0
Friday 19 Oct 2012 18:18
اسرائیلی حدود میں ڈرون بھیجنا حزب اللہ کا جرات مندانہ اقدام ہے

تحریک طالبان مسلمانوں کی جماعت ہے نہ اس کا انسانیت سے کوئی تعلق ہے، جنرل عبدالقیوم

تحریک طالبان مسلمانوں کی جماعت ہے نہ اس کا انسانیت سے کوئی تعلق ہے، جنرل عبدالقیوم
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم کا نام ملک کے ممتاز محققین اور سیاسی نشیب و فراز پر گہری نظر رکھنے والے بلند پایہ دفاعی و سیاسی تجزیہ نگاروں میں ہوتا ہے، جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم، پاکستان آرڈینسنس بورڈ اور پاکستان سٹیل ملز کے سابق چیئرمین رہے ہیں، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے ممبر اور سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے ملٹری سیکرٹری کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں اور اس وقت نظریہ پاکستان فورم اسلام آباد کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں، اسلام ٹائمز نے اُن سے ملکی اور بین الااقومی صورتحال پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: ملالہ یوسفزئی پر حملہ اور وزیرستان میں فوجی آپریشن دونوں کا آپس میں کیا تعلق ہے۔؟
جنرل عبدالقیوم: اس پر پاکستان مسلم لیگ ن اور میرا بطور تجزیہ نگار بھی موقف اور نکتہ نظر یہ ہے کہ ملالہ پر حملہ تو قابل مذمت ہے۔ ملالہ ایک معصوم بچی ہے اور ابھی سن بلوغت تک بھی نہیں پہنچی۔ اس نے بہت ساری چیزیں بہتر کہیں، لیکن کچھ چیزوں سے سلپ بھی ہوئی اور وہ باتیں جو نہیں کہنی چاہیں تھیں وہ بھی بیان کیں۔ اس ساری صورتحال کے باوجود اس بچی پر حملہ ایک ناقابل معافی جرم ہے اور ہمیں اس بات کا بہت ہی دکھ ہے۔ اسی طرح ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس بچی کو تعلیم کے لحاظ سے کون پروجیکٹ کرتا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی اس بچی کو CNN پروجیکٹ کرتا ہے تو کبھی این جی اوز کرتی ہیں، یہ وہ ادارے ہیں جنہیں ہم اسلام مخالف سمجھتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ ڈرون حملے کرکے ہمارے بندے مارتے ہیں، ان میں بھی وہی طاقتیں شامل ہیں۔

میری ذاتی سوچ کے مطابق ملالہ پر حملہ انہی طاقتوں نے کیا ہے۔ جو طاقتیں ڈرون حملے کر رہی ہیں، وہی طاقتیں ملالہ پر حملے کی بھی ذمہ دار ہیں اور وہی طاقتیں مہران بیس اور کامرہ بیس پر حملے میں بھی ملوث ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کوئی مسلمانوں کی تنظیم نہیں اور نہ اس تنظیم کا انسانیت کے ساتھ تعلق ہے، ان کے پیچھے بھی یہی طاقتیں کار فرما ہیں۔ بس یہ ساری قوتیں وہی ہیں جو پاکستان کے خلاف ہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ بہت ہی احتیاط سے کام لیں اور ہمیں پاکستان میں کبھی بھی دو گروپ نہیں بنانے۔ اس وقت اہم دو انتہاؤوں میں گہرے ہوئے ہیں، ایک طرف مذہبی انتہاء پسندی ہے تو دوسری جانب لبرل گروہ ہے۔ دہشت گردی کے خلاف چھیڑی جانی والی جنگ درحقیقت پاکستان کے خلاف جنگ ہے۔ ہمیں کوئی درمیان کا تیسرا راستہ چننا ہے۔

اسلام ٹائمز: پاک فوج نے یہ بیان دیا ہے کہ وزیرستان میں آپریشن کا فیصلہ سیاسی قیادت نے کرنا ہے؟ اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے۔؟
جنرل عبدالقیوم: یہ بات بالکل درست ہے کہ ہماری قبائلی پٹی پر ہماری حکومت کی کوئی رٹ موجود نہیں۔ 65 سال میں جو وہاں پر حکومت کی رٹ قائم نہیں کرسکے، وہ نالائق ترین انسان ہیں، اسی لیے انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ وہاں پر کیا ہو رہا ہے، یعنی اصل صورتحال سے بے خبر ہیں۔ پاکستان دشمن لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ قبائلی علاقوں میں غیرملکی بھی موجود ہیں اور ایسے لوگ بھی اسلحے سمیت موجود ہیں، جو افغانستان پر حملے کرتے ہیں۔ ہمارے لوگ اس بات پر یقین نہیں کرتے ہیں کہ ہمارے ہی لوگ افغانستان پر حملہ کرتے ہیں، لیکن ہمیں اس بات پر یقین ضرور ہے کہ ہماری قبائلی پٹی میں ایسے افراد موجود ہیں، جو بیرونی امداد پر چل رہے ہیں اور بیرونی اسلحہ لے کر بیرونی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے پاکستان کے اندر آئی ایس آئی، پاک فوج، سکول، خواتین، بچوں و دیگر سرکاری و غیر سرکاری اداروں پر حملے کرتے ہیں۔

اب ہمیں اس مسئلے کے حل کے بارے میں سوچنا ہے، اب کیا ہمارے پاس اس کا صرف ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ ہم نارتھ وزیرستان پر حملہ کریں۔ میری ناقص عقل اور زندگی کے تجربے و تاریخ کے مطابق سیاسی مسائل فوجی طریقے سے حل نہیں ہو سکتے۔ اگر فوجی طاقت کے ساتھ یہ مسائل حل ہو جاتے تو اب تک امریکہ اپنے 48 ممالک کی جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ افغانستان کو فتح کر چکا ہوتا۔ اب تک امریکہ کے کنٹرول میں صرف 25 فیصد افغانستان ہے۔ پاکستان کی قبائلی پٹی جس کی تاریخ صدیوں سے ہے اور کبھی کسی کے نیچے نہیں آئی تو اس پٹی کو آپ فوجی طاقت کے ساتھ کس طرح فتح کریں گے۔ آپ ڈائریکٹ ان ڈائریکٹ، سیاستدانوں اور ڈائیلاگ کے ذریعے اس مسئلے کو حل کریں۔ کوشش کرنی چاہیے کہ فوج کو صرف اور صرف دفاع کے لیے استعمال کیا جائے۔

دوسری بات یہ ہے کہ نیٹو کی افواج جب افغانستان پر حملہ کرتی ہیں یا پاکستان میں ڈرون حملے کرتی ہیں، یہاں کوئی امریکن نہیں بیٹھا ہوا ہے۔ یہ امریکہ کی آبادی نہیں، یہ ڈرون کسی دہشت گرد کو نہ لگا تو کسی دوسرے مسلمان کو لگے گا۔ کسی امریکی شہری کو نہیں لگے گا۔ اب اگر ہم وزیرستان پر حملہ کریں گے تو ہم دوست اور دشمن میں تمیز نہیں کر سکیں گے۔ وزیرستان میں سارے لوگوں کا حلیہ تو ایک جیسا ہی ہے، پس آپ کس پر حملہ کریں گے۔ یہ مشکل ترین لمحہ ہے۔ یہ کام صرف پاکستانی فوج ہی نہیں بلکہ دنیا کی کسی بھی فوج کے لیے مشکل ترین ہے۔

اسلام ٹائمز: فوجی ماہرین دو حصوں میں تقسیم ہیں، ایک گروہ آپریشن کی بات کرتا ہے تو دوسرا مخالفت میں، علی قلی کے بیان کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے۔؟
جنرل عبدالقیوم: میں نے ان کا بیان نہیں پڑھا۔ بہرحال میں کہتا ہوں کہ پاکستان کا موقف یہ ہونا چاہیے جو مثلاً پاکستان مسلم لیگ ن کا مؤقف ہے۔ جن میں پہلا یہ کہ ہم فوجی ایکشن کے خلاف ہیں، لیکن اگر پاکستان کے کسی کونے میں کسی قسم کی بغاوت ہے اور ان لوگوں کی نشاندہی بھی ہو جاتی ہے کہ جو ملک میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں اور آپ ان لوگوں کو گرفتار کرنے میں یہ اطمینان بھی رکھتے ہیں کہ ان کی گرفتاری سے عام لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا تو پھر ان کے خلاف آپریشن ضرور ہونا چاہیے اور اس حوالے سے مسلم لیگ ن حکومت کے ساتھ ہے۔ سوات میں فوجی آپریشن ہوا تھا، سب کو پتہ تھا کہ دہشت گرد سوات میں دندناتے پھر رہے ہیں اور پاکستان کے آئین اور عدالت کو نہیں مانتے۔ اب بھی اگر دہشت گرد سامنے آئیں تو عوام ان کے خلاف متحد ہو کر ان کا مقابلہ کرے گی اور حکومت کے شانہ بشانہ دہشت گردوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دے گی۔

اسلام ٹائمز: اختر مینگل کی اسلام آباد آمد، سپریم کورٹ پر اعتماد کا اظہار اور مختلف جماعتوں کے رہنماؤوں سے ملاقات کو کسیے دیکھتے ہیں، کیا کوئی ڈویلپمنٹ ہونے کو ہے۔؟
جنرل عبدالقیوم: بلوچستان کے مسائل میں پیشرفت کے حوالے سے کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ سردار وہاں کے عام لوگوں کے نمائندے نہیں ہیں اور اختر مینگل صرف ایک قبیلے کے سردار ہیں، جبکہ بلوچستان میں کئی قبیلے بستے ہیں۔ اختر مینگل کا یہ اقدام بہت ہی اچھا تھا کہ وہ پاکستان آئے اور لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔ اگر ان کے دل میں واقعاً بلوچستان کے عوام کے مسائل دکھتے ہیں تو وہ گزشتہ چار سال سے جلاوطنی میں کیوں ہیں، ان کو چاہیے تھا کہ پاکستان میں رہتے ہوئے بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے تمام بڑے ذمہ داران کے پاس جاتے اور کوششیں کرتے۔ چیف آف آرمی سٹاف کے پاس جاتے اور مسائل کی وجوہات اور ان کے حل کے بارے میں پوچھتے۔

اب اگر سارے لوگ اپنی سیاسی دکانیں چمکائیں گے اور حکومت میں بیٹھنے والے لوگ تو سارے نواب ہیں، پارلیمنٹ میں بیٹھنے والے لوگ وزارت کے خواہاں ہیں اور ہر کسی کی جیب میں 25 کروڑ روپے فنڈز موجود ہیں، انہیں عوام کے مسائل کے حل کے لیے پیسے خرچ کرنا گوارا نہیں، تو آپ بتائیں کہ لوگوں کے مسائل کس طرح حل ہوں گے۔ افواج پاکستان ملک کا واحد ادارہ ہے، جس میں چاروں صوبوں سمیت آزاد کشمیر کی بھی نمائندگی موجود ہے۔ یہی واحد ادارہ ہے جو محب وطن ہے اور دیانتدار ہے۔ اختر مینگل نے سپریم کورٹ میں جو بیانات دیئے ہیں، ان سے مطلب یہی نکلتا ہے کہ ان کے قریب اگر پاکستان کا سب سے بڑا دشمن کوئی ہے تو وہ پاک فوج ہے۔

فوج میں 25 سال کے بعد آدمی ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں اور کوئی بندہ بھی تا حیات چیف آف آرمی اسٹاف نہیں رہتا۔ چیف آف آرمی سٹاف کو وزیراعظم اپنی مرضی سے منتخب کرتا ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف کے منتخب ہونے پر بھی کوئی جلوس نہیں نکلتا اور اس کے ریٹائرڈ ہونے پر بھی کوئی جلوس نہیں نکلتا۔ آرمڈ فورسز کو سیاسی جماعت نہ سمجھیں اور نہ ہی یہ کوئی گروہ ہے۔ اب تک اشفاق پرویز کیانی صاحب ریٹائرڈ ہو چکے ہوتے، لیکن ان کی 3 سال سروس سیاسی لوگوں نے بڑھائی۔

نواز شریف صاحب طلال بگٹی سے بھی مل چکے ہیں اور اختر مینگل صاحب سے بھی ملاقات کی ہے۔ ہمیں سکیورٹی فورسز کو لگام دینی چاہیے اور بلوچوں کو بھی سمجھانا چاہیے کہ وہ غیر بلوچوں کے پیچھے نہ لگیں۔ 1974ء میں جب فوجی ایکشن ہوا تھا تو اس وقت بگٹی صاحب گورنر تھے اور مجھے گزشتہ کچھ روز میں معلوم ہوا کہ بگٹی صاحب نے اس وقت اس کام کی بڑی تعریف کی تھی، اب آپ ٹکا خان کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، جبکہ اس وقت گورنر ذمہ دار تھا۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان کی عوام کی طرف سے فوج پر سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ پرویز مشرف نے بگٹی کو مروایا تھا، اور کہا جاتا ہے کہ آج وہی ادارہ اسے کیفر کردار تک پہنچانے میں مانع ہے۔ اس الزام پر کیا کہیں گے۔؟
جنرل عبدالقیوم : بے شک پرویز مشرف چیف آف آرمی اسٹاف تھا، لیکن یہ بھی دیکھیں کہ حکومت کس کے پاس تھی۔ جنرل پرویز مشرف نے بگٹی پر حملہ صرف فوج کے چیف کے طور پر نہیں کیا تھا بلکہ وہ صدر پاکستان تھا، اس لیے اس نے یہ اقدام اٹھایا۔ پرویز مشرف صاحب نے جب جی ایچ کیو کی دیوار پھلانگی اور سیاست میں قدم رکھا تو آگے سے چوہدری برادران و دیگر پی ایم ایل کے بھگوڑے اکٹھے ہو کر ایک حکومت قائم کی۔

اسلام ٹائمز: ترکی کے حالات کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے، کہا جا رہا ہے کہ 80ء کی دہائی میں جو کردار پاکستان نے افغانستان کے معاملے میں ادا کیا تھا، آج وہی کردار ترکی کرنے جا رہا ہے۔؟
جنرل عبدالقیوم: ترکی میں ڈاکٹر طیب اردگان کے آنے سے ایک خوشخبری تھی کہ یہ ایک مضبوط سیاستدان ہوگا اور اس کی سوچ اسلامی ہے اور عرب دنیا میں بھی اپنی قیادت کو منوائے گا۔ ترکی ایک بہت اہم ملک ہے۔ ہم آر سی ڈی میں اکٹھے تھے۔ ایران بھی ایک اہم ملک ہے، جہاں اہل سنت اور اہل تشیع کے لوگ آپس میں مل کر رہتے ہیں، ہمیں بھی پاکستان میں اسی قسم کا ماحول بنانا چاہیے۔ ہمارا آپس میں اتحاد ہونا چاہیے۔ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے بڑے قریبی تعلقات ہیں۔ آپس کے اتحاد کو مضبوط کرنے کے لیے اس وقت مسلم امہ کے اندر شاہ فیصل اور اردن کے شہزادہ شاہ حسین جیسے لوگ موجود نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کوئی زیادہ نمازی وغیرہ نہیں تھا، لیکن کم از کم اس بندے کا ایک ویژن تھا اور وہ اسلامی تھا، اسی لیے اس نے تمام مسلمان ممالک کی ایک کانفرنس کرائی تھی۔ اس کے بعد فیصل مسجد بن گئی۔

اسلام ٹائمز: ملالہ پر حملے کا فائدہ کس کو ہوا۔؟
جنرل عبدالقیوم: بیرونی طاقتیں جو ملالہ پر حملے پر رو رہی ہیں، یہی طاقتیں سیریا کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں۔ یہ وہی طاقتیں ہیں، جو مگر مچھ کے آنسو بہاتی ہیں، ان کو نہ مسلمانوں کے مفادات عزیز ہیں اور نہ ہی ان کو ملالہ عزیز ہے۔ انہوں نے کئی ملالائیں ذبح کی ہیں۔ یہی لوگ نبی کریم (ص) کی توہین کرتے ہیں۔ انہی لوگوں نے افغانستان میں مسلمانوں کو مارا ہے۔ گزشتہ دنوں میں CNN دیکھ رہا تھا جس پر بار بار ہیڈ لائن یہی چل رہی تھی کہ ملالہ کو انگلینڈ میں لایا جا رہا ہے۔ جس سے یہ تاثر گیا اور واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ اس سے پاکستان کے ساتھ پھر گیم کر رہے ہیں۔ بہرحال اس دوسری جانب ملالہ پر حملے کا فائدہ امریکہ کو ہوا ہے، ملالہ پر حملے سے پوری مسلم امہ کی توجہ رسول پاک (ص) پر بنائی جانے والی گستاخانہ فلم سے ہٹ گئی۔

اسلام ٹائمز: حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ نے ڈرون طیارے کے حوالے سے بیان دیا کہ ہمارے ڈرون طیارے نے اسرائیل کی حدود میں جا کر اہم معلومات فراہم کیں اور ہمارا یہ ڈرون نہ پہلا تھا اور نہ ہی آخری ہوگا، حزب اللہ کی ڈرون تک رسائی کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
جنرل عبدالقیوم: میں یہ کہتا ہوں کہ حزب اللہ کا یہ بڑا جرات مندانہ قدم ہے۔ اسرائیل ناجائز بچہ ہے اور اس نے فلسطین میں آکر قبضہ کیا اور ناجائز بستیاں بنائی ہیں۔ ہم قتل و غارت گری نہیں چاہتے، لیکن ہمیں پتہ ہے کہ اسرائیل کا جب دل کرتا ہے حملہ کر دیتا ہے اور آج کل تو وہ ایران پر بھی حملہ کرنے کی سوچ رہا ہے۔ پس اگر حزب اللہ نے کوئی قدم اٹھایا ہے تو یہ قدم ان کا دفاعی حملہ تھا۔ یونائیٹڈ نیشن کو چاہیے کہ تمام ڈرون حملے چاہے وہ افغانستان سے پاکستان پر ہوں یا حزب اللہ کے ہوں، سب پر نظر رکھے۔ پاکستان پر جو ڈرون طیارے حملے کرتے ہیں، ان پر میزائل نصب ہیں، لیکن حزب اللہ کے ڈرون طیاروں میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔

جب امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی تھی تو اس وقت ان کے پاس ڈرون طیارے درجنوں میں تھے اور اب تو ان کے پاس تقریباً 7 ہزار کے لگ بھگ ڈرون طیارے موجود ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے پاس بھی ڈرون طیارے موجود ہیں، لیکن ان میں صرف معلومات فراہم کرنے اور فوٹوز بنانے کی ہی صلاحیت ہے، علاوہ ازیں ایسے ڈرون پاکستان اور بھارت کے پاس موجود نہیں ہیں، جیسے امریکہ کے پاس ہیں، جو جدید ترین اسلحہ کے ساتھ لیس ہوتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 204680
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش