1
0
Friday 12 Oct 2012 09:30

نمائندہ ولی فقیہ کی زیر سرپرستی کام کرنا جے ایس او کیلئے باعث افتخار ہے، ساجد علی ثمر

نمائندہ ولی فقیہ کی زیر سرپرستی کام کرنا جے ایس او کیلئے باعث افتخار ہے، ساجد علی ثمر
29 ستمبر 1989ء کو لیہ کے قصبے جعفری نگر میں پیدا ہونے والے ساجد علی ثمر جعفریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے ادارہ علوم ارضی میں ایم فل انجینئرنگ جیالوجی کے طالب علم ہیں۔ وہ جے ایس او پنجاب یونیورسٹی کے یونٹ صدر اور لاہور کے ڈویژنل صدر کی ذمہ داریوں پر بھی کام کر چکے ہیں۔ وہ اپنے خیالات میں واضح اور غیر متزلزل نظر آتے ہیں۔ وحدت پر یقین تو رکھتے ہیں لیکن جے ایس او کے ادغام پر راضی نہیں۔ تنظیم کی وسعت اور بہتری کی خواہش رکھتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے مرکزی صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد پہلا انٹرویو کیا ہے۔ جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے اسی سال جولائی میں جعفریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کی قیادت سنبھالی، آپ نے تنظیم کی بہتری کے لئے کیا اہداف مقرر کئے ہیں اور کیا تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں۔؟ 
ساجد علی ثمر: جی! یہ توفیق خداوندی ہے کہ اس خاکسار کو غیر معمولی اعزاز سے نوازا، اور ایک اہم اور غیر معمولی ذمہ داری سونپی۔ تنظیم کی بہتری کے لئے بہت سے اقدامات زیر غور ہیں۔ قیادت سے مکمل وابستگی اور سینئیر برادران کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے طلبہ کی فکری، نظریاتی اور عملی تربیت کے علاوہ تعلیمی اور مضبوط مالیاتی سیٹ اپ کی تشکیل جیسے اہم اقدامات شامل ہیں۔ میرے نزدیک تعلیمی تبدیلی کا مطلب صرف اتنا ہے کہ جو اہداف مقرر کئے ہیں، ان کے حصول میں غیر معمولی فعالیت کا مظاہرہ کرنا اور پہلے سے زیادہ محنت اور کاوش کرنا۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ ملک بھر میں تنظیم نو مکمل کر چکے ہیں۔؟
ساجد علی ثمر: جی کافی حد تک تنظیم نو مکمل ہو چکی ہے۔ تاہم کچھ ڈویژنز کی تنظیم نو ہونا باقی ہے۔ اکتوبر کے آخر تک انشاءاللہ تمام ڈویژنز کی تنظیم نو مکمل ہو جائے گی۔ جس کے فوری بعد مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس بلایا جائے گا، تاکہ تنظیمی پروگرام اور توسیع تنظیم کے حوالے سے اہم فیصلہ جات کئے جائیں۔ اس مرکزی عاملہ کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہوگی کہ اس میں ایک نشست ان تمام افراد کے لئے مختص کی گئی ہے، جو تنظیم کے قیام سے لے کر اب تک تنظیمی عہدوں پر فائز رہے ہیں اور جن کی تنظیمی فعالیت کے لئے جدوجہد رہی ہے۔ ان سے جے ایس او کی مزید فعالیت اور تنظیم کے پیغام اور نیٹ ورک کو بہتر بنانے کے حوالے سے رہنمائی لی جائے گی۔ خصوصاً وہ علاقے اور تعلیمی ادارے جہاں پہلے سے تنظیمی وجود نہیں یا کمزور ہے۔ ان تنظیمی دوستوں کی شرکت کو یقینی بنانے کے لئے ہم نے رابطوں کا آغاز کر دیا ہے۔

اسلام ٹائمز: تنظیم اور تعلیم میں توازن کیسے ممکن ہے۔؟
ساجد علی ثمر: میں تنظیم اور تعلیم کو الگ الگ نہیں دیکھتا، دونوں ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ میرے نزدیک تنظیم تعلیم کا ماحاصل ہے۔ تعلیم کے بغیر کوئی بھی تنظیم نہیں چلا سکتا۔ یہ تعلیم ہی ہے جو ہمیں اچھا تنظیمی فرد بناتی ہے۔ تاہم اوقات کار کی تقسیم بہت ضروری ہے۔ ہمیں اپنے روزمرہ کے اوقات کو مقرر کرنا ہوگا۔ انہیں تنظیم اور تعلیم میں تقسیم کرنا ہوگا۔ اور جب ان اوقات کو مقرر کرنے پر عمل ہو جائے گا تو توازن خود بخود قائم ہو جاتا ہے اور تنظیم کا تو کام ہی نظم و ضبط سکھانا ہے۔

اسلام ٹائمز: پنجاب اور خصوصاً لاہور میں جے ایس او خاصی کمزور نظر آتی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے۔؟ ساجد علی ثمر: آپ کو کبھی کمزور نظر آتی ہوگی، مگر اب ایسا نہیں ہے۔ پنجاب اور لاہور سمیت ہم پاکستان کے ہر شہر میں اچھی طرح فعال ہیں۔ یونٹ سازی کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ اس حوالے سے میں سمجھتا ہوں کہ ملک بھر میں شاید ہی کوئی قصبہ ایسا ہوگا کہ جہاں جے ایس او کا کسی نہ کسی طرح وجود نہ ہو یا پیغام نہ پہنچا ہو۔ البتہ ہمیں وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔ جس کی وجہ سے بہت سی مشکلات ہیں اور یہی وجہ ہے جس کے سبب ہم اس طرح سے لوگوں کو نظر نہیں آتے کہ جس طرح دوسرے لوگ یا تنظیمیں وسائل کی بنیاد پر نظر آتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ طلبہ تنظیموں کی سیاسی سرگرمیوں کے حق میں ہیں۔؟
ساجد علی ثمر: جی بالکل! سیاست کی تاریخ میں طلبہ کا کردار ہمیشہ بہت اہم رہا ہے۔ آپ تحریک پاکستان کی مثال کو ہی دیکھ لیں۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے طلبہ نے عملی سیاست میں قدم رکھا تھا اور برصغیر کے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن پاکستان کی شکل میں حاصل کیا۔ آج بھی پاکستان کی عملی سیاست کے گلدستے کو دیکھ لیں تو اس میدان کے اکثر فعال کرداروں کا تعلق طلبہ تنظیموں سے ہی رہا ہے۔
 
میں سمجھتا ہوں کہ طلبہ تنظیموں کو اپنی حدود کا علم ہونا چاہئے۔ تعلیمی اداروں کو یرغمال بنانے، قومی شخصیات پر کیچڑ اچھالنے، تعلیمی اداروں کو اپنی جاگیر سمجھنے، غنڈہ گردی کرنے اور اپنی پالیسیوں کو حتمی سمجھنے، وسعت قلبی اور برداشت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے جلاﺅ گھیراﺅ اور توڑ پھوڑ جیسی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے سے طلبہ تنظیموں کا تشخص پامال ہوا ہے۔ ساتھ ہی طلباء اور طلباء رہنماوں کو قومی سطح کے بجائے طلبہ سیاست پر توجہ دینا ہوگی اور اس کا معیار مولا امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا فرمان ہونا چاہیے، جس میں آپ نے تقویٰ الٰہی اختیار کرنے اور اپنے امور میں نظم و ضبط پیدا کرنے کا حکم فرمایا تھا۔

اسلام ٹائمز: شیعہ علماء کونسل کے قائد علامہ ساجد علی نقوی نے آپ کی تنظیم کے مرکزی کنونشن پر واضح کیا ہے کہ جے ایس او علیحدہ تنظیم نہیں، شیعہ علماء کونسل کا ذیلی شعبہ ہے، انہیں ایسا کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔؟
ساجد علی ثمر: جے ایس او پاکستان کے مرکزی کنونشن کا سماں تو آپ کے ذہن میں ہوگا ہی، جس میں طلبہ نے بھرپور شرکت، ان کی والہانہ عقیدت اور محبت، قائد ملت جعفریہ کی آمد، جے ایس او کے نوجوانوں کا بھرپور استقبال اور پھر مرکزی صدر کے انتخاب جیسے مناظر دیدنی تھے۔ میری نظر میں قائد محبوب کا اپنی تقریر میں جے ایس او کے ذیلی ادارہ ہونے کا تذکرہ نوجوانوں کی عقیدت کو سراہنے اور ان کے حوصلوں کو بلند کرنے کے لئے تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہماری تنظیم کے لئے اعزاز ہے کہ ہم پاکستان کی واحد طلبہ تنظیم ہیں جو کہ ولی امرِ المسلمین رہبر معظم آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کے پاکستان میں نمائندہ اور رہبرِ شیعیانِ پاکستان حضرت علامہ سید ساجد علی نقوی کی براہِ راست قیادت، رہبری اور سرپرستی میں کام کر رہے ہیں۔ یہ ہمارے لیے باعثِ افتخار ہے کہ ہم پاکستان کے تشیع کی قومی جماعت کا طلبہ ونگ ہیں۔

اسلام ٹائمز: جے ایس او میں مدت عہدہ دو سالہ ہے، کیا ایک طالب علم کے لئے ممکن ہے کہ وہ اس عہدہ کو نبھا سکے۔؟
ساجد علی ثمر: اگر ایک طالب علم عزم مصمم رکھتا ہو تو وہ اس عہدے کو احسن طریقے سے نبھا سکتا ہے، بلکہ اس حوالے سے دو سال اس کے لیے تعلیم و تنظیم کو وقت دینے کے لیے کافی معاون ثابت ہوتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ کے خیال میں ملک میں جاری شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے خلاف کیا حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔؟
ساجد علی ثمر: سب سے پہلے تو ہمیں شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے پس منظر میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ شیعہ ٹارگٹ کلنگ ایک تسلسل ہے جو کہ چودہ سو سالوں سے جاری ہے۔ موجودہ دور کی ٹارگٹ کلنگ، پیغمبر اسلام (ص) کی رحلت کے بعد آل رسول (ع) اور ان کے ماننے والوں پر ہونے والے ظلم و ستم ہی کا تسلسل ہے۔ اگر آپ پاکستان میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے بات کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ اس سے نمٹنے کے لئے وہی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے، جو قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی رضوان اللہ علیہ نے واضح کی اور جسے بعد ازاں قائد ملت جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے اپنی حکمت اور بصیرت سے عملی جامہ پہنایا، اور وہ پالیسی اتحاد و وحدت کی ہے۔ اس کی واضح مثال ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلسِ عمل کا قیام ہے۔ قومی قیادت نے جس حکمتِ عملی سے استعمار کی سازشوں کو ناکام بنایا اور اس ملک سے فرقہ واریت کو اپنے پاوں تلے روندا ہے۔ 

لگتا یوں ہے کہ استعمار اب اس اتحاد و وحدت کی عملی جدوجہد کا بدلہ لے رہا ہے اور بسوں سے مسافروں کو اتار کر شناختی کارڈ چیک کرکے قتل کیا جا رہا ہے، کوئٹہ اور کراچی تو مقتل گاہ بن چکے ہیں۔ جہاں آئے روز شیعہ مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے، مگر کوئی ریاستی ادارہ اسے روکنے والا ہے اور نہ ہی حکومت نے اس کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شیعیان حیدر کرار کو ایک قیادت اور علم عباس علیہ السلام کے سائے تلے متحد ہونا پڑے گا۔ کیونکہ جب ہم مٹھی بن کر مکے کی شکل اختیار کریں گے تو دشمن کے دانت بھی توڑ سکتے ہیں ورنہ ایک ایک کرکے مارے جاتے رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے کہا کہ ہمیں متحد ہونا پڑے گا تو دشمن کے مقابلے کیلئے شیعہ تنظیموں کے اتحاد میں رکاوٹ کیا ہے۔؟
ساجد علی ثمر: جی بالکل، میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ اتحاد ہی واحد راستہ ہے اور اس پر عمل پیرا نہ ہونا ہی اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

اسلام ٹائمز: اس اتفاق کو کیسے دیکھتے ہیں کہ آئی ایس او اور جے ایس او کے مرکزی صدور کا تعلق ایک ہی ضلع لیہ سے ہے۔؟
ساجد علی ثمر: جی! حسن اتفاق ہے، ہمارے اچھے نصیب تھے۔ الحمداللہ لیہ کی سرزمین کے لئے یہ بات قابل فخر ہے اور اس کا کریڈٹ اہلیان لیہ کو جاتا ہے۔ یہ انہی کی تربیت کا ثمر ہے کہ شہر لیّہ نے ایسے نوجوان تیار کئے کہ جو میدان عمل میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ آئی ایس او کے موجودہ مرکزی صدر نہ صرف یہ کہ میرے شہر ہی سے ہیں، بلکہ میرے بہت اچھے دوست بھی ہیں اور ایک دور میں ہم روم میٹ بھی رہ چکے ہیں۔ اطہر عمران کے ساتھ بہت خوشگوار یادیں ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے پاس طلبہ کو متحد کرنے کا ایک نادر موقع ہے۔ اس سے اچھا موقع شاید ہی مستقبل میں ہمیں نصیب ہو۔ اس حوالے سے میں بہت واضح ہوں کہ طلبہ تنظیموں کو متحد کرنے کے لئے کچھ ایسا کیا جائے، جس کے وہ کافی عرصے سے منتظر ہیں۔ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے اور اہداف بہت زیادہ ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ملی تنظیمیں جمود کا شکار ہیں اور انہیں متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔؟
ساجد علی ثمر: میں دیگر ملی تنظیموں کے بارے میں کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھتا، ہاں اتنا ضرور ہے کہ جب سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے شیعیانِ پاکستان کے ساتھ جہاں اور ناانصافیاں کیں، ان میں ایک بہت بڑی ناانصافی اور زیادتی ملت جعفریہ کی واحد نمائندہ جماعت تحریکِ جعفریہ پاکستان پر بلاجواز پابندی عائد کرنا تھی۔ اس ظالمانہ پابندی کے باوجود قائدِ ملت جعفریہ پاکستان علامہ ساجد علی نقوی نے قوم پر جمود طاری نہیں ہونے دیا۔ شہر شہر، گاوں گاوں جا کر پیغامِ حسینی پہنچایا۔ قومی جماعت پر پابندی کے باوجود عزاداری سید الشہداء کو فروغ دینا، شیعیان پاکستان کے حقوق کی حفاظت کرنا، خیبر پختونخواہ کی سابقہ صوبائی اسمبلی میں سکینہ بانو نامی خاتون کا خواتین کی مخصوص نشست پر انتخاب، مجلس عمل کی حکومت میں علامہ رمضان توقیر صاحب کو مشیر بنوانا اور اس وقت بھی صوبہ خیبر پختونخواہ سے ممبر صوبائی اسمبلی کی پارلیمنٹ میں موجودگی قائدِ محترم علامہ سید ساجد علی نقوی کے کارناموں میں سے چند ایک مثالیں ہیں۔ تو کیسا جمود اور کون سا جمود؟ 

قائدِ محترم نے تو قوم پر اس وقت بھی جمود طاری نہ ہونے دیا جب آپ کو ایک دہشت گرد کے قتل کے جھوٹے مقدمہ میں گرفتار کیا گیا اور آپ کی رہائی کے بدلے کچھ شرائط رکھی گئیں، جن کو آپ نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ میں تختہ دار پر چڑھنے کو تیار ہوں، مگر شیعیانِ پاکستان کے حقوق سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ نہایت صبر اور برداشت کے ساتھ اور ایک اطاعت گزار کی طرح قائد کے حکم پر لبیک کہنا ہوگا، ان کی ہر حکمتِ عملی کی اطاعت کرنا ہوگی اور یہی عمل ایک زندہ قوم کی علامت ہے اور یہی درسِ کربلا بھی ہے کہ جب قائد نے حکم دیا کہ عباس تلوار نیام میں ڈال لو تو حضرت عباس علمدار علیہ السلام نے اپنی قیادت سے کوئی سوال نہ کیا، بلکہ بہترین مطیع کی طرح وقت کے امام کے حکم پر عمل کیا۔ میری نظر میں اسی کا نام تحرک ہے اور اسی تحرک کی قوم کو اشد ضرورت ہے کہ ایک قیادت کے حکم پر لبیک کہا جائے۔

اسلام ٹائمز: کیا جے ایس او اور آئی ایس او کا ادغام یا اتحاد ممکن ہے اور کن نکات پر۔؟ 
ساجد علی ثمر: جی میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت خطہ ارض پر جتنی شیعہ تنظیمیں کام کر رہی ہیں، ان کے ممبران آپس میں ایک خاندان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے احساسات و جذبات اور اہداف ایک ہیں۔ جہاں تک ادغام کی بات ہے تو میرے خیال میں اس گفتگو کے بجائے پاکستان میں موجود طلباء تنظیموں کے آپس میں روابط کو بڑھانے پر بات ہونی چاہیے۔ ایک دوسرے سے تعاون اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر بات ہونی چاہیے۔ 

ادغام وغیرہ کے دور سے ہم بہت آگے جا چکے ہیں، جے ایس او پاکستان ایک حقیقت بن چکی ہے، جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔ 1996ء میں جب امامیہ طلبہ کا شیرازہ بکھر رہا تھا اور ہمارے سندھ کے سینئیرز لاہور کے سلور جوبلی کنونشن میں ان کو سمجھاتے رہے کہ دستور کی اس شق کو ختم نہ کیا جائے، جس میں لکھا تھا کہ "یہ تنظیم براہِ راست ولی فقیہ اور پاکستان میں ان کے نمائندے کی براہ راست قیادت اور رہبری میں کام کرے گی۔ نمائندہ ولی فقیہ اس مقصد کے لئے مجلس نظارت تشکیل دیں گے"۔  مگر ان کی ایک نہ سنی گئی، کاش ان کو سن لیا جاتا تو پاکستان کے طلبہ تقسیم نہ ہوتے۔ 

میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت کے بعد سے اندرونی مسائل نے جنم لیا۔ ڈاکٹر شہید اختلافات کو بھی احترام کی نگاہ سے دیکھتے اور ان مسائل کو حل کر دیتے تھے۔ ان کی المناک شہادت کے بعد ایک مخصوص سوچ کے حامل افراد نے شہید ڈاکٹر کے نقشِ قدم کو بھلا دیا اور میرے خیال میں ایک الگ ڈگر پر چل پڑے۔ جس کے سبب پاکستان میں امامیہ طلبا کا شیرازہ بکھرا اور مجھے امید ہے کہ ایسا کرنے والے ٹھنڈے دل سے ماضی کو ذہن میں لا کر سوچیں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ انہیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ سوائے قوم کو تقسیم کرنے کے۔ علامہ ساجد علی نقوی ایک حقیقت ہیں، جنہیں قومیات میں سے نکالا نہیں جاسکا۔ انہوں نے حالات کا مقابلہ کیا اور آج میدان عمل میں موجود ہیں۔
 
شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے فرزند بھی اس بات کے گواہ ہیں، مگر وہ چاہتے ہوئے بھی جے ایس او کے مرکزی رہنماوں سے کراچی میں ایک کے بعد دوسری ملاقات نہ کرسکے۔ 2007-08 میں جے ایس او کے مرکز کی ہدایت پر میں خود اپنے ڈویژنل صدر کے ہمراہ المصطفٰی ہاوس لاہور گیا، مگر مخصوص سوچ کی وجہ سے ان برادران کی جانب سے کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ 

جے ایس او نے ہمیشہ تمام شیعہ طلبہ تنظیموں سے اتحاد وحدت کی بات کی ہے، کیونکہ ہم قائد کے بیٹے ہیں اور اپنے روحانی باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اتحاد و وحدت کے فروغ کی کوشش کرتے رہیں گے۔ یہ میری خواہش ہے کہ پاکستان میں موجود دونوں بڑی شیعہ طلبہ تنظیموں سمیت سندھ کی شیعہ طلباء تنظیم مشترکات پر مل بیٹھیں، تاکہ تعلیمی اداروں میں شیعہ طلباء کے حقوق کا تحفظ موثر انداز میں کرسکیں۔
خبر کا کوڈ : 202878
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Sallam, Islam Times ke new Polices ko deikh kr buhat khushi hue k ap ab tamam tanzimon ko brabar ke bunyad pr coverge dy rahy hain. jb k abn e aadm k articals buhat achy aur malomati hotay hain.
ہماری پیشکش