2
0
Thursday 21 Mar 2013 15:40

آج آئی ایس او کو دوسری شیعہ طلبہ تنظیموں کے وجود کے چیلنج کا سامنا ہے، جو ہمارے دور میں نہ تھا، علی رضا نقوی

آج آئی ایس او کو دوسری شیعہ طلبہ تنظیموں کے وجود کے چیلنج کا سامنا ہے، جو ہمارے دور میں نہ تھا، علی رضا نقوی
انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے فارغ التحصیل انجینئر علی رضا نقوی امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے بانی رہنماوں میں شامل تھے۔ تنظیم سے لگاو اور دن رات کی محنت کے بعد انہیں آئی ایس او کی "اماں" کے خطاب سے جانا جاتا ہے۔ تنظیم کی دستوری ترامیم ہوں یا لیکچرز یا کسی تنظیم کا ڈھانچہ تیار کرنا ہو، علی رضا نقوی کو ماہرین میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ تنظیم کی تاریخ کے اعتبار سے انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے علی رضا نقوی سے انٹرویو کیا ہے۔ جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ لوگوں نے اپنی جوانی میں آئی ایس او پاکستان جن مقاصد کے لیے تشکیل دی تھی۔ آج چالیس سال گزرنے کے بعد سمجھتے ہیں کہ وہ مقاصد حاصل ہوسکے ہیں۔؟
علی رضا نقوی: جی ہاں! ان مقاصد کا حصول شروع میں تیز رفتاری سے حاصل ہو رہا تھا اور اب بھی بڑی حد تک حاصل ہو رہا ہے۔ مقاصد مختصراً یوں ہیں:
آئی ایس او کی تشکیل جن حالات میں ہوئی وہ بڑے گھمبیر اور پیچیدہ تھے۔ یعنی ملکی اور قومی سطح پر پاکستان میں کوئی ادارہ یا تنظیم ایسی نہیں تھی، جو ملت جعفریہ پاکستان کے ہمہ جہت مسائل و مشکلات کا ادراک رکھتی۔ نیز ہمہ گیر مذہبی، سماجی و معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی پروگرام کی حامل ہو۔ نتیجتاً پاکستان میں شیعیت روایتی انداز یعنی رسوماتی عزاداری، مجلس و ماتم کی حد تک اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے تھی۔ تعلیمی اداروں میں اسلام کی داعی، علم بردار اور محافظ تنظیم اسلامی جمیعت طلبہ ہی اپنے آپ کو پوز کرتی تھی اور دیگر تمام طلباء تنظیموں کو سیکولر، سوشلسٹ یا نیشنلسٹ گردانا جاتا تھا۔ شیعہ طلباء محدود اسلامی سوچ رکھنے والی تنظیم سے دور بھاگتے تھے اور یوں غیر حقیقی، غیر فطری عقیدہ و نظریہ کی تنظیموں کا شکار ہوتے اور اس رنگ میں ڈھل جاتے۔ 

آئی ایس او کی بنیاد شیعہ طلباء کے مسائل کے حل اور عظیم تر بھائی چارے کے فروغ پر رکھی گئی۔ تعلیمات قرآن پاک اور سیرت محمد و آل محمد علیہم السلام سے روشناس کرانا، دینی، علمی، اخلاقی اور روحانی اقدار کا فروغ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ترویج کے مقاصد کا حصول قرار دیا گیا۔ آئی ایس او کی نرسری اور درسگاہ میں تربیت حاصل کرنے والے برادران بیرون اور اندرون ملک کئی اداروں اور تنظیموں میں متحرک ہیں اور مثبت پیش رفت جاری ہے۔ ملت نظریاتی اور مکتبی شعور و آگہی کی راہ پر گامزن ہوچکی ہے۔ 

چالیس سال میں حالات تبدیل ہوئے۔ ملت جعفریہ نے کئی کامیابیاں حاصل کیں، مثلاً مفتی جعفر حسین مرحوم کی قیادت میں زکٰوة آرڈیننس کے خلاف جدوجہد کامیاب ہوئی۔ انقلاب اسلامی ایران متعارف کرایا گیا۔ علامہ عارف حسین الحسینی شہید کے زمانے میں سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے بےگناہ و بے خطا شیعوں کو سزا سے بچانا۔ فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے امریکی اسلام کے نفاذ کو روکا۔ عزاداری سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام کی آزادی اور تسلسل کو قائم رکھا۔ فرقہ واریت کی بنیاد پر خانہ جنگی کو روکا گیا۔ اسیران ملت اور پسماندگان شہداء کی خدمت اور امداد کی گئی۔ 
آج کے سانحہ ہائے کوئٹہ و کراچی کے حوالے سے ورثاء کے مطالبات منوانے کے لیے پوری ملت کا اتحاد و اتفاق جیسے کامیاب واقعات آج کے باشعور اور بیدار و آگاہ برادران کی محنت و مشقت اور ہمت و بہادری کا ثبوت ہیں۔ انشاءاللہ آئندہ بھی بڑی بڑی کامیابیوں کا حصول ممکن ہے۔ ایک نہ ایک دن ایسی ہی جدوجہد کے نتیجے میں امام زمان علیہ السلام کا ظہور ممکن ہوگا۔ 

اسلام ٹائمز: آپ کے دور طالب علمی میں تنظیم کو کیا چیلنجز درپیش تھے، جو آج کی تنظیم کے لیے نہیں ہیں۔؟
علی رضا نقوی: اس وقت تنظیم کو جو چیلنجز درپیش تھے ان کو مختصراً یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔
1) امریکی اور نمائشی اسلام کی حامل طلباء تنظیم ایک طرف فعال تھی اور دوسری طرف دیگر طلباء تنظیمیں سرگرم تھیں، جو سیکولر، سوشلسٹ یا نیشنلسٹ یا کمیونزم نظریات کی بنیاد پر قائم ہوئی تھیں۔ ایک نعرہ لگاتے تھے کہ پاکستان سبز ہے، دوسرے نعرہ لگاتے تھے پاکستان سرخ ہے۔ کربلا سے حیات پانے والے اسلام حقیقی کا کوئی داعی نظر نہیں آتا تھا۔ کسی طلباء تنظیم کا نعرہ یہ نہ تھا کہ ”اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد“۔ لہٰذا شیعہ طلباء کا ایک تنظیم کے علم کے نیچے ایک پلیٹ فارم پر اتحاد و اتفاق کرنا اور آپس میں ہم آہنگی پیدا کرنا بہت بڑا چیلنج تھا۔ خاص طور پر جب کہ ملت جعفریہ نے روایتی انداز میں رسوماتی اور خانقاہی عزاداری کے کئی حلقے بنا رکھے تھے۔ اپنے اپنے سلسلے تھے، عزاداری سیدالشہدا کے لیے اپنے اپنے بتکدوں میں گم تھے۔
 
2) حکومت شیعہ دشمن قوتوں کے ہاتھوں یرغمال تھی اور پہلی جماعت سے ایم اے تک دینیات، اسلامیات اور دیگر کتب میں دل آزار مواد موجود تھا۔ شیعہ مطالبات کمیٹی علامہ سید محمد دھلوی اور جسٹس (ر) جمیل حسین رضوی کی قیادت میں الگ اسلامیات اور دیگر کتب میں تبدیلی، نیز مسلم اوقاف میں شیعہ اوقاف کے لیے حکومت سے دو مطالبات منوانے کے لیے متحرک تھی۔ آئی ایس او الگ اسلامیات کے مطالبے کے لیے 1972ء ہی میں میدان میں اتر پڑی اور کامیابی حاصل کی۔ یوں ملت جعفریہ میں I.S.O فوراً روشناس ہوئی۔ 
3) 1979ء میں زکٰوة آرڈیننس کے ذریعے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے عزاداری سیدالشہداء پر پابندی کے ذریعے شب خون مارنے کی ٹھانی۔ اس سازش کا آئی ایس او نے ملت جعفریہ میں روح رواں بن کر خاتمہ کیا۔ 

4) 1981ء میں جنرل ضیاء الحق نے تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں اور محکموں میں مسلمانوں کے لیے نماز ظہر و عصر پڑھنا قانوناً ضروری قرار دیا اور یہ پراپیگنڈا کرایا کہ مسلمان نماز پڑھتا ہے۔ شیعہ ماتم کرتا ہے، یعنی شیعہ مسلمان نہیں ہے۔ آئی ایس او نے روز عاشور ماتم کے دوران سڑکوں اور چوراہوں پر نہ صرف نماز ظہرین قائم کی بلکہ مجالس اور دفاتر میں بھی نماز پڑھنے اور پڑھانے پر زور دیا۔ جس سے جنرل ضیاءالحق کی سازش اپنی موت آپ مرگئی۔ 
5) جولائی 1985ء کو معاہدہ اسلام آباد کے حوالے سے شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی، شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور ان کے ساتھیوں نے پاکستان بھر میں شیعہ اتحاد و وحدت اور قوت کے اظہار کا فیصلہ کیا اور لاہور، اسلام آباد، پشاور، کراچی، لاہور اور کوئٹہ میں بڑی بڑی ریلیاں اور جلوس نکالے گئے تو سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے حکومت کی چیرہ دستیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ 

6) غیر اسلامی قوتوں یعنی امریکہ نے حکومتی ہتھکنڈوں کو ناکام ہوتے دیکھ کر سی آئی اے کی بی ٹیم سپاہ صحابہ کو منظم کیا۔ 6 ستمبر 1986ء کو عاشور کے روز سے دہشت گردی کا آغاز کرایا اور فرقہ وارانہ خانہ جنگی کی سازش کی۔ اس سازش کو بھی ناکام بنایا گیا اور ملت جعفریہ کو اتحاد و اتفاق اور ہم آہنگی کے ذریعے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا گیا۔
7) انقلاب اسلامی ایران اور امام خمینی رضوان اللہ علیہ کو پاکستان میں متعارف کرانے کا نہ صرف چیلنج قبول کیا۔ بلکہ امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے پیغامات کو حقیقی روح کے ساتھ نوجوانوں میں عملاً متعارف کرایا گیا۔ نتیجتاً ایران کے ساتھ پاکستانی سرحد کو محفوظ بنا دیا گیا۔
 ڈاکٹر شہید کی زندگی تک کے دور کو آئی ایس او کی تاریخ کا اگر ایک حصہ قرار دیا جائے تو اس تنظیم اور دیگر قومی تنظیموں نے کئی کامیابیاں حاصل کیں اور پاکستان میں ملت جعفریہ کا ایک سنہری باب رقم کیا۔ 

اسلام ٹائمز: اور وہ کونسے چیلنجز ہیں جو موجودہ تنظیم کو درپیش ہیں مگر آپ کو نہیں تھے۔؟ 
علی رضا نقوی: 1972ء سے 1978ء تک آئی ایس او نے تمام شیعہ طلباء تک رسائی حاصل کرلی تھی، اور ایک اندازے کے مطابق کالجز اور یونیورسٹیوں کے 40 سے 50 فیصد شیعہ طلباء آئی ایس او کے ممبرز بن چکے تھے۔ شیعہ طلباء تب آئی ایس او کا ورکر بننا اپنے لیے فخر اور اعزاز سمجھتے تھے۔ 1985ء میں ایک اندازے کے مطابق یہ تعداد کم ہو کر 8 سے 10 فیصد رہ گئی۔ تب پرائیویٹ کالجز اور یونیورسٹیاں نہ تھیں۔ اب سرکاری سے زیادہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہیں۔ آئی ایس او کے ممبران کی تعداد ایک فیصد سے بھی کم ہوچکی ہے۔ لہٰذا آئی ایس او کی ممبرشپ کے گراف کو 100 فیصد تک لے جانا ایک بڑا چیلنج ہے۔ 

2۔ تب آئی ایس او اتنی طاقتور اور مضبوط تھی کہ کسی دوسری شیعہ طلبہ تنظیم کا وجود پاکستان میں نہ تھا۔ ایک باغی گروپ نے آئی ایس او سے نکل کر ملتان میں القائم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بنائی، لیکن  وہ دو تین سال کے اندر تحلیل ہوگئی۔ آج اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، جعفریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور ہزارہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بڑے چیلنجز ہیں۔
3۔ تنظیم اپنے ماضی کے طریق کار، حکمت اور ٹیکنیک پر روائتی انداز میں سرگرم ہے۔ جو ماضی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے روایت شکن اقدامات تھے۔ لیکن آج حالات حاضرہ میں جدید طریقہ کار اور حکمت کی بھی ضرورت ہے۔ 

4۔ تب روایتی اور عقیدتی منتشر شیعیت کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کا چیلنج تھا۔ جس میں ایک حد تک کامیابی ہوئی۔ آج ملکی اور غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیاں اور اداروں کے ایما پر نظریاتی و انقلابی شیعت تقسیم ہے۔ نیز نظریاتی اور انقلابی ورکرز انتشار اور تذبذب کا شکار ہیں۔ ان کے اتحاد و اتفاق کا پیچیدہ چیلنج درپیش ہے۔ 
5۔ تب آئی ایس او ایک لیڈنگ رول کے ذریعے ملت جعفریہ میں اتحاد و اعتماد کا مینار اور امتیاز تھی۔ آج آئی ایس او کو ٹاسک اور اسائنمنٹ دی جاتی ہے۔ آئی ایس او کو اپنی بقا اور حیثیت اور وجود کا چیلنج ہے۔ 
6۔ شیعہ آبادی کے تناسب سے تعلیمی اداروں میں طلباء کی تعداد خاصی کم تھی اور ہے۔ اس چیلنج کو آئی ایس او نے قبول کیا تھا اور کام کا آغاز کیا تھا۔ اب یہ بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ 
7۔ تمام شیعہ طلباء کی ذمہ داری قبول کرنا، ان کو فعال اور ہمہ گیر بنانا۔ ان کے اندر احساس ذمہ داری پیدا کرنا، تاکہ وہ بیدار، آگاہ، ذمہ دار اور متحرک ہوں۔ 

اسلام ٹائمز: اس وقت کی آئی ایس او اور آج کی آئی ایس او میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں۔؟ 
علی رضا نقوی: اس وقت آئی ایس او ملت جعفریہ کے قومی دھارے میں نظریاتی اور انقلابی گروہوں کو لیڈ کرتی تھی، ہراول دستہ تھی، قیادت کی پروردہ تھی۔ اسلامی نوجوانوں کے جذبات اور امنگوں کی عکاس تھی، قومی درد اور خلوص کا مظہر تھی۔ خود مختاری، خود انحصاری، استقلال اور شناخت رکھتی تھی۔ آئی ایس او کی آواز پر کراچی سے کلاچی تک جوانوں کے نعروں سے دشمنوں کے ایوانوں میں لرزی طاری ہوتا تھا۔ آج آئی ایس او اپنی خود مختاری اور خود انحصاری کے لیے سرگرداں ہے۔ محدود دائرے میں خوش ہے۔ دیئے گئے ٹاسک اور ذمہ داری کو نبھانے کی کوشش کرتی ہے۔ اپنی روایات کو زندہ رکھنے کو کارنامہ قرار دیتی ہے۔ شیعہ طلباء کے ایک گروہ کی نمائندگی کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ 

اسلام ٹائمز: ایک دور آیا تھا کہ تنظیم کو اسلامک اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا نام دینے کی تجویز دی گئی تھی۔ کیا آج بھی تجویز پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔؟
علی رضا نقوی: سابقین آئی ایس او کے سرکردہ ساتھیوں نے ملت جعفریہ کو اسلامی انقلاب سے ہم آہنگ اور ہم رقاب کرنے کے لیے فرقہ واریت کے آسیب سے جب آزاد ہونے کی تگ و دو کی تو امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو اسلامک اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا نام نہ صرف تجویز کیا بلکہ عملاً جدوجہد بھی کی۔ مرکزی کابینہ اور مجلس عاملہ نے نام کی تبدیلی کا فیصلہ کر لیا تھا، لیکن مجلس عمومی نے کثرت رائے سے تبدیلی نام کو منظور نہ کیا۔ 

اسلام ٹائمز: ایک تاثر ہے کہ نئے طلباء تنظیم کی طرف اب اتنے متوجہ نہیں ہو رہے جتنے کہ پہلے تھے۔ یہ بات کس حد تک درست ہے۔؟
علی رضا نقوی: یہ تاثر بڑی حد تک درست ہے۔ ممبرشپ (انسان سازی) اور یونٹ سازی (معاشرہ سازی) بہت مشکل اور کٹھن کام ہے۔ تنظیم کے مسئولین (قائدین) اور ورکرز پہلے ایک ہی سکے کے دو رخ ہوتے تھے۔ اب وسائل کی فراہمی نے قائدین اور ورکرز کو تقسیم کر رکھا ہے۔ نئے طلباء کو متوجہ کرنے، تشویق دینے، ترغیب دینے اور کنویسنگ کے لیے مسئولین بہت مطالعہ کرتے تھے۔ وقت دیتے تھے۔ بحث و مباحثہ کرتے تھے۔ دوستی اور برادرانہ شفقت کا طویل سفر طے کرتے تھے۔ اذہان کو بدلتے تھے۔ اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں ممبرشپ کی فقط رجسٹریشن نہیں ہوتی۔ Iso یعنی ایک جیسے بنانے کے اہداف ہوتے تھے۔ سینئرز ان اہداف کے ذمہ دار ہوتے تھے۔ آج ممبرشپ کے لیے وہ درد اور تڑپ نہیں رہا۔ اسے ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ وقت کم ہوگیا ہے۔ فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ خود مسئولین کہتے ہیں کہ پہلے سالانہ امتحانات کی وجہ سے وقت مل جاتا تھا۔ آج سمیسٹر سسٹم کی وجہ سے طلباء کے پاس فرصت اور فراغت کم ہے، لیکن اس کا کوئی راہ حل یا متبادل نظام تو ہونا چاہیے۔ 

اسلام ٹائمز: شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی آئی ایس او کے لیے کتنے اہم تھے اور ان کی شہادت کے بعد تنظیم میں کیا تبدیلی محسوس کرتے ہیں۔؟ 
علی رضا نقوی: شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی بزرگوار سفیر امام خمینی رضوان اللہ علیہ اس تنظیم کے لیے انتہائی اہم تھے۔ بظاہر ان کی شہادت سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان کے جسم کے دفن ہونے کے ساتھ ہی تنظیم کی روح نکل گئی۔ وہ بزرگوار شہید پرور تھے۔ انسان ساز اور معاشرہ ساز تھے۔ کئی تنظیموں اور قومی اداروں میں روح رواں کا کردار جاری و ساری رکھے ہوئے تھے۔ تنقید اور مخالفت کو اپنی شخصیت سازی اور بہتری کے لیے کارآمد سمجھتے تھے اور اس شعر کے مصداق: 

                                            تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
                                            یہ تو چلتی ہے، تجھے اونچا اڑانے کے لیے 

دوسرا ان کا ایمان بقول امام خمینی رضوان اللہ علیہ کہ جن اقدامات، سرگرمیوں اور کارکردگی پر امریکہ یا امریکہ نواز ناراضگی اور غصے کا اظہار کریں۔ سمجھو وہی صحیح اور درست ہیں۔ وہ ہی راہ انقلاب اسلامی ہے۔ وہی پاسداران انقلاب کا فریضہ ہے۔ بزرگوار ڈاکٹر نقوی کی شہادت سے آئی ایس او اور قومی اداروں کو قوی تر، جری تر اور تیز رفتار ہونا چاہیے تھا۔ شہید کا خون طاقت ور خون تنظیم کے رگ و پہ میں پوری قوت سے دوڑنا چاہیے تھا۔ شہید کا خون قوم کی حیات تھا۔ سعادت تھا۔ آخر ایسا کیوں نہ ہوا؟ لیکن شہید کی شہادت ایک قومی سازش تھی، سانحہ تھا۔ اس سازش میں ایجنسیوں کے ساتھ اپنوں نے بھی کردار ادا کیا۔ خون قاتلوں نے کیا اور آرام طلب اور سہل طلب قائدین نے تنظیموں کو ڈی ریل کیا۔ شہید کے قریبی ساتھیوں نے بھانپ لیا، تتر بتر ہوئے یا شہید ہوئے۔ 

اسلام ٹائمز: کوئی پیغام جو اپنے جونئیرز کو دینا چاہیں۔؟
علی رضا نقوی: برادران کے لیے پیغام ہے کہ یقین کر لیں شہداء امامیہ خاص طور پر شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا پاک و پاکیزہ خون ایک نہ ایک دن قومی تنظیموں و اداروں اور خصوصی طور پر آئی ایس او کو رنگین ضرور کرے گا۔ یہ خون بنیادی عامل، انگیزے یا جلتی پر تیل کا کام یقیناً کرے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ برادران ڈاکٹر شہید کے بارے میں سنی سنائی باتوں پر اکتفا نہ کریں۔ ڈاکٹر شہید کا مافوق الفطرت عقیدتی اور جذباتی مجسمہ تراش کر سجدہ ریز ہو کر اپنے آپ کو تسکین نہ دیں کہ ڈاکٹر شہید کے حوالے سے فریضہ ادا ہوگیا۔ ذمہ داری پوری ہوگئی، بلکہ ضروری ہے کہ ڈاکٹر شہید کو ان کی زبان سے سن کر اپنے فریضے کو سمجھیں۔ ان کی اپنی تحریر اور انٹرویو سے اپنی ذمہ داری کا تعین کریں۔ وہ اپنے زمانے میں خود جو کام، اقدامات اور کارکردگی کرتے تھے۔ انہوں نے کارہائے نمایاں جو انجام دیئے۔ اس ٹیکنیک اور طریقہ کار کو ان کے ہمکاروں سے سیکھیں اور اس پر دسترس حاصل کریں، تاکہ ڈاکٹر شہید کے پس پردہ قومی سازش کو ناکام بناسکیں۔ شہید ڈاکٹر کی تعلیمات اور سیرت تنظیم کو اپنے ٹریک پر واپس لاسکتی ہے۔ کامیابی سے ہمکنار کرسکتی ہے اور راہ ظہور امام مہدی علیہ السلام کو ہموار کرسکتی ہے۔ فریضے کی انجام دہی میں مددگار ہوسکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 246735
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

salam ya Hussain
Pakistan
Sallam, Record ke durstgi k hawalay sy arz hy k ASO ka qayam ISO sy pehlay amal me aaya tha.
ہماری پیشکش