کوشش کریں گے کہ تمام امت کو ایک ہی پلیٹ فارم اور مشترکات پر جمع کر سکیں۔

اسلام ٹائمز: کیا پاکستان کے عوام موجودہ مشکلات سے نکل سکتے ہیں۔؟
قاضی حسین احمد: یہ تو ہمارے اوپر منحصر ہے، اگر مسلمان اکٹھے ہو جائیں تو ہم دنیا میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں آئے روز قتل عام ہو رہا ہے، سرعام لوگوں کو قتل کر دیا جاتا ہے، لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے کہیں نظر نہیں آتے، کیا حکومت وہاں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔؟
قاضی حسین احمد: بالکل! ہماری حکومت کی سب سے بڑی کوتاہی تو یہی ہے کہ جو بھی دہشتگردی میں ملوث ہیں ان کو سامنے نہیں لایا جاتا۔ راستے میں قتل کرکے لاش کو گلی کوچے میں پھینک دینا علاج نہیں ہے۔ جو مجرم ہیں ان کو پکڑنا اور ان پر مقدمہ چلانا اور انہیں عوام کے سامنے لانا اور انہیں سخت سے سخت ترین سزا دینا چاہئے۔ یہی اس کا علاج ہے۔

اسلام ٹائمز: اس وقت پاکستان جن کرائسز سے گزر رہا ہے، لوڈشیڈنگ، گیس وغیرہ اس پر کس طرح قابو پایا جاسکتا ہے، دوسرا یہ کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر مذہبی جماعتوں کا کیا موقف ہے۔؟

قاضی حسین احمد: ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبہ اس بحران پر قابو پانے کے لیے فوری اور پائیدار حل ہے۔ اگر ہم اپنے مسائل خود ہی حل کریں تو یہ سب سے ہی بہتر حل ہے۔ مثلاً تھر کوئل کے بارے میں سائنسدان کہتے ہیں کہ چار سو سال تک ہماری ضرورت پوری کرسکتا ہے۔ ہمارے پاس پانی ہے اور وہ ضائع ہو رہا ہے، لیکن کسی کی اس کی طرف توجہ ہی نہیں۔ 
اسی طرح ہمارے پاس تانبے اور سونے کے ذخائر ہیں۔ ہمارے ملک میں موجود تمام وسائل کو مکمل طور پر استعمال کرنا ہی اس کا بہترین علاج ہے، لیکن فوری طوری پر اس مسئلے کا حل صرف ایران پاک گیس پائپ لائن ہی ہے اور ایک سال کے اندر یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ ایران والی گیس کو ہم اپنی ناردرن سوئی گیس لائنوں (پائپوں) کے اندر شامل کر سکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 173102
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
acha interview kia gia hi. jis ne b kia hi wo Mubarak bad ka mustehk hi.
ہماری پیشکش