1
0
Tuesday 31 Jul 2012 11:25

تعلیمی میدان میں ترقی سے تمام مسائل حل کئے جا سکتے ہیں، راضیہ بتول

تعلیمی میدان میں ترقی سے تمام مسائل حل کئے جا سکتے ہیں، راضیہ بتول
خواہر راضیہ بتول نجفی علامہ شیخ محسن علی نجفی کی صاحبزادی ہیں، انکی پیدائش نجف میں ہوئی اور وہیں والدین کیساتھ حصول علم میں مشغول ہو گئیں۔ 11 سال تک قم کے انٹرنیشنل ادارے جامعتہ الزاہرہ سے تعلیم حاصل کی اور آٹھ سال تک درس خارج بھی پڑھا، تاہم بقول اُن کے وہ دوبارہ ایران چلی گئیں، کئی کتابیں تالیف کیں جبکہ بہت ساری کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں۔ تبلیغ دین کے سلسلے میں کینیڈا، ہالینڈ، انگلینڈ و افریقی ممالک کا سفر کر چکی ہیں۔ خواہر راضیہ اس وقت اسلام آباد میں الکوثر کالج فار گرلز کی پرنسپل ہیں، یہ ادارہ حال ہی میں قائم ہوا ہے ۔ ’’اسلام ٹائمز ‘‘نے اُن سے تعلیمی سفر، دینی خدمات اور پاکستان میں تعلیمی صورتحال سمیت ملک و قوم کو درپیش مشکلات پر ایک اہم انٹرویو کیا ہے جو قارئین کیلئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: خواہر، یہ بتائیے کہ الکوثر کالج کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی اور اس کے لئے اسلام آباد کا انتخاب ہی کیوں کیا گیا۔؟

خواہر راضیہ: جی اس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ ہم تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ہیں، فی الحال ہم اس کالج کو انٹرمیڈیٹ کی سطح تک شروع کر رہے ہیں۔ رہی بات اسلام آباد کے انتخاب کی تو، اسلام آباد تعلیمی حوالے سے دوسرے شہروں کی نسبت بہت اچھا اور خوبصورت شہر ہے، اب کیوں کہ یہ ادارہ فقط طالبات کیلئے قائم کیا جا رہا ہے تو اس لحاظ سے اسلام آباد سے زیادہ مناسب شہر کوئی اور نہیں تھا، کیوں کہ آپ جانتے ہیں کہ پاکستان اس وقت جن حالات سے دوچار ہے ان میں سب سے بڑا مسئلہ سکیورٹی کا ہے۔ ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے اسلام آباد کے سیکٹر ایچ ایٹ ٹو کا انتخاب کیا ہے، جو کہ ایجوکیشنل سیکٹر ہے اور اس سیکٹر کو معین ہی تعلیم کیلئے کیا گیا ہے۔ یہ کالج انٹرمیڈیٹ لیول کا ہے اور ابتدائی طور پر ساٹھ سٹوڈنٹس تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز:تعلیمی میدان میں مومنین کو کس سطح پر دیکھتی ہیں، کن چیزوں پر فوکس کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔؟

خواہر راضیہ: دیکھیں! پاکستان تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ہے، ہمارا لٹریسی ریٹ دیکھ لیں تو انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، سوشل سائنسز کے علاوہ ہمیں اسلامک سائنسز میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں اُن چیزوں پر فوکس کرنا چاہیے جن پر اس وقت کام نہیں کیا جارہا، اس لیے ہم دعوے کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اسلامک سائنسز میں بھی ہمارے بہت سے اساتذہ شیخ محسن علی نجفی کی سرپرستی میں کام کررہے ہیں، علامہ شیخ محسن علی نجفی کا ایک ایسا نام ہے جس نے تعلیمی میدان بہت زیادہ خدمات سرانجام دیں ہیں، اُن کی ایک تاریخ ہے۔ اسوہ کالج اور اسوہ سکول سسٹم نے پہلے سال ہی فیڈرل بورڈ میں ریکارڈ قائم کیا، وہ سب آپ کے سامنے ہے جبکہ دوسری جانب دیکھیں تو جامعۃ الکوثر میں برادران نے ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں اور اس کے علاوہ یہاں سے طلباء تعلیم حاصل کر کے قم اور مشہد جاتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ کے والد گرامی کے زیر نگرانی کتنے ادارے اس وقت پاکستان میں کام کر رہے ہیں؟

خواہر راضیہ: تعداد کے حوالے سے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتی، البتہ میرے خیال میں پورے پاکستان میں 55 سکول ہیں اور تقریباً 4 کالجز ہیں جن میں کچھ کیڈٹ کالجز ہیں اور کچھ ٹیکنیکل کالجز ہیں، مزید تفصیلات ہماری سائٹ پر دیکھی جا سکتی ہیں۔

اسلام ٹائمز:ملی اعتبار سے دیکھا جائے تو آپ کیا کہیں گی کن ایرایاز میں زیادہ فوکس کرنے کی ضرورت ہے؟

خواہر راضیہ: تمام مسائل انسانی کا حل چاہے وہ اجتماعی ہوں یا انفرادی، سیاسی ہوں یا شخصی ہر مشکل کا حل ایجوکیشنل منصوبوں میں ہے۔ اگر آپ صحیح تعلیم اور تربیت کر لیں تو تمام انسانوں کی مشکلات حل ہو سکتی ہیں اور ہم تو مکتب جعفریہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ کالج جناب فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا سے منسوب بھی ہے اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے بھی منسوب ہے۔ جامعۃ الکوثر یعنی طالبات یہاں آ کر اپنے آپ کو علم سے سیراب کریں گی اور علمی تشنگی کو پورا کریں گی تو یقیناً ہمارا اس میں یہ فرض بنتا ہے کہ تمام دوسرے مکاتب فکر سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اس طرح جتنی ہو سکیں علمی کاوشوں کو بروئے کار لایا جائے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا سمجھتی ہیں اور کن امور پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے؟

خواہر راضیہ: پاکستانیوں کا سب سے بڑا مسئلہ غفلت و جہالت ہے، جب کسی معاشرے میں جہالت پائی جاتی ہو تو وہاں پر تفرقہ، گروہ بندی، لسانیت، علاقائیت جیسے مسائل کو آسانی پیدا کیا جاتا ہے، جیسا کہ ہم اس وقت اس ملک میں یہ تمام چیزیں جھیل رہے ہیں۔ اس ملک میں تعلیمی انقلاب آجائے تو یہ چیزیں علم کی بدولت خودبخود ختم ہوجائیں گی، جو قومیں ترقی کے میدان سب سے آگے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ وہاں تعلیمی انقلاب ہے۔ ان ممالک میں استحکام اور سائنسی اعتبار سے آگے بڑھنے کی کنجی ہی تعلیم ہے۔ جب آپ اپنے آپ کو تعلیم اور معرفت سے دور رکھیں گے تو کیسے آگے بڑھیں گے۔ جن مصیبتوں کا پاکستان کو سامنا ہے اس میں دہشت گردی، فرقہ واریت اور جہالت ہے۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ آگے بڑھیں اور اس میدان میں ہمارا ساتھ دیں تاکہ ہم اپنے اہداف کی جانب بڑھ سکیں۔

اسلام ٹائمز:آپ کافی عرصہ ایران میں رہی ہیں وہاں کا ماحول کیسے پایا؟

خواہر راضیہ: ایران کی تو بات ہی کچھ اور ہے، اس وقت ایران دنیا سے نبردآزما ہے، چاہے وہ تعلیمی میدان ہے، سائنسی میدان ہے، ٹیکنالوجی کا میدان ہو یا معاشرتی ترقی کا میدان، ایران ہر لحاظ سے اپنے آپ کو ناصرف منوا رہا ہے بلکہ دنیا کے مقابلہ میں کھڑا ہے۔ ایرانی قوم کی خوش بختی ہے کہ انہیں اچھی، دیانت دار اور باعمل قیادت ملی جس کے باعث انہیں یہ ثمرات نصیب ہو رہے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ ایران کی یونیورسٹیز میں پی ایچ ڈی یعنی ڈاکٹریٹ کا کافی رجحان ہے۔ اس وجہ سے ایران عالمی سطح پر کئی ریکارڈ بنا چکا ہے اور بنا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ ایران کی ترقی اور کامیابی کا سارا کریڈٹ وہاں کی قیادت کو دے رہی ہیں؟

خواہر راضیہ: یقیناً قیادت مخلص ہوگی تو ملک ترقی کرے گا، قوموں کے عروج و زوال میں چار چیزیں اہم ہوتی ہیں، حاکم، تاجر، عالم اور عوام ہیں، اگر یہ چار چیزیں ملکر اور خالص نیت کے ساتھ آگے بڑھیں تو اس قوم کو ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا اور اس ملک کے سارے حالات خودبخود ٹھیک ہوجاتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ کے نزدیک پاکستان میں کن کن شعبوں میں کام کیا جاسکتا ہے؟

خواہر راضیہ: میں تو اپنی فیلڈ کے حوالے سے کہوں گی، آج کل لوگ کنفیوز ہیں کہ ہم دین کی طرف جائیں یا دنیا کی طرف جائیں۔ اگر دین کی طرف جائیں تو دنیاوی ضروریات پوری نہیں ہوتیں اور اگر دنیا کی طرف جائیں تو دین رہ جاتا ہے۔ اس لیے میں کہتی ہوں کہ لوگ ہماری طرف آئیں جہاں پر دین اور دنیا دونوں کے لیے بہترین امتزاج پایا جاتا ہے اور جو آج کل کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ یقیناً دین اور دنیا دونوں آپس میں جدا نہیں، اس لئے ہمیں دونوں کو ساتھ لیکر چلنا ہو گا، ان سے عالم بشریت کو فائدہ پہنچے گا۔ میں سمجھتی ہوں کہ جب سے تعلیم کا سلسلہ غیر مسلمانوں کے ہاتھوں میں گیا ہے انہوں نے دین و دنیا دونوں کو الگ کر دیا ہے جس کے باعث آج مسائل کا سامنا ہے۔ اس لئے دونوں کی جدائی کو ختم کرنا ہوگا۔ اسی میں ہماری فلاح و بہود ہے۔

اسلام ٹائمز:ایران میں اقبالیات پر کتنا کام ہوا اور پاکستان میں کس طرح فکر اقبال کو پھیلایا جا سکتا ہے۔؟

خواہر راضیہ: جی ایران میں اقبالیات پر کافی کام ہوا ہے کیونکہ ان کا کلام زیادہ تر فارسی میں ہے۔ ان کے اشعار ایک حد تک تفسیر قرآن، تفسیر احادیث میں استعمال میں لائے جا چکے ہیں۔ اقبال ایک عظیم شاعر تھے لہٰذا ہمیں اُن کی فکر کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اُن کا کلام پاکستانی قوم کیلئے ایک بہت بڑا سرمایہ ہے، جس کی قدر کرنی چاہیے۔ آج افسوس اس بات کا ہے کہ انگلش میڈیم نے سارے نظام کا بیڑا غرق کردیا ہے۔ آج ہمارے بچوں کو یہ نہیں پتا کہ اقبال کون تھے، اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ایک دن ہم علامہ اقبال کو بھول بیٹھیں گے۔

اسلام ٹائمز:پاکستان میں محسوس کیا جا رہا ہے کہ لوگ سوشل میڈیا کے باعث مطالعہ سے دور ہوتے جا رہے ہیں، اس کی کیا وجہ نظر آتی ہے؟

خواہر راضیہ: جی ہاں! پڑھنے کا رحجان بہت ہی کم ہو چکا ہے۔ موجودہ نسل جو اے لیول اور او لیول کررہی ہے وہ انگلش زبانوں میں کتب بینی زیادہ کرتے ہیں، جبکہ اردو اُن کے قریب سے بھی نہیں گزرتی، علمی کاوشیں، مطالعات اور تحقیق کے لیے انگریزوں نے اپنی زبان کو ہمارے ملک کے اندر رائج کردیا ہے جبکہ علمی زبان اردو ہونی چاہیے جو نہیں ہے، یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 183573
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Angola
MashaAllah May Allah Almighty bless u & kauthar college.
منتخب
ہماری پیشکش