0
Wednesday 4 Mar 2015 21:51

آج ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید موجود ہوتے تو پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی، ثاقب اکبر

آج ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید موجود ہوتے تو پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی، ثاقب اکبر
شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کو بچھڑے ہوئے دو دہائیاں بیتنے کو ہیں، شہید کی برسی کے موقع پر اسلام ٹائمز نے شہید کے قریبی ساتھیوں سے انکے ساتھ گذارے ہوئے ماہ و سال کی روشنی میں، شہید بزرگوار سے متعلق مختصراً انکے احساسات اور تاثرات لیے ہیں، جناب ثاقب اکبر، شہید کے دیرینہ ساتھی، اخوت اکیڈمی اور البصیرہ ٹرسٹ کے بانی ہیں، آئی ایس او کے سابق مرکزی صدر ، کئی کتابوں کے مصنف، صاحب طرز ادیب، شاعر، صحافی اور ملی یکجہتی کونسل کے مرکزی رہنما ہیں، انکے ساتھ ہونے والی گفتگو میں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی سے متعلق ذاتی تاثرات بیان کرتے ہوئے انہوں نے جو فرمایا، قارئین کی خدمت میں حاضر ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی سے آپکی ملاقات کب ہوئی اور اسکے بعد آپکی زندگی میں کیا تبدیلی آئی۔؟
ثاقب اکبر:
شہید سے میری پہلی ملاقات 1974ء میں ہوئی تھی، اس وقت میں ایم اے او کالج لاہور میں اسٹوڈنٹ تھا، میرے کالج فیلو ملک فیض بخش صاحب جو مفتی جعفر حسین قبلہ کے داماد ہیں، ان سے تعارف ہوا، تبھی میں نے آئی ایس او جوائن کی اور انہی دنوں میری لاہور میں انجمن وظیفہ سادات کے دفتر میں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی سے ملاقات ہوئی۔ بعد ازاں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اچھا رابطہ رکھا، وہ تب کسی عہدے یعنی باقاعدہ تنظیمی ذمہ داری پر نہیں تھے، لیکن پھر بھی سرگرم اور متحرک تھے۔ ایک فعال روح انکے اندر موجود تھی، 1975ء میں، میں نے M. A. O کالج لاہور میں یونٹ قائم کیا اور اس موقع پر شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی بھی وہاں تشریف لائے۔ اسکے بعد سے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کیساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ہم نے کئی سفر اکٹھے کئے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی 1977ء میں مرکزی صدر تھے اور میرے پاس 1978ء میں مرکزی صدر کی ذمہ داری تھی۔ میری انکے ساتھ بیس سال تک رفاقت رہی، تمام مشکل مراحل میں ہم دونوں اکٹھے رہے، چاہے وہ بھکر کنونشن ہو یا اسلام آباد کنونشن۔ بھکر کنونشن کے موقع پر میرے پاس مرکزی صدر کی ذمہ داری تھی، میری مسئولیت کے دوران بھی انکی فعالیت، دوستی اور سرپرستی مجھے حاصل رہی۔

اسلام ٹائمز: جو قیمتی ماہ و سال شہید کیساتھ گذارنے کا موقع آپکو نصیب ہوا، شہید نے آپکی کیا رہنمائی فرمائی، چند نکات بیان فرمائیں۔؟
ثاقب اکبر:
ہم دونوں ہمسفر تھے، تمام امور میں ایک دوسرے سے مشورہ کرتے تھے اور اس عمل سے ایک دوسرے کو تقویت کا احساس ہوتا تھا، جب مل کر سفر کیا جاتا ہے، تو ظاہر ہے، ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں، شہید مخلص تھے اور ہمیشہ سرگرم رہتے تھے، مجھے بھی دوران مسئولیت کوئی مشکل آتی تھی تو وہ ساتھ ہوتے تھے یا انہی کوئی مشکل درپیش ہوتی تو ہم انکا ساتھ دیتے تھے۔

اسلام ٹائمز: شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کیساتھ زندگی کا ایک حصہ آپ نے گذارا، انکی شہادت کی خبر آپکو کیسے ہوئی اور اس لمحے آپکو کیا محسوس ہوا۔؟
ثاقب اکبر:
شہادت سے دو دن قبل وہ اسلام آباد میں میرے پاس تھے، اس دن ہم نے اخوت اکیڈمی کی بنیاد رکھی، تو اس دن وہ ہمارے درمیان موجود تھے اور یاد پڑتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب خود صفائی کر رہے تھے۔ انہوں نے میرے ہاتھ سے وائپر لیا اور کہا آغا ثاقب آپ چھوڑ دیں، صفائی میں کروں گا۔ پھر صفائی کے بعد دریاں بچھائیں اور اسکے بعد پیسے دیئے کہ جاو، مٹھائی لے آو۔ ایک طرح سے اخوت اکیڈمی کی بنیاد ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید نے خود رکھی۔ ویسے بھی جب ہم پاکستان آئے تھے تو ان کے ساتھ ہم آہنگی کرکے آئے تھے، کہ امت کی وحدت کیلئے کام کریں گے اور اس حوالے علمی تحقیقاتی ادارہ بھی بنائیںگے۔ شہادت سے ایک رات قبل لاہور میں ہمارے گھر، میری فیملی کے گھر میں رات گذاری، اگلے دن وہ شہید ہوگئے، جب وہ دفتر کیلئے روانہ ہو رہے تھے، ملتان روڈ پر تھے اور اس وقت ہمارا گھر یتیم خانہ چوک پر تھا، جائے شہادت کے ساتھ گلی میں فلیٹ میں میری فیملی موجود تھی، فائرنگ کے دوران میری بیوی نے دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی، وہ ننگے پاوں نیچے اتریں اور ڈاکٹر صاحب کے گھر گئی اور واقعہ کی اطلاع دی۔ میں اسوقت اسلام آباد میں تھا، شہید ہمارے لئے عظیم الشان سرمایہ کی حیثیت رکھتے تھے، ان سے رفاقتیں، محبتیں دوستیاں بھی تھیں، دکھ سکھ کے ساتھی تھے، قوم کیلئے وہ بڑا سرمایہ تھے، انکی شہادت ہمارے بہت بڑا المیہ تھی اور قوم کیلئے بھی المیہ تھی، وہ مسلمانوں کیلئے نیک اور اچھے جذبات رکھتے تھے۔ شہادت کے بعد میں نے ان پر نظمیں لکھیں، اب بھی جب انکا ذکر آتا ہے تو آنکھیں برستی ہیں، جدائی کا زخم نئے سرے سے تازہ ہو جاتا ہے، ڈاکٹر صاحب جیسے لائق فرزند مائیں کبھی کبھی جنتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: آج جب شہید ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں، تو آپ انکی کمی کن کن جگہوں پر محسوس کرتے ہیں۔؟
ثاقب اکبر:
ایسے لوگ قوم و ملت کی ضرورت ہوتے ہیں، وہ جا کر بھی نہیں جاتے، انکی یادیں اور کردار ہر جگہ پر روشنی دیتا ہے، راستے دکھاتا ہے، انکا جذبہ عشق و محبت انسان کو ایک نیا عزم دیتی ہے، نیا حوصلہ ملتا ہے، نئے راستے تلاشنے میں مدد ملتی ہے۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی زندگی تمام شعبوں سے عبارت تھی، نا فقط انکے ساتھیوں کو، بلکہ جنہوں نے انکا نام سنا ہے، انہیں بھی انکی کمی محسوس ہوتی ہے کہ آج وہ ہوتا، تو کیا ہوتا۔ میرے خیال میں تاریخ مختلف ہوتی، پاکستان میں کم از کم تاریخ مختلف ہوتی۔

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر شہید کی زندگی آپکے سامنے ہے، انہیں اسوہ سمجھتے ہوئے، آپ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں۔؟
ثاقب اکبر:
وہ میرے دوست تھے، انکی رفاتیں، محنتیں، دلوں میں زندہ رہیں گی، انکی زندگی میں ہم نے ایک دوسرے سے عہد کیا تھا اور جوانی اسی کمنٹمنٹ میں گذاری، اب بڑھاپا آگیا ہے، لیکن ہم اسی کمنمنٹ پر خدا کے راستے پر، قائم ہیں، زندگی میں ایک ہدف کے حصول کیلئے کمنٹمنٹ کرنا تو یقینی طور پر ہے۔ جیسے حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ جس کا آج گزرے ہوئے کل سے بہتر نہیں وہ ہلاک ہوگیا۔ ہم نے علمی فکری سفر کیا، وہ جو ہم نے خواب دیکھا تھا کہ ناصرف شیعوں بلکہ اہلسنت میں بھی کام کریں، اپنا پیغام پہنچائیں کام کیا، ملی یکجہتی کونسل میں ہمارا کرادر شاہد ہے، علمی حوالے سے جو کام کئے وہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم نے ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید سے جو کمنٹمنٹ کی تھی، کہ خدا کے راستے میں جدوجہد جاری رکھیں گے اور الحمد اللہ ہم نے جاری رکھی ہے۔

اسلام ٹائمز: شہید کے سیرت و کردار کی روشنی میں نئی نسل کو کیا کہیں گے، کیا پیغام دیں گے۔؟
ثاقب اکبر:
بہت سی چیزیں اہم ہیں، نئی نسل کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا کردار زندہ ہے، تو کیوں زندہ ہے؟ انکا جینا اور مرنا ایک ہدف کیلئے تھا، وہ اپنے بدن کو زحمت میں ڈالتے تھے، یعنی جو ہدف تھا اس کو حاصل کرنے کیلئے مگن رہتے تھے۔ یہ میرا ہی جملہ ہے، کیونکہ میری ان سے رفاقت بہت زیادہ تھی، وہ شخص چلا گیا، ہم میں سے جس نے سب سے کم کھایا، کم پہنا، کم سویا۔ شاید اسی لئے ایک زمانہ انکی یاد میں رویا۔ یعنی یہ چیزیں سیکھنی ہیں کہ ہدف کے ساتھ کمنٹمنٹ ہو، وہ مجاہد تھے، یعنی شجاع تھے، اپنے ہدف کیلئے سر، تن، من اور دھن کی بازی لگا دینے والے تھے، سیکھنے کا عمل بھی انکی زندگی میں جاری رہتا تھا، یعنی غور و فکر کیا کرتے تھے۔ امام خمینی (رہ) کے انقلاب اور آقائے شہید قائد کا ساتھ دیا۔ اس دوران نظر آتا کہ یہ کام کرنے کا ہے، مشاورت کرتے تھے کہ یہ رائے درست ہے تو قبول کرتے اور مشورہ ضرور کرتے تھے، دوستوں سے۔
خبر کا کوڈ : 444785
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش