0
Wednesday 5 Mar 2014 23:00

پاک فوج کرائے کے قاتل نہیں، جنہیں جہاں حکمران چاہیں قتل عام کیلئے بھیج دیں، علامہ مقصود علی ڈومکی

پاک فوج کرائے کے قاتل نہیں، جنہیں جہاں حکمران چاہیں قتل عام کیلئے بھیج دیں، علامہ مقصود علی ڈومکی
علامہ مقصود علی ڈومکی مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ بلوچستان میں سکیورٹی کی ابتر صورتحال کے باوجود قومی و ملی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ علامہ مقصود علی ڈومکی پر کوئٹہ شہر میں ایک قاتلانہ حملہ بھی ہو چکا ہے، جس میں جوابی کارروائی کے نتیجے میں ایک دہشتگرد ہلاک ہو گیا، تاہم اللہ تعالٰی نے انہیں محفوظ رکھا۔ اسلام ٹائمز نے ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور بلوچستان میں ایم ڈبلیو ایم کی فعالیت کےحوالے سے علامہ مقصود علی ڈومکی کا انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے جتنی کوششیں تیز کر رہی ہے اسی رفتار سے دہشت گردی بھی تیز ہو رہی ہے، دہشت گردی کا خاتمہ کیسے ممکن ہے۔؟

علامہ مقصود علی ڈومکی: ہمارا ابتداء سے یہ ہی موقف تھا کہ دہشت گردوں کا علاج مذاکرات نہیں، آپریشن ہے۔ دہشت گردی اسی صورت میں ختم ہو سکے گی جب ریاستی ادارے اپنا قبلہ درست کریں۔ بدقسمتی سے گذشتہ چند دہائیوں سے جس انداز میں دہشت گردوں کی سرپرستی کی گئی، انہیں سرمایہ فراہم کیا گیا اور ریاستی اداروں نے بھرپور انداز میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کی۔ اس وجہ سے دہشت گردی ناسور کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اب اس کا خاتمہ صرف ایک ہی طریقہ سے ممکن ہے کہ ریاستی ادارے، حکومت، سیاسی جماعتیں اور عوام دہشت گردوں کے خلاف آپریشن پر متفق ہو جائیں۔ پاکستانی فوج کے ذمہ داران نے بار بار اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اگر سیاسی قیادت انہیں گرین سگنل دے تو وہ چار ہفتوں میں دہشت گردوں کا صفایا کر دیں گے۔

اسلام ٹائمز: اطلاعات ہیں کہ نواز شریف حکومت نے سعودی عرب کے کہنے پر شام کی جنگ میں وارد ہونے کا فیصلہ کیا ہے، کیا یہ اقدام موجودہ حالات میں درست اقدام ہے۔؟

علامہ مقصود علی ڈومکی: نواز حکومت کا یہ ایک بہت ہی افسوس ناک فیصلہ ہے۔ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ آل سعود کے نواز شریف پر احسانات ہیں۔ اب نواز شریف چاہتا ہے کہ پاکستان کی قیمت پر ان احسانات کا بدلہ چکائے۔ پاکستانی فوج اور پاکستان کی اسلحہ ساز فیکٹریوں کو شام کی دلدل میں پھنسا دینا ایک بہت بڑا المیہ ہوگا۔ نواز شریف کو سمجھنا چاہیئے کہ پاک فوج ایک غیرت مند سپاہ ہے جسے عوام کی حمایت حاصل ہے، یہ کوئی کرائے کے قاتل نہیں ہیں، جنہیں جہاں ہمارے حکمران چاہیں معصوم لوگوں کے قتل عام کے لئے بھیج دیں، پاکستانی فوج کے کمانڈر اور فوج کے ذمہ داران کو اس سازش کا ادراک کرنا چاہیئے۔ دو اس کے بہت بڑے مضر اثرات مرتب ہوں گے، ایک عالمی سطح پر امت مسلمہ کی بدنامی ہوگی، دوسرا یہ تاثر جائے گا کہ پاکستانی فوج کرائے کے قاتلوں کا کردار ادا کر رہی ہے۔ پاکستانی ریاست مظلوم مسلمانوں کے قتل عام کے لئے اسلحہ دے رہی ہے۔ اور پاکستان کے اندر بھی پاک فوج کی بدنامی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: کچھ عرصہ قبل بحرین کی غاصب حکومت کو دوام دینے کے لئے بھی اسی طرح پاکستان سے لوگوں کو بھرتی کیا جاتا رہا، کیا یہ منصوبہ بھی آل خلیفہ کی کسی نئی سازش کا حصہ ہے۔؟

علامہ مقصود علی ڈومکی: یقیناً، میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک بہت بڑی سنگین غلطی ہے۔ پاک فوج کو ملک کے اندر شدید چیلنجز کا سامنا ہے، ملک دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے۔ ایسی حالت میں جب پاکستان مسائلستان بن چکا ہے، یہاں جج، عام شہری، مساجد اور امام بارگاہیں محفوظ نہیں ہیں۔ ایسے عالم میں شام یا بحرین میں مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے سے ملک و قوم کی بدنامی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: ہزارہ برادری کے تحفظ کے لئے علمدار روڈ کو غزہ کی طرز پر محصور کرکے رکھ دیا گیا ہے، کیا ایسے اقدامات دہشت گردی کو روکنے کے لئے کارگر ثابت ہوں گے۔؟

علامہ مقصود علی ڈومکی: بدقسمتی سے پاکستان کے ریاستی اداروں نے ہمیشہ اس قسم کے فیصلے کئے ہیں۔ بجائے اس کے کہ دہشت گردوں کو جیلوں میں ڈالا جائے اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے، عام عوام کا جینا محال کر دیا جاتا ہے۔ کراچی کی مثال لے لیں جہاں ڈبل سواری پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے، کہا جاتا ہے چونکہ دہشت گرد ڈبل سواری کا استعمال کرتے ہیں لہذا کوئی بھی ڈبل سواری استعمال نہ کرے، یہ مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ دو افراد کے جرم کی سزا دو کروڑ آبادی کو دی جاتی ہے۔ اسی طرح کی صورتحال پورے ملک میں نظر آرہی ہے۔ اب جو کچھ بلوچستان میں ہو رہا ہے۔ اس پر نظر دوڑائی جائے تو دو طرح کی دہشت گردی ہو رہی ہے، ایک کالعدم تنظیمیں اور یزیدی ٹولے، شیعہ افراد اور تشیع کی مقدسات کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں۔

یہ تمام کارروائیاں ریاستی اداروں کے زیرسایہ علی اعلان ہو ر ہی ہیں۔ یزیدی ٹولہ سرعام نازیبا زبان استعمال کرتا ہے جو پاکستان کے آئین و قانون کے مطابق جرم ہے۔ دوسری دہشت گردی، کوئٹہ میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے ذریعہ عمل میں لائی جا رہی ہے۔ ایسے کیمپس مستونگ میں بھی موجود ہیں جن کی بارہا نشاندہی کی گئی۔ ریاستی ادارے ان دہشت گردی کے اڈوں کو ختم کرنے کی بجائے عوام کے حقوق پر قدغن لگانے میں مصروف ہے، علمدار روڈ اور ہزارہ ٹائون کو محصور کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ جب تک دہشت گردوں کے کیمپس تباہ نہیں کئے جاتے لوگوں کی آزادانہ نقل و حمل ممکن نہیں۔ نواز حکومت کے لئے شرمندگی کی بات ہے کہ چار گلیوں اور چار روڈوں والے شہر کو سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ اقتدار میں رہنے کا اب نواز حکومت کے پاس جواز باقی نہیں رہتا۔

اسلام ٹائمز: کوئٹہ تا تفتان شاہراہ کو زائرین کے لئے کس حد تک محفوظ بنایا گیا ہے۔؟

علامہ مقصود علی ڈومکی: جب تک دہشت گردوں کے ٹریننگ کیمپس موجود ہیں، ان کی رفت و آمد جاری ہے۔ اس وقت تک زائرین کی آزادانہ آمدورفت کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ جب قاتل اور دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہوں۔ کوئٹہ شہر میں جگہ جگہ چیک پوسٹ قائم ہیں، شریف آدمی اپنے دفاع کے لئے اسلحہ نہیں رکھ سکتا۔ لائسنس یافتہ اسلحہ تک اپنے دفاع کے لئے اٹھانے والوں کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ایسے میں دہشت گرد سو کلو بارودی مواد لیکر شہر کے وسط میں پہنچ جاتے ہیں اور دھماکے کرتے ہیں۔ انہیں روکنے میں ریاستی ادارے ناکام رہے ہیں۔ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ریاستی اداروں کی کیا پالیسی ہے۔ ریاستی اداروں کا کردار ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ گذشتہ پندرہ سال سے دہشت گردی جاری ہے لیکن آج تک کسی ایک دہشت گرد کو بھی بلوچستان میں سزا نہیں دی گئی۔ دہشت گردوں کے سرغنہ کو جیلوں سے چھڑایا جاتا ہے۔ کینٹ جیل سے بدنام زمانہ عثمان سیف اللہ کرد کو تالے توڑ کر چھڑایا گیا۔ کوئٹہ تا تفتان 700 کلومیٹر کا راستہ ہے، ایسے حالات میں کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ یہ راستہ زائرین کے لئے محفوظ بنا دیا گیا ہے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں وزیراعظم کو سمری ارسال کی گئی کہ ہر پارلیمنٹیرین کو پاکستان آرڈینس فیکٹریز کی تیار کردہ جی تھری رائفل رکھنے کی اجازت دی جائے، سیاست دان اپنی سکیورٹی تو ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط تر کر رہے ہیں، لیکن معصوم اور نہتے عوام کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا، کیا ایسی صورتحال میں عوام اپنے دفاع کا حق نہیں رکھتے۔؟

علامہ مقصود علی ڈومکی: بنیادی طور پر یہ ریاست کی ذمہ داری ہے عوام کو تحفظ فراہم کرے۔ اگر ملک کے اندر صورتحال ٹھیک ہو تو کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیئے کہ اسلحہ اٹھائے، ہم تو اس بات کے حق میں ہیں کہ یہاں پر لائسنس یافتہ اسلحہ بھی کسی کے پاس نہیں ہونا چاہیئے لیکن جب ریاست مجرمانہ غفلت کا شکار ہو تو اس ملک میں سب سے زیادہ خطرہ سیاستدانوں کو ہے۔ اگر انہوں نے اسلحہ رکھنے کا مطالبہ کیا ہے تو وہ حق بجانب ہیں۔ بےنظیر بھٹو سے لیکر اے این پی کے بڑے سیاستدانوں کو گولیاں مار دیں گئیں تو سیاست دانوں کو یہ حق ہے کہ وہ اپنا دفاع کریں لیکن ساتھ ساتھ سیاست دانوں کو یہ سوچنا چاہیئے جب ان کے لئے محافظوں کی فوج ظفر موج ہو اور ان کے مقابل نہتے شہری قتل ہو جائیں تو یہ ان کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں ٹرین سروس کے ذریعہ سفر کرنے والوں کے تحفظ کو یقینی بنانے لئے پٹڑی کے اردگرد ہر چند کلومیٹر کے فاصلہ پر ایف سی کی چوکیاں قائم کی گئی ہیں، کیا اسی طرز پر کوئٹہ سے تفتان روڈ کو زائرین کے لئے محفوظ نہیں بنانا چاہیئے۔؟

علامہ مقصود علی ڈومکی: یقیناً یہ حکومت کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ زائرین کی سکیورٹی کے لئے فول پروف انتظامات کرے تاکہ دہشت گردی پر قابو پایا جا سکے۔ بدقسمتی سے بلوچستان حکومت کا سارا بجٹ سکیورٹی کے معاملات پر خرچ ہو رہا ہے۔ لوگوں کے پاس پینے کا پانی نہیں ہے، تعلیم اور صحت کے بہت سے مسائل ہیں۔ بلوچستان کے عوام کی بدقسمتی ہے کہ ان کا بجٹ سکیورٹی اداروں پر خرچ ہو رہا ہے اور تحفظ بھی صحیح معنوں میں نہیں ہو پا رہا۔ مسئلے کا اصل حل دہشتگردوں کے خلاف بھرپور آپریشن ہے۔

اسلام ٹائمز: آنے والے دنوں میں بلوچستان میں ایم ڈبلیو ایم کیا کر رہی ہے۔؟
علامہ مقصود علی ڈومکی: بلوچستان میں 9 مارچ کو لبیک یا رسول اللہ (ص) کانفرنس منعقد ہو رہی ہے۔ شیعہ سنی عاشقان رسول کا ایک تاریخی اجتماع ہو گا۔ سنی اتحاد کونسل کے حامد رضا، مولانا وزیر القادری اور دیگر بہت سے اہل سنت کے رہنماء شرکت کریں گے۔ بلوچستان کے وسیع و عریض صوبے میں اس وقت 32 اضلاع ہیں۔ اکثریت اضلاع میں عاشقان اہل بیت (ع) اور شیعان حیدر کرار (ع) بھی رہتے ہیں۔ اہل سنت کے ساتھ ان کے بہترین روابط ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم کی کوشش ہے کہ بلوچستان کی سرزمین پر وحدت کو فروغ دیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 358295
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش