1
0
Friday 9 May 2014 08:51

ڈاکٹر صاحب نے تنصیر کی میت پہ کہا کہ کچھ لوگوں کی ضرورت تھی، لیکن وہ جلدی چلے گئے، سردار سجاد حسین میکن

ڈاکٹر صاحب نے تنصیر کی میت پہ کہا کہ کچھ لوگوں کی ضرورت تھی، لیکن وہ جلدی چلے گئے، سردار سجاد حسین میکن
تنظیمی سفر اور قومی خدمات میں ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی اور قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کے باوفا ساتھی اور شہید تنصیر حیدر کی ابتدائی تنظیمی زندگی سے شہادت تک، انکے قریبی رفیق سردار سجاد حسین میکن کے ساتھ شہید تنصیر حیدر کی زندگی کے مختلو گوشوں سے متعلق ہونے والی گفتگو قارئین کی خدمت میں حاضر ہے۔

اسلام ٹائمز: شہادت اللہ کی طرف سے ایک انعام ہے، جو ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا، شہید تنصیر حیدر کی ذات اور زندگی میں آپ نے ایسا کیا کچھ دیکھا۔؟
سردار سجاد حسین میکن: یہ بات بالکل صیحح ہے کہ شہادت یونہی نہیں ملتی، اسوقت اتنا محسوس نہیں ہوتا تھا، آج محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ باقی لوگوں سے مختلف تھے۔ وہ سوچتے بھی تیز رفتاری کے ساتھ تھے اور کاموں کی سپیڈ بھی بہت زیادہ تھی، وہ کچھ کرنے کے موڈ میں تھے۔ انکی خاص سوچ تھی اور انہیں پتہ تھا کہ ہم نے کیا کرنا ہے، وہ ہدف دار لوگ تھے۔ اسی طرح طہارت، پاکیزگی، روحانیت اور اللہ تعالٰی کے ساتھ راز و نیاز کے حوالے سے بھی ایک خاص درجے پر فائز تھے۔ ہم ایک ٹرین کے مسافر تھے، لیکن ان کا سکول (مکتب شہادت) تھا۔ انکی والدہ محترمہ، ماشاءاللہ، زندہ ہیں ابھی بھی، وہ بیمار تھیں انکو اسلام آباد لیکر جا رہے تھے، راستے میں بات ہوئی کہ تنصیر شاہ کی شادی ہونی چاہیے، تو تنصیر نے کہا کہ اماں جان اگر ہر صورت میں ہی شادی کروانا چاہتی ہیں تو کسی ریٹائرڈ ہید مسٹریس سے میری شادی کروا دیں کہ آپ کی چاہ بھی پوری ہوجائے اور وہ بھی میرے بعد پریشان نہ ہوں، جس کے ساتھ میری شادی ہوگی، اس نے بیوہ تو ہونا ہی ہے، میرا راستہ جو ہے وہ شہادت کا راستہ ہے، بچنا تو میں نے ہے نہیں۔ جب ہم ساتھ تھے تو ان چیزوں کو درک نہیں کرسکے، لیکن ایسی چیزیں تھیں ان لوگوں میں۔

ہم اکٹھے تنظیم میں شامل ہوئے تھے۔ ڈویژن کی ذمہ داری میری تھی، ہمارا گھر بس اسٹاپ کے قریب تھا، شہید تنصیر حیدر اکثر راتوں کو دیر سے لوٹتے تھے۔ دور دراز کے دیہی علاقوں میں رابطے، یونٹ سازی اور دورہ جات سے واپس آتے۔ سفر کی تھکان کے باوجود، میں نے کئی بار دیکھا کہ وہ نماز شب بھی پڑھتے تھے اور کئی دفعہ ایسا ہوا کہ وہ آرام کرنے کی بجائے کام کرنے نکل جاتے تھے۔ یہ ان کا معمول تھا کہ اگر کوئی اجتماع ہے تو راتوں کو جاگ کے صبح کے لیے برتن تک خود دھو دینا، نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے آنکھیں سوج جاتی تھیں، لیکن وہ تازہ دم ہو کر میٹنگز میں بھی موجود رہتے تھے، جو کچھ کیا ہوتا تھا اسکے متعلق بریف بھی کرتے تھے۔ تھکاوٹ کے باوجود، تمام تر کاموں کے متعلق بریف کرتے تھے، بتاتے تھے، تاکہ پوری ٹیم آپس میں جڑی رہے۔ جتنے وہ کاموں میں فعال تھے ایسے ہی ذاتی طور پر کردار میں بھی بلند مرتبہ تھے۔

اسلام ٹائمز: کربلا، عاشقوں کے دلوں کا قبلہ ہے، تنصیر حیدر شہید کے شہدائے کربلا سے تعلق کی کیفیت کیا تھی۔؟
سرادر سجاد حسین میکن: مجھے اب انکی باتیں تو مکمل طور یاد نہیں، لیکن ایک دفعہ سرگودہا میں فسادات ہوئے، عزاداری کے جلوس پر پتھراو کیا گیا اور جلوس کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ جو لوگ جلوس کا دفاع کر رہے تھے، شہید تنصیر ان میں سب سے آگے تھا۔ مجھے یاد ہے دیوار کے اوپر بیٹھ کے اس نے مجھے کہا تھا کہ یاد رکھیں آج عہد کرنا ہے کہ ہم نے دفاع بھی کرنا ہے اور کوئی ایسا کام کرنا ہے کہ امام ؑزمانہ ہمیں گلے سے لگا لیں۔ اس بات کو دہرایا تھا کہ ایسا کام ضرور کرنا ہے کہ امامؑ زمانہ فرمائیں، آو بھئی تنصیر گلے لگ جاو۔ وہ قوم کے لیے بھی کچھ کرنا چاہتے تھے تو خدا اور امامؑ کی خوشنودی کے لیے۔ مطلب یہ کہ عزاداری پر حملہ برادشت نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے مراد دوسرے پر حملہ کرنا نہیں ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ دوسرے نوجوانوں کو ترغیب دلاتے تھے، انہیں منظم کرنے کی کوشش کرتے تھے، وہ چاہتے تھے کہ معاشرے میں موجود ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے عزاداری کے تحفظ کے لیے نوجوان تربیت حاصل کریں اور طاقتور بنیں، کمزور نہ رہیں، کم از کم اپنا دفاع موثر انداز میں کریں۔ اسوقت اس نے نوجوانوں کے گروپ بنائے تھے۔ اب تو یہ ماتمی سنگتیں بنی ہوئی ہیں، تب یہ نہیں تھیں، لیکن اس نے ماتمیوں کے گروپ بنائے ہوئے تھے۔ عزاداری بھی کرتے تھے اور رضاکاروں کو تربیت بھی دیتے تھے۔ لوگ زنجیر زنی کرتے تھے، تنصیر نے انہیں کہا ہوا تھا اور انہوں نے سپیشل قسم کے زنجیر بنائے ہوئے تھے، تاکہ بوقت ضرورت کام آئیں۔

اسلام ٹائمز: انقلاب اسلامی، ولایت فقیہ اور امام خمینی سے شہید تنصیر حیدر کی وابستگی کیسی تھی۔؟
سرادر سجاد حسین میکن: یہ ایک بڑی دلچسپ صورتحال تھی۔ شہید تنصیر کا گھرانہ مذہبی تھا، لیکن وہ ایک ملنگ قسم کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انکے بزرگ باوا صدا حسین شاہ کے قریبی افراد میں سے تھے۔ تنصیر کا مزاج بھی ایسا ہی تھا۔ جب باوا صدا حسین یہاں آتے تو شہید تنصیر کے گھر میں قیام کرتے تھے۔ وہاں ملنگوں کا ڈیرہ تھا اور شہید تنصیر حیدر کے والد باوا صدا کے مرید اور ملنگوں کے پیر تھے۔ لیکن تنصیر کے والدین پکے نمازی بھی تھے۔ تنصیر کا ایک بھائی تھا، وہ باقاعدہ ملنگ تھا، کڑے پہنتا تھا اور ملنگوں میں بہت مقبول تھا۔ جب تنصیر کالج میں آیا تو ہم اکٹھے آئی ایس او میں شامل ہوئے۔ اس وقت انقلاب کے شروع کے دنوں کی بات ہے، ایک ڈیلیگیشن گیا ایران، زیارات کے لیے، اس میں ہم تو پہلے ہو آئے تھے، دوستوں نے مل کر پیسے جمع کیے اور تنصیر کو بھیجا کہ جائیں، انقلاب اسلامی کا قریب سے مطالعہ کرکے آئیں۔ ظفر عباس چشتی نے کہا کہ یار تنصیر کو وہاں جانا چاہیے، انقلاب کی برکات اور امام کی ملاقات سے اچھا اثر پڑے گا، یہ کام کا بندہ ہے، اسے ضرور جانا چاہیے اور وہی ہوا۔ اس وفد میں شہید ڈاکٹر قیصر سیال، شبیر بخاری، ملک اعجاز صاحب اور کراچی سے نوازش بھائی جیسے جلیل القدر افراد شامل تھے۔ ان لوگوں کی صحبت اور انقلاب اسلامی کا ماحول، تنصیر کی زندگی میں یو ٹرن کا باعث بنا۔ اسکے بعد وہ امام خمینی سے ملاقات کی وجہ سے مکمل طور پر بدل گئے۔

ان سب نے انقلاب اسلامی کی روح کو اپنے اندر جذب کیا اور وہاں سے واپسی پر ہمارے ہاں تو انقلاب اسلامی اور ولایت فقیہ کا لاوڈ اسپیکر تنصیر حیدر ہی تھا۔ اب تنصیر کا جینا مرنا امام خمینی کے لیے تھا۔ یہ امام خمینی کی ذات کا جادو تھا۔ یہاں اسوقت بڑے بڑے مولوی امام خمینی کے مخالف تھے، ملنگ تو ویسے ہی نہیں مانتے تھے، لیکن تنصیر نے ولایت کا پرچم اس انداز میں اٹھایا کہ آج تک سرنگوں نہیں ہوا، کسی کو پھر جرات نہیں ہوتی تھی کی کہ ایسی کوئی بات کرے۔ دراصل پہلے تنصیر دو کشتیوں کا سوار تھا، اب اسکی ایک ہی کشتی ہوگئی اور وہ تھی انقلاب اسلامی اور ولایت فقیہ۔ سب سے پہلی تبدیلی اسکے گھر میں آئی، اپنے والد صاحب کے دواخانے میں انہوں نے امام خمینی کی ایک بڑی تصویر لگائی، امام خمینی کی اتنی بڑی تصویر سرگودہا میں کسی نے پہلی مرتبہ لگائی تھی۔ انکے خاندان میں ایک نظریاتی جنگ شروع ہوگئی، وہ گھر سے باہر ایک قریبی عزیز کے ہاں رہنے پہ مجبور ہوگئے، لیکن گھر والوں بالخصوص ماں کی خدمت انہوں نے ساری زندگی کی ہے۔ اس سے پہلے کا شیعہ وہ تھا جسکے کالے کپڑے ہوں، لیکن دورہ ایران اور آئی ایس او نے تنصیر کو بدل کے رکھ دیا، نہ صرف تنصیر کو بدل دیا بلکہ اس سے پہلے تو آئی ایس او میں بھی سارے ملنگ ہی تھے۔

اسلام ٹائمز: تنصیر حیدر شہید کی سرگرمیاں بہت زیادہ تھیں، انکا ٹیم ورک کیسا تھا اور دوسروں کو ساتھ کیسے ملاتے تھے، دعوت کیا تھی۔؟
سردار سجاد حسین میکن: وہ سب سے زیادہ توجہ اس پر دیتا تھا کہ عزاداری کے دفاع کا بندوبست ہونا چاہیے، آئی ایس او کی یونٹ سازی بھی کرتے تھے، لیکن زیادہ فوکس ان کا اسکاوٹنگ پر تھا۔ پھر ایک کام وہ یہ کرتے تھے کہ وی سی آر، ٹی وی اور انقلاب اسلامی کی فلمیں لوگوں کو دکھاتے تھے، فلمیں دکھانے اور کہانیاں سنانے کے بعد نوجوانوں سے کہنا کہ ان لوگوں کو دیکھ کر ہمیں بھی ان جیسا نہیں بننا چاہیے؟ ایک تو یہ تنصیر کا طریقہ تھا، دوسروں کو دعوت دینے کا۔ موٹر سائیکل پر دور دیہاتوں میں، دریا کے کناروں پر رہنے والے لوگوں کو اس نے اپنے ساتھ ملایا تھا۔ اس وقت تک سپاہ پاسداران نے بسیج نہیں بنائی تھی، لیکن تنصیر پاکستان میں اسی طرز پہ نوجوانوں کو منظم کر رہا تھا۔ اسکے علاوہ وہ لوگوں کی خدمت کرتا تھا اور اسکا یقین تھا کہ ہمیں عوامی سطح پہ لوگوں کو حامی بنانے کے لیے انکے کام آنا چاہیے، جہاد سازندگی کی طرح زمنیداروں کے ساتھ کام کروانا، مسجدیں تعمیر کروانا، لوگوں کی صفائی میں مدد دینا اور اس طرح کے کئی کام تھے، جو وہ کرتا تھا اور دوستیاں بنا کر کئی لوگوں کو اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ اسی طرح یہ بھی کہ اگر کسی جگہ پر ماتمداری ہے، لو گ کم ہیں، وہ سب کو اکٹھا کرکے لے جاتا تھا، کہ چلیں وہاں عزاداری میں شامل ہوں۔ ماتمیوں کو اکٹھا رکھنا، عزاداری کرنا اور اسی دوران انہیں وضو، نماز سکھانا اور نماز پڑھانا۔ اگر گاوں میں سب اہلسنت ہیں تو وہاں لڑکے لے کر جانا، ان کا کوئی نہ کوئی کام کر دینا، تاکہ انہیں تبلیغ کی جاسکے۔

فلاحی کاموں میں وہ آگے آگے تھا، حتیٰ کہ میرے اپنے گھر کے کئی کام کر دیتا تھا اور گھر والوں کو ایسے احساس دلاتا تھا کہ یہ میں نے کئے ہیں تاکہ میرے گھر والے، میری بیوی اور والدین سمیت مجھ سے مطمئن رہیں اور میں تنصیر کے ساتھ کام کرسکوں، مجھے گھر میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ یہ طریقہ تھا اپنی ٹیم کو جوڑے رکھنے کا اور کاموں کو آگے بڑھانے کا۔ میرے گاوں میں جا کے کام کر دیتے تھے، تاکہ گھر سے باہر بھی جو میری ذمہ داریاں ہیں، میرے گھر والے سمجھیں کہ ان میں کوئی کمی نہیں یا کم از کم ہمارے گھر والے ہمیں تنظیمی کاموں سے روکیں نہیں۔ اسی طرح تنصیر کے ساتھ جتنے لوگ مربوط تھے، اسے انکے ذاتی مسائل اور مشکلات کا پتہ ہوتا تھا اور وہ انہیں حل کرتا تھا۔ اس پر وہ بڑی توجہ دیتا تھا، جیسے کسی کی فیس دلوانی ہے، کسی کی شادی کروانی ہے، کسی کا علاج کروانا ہے۔ تنصیر آئی ایس او کے کاموں میں ہماری بہت معاونت کرتے تھے، لیکن کئی معاملات میں اس نے ہمیں کبھی شریک نہیں کیا، البتہ جب اسے ضرورت پڑتی تھی ہم سے کام کروا لیتا تھا، ہمیں کرنا پڑتا تھا، اسکا انداز ہی ایسا تھا، ہمیں بھی محبت تھی۔

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کے ساتھ انکی رفاقت کسی تھی۔؟
سردار سجاد حسین میکن: ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کے ساتھ تو جس نے بھی کام کیا ہے، وہ یہی سمجھے گا کہ سب سے زیادہ اسی کو ڈاکٹر شہید کی توجہ ملی۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب ہر بندے کو جس کام کے لیے موزوں سمجھتے تھے، اسے وہی کام دیتے تھے یا اس کام میں اسکی رہنمائی اور معاونت فرماتے تھے۔ تعلیمی میدان میں کوئی اچھا ہے تو اسے تعلیم کی اہمیت سمجھا کے تعلیمی ترقی کی راہ پہ لگا دیتے تھے، اگر کوئی دفاع اور تبلیغات کے لیے کوشش میں لگا ہے تو اسے راستہ دکھا دینا اور بتانا کہ اسی کام کو اگر اس طریقے سے کر لیں تو زیادہ بہتر ہے۔ ایک اسکاوٹنگ والا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کرنا۔ ایسے میں کون بچتا ہے جو یہ کہے کہ ڈاکٹر صاحب میرے قریب نہیں تھے۔ تنصیر کی صورتحال بھی ایسی ہی تھی۔ وہ سفر بہت زیادہ کرتا تھا، ڈاکٹر صاحب سے رہنمائی لیتا تھا، وہ رہنمائی دیتے تھے، یہ مانتا تھا، اچھا کام کرتا تھا، ڈاکٹر صاحب کو اچھا لگتا تھا، اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ تنصیر، ڈاکٹر شہید کے بہت قریب تھا۔ مجالس، دروس، تبلیغاتی کام بہت کرتا تھا، اسی طرح اچھا ہنرمند بھی تھا، جس سے ڈاکٹر شہید کو کئی کاموں میں مدد ملتی تھی۔

اسلام ٹائمز: برادر تنصیر حیدر کی شہادت کے بعد ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید نے کبھی انہیں یاد کیا، کیسے یاد کیا۔؟
سرادر سجاد حسین میکن: تنصیر کو غسل ڈاکٹر صاحب نے خود دیا تھا۔ جب ہمیں پتہ چلا کہ تنصیر شہید ہوگیا ہے، تو ہم سرگودہا سے میت لینے کے لیے لاہور گئے، جب ہم وہاں گئے تو ڈاکٹر صاحب تنصیر کو غسل دے رہے تھے، ہم بڑی مشکل سے ڈاکٹر صاحب کے گلے لگے تعزیت کے لیے، ہم شرمندہ تھے، ہمت نہیں ہو پا رہی تھی کہ ڈاکٹر صاحب کا سامنا کریں، مبادا ڈاکٹر صاحب ہمیں کہیں کہ تم لوگ کیوں زندہ ہو۔ جو بات مجھے یاد آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے تنصیر کی میت پہ کھڑے ہوئے کہا کہ ان لوگوں کی ابھی ضرورت تھی، انہیں اتنی جلدی نہیں کرنا چاہیے تھی، چلے تو سب نے جانا ہے، لیکن کچھ بندوں کی ضرورت تھی، یہ کہا ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید نے۔ یہ الفاظ آگے پیچھے ہوسکتے ہیں، لیکن جب ہم تعزیت کے لیے ڈاکٹر صاحب کے قریب ہوئے تو انہوں نے یہی کہا تھا۔

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر نقوی شہید کو ان شہداء سے کیا توقعات تھیں، جنکی وجہ سے انہوں نے فرمایا کہ چلے تو سب نے جانا ہے، لیکن انہوں نے ذرا جلدی کی ہے۔؟
سردار سجاد حسین میکن: ایسے ساتھی، جو تبلیغات کا کام بھی کرتے ہیں، اچھے اسکاوٹ بھی ہیں، تربیت بھی کرتے ہیں، بااعتماد ہیں، فعال ہیں، نظریاتی ہیں اور سب سے اہم یہ کہ اسوقت ملنگوں کی طرف سے سخت مخالفت تھی اور شہید تنصیر کا تعلق ملنگوں کے گھرانے سے تھا۔ وہ ان کے اور ہمارے درمیان ایک پل کا کرادر بھی ادا کرتا تھا، اسکا اپنا اثر و رسوخ تھا، بہت ساری غلط فہمیاں دور ہوجاتی تھیں، ان لوگوں کو یہ بندہ امام خمینی کے متعلق قائل کر لیتا تھا۔ اسی ملک میں کہاں پر کیا ہو رہا ہے، اسکا پتہ چلتا رہتا تھا۔ ورنہ ڈاکٹر شہید خود قدر تو کرتے تھے ہر کارکن کی اور اگر کوئی دور ہوجاتا تھا تو کسی اور کے ذمہ لگا دیتے تھے کہ کوئی بات نہیں، کام  تو جاری رہنے چاہیئں۔

اسلام ٹائمز: ایک کارکن اور پھر ایک مسئول ہونے کے ناطے وہ کس کردار کے مالک تھے، انکی فعالیت، کس حد تک وسائل کی محتاج تھی۔؟
سرادر سجاد حسین میکن: جہاں تک میں نے دیکھا ہے، وہ مسئول بھی خود تھا اور کارکن بھی۔ ضروری نہیں ہے کہ کسی نے اسے کوئی کام کہا ہے تو اس نے کرنا ہے۔ کام پڑے ہوتے ہیں، وہ خود کام ڈھونڈ کے خود ہی انجام دیتے تھے۔ کام کرنے کے لیے وسائل تو درکار ہوتے ہیں، وہ اپنے کاموں کے لیے وسائل بھی پیدا کر لیتا تھا، درس ہونا چاہیے تو اس کے لیے بھاگ دوڑ شروع کر دیتے تھے، کسی کی طرف دیکھتے نہیں تھے کہ کوئی اور یہ کام انجام دے۔ جو بھی ٹاسک اس نے لیا، اسکے لئے وسائل خود پیدا کئے، کسی غیبی امداد پر اسکی نظر نہیں رہی، نہ اسوقت ایسا ماحول تھا۔ یہ نہیں ہے کہ فقط تنظیمی کام کرتے تھے بلکہ ہر شعبے کا کام انہوں نے کیا ہے، عزاداری ہو یا کوئی اور کام، سب میں ایسا ہی تھا۔ وہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کا خوگر تھا، عزاداری کے مراسم انجام دینے کے لیے ذوالجناح، تابوت، تعزیعے، علم خود تیار کرتا اور عزاداروں کی خدمت بھی کرتا، ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی کرتا تھا اور ہر قسم کی تربیت کرتا تھا۔ علماء کی خدمت کرنا انہیں لے آنا، مجلس کروانا اور اسی کے ذریعے سے تبلیغ کروانا اور خود پیش پیش رہنا۔ پھر انہی لوگوں کو انقلاب اسلامی کی فلمیں دکھانا اور نظریات کا پرچار کرنا۔

وہ اسکاوٹس کے سرکاری دفتر سے سامان، کتابیں اور اسکاوٹنگ کی تربیت حاصل کرکے اپنی مدد آپ کے تحت نوجوانوں کو اسکی تربیت دیتا تھا۔ رسیوں کا استعمال، جھونپڑیاں بنانا، سارے کام اس کو آتے تھے اور وہ دوسروں کو سکھاتا تھا۔ اسکی کوشش ہوتی تھی کہ ہم پاکستان کے باقی اسکاوٹس کی طرح مین اسٹریم میں شامل ہو کر اپنا لوہا منوائیں۔ سوچ وہی تھی جسکا تذکرہ میں نے پہلے کیا ہے کہ دوسروں کی خدمت کے ذریعے ان تک اپنا پیغام پہنچائیں اور اپنے نوجوانوں کو منظم کریں، تاکہ وہ طاقت بن جائیں۔ دوسرے لڑکوں کو بھیجتا تھا کہ جائیں اور سکھیں، تاکہ خود دوسروں کو سکھانے کے قابل ہوجائیں، خود انحصاری پیدا کرنے کے لیے۔

اسلام ٹائمز: گفتگو کی طویل ہو جائے گی، شہید تنصیر حیدر کو کتب سے کتنا لگاو تھا۔؟
سرادر سجاد حسین میکن: تنصیر جب سے انقلاب اسلامی کا مشاہدہ، مطالعہ، امام خمینی کی زیارت اور انقلاب اسلامی سے وابستہ شخصیات سے ملاقات کرکے آیا تو ہمیشہ اس کے پاس امام خمینی، شہید مطہری جیسی کسی شخصیت کی کوئی نہ کوئی کتاب ضرور ہوتی تھی، سفر میں لازمی طور پر اپنے ساتھ کتاب رکھتے تھے۔ دوسروں کو مطالعہ کی ترغیب بھی دیتے تھے، انہوں نے میرے گھر والوں کو کئی کتب لا کر دیں کہ انکا مطالعہ کریں، اس طرح ایک تو ہم جیسے لوگوں کو جوڑے رکھنے کے لیے ہمارے گھر والوں کو خوش رکھنے اور راضی رکھنے کی پوری کوشش کرتے تھے، ساتھ یہ بھی کرتے تھے کہ وہ لوگ ان نظریات کا مطالعہ بھی کریں، اور نظریاتی بنیں۔ 

اسلا م ٹائمز: انکی شہادت کے بعد کیسا محسوس کرتے ہیں، یاد آئے تو کیا کرتے ہیں؟ کسی اور دوست نے یاد کیا، تو کیا کیفیت ہوتی ہے؟ شہید زندگی کا احساس دلاتے ہیں۔؟
سردار سجاد حسین میکن: یاد آتے ہیں، صرف مجھے نہیں جن جن لوگوں کو اس نے ٹچ کیا ہے، ان سب کو یاد آتے ہیں اور وہ تڑپ اٹھتے ہیں۔ جب مضطرب ہوتا ہوں تو سیدھا اس کے پاس چلا جاتا ہوں۔ شہید حسینی، شہید ڈاکٹر نقوی اور دوسرے شہید دوستوں کے پاس بھی جاتا ہوں۔ لیکن تنصیر کی قبر سرگودہا میں ہی ہے تو وہاں اکثر جاتا ہوں۔ ایک دفعہ کافی بے چین تھا اور جون، جولائی کا مہینہ تھا، دوپہر کے وقت میں تنصیر کی قبر پہ گیا، سخت گرمی تھی، وہاں ایک بندہ بیٹھا تھا، پینٹ شرٹ پہنے ہوئے، کچھ دیر بیٹھے رہے، اسکے بعد سلام دعا ہوئی، میں نے بھی انہیں پہچان لیا، اسے بھی تنصیر ملتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ کل رات میں امریکہ سے آیا ہوں، لاہور سے یہاں پہنچا ہوں، امریکہ میں اچانک مجھے تنصیر کی یاد آئی، جتنی دیر میں نے سفر میں گذاری ہے، بے چین رہا ہوں، گھر نہیں گیا، پہلے تنصیر کے پاس آیا ہوں۔ اسی طرح کراچی سے ایک عالم دین یہاں امتحانات یا کسی کام کے سلسلے میں آئے ہوئے تھے تو انہوں والہانہ انداز میں مقامی علماء سے کہا کہ تنصیر کی قبر یہیں ہے، مجھے وہاں جانا ہے، مقامی علماء نے پوچھا کہ آپ انہیں جانتے ہیں تو کہنے لگے کہ ہاں وہ ہمارے پاس آتے تھے، مجھے ان کی ایک ایک چیز یاد ہے۔

جس طرح ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید نے فرمایا تھا کہ جو لوگ مشہد نہیں جاسکتے وہ پیواڑ چلے جایا کریں، مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ شہید عارف حسین حسینی کی طرح ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید، شہید تنصیر حیدر اور دوسرے ساتھی، سب کی ایک ہی لائن تھی، ایک مشہد پیواڑ ہے تو دوسرا لاہور اور اسی طرح تنصیر شہید کی قبر۔ تنصیر کی شہادت کے بعد جب قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی، انکے گھر آئے تو انکو دیکھ کر سب لوگوں نے رونا شروع کر دیا۔ شہید عارف حسینی نے فرمایا کہ کیوں روتے ہو، اگر وہ بامقصد شہید ہوا ہے تو خوب، رونے والی کونسی بات ہے، اعزاز ہے اور اگر وہ کسی مقصد کے لیے شہید ہی نہیں ہوا تو ایسے بندے کے لیے رونے کی کیا ضرورت ہے؟ شہید عارف حسینی نے تنصیر کے گھر میں فرمایا کہ اگر وہ ٹھیک ہدف پر تھا تو اسکا کام جاری رکھیں اور اسکے راستے کو زندہ رکھیں، آپ کا کام رضا الٰہی کے لیے ہونا چاہیے نہ کہ تنظیموں کے لیے، تنصیر نے کام اور فعالیت خدا کے لیے انجام دی ہے تو ہمیں خوشی ہے، رونا کیوں۔ شہید حسینی کی یہ گفتگو سن کے سب لوگ چپ ہوگئے، سب نے یہ عہد کیا کہ تنصیر شہید کے راستے کو زندہ رکھیں گے۔ تنصیر شہید نے اپنے کردار سے سب کو گرویدہ کر لیا تھا اور اپنے آپ کو منوایا تھا۔ صرف آئی ایس او کے لوگ نہیں بلکہ پورا شہر اسے یاد کرتا ہے، ماتمی، مدارس والے، وہ سب میں ہر دلعزیز تھا، اسکی پاکیزگی اور طہارت و عبادت کیطرح اسکی خدمات بھی خدا کے لیے تھیں۔
خبر کا کوڈ : 380434
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

اسلام ٹائمز والوں کا شکریہ کہ انہوں نے شہید تنصیر کی یاد کو زندہ کیا۔ پہلے ان کے مزار کی تصاویر لگا کر اور اب ایک بزرگ کی زبان سے ان کی زندگی کے چند پہلوئوں کی نشان دہی کرکے۔ اللہ آپ کی پوری ٹیم کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔
ہماری پیشکش