0
Tuesday 20 May 2014 23:46

ایران اور سعودی عرب میں برادرانہ تعلقات اور قربت کے خواہاں ہیں، مشاہد حسین سید

ایران اور سعودی عرب میں برادرانہ تعلقات اور قربت کے خواہاں ہیں، مشاہد حسین سید
پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کے سیکرٹری جنرل اور سینیٹ ڈیفنس کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین سید کا شمار پاکستان کے پڑھے لکھے سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ آپ نے اپنے کیرِیئر کا آغاز 1970ء میں انگریزی روزنامہ  ''دی مسلم'' سے کیا اور فن صحافت کی بلندیوں تک پہنچے۔ اسلام ٹائمز نے مختلف موضوعات پر سینیٹر مشاہد حسین سید کا انٹرویو کیا ہے، جس کا احوال پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں ایک مرتبہ پھر سیاسی ہلچل شروع ہے، آپکی جماعت کا کیا موقف ہے۔؟

سینیٹر مشاہد حسین سید: ہمارا موقف اس موقع پر یہ ہے کہ ہم عوام کی آواز ہیں، عوام کے دکھ درد میں ان کے ساتھ ہیں۔ مسلح افواج کی کردار کشی ہو رہی تھی، اسکی ہم مخالفت کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ چپقلش ختم ہو اور شفافیت پیدا ہو۔ الیکش میں ہونے والی زیادتیوں کی تلافی ہونی چاہیئے، تو اس حوالے سے ہم عوام کا جھنڈا لیکر آگے بڑھ رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: موجودہ حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟

سینیٹر مشاہد حسین سید: اقتصادیات کے حوالے سے موجودہ حکومت کا کردار اتنا برا نہیں ہے، خارجہ پالیسی کے حوالہ سے کچھ بہتر اقدامات کئے گئے لیکن سیاسی صورتحال خراب ہوئی، ایک تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دی۔ وزیراعظم ایک دفعہ بھی سینیٹ میں نہیں آئے۔ دوسرا موجودہ حکومت دہشت گردی اور انتہاء پسندی کے مسئلہ کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ تیسرا توانائی کے بحران پر قابو پانے کے حوالے سے بھی کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوئی۔

اسلام ٹائمز: موجود حکومت کے خلاف ایک الائنس بن رہا ہے، کیا پاکستان مسلم لیگ ''ق'' اس کا حصہ بنے گی۔؟

سینیٹر مشاہد حسین سید: پاکستان مسلم لیگ ''ق'' اس کا ساتھ دے گی جو عوام کا ساتھ دے گا، عوامی ایشوز کو لیکر آگے چلے گا، جو جمہوریت کو مضبوط اور مستحکم کرے گا اور جو پاکستان میں ایک آزاد اور جاندار خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھے گا۔

اسلام ٹائمز: بعض قوتیں جن کا پاکستانی پارلیمان میں وجود نہیں، لیکن وہ ملک میں بڑی تبدیلی لانے کی بات کرتی ہیں، یہ امر کس بات کی غمازی کرتا ہے۔؟

سینیٹر مشاہد حسین سید: اگر ان میں صلاحیت ہے کہ وہ ایک لاکھ، دو لاکھ، تین لاکھ لوگوں کو سڑکوں پر لاسکتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں عوامی تائید و حمایت حاصل ہے۔ اسمبلی میں اگرچہ وہ موجود نہیں لیکن عوامی حمایت انہیں اسٹیک ہولڈر بنا سکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: کہا جا رہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف، پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان مسلم لیگ ''ق'' ملک کر ایک الائنس تیار کر رہے ہیں، آپکی اس حوالہ سے کیا رائے ہے۔؟

سینیٹر مشاہد حسین سید: عمران خان صاحب نے ٹیم بھیجی تھی، ہمارا ون پوائنٹ ایجنڈا ہے، اس پر ہم نے بات کی ہے۔ الیکشن میں جو دھاندلی ہوئی تھی اس کی تلافی کی جائے۔ صاف اور شفاف انتخابات کرائے جائیں اور الیکشن کمیشن کو کس طرح مضبوط کیا جائے۔ یہ ایک غیر منفی ایجنڈا ہے، حکومت کو چاہیے کہ جہاں جہاں دھاندلی ہوئی ہے، وہاں انکوائری کرائی جائے، قانون یہ کہتا ہے کہ 120 دن میں الیکشن ٹریبیونل کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ لیکن نہ ہی الیکشن ٹرینیونل کی کوئی میٹنگ ہوئی، نہ ہی کوئی فیصلہ ہوا۔ جو ظاہر کرتا ہے کہ سسٹم میں خرابی موجود ہے، جس کی وجہ سے سسٹم چل نہیں رہا۔

اسلام ٹائمز: تہران ریاض تعلقات میں بہتری آرہی ہے، آپ اسے کس انداز سے دیکھ رہے ہیں۔؟

سینیٹر مشاہد حسین سید: سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل نے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کو دعوت دی ہے، یہ بڑی اہم اور مثبت بات ہے، چونکہ ایران اور سعودی عرب مسلم دنیا کے دو اہم ملک ہیں، ان کی چپقلش مسلم امہ کے اتحاد کے منافی ہے۔ ان دونوں ممالک کے تعلقات میں اگر بہتری آتی ہے تو چاہیے مسئلہ فلسطین ہو، مسئلہ کشمیر ہو، مسئلہ لبنان ہو، مسئلہ شام ہو یا عراق و افغانستان کی صورتحال ہو، یمن و بحرین کی صورتحال ہو، ان تمام پر ایک مثبت اثر پڑے گا، اور یہ بہت ضروری ہے اور ہم پاکستان کی جانب سے اس اقدام کا پرزور خیر مقدم کرتے ہیں۔ ایران کے وزیر خارجہ سعودی عرب جا رہے ہیں۔ حال ہی میں ہمارے وزیراعظم ایران سے ہو کر آئے ہیں، ایران ہمارا دوست ہے، سعودی عرب سے بھی ہمارے بہت قریبی تعلقات ہیں تو ہم دونوں مسلم ممالک میں برادرانہ تعلقات اور قربت کے خواہاں ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی حالیہ دورے میں زیر بحث آیا، کیا آپ پرامید ہیں یہ منصوبہ آگے چل پائے گا۔؟

سینیٹر مشاہد حسین سید: جی بالکل یہ منصوبہ آگے بڑھنا چاہیے، یہ پاکستان کے مفاد میں ہے۔ یہ علاقائی اقتصادی تعاون کے مفاد میں ہے۔ اس منصوبے سے پاکستان میں توانائی کا بحران حل کرنے میں بڑی مدد ملے گی۔
خبر کا کوڈ : 384595
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش