0
Saturday 24 May 2014 22:20
امریکا، اسرائیل اور برطانیہ نہیں چاہتے کہ عالم اسلام متحد ہو

سعودی عرب اور پاکستان امریکی دباؤ مسترد کرکے ایران کیساتھ ملکر اسلامی بلاک بنائیں، علامہ عقیل انجم

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہوگی
سعودی عرب اور پاکستان امریکی دباؤ مسترد کرکے ایران کیساتھ ملکر اسلامی بلاک بنائیں، علامہ عقیل انجم
معروف اہلسنت رہنماء علامہ سید عقیل انجم جمعیت علمائے پاکستان (نورانی) سندھ کے جنرل سیکرٹری ہیں، آپ انجمن طلباء اسلام پاکستان کے مرکزی صدر بھی رہ چکے ہیں۔ آپ کراچی سمیت صوبہ سندھ میں جے یو پی (نورانی) کی فعال ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے علامہ سید عقیل انجم کے ساتھ پاکستانی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے حالیہ دورہ ایران اور ایران سعودی عرب کشیدگی ختم کرنے میں پاکستان کی جانب سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کے حوالے سے انکی رہائش گاہ پر ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر آپ کیساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: پاکستانی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے حالیہ دورہ ایران کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟ ایران کے ساتھ ساتھ وزیراعظم پاکستان نے بھی پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔؟
علامہ سید عقیل انجم:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ ایران کے ساتھ پاکستان کی طویل ترین سرحد ہے، ایران کے ساتھ دینی، تہذیبی،  ثقافتی رشتے کے باوجود کافی عرصے سے بداعتمادی کی فضا پائی جاتی ہے۔ اس کا اثر ہمیں حالیہ دورہ ایران میں بھی محسوس ہوا ہے۔ پاکستان کئی دہائیوں سے افغان جنگ میں پھنسا ہوا ہے، جس کی وجہ سے اس کی تمام تر توجہ شمالی سرحدوں کی جانب رہی، پاکستان نے عالم اسلام کے اندر جو جو بلاک بن رہے ہیں ان میں اپنا وزن سعودی عرب اور امریکا کے کھاتے میں ڈالا، ایران اُس وقت تنہائی کا شکار تھا، اب ایران عالم اسلام میں اپنا بلاک بنانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن پاکستان کا وزن ابھی تک متوازن نہیں ہے، اس کے باوجود وزیراعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ عالم اسلام اس وقت جو دو بلاک میں تقسیم ہو رہا ہے، اس تقسیم کو ختم کرانے میں اپنا کردار ادا کروں گا۔ دیکھیں پاکستان میں اخلاقی و دہشت گردی کے بحران کے بعد سب سے بڑا بحران توانائی کا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کا بحران بھی توانائی کے بحران سے منسلک ہے، توانائی میسر ہوگی تو صنعتیں چلیں گی، اس سے لوگوں کو روزگار میسر آئے گا اور لوگ پرسکون اور پرامن زندگی کی طرف جائیں گے نہ کہ دہشت گردی، ڈکیتی، چوری یا دیگر جرائم کی طرف جائیں گے۔ اگر پاکستانی حکومت پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو پایہء تکمیل تک پہنچاتی ہے تو یہ پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہوگی، پاکستان کیلئے عافیت کی راہ کھل جائے گی کہ پاکستان سے توانائی کا بحران ختم ہوگا، گیس ہوگی، بجلی ہو گی، بڑے مسائل حل ہو جائیں گے پاکستان کے۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم نواز شریف کے دورہ ایران کے فوراً بعد سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے اپنے ایرانی ہم منصب کو سعودی عرب کے دورے کی دعوت دی، کیا اس سے اس بات کو تقویت نہیں ملتی کہ پاکستانی وزیراعظم کا دورہ ایران کا مقصد ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی ختم کرنے میں ثالثی کا کردار ادا کرنا ہے، اس حوالے سے کیا کہیں گے؟
علامہ سید عقیل انجم:
دیکھیں پاکستان اور ایران دونوں ممالک کی جانب سے ایسی کوششوں کو بہت ہی مثبت لیں گے۔ انقلاب سے پہلے شاہ ایران کے دور میں خطے میں ایران کا کردار امریکی چوکیدار کا تھا، انقلاب کے بعد ایران پر عراق کے ذریعے جنگ مسلط کی گئی، سعوی عرب اور امریکا عراق کو سپورٹ کرتے رہے، سعودی عرب اپنی حیثیت میں اپنے آپ کو عالم اسلام کا لیڈر سمجھتا ہے اور ایران بھی اس بات کا دعویدار ہے، اب ہم قیادت کے زیادہ حق دار ہیں، عالم اسلام میں قیادت کی یہ بھی ایک کشمکش نظر آتی ہے جس وجہ سے عالم اسلام کے حالات زیادہ متاثر نظر آتے ہیں، لہٰذا اس صورتحال میں کسی بھی جانب سے اخلاص کے ساتھ کی جانے والی مصالحت کی کوششوں کو ہم بےحد سراہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: یعنی آپ سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف کا دورہ ایران اسی تناظر میں تھا؟
علامہ سید عقیل انجم:
شاید ایسا ہی ہے، نواز شریف کا یہ جو دورہ ایران تھا، اس سے پہلے بھی انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ہم ایران سعودی عرب کشیدگی ختم کرانے میں مصالحتی کردار ادا کرینگے لیکن بہرحال ابھی تک کوئی بات میڈیا میں آئی نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا پاکستان دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی کو ختم کرانے میں کردار ادا کر سکتا ہے؟
علامہ سید عقیل انجم:
یقیناً، کیونکہ عالم اسلام میں پاکستان کی حیثیت بہت زیادہ ہے، ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، ایسے ہی بلاوجہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ نہیں کہا جاتا تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستانی حکمران ہی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کیلئے کردار ادا کر سکتا ہے بشرط یہ کہ کرنا چاہے، یہ جو پاکستان پر خارجہ بندشیں ہیں، امریکی دباﺅ ہے اس کو مسترد کر دے، ایران اور سعودی عرب کو قریب لانے کی کوشش کرے، اس سے بہت اچھی صورتحال بن سکتی ہے۔ دیکھیں درحقیقت عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ مسلمان ممالک کے حکمران ہیں، وہ عوام کے اوپر آقاؤں کی طرح مسلط ہیں، وہ عوام کی خواہشات کے منافی اور طاقت کی بل بوتے پر حکمران بنے ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان امریکی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے ایران سعودی عرب کشیدگی ختم کرانے میں اپنا کردار ادا کریگا؟
علامہ سید عقیل انجم:
قرآن مجید میں واضح بیان فرمایا گیا ہے کہ یہو و نصاریٰ کبھی بھی تمہارے دوست نہیں ہو سکتے۔ جب ہم اس بات کو اپنی آئیڈیالوجی میں شامل کر لیں گے تو ہمیں حقیقی دوست اور دشمن کا تعین کرنے میں بڑی آسانی ہو جائے گی۔ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالم اسلام میں کوئی بھی ملک جو ایران سعودی عرب کشیدگی کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے اسے امریکی دباؤ مسترد کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے، پاکستان بالکل کردار ادا کر سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا، اسرائیل، برطانیہ اور ان کے اتحادی نہیں چاہتے کہ عالم اسلام متحد ہو، عالم اسلام اپنے وسائل اور توانائیاں اپنے لوگوں کی تعمیر و ترقی پر خرچ کریں، تو اس اسلام دشمنوں کی تمام سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے عالم اسلام کا متحد ہونا، وسائل اور ٹیکنالوجی سے ایک دوسرے کی مدد کرنا بہترین کردار ادا کر سکتا ہے۔ تمام عالم اسلام کو اپنی توجہ اتحاد و وحدت کی طرف مرکوز کرنا ہوگی۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب اور پاکستان کا کچھ جھکاؤ امریکا کی طرف نظر آتا ہے، کیا اس صورتحال میں سعودی عرب اور پاکستان ایران کے ساتھ ملکر عالم اسلام کی سربلندی کیلئے ایک مضبوط بلاک بنا سکتے ہیں؟
علامہ سید عقیل انجم:
پہلی بات تو یہ کہ سعودی عرب اور پاکستان کا امریکا کی طرف جھکاؤ تھوڑا سا نہیں بلکہ بہت زیادہ ہے۔ دیکھیں  ایٹمی توانائی کے معاملے پر ڈاکٹر حسن روحانی کی قیادت میں ایران کے امریکا اور مغربی ممالک کے ساتھ مذاکرات نے ایک بند دروازے کو کھولا ہے تو عالم اسلام کی مصلحت کے پیش نظر یکسر مسترد کرنے کی پالیسی کے بجائے بتدریج اس جانب بڑھیں تو ایک مضبوط بلاک بن سکتا ہے، بتدریج اس ٹرائیکا کی جانب جا سکتے ہیں کہ ایران، پاکستان اور سعودی عرب ہم خیال ہو سکیں۔ دیکھیں یہ عرب عجم کی خطرناک خلیج صدیوں پرانی ہے اور اس خلیج کے ختم ہونے میں اخلاص اور قربانیوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے لئے امریکی دباؤ سے باہر نکلنا یک لخت تو ممکن نہیں لیکن بتدریج اس سے پیچھے ہٹا جا سکتا ہے۔ لہٰذا پاکستان اور سعوودی عرب دونوں ممالک بتدریج اپنے آپ کو پیچھے ہٹائیں اور دیکھیں اس پاکستان پر سب سے زیادہ دباؤ ہے، پاکستان امریکی جنگ لڑ رہا ہے، جب یہ بتدریج امریکا سے پیچھے ہٹتا ہے تو پاکستان میں امریکی تعاون سے جو کام جاری ہیں وہ بند ہو جائیں گے اور کیونکہ ان کاموں کا جاری رہنا پاکستان کے مفاد میں ہے تو اس صورتحال میں ان جگہوں پر جاری کاموں کو ایران کو پورا کرنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: عالم اسلام میں اپنے سوا سب کو کافر مشرک کہنے والی تکفیری سوچ کے پھیلاؤ میں سعودی عرب کا نام آتا ہے، کیا اس تکفیری سوچ کے ساتھ اس کشیدگی کو دور کرنا ممکن نظر آتا ہے؟
علامہ سید عقیل انجم:
دیکھیں سعودی عرب کی اپنی ایک سوچ ہے، انکی اپنی ایک تھیولوجی ہے اس کو ختم کرنے کیلئے باہمی ملاپ اہم ترین کردار ادا کر سکتا ہے، دیکھیں یک لخت ہم انہیں بھی مسترد نہیں کر سکتے۔ مجھے یاد ہے کہ کراچی میں ایک آل پارٹیز کانفرنس ہوئی تو اس میں شہنشاہ نقوی صاحب نے کہا کہ ایران کے علماء انقلاب کے بعد جب پہلی مرتبہ سعودی عرب گئے تو انہیں ”یا ایھا الکافرون“ کہہ کر پکارا گیا لیکن جب بعد میں ان لوگوں سے مذاکرات ہوئے، بات چیت ہوئی، دو چار گھنٹے کی نشست ہوئی، ایک دوسرے سے جب علمی تبادلہء خیال ہوا تو پھر ان کے رویئے میں تبدیلی آ گئی اور انہوں پھر ایرانی علماء کا اکرام کیا۔ دیکھیں یہ جو باہمی ملاقاتیں اور ربط ہے نا، یہ آپس کے تناؤ کو بھی ختم کریگا، اس تکفیری سوچ کو بھی ختم کرنے میں کامیاب ہو سکے گا۔ ایران کو بھی اس معاملے چار قدم آگے بڑھنا چاہیئے، پاکستان کے ساتھ تعاون کو مزید بڑھانا چاہیئے، ایران کو پاکستان کی اس معاملے میں ہمت افزائی کرنا چاہیئے کیونکہ پاکستان، سعودی عرب اور امریکا کے انڈر پریشر ہے، ان دونوں ممالک کا مقروض ہے تو اس لئے اس کی نگاہیں ان کے سامنے جھکی ہوئی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 385575
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش