0
Sunday 10 Mar 2013 21:58

بابا کی فعال زندگی کا انجام شہادت ہی تھا لیکن اتنی جلدی، یہ کبھی سوچا بھی نہ تھا، زہرہ نقوی

بابا کی فعال زندگی کا انجام شہادت ہی تھا لیکن اتنی جلدی، یہ کبھی سوچا بھی نہ تھا، زہرہ نقوی
خود بھی ایک علمی شخصیت سیدہ زہرہ نقوی، ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی کی صاحبزادی اور اولاد میں سب سے بڑی ہونے کے ناطے باپ کی شفقت کی معترف اور اس پر فخر بھی کرتی ہیں۔ جب ڈاکٹر صاحب شہید ہوئے تو وہ قم میں زیرتعلیم تھیں اور شہید کا جنازہ بھی زہرہ نقوی کے انتظار میں دوسرے دن ادا کیا گیا۔ شہادت کے دن کی کیفیات اور قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کی عجیب شفقت کو آج بھی محسوس کرتی ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے ڈاکٹر شہید کی زندگی سے متعلق انٹرویو کیا ہے۔ جو قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا سب بہن بھائیوں اور خصوصاً آپ سے پیار و محبت کیسا تھا۔؟
سیدہ زہرہ نقوی: میرے بابا ہم سب بہن بھائیوں سے بہت پیار کرتے تھے لیکن میری خوش نصیبی ہے کہ گھر میں بڑی ہونے کے باعث اُن کی شفقت اور توجہ میرے حصے میں زیادہ آئی۔ میٹرک تک ان کے زیر سایہ تربیت پائی اور اُنہی کی خواہش کے مطابق حوزہ علمیہ قم پڑھنے کے لئے گئی۔

اسلام ٹائمز: کبھی محسوس ہو اکہ وہ سخت مزاج بھی ہیں۔؟
سیدہ زہرہ نقوی: وہ سخت مزاج تو نہیں تھے لیکن ہم سب پر اُن کی ھیبت بہت زیادہ تھی۔ اُن کی آمد پر سب بڑے چھوٹے alert ہو جاتے تھے۔ جن کے سروں پر سکارف، چادر نہ ہوتی اوڑھ لیتیں۔ اگر کوئی فارغ ہوتا تو اپنے آپ کو مصروف کر لیتا۔

اسلام ٹائمز: شہید کا زیادہ عرصہ تو تنظیمی اور پروفیشنل کاموں میں گذرتا تھا۔ آپ بچوں کو کیسے ٹائم دیتے تھے۔؟
سیدہ زہرہ نقوی: بظاہر ایسا لگتا تھا کہ ہم بچوں کی طرف اُن کی کوئی توجہ نہیں ہے اور اُن کی مصروف و متحرک زندگی میں ہمارے لیے کوئی خاص ٹائم بھی نہ تھا، لیکن اس کے باوجود ہماری تعلیم و تربیت کی طرف اُن کی پوری توجہ تھی، مجھے کبھی نہیں بھولے گا کہ 9th کلاس میں میرا physics کا پیپر تھا اور تیاری اچھی نہ ہونے کی وجہ سے میں بہت پریشان تھی۔ میرے بابا نے اپنے بہت سے کام چھوڑ کر مجھے خود تیاری کروائی۔

اسلام ٹائمز: ان کی تنظیمی سرگرمیوں سے کبھی لگتا تھا کہ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید ہوجائیں گے۔؟
سیدہ زہرہ نقوی: جس طرح کی فعال اور بامقصد زندگی وہ گزار رہے تھے۔ اُس کا انجام یقیناً شہادت ہی تھا، لیکن اتنی جلدی شہید ہوجائیں گے، یہ کبھی سوچا بھی نہ تھا۔

اسلام ٹائمز: آپ کو ان کی شہادت کی خبر کیسے اور کہاں ملی؟ اس غم ناک خبر کو کیسے برداشت کیا۔؟
سیدہ زہرہ نقوی: یہ قیامت خیز خبر مجھے بہت عجیب انداز میں ملی، میں نے تو سوچا بھی نہ تھا کہ میرے ساتھ یہ کیا ہوگیا۔ مجھے جامعة الزہرا قم گئے ہوئے آٹھ ماہ ہوچکے تھے۔ میں تو ویسے ہی بہت اُداس تھی۔ فون پر بات کرکے رویا کرتی تھی۔ 7 مارچ کو مجھے بتایا گیا کہ بابا کی طبیعت خراب ہے۔ میرے لئے یہ تصور کرنا بھی مشکل تھا کہ اُن کی طبیعت خراب ہو، کیونکہ کبھی اُنہیں بیمار نہ دیکھا تھا۔ میں سارا دن فون کرنے کے لئے بیٹھی رہی، روتی رہی کہ ایک دفعہ پاکستان بات ہوجائے، لیکن بتایا گیا کہ فون نہیں مل رہا۔ تمام خواہران ایرانی، غیر ایرانی اساتید وغیرہ سب کو اُن کی شہادت کا علم ہوچکا تھا، لیکن مجھ سے چھپاتے رہے۔ ہر آنکھ مجھ سے چھپ کر اشکبار تھی۔ میری ان روحانی بہنوں نے مجھے بہت ہمت و حوصلے کے ساتھ روانہ کیا۔ لاہور ایئر پورٹ پر جب چچا، ماموں اور پھوپھا وغیرہ نے بڑی شفقت اور محبت سے استقبال کیا تو یہ انداز دیکھ کر کچھ عجیب سا لگا۔ میں نے چاچو سے پوچھا ڈیڈی کہاں ہیں۔ پہلے مجھے اُن کے پاس لے جائیں تو کہنے لگے۔ پہلے گھر چلو، امی سے مل لو، صبح ملاقات کروائیں گے اور صبح جب میں نے آخری دیدار کیا تو کفن میں لپٹے ہوئے اپنے مظلوم بابا کو دیکھا۔

اسلام ٹائمز: آج جبکہ انہیں شہید ہوئے بہت عرصہ بیت گیا ہے تو یہ دنیا کیسی لگتی ہے۔؟
سیدہ زہرہ نقوی: اُن کے بغیر یہ دنیا بہت ویران لگتی ہے، ہر جگہ، ہر موقع پر اُن کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے اور بارہا یہ خیال آتا ہے کہ اگر وہ ہوتے تو ایسا کرتے، ایسے بولتے۔۔۔۔۔

اسلام ٹائمز: کیا تنظیمیں ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی کے مشن کے لئے جو کام کر رہی ہیں؟ اس سے وہ حق ادا ہو رہا ہے۔ جو وہ چاہتے تھے۔؟
سیدہ زہرہ نقوی: تنظیمیں اپنے مطابق کوشش کر رہی ہیں۔ لیکن اُن کی ہمت و سوچ بہت بلند تھی، وہ بہت آگے تک سوچتے تھے۔ زبردست پلاننگ کرتے تھے اور سرعت کے ساتھ آگے بڑھتے تھے۔ میرے خیال میں ابھی بہت کمی ہے۔ لیکن الحمد اللہ شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی رضوان اللہ علیہ اور میرے بابا کے ساتھی اور شاگرد ایک نئے ولولے کے ساتھ میدان میں آئے ہیں اور ملت کو حوصلہ دیا ہے۔

اسلام ٹائمز: کوئی پیغام جو ڈاکٹر شہید نقوی کے پیروکاروں کو دینا چاہیں۔؟
سیدہ زہرہ نقوی: میں شہید کے پیروکاروں کو یہی پیغام دینا چاہوں گی کہ اخلاص کے ساتھ صرف اور صرف خدا کی خوشنودی کے لئے اپنے قدم آگے بڑھائیں اور میدان عمل میں آئیں۔ یہ شہید کا عمل خالص ہی تھا، جس کی بدولت آج اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی اُن کا ذکر اور نام باقی ہے، کیونکہ انہوں نے کبھی نام بنانے کے لئے کام نہیں کیا تھا۔
خبر کا کوڈ : 245694
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش