0
Wednesday 29 Apr 2015 12:19
چینی صدر کے دورے کے موقع پر بلوچستان کو نظرانداز کیا گیا

گوادر کاشغر روٹ کی تبدیلی سے متعلق ابھی تک حتمی فیصلہ نہیں ہوا، سینیٹر کبیر احمد

گوادر کاشغر روٹ کی تبدیلی سے متعلق ابھی تک حتمی فیصلہ نہیں ہوا، سینیٹر کبیر احمد
میر کبیر احمد محمد شاہی نیشنل پارٹی (مالک) کے نومنتخب سینیٹر اور میر عبداللہ جان محمد شاہی کے صاحبزادے ہیں۔ آپ 1953ء کو بلوچستان کے شہر قلات میں پیدا ہوئے۔ اپنی ابتدائی تعلیم قلات سے حاصل کی اور سیاسی کیرئیر کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے کیا۔ بعدازاں انہوں نے بلوچ نیشنل موومنٹ میں بھی مرکزی کردار ادا کیا۔ وہ اس وقت نیشنل پارٹی (مالک) میں سی ای سی کے عہدے پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ گذشتہ مہینے منعقد ہونے والے سینیٹ الیکشن میں وہ نیشنل پارٹی کیجانب سے سینیٹ کی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ چینی صدر کے حالیہ دورے اور گوادر پروجیکٹ کے حوالے سے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ان کیساتھ ایک مختصر نشست کی، جس کا احوال قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: چینی صدر کے دورے کے موقع پر وزیراعلٰی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ موجود ہی نہیں تھے، جبکہ اسکے برعکس شریف خاندان ہی مہمانداری میں مصروف رہا۔ کیا دوسرے صوبوں کو نظرانداز کرنے کی پالیسی اب بھی جاری ہے۔؟
سینیٹر کبیر احمد:
بات یہ ہے کہ ہم گذشتہ کئی دہائیوں سے بلوچستان کے بے شمار مسائل پر رونا رو رہے ہیں، چونکہ اس وقت نیشنل پارٹی بلوچستان میں مخلوط حکومت کا حصہ ہے اور وفاق میں بھی ہم مسلم لیگ (ن) کیساتھ اتحادی ہیں، لیکن بدبختی یہ ہے کہ ہر میدان میں بلوچستان کے استحصال کا سلسلہ پچھلے 67 سالوں سے جاری ہے۔ اب چینی صدر کے پاکستان کے دورے کے موقع پر بھی اصل اہمیت بلوچستان کے سیاسی اکابرین کو دینا چاہیئے تھی، بلکہ ہم نے چیئرمین سینیٹ سے بھی گزارش کی کہ بلوچستان کی جتنی بھی پارٹیاں‌ ہیں، جو حکومت میں ہے یا حزب اختلاف میں، آپ ان تمام جماعتوں کے قائدین کی چینی صدر سے علیحدہ ملاقات کرائیں، لیکن یہاں بھی ہمیں نظر انداز کیا گیا۔

اسلام ٹائمز: اسکا مطلب یہ ہوا کہ نواز شریف کی حکومت آپکو اہمیت نہیں دیتی۔؟
سینیٹر کبیر احمد:
ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ ہماری بات نہیں سنتے، چینی صدر کے حالیہ دورے میں ہمارے وزیراعلٰی تو تھے، لیکن انکا ہونا نہ ہونا ایک جیسا تھا، حالانکہ اس میں اولین توجہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کو ملنی چاہیے تھی، لیکن ایسا ممکن نہ ہوا۔

اسلام ٹائمز: لیکن باقی تین وزرائے اعلٰی کے علاوہ پنجاب کے وزیراعلٰی میں وہ کونسی خصوصیت ہے جسکی وجہ سے انہیں اتنی اہمیت دی جاتی ہے۔؟
سینیٹر کبیر احمد:
صلاحیتوں کے حوالے سے کسی میں کوئی کمی نہیں، لیکن ہمارے چیف منسٹر گراس روٹ لیول کے نمائندے ہے، وہ اپنے طالبعلمی کے ادوار سے لیکر آج تک سیاست میں ہیں۔ اب ہم اس بات کو اس انداز میں نہیں‌ دیکھتے کہ کس کو لائن میں کونسے نمبر پر کھڑا کیا گیا۔ یا کسی کی کرسی مہمان کے قریب تھی۔ ہماری اولین ترجیح یہ ہے کہ جتنے بھی منصوبے ہو رہے ہیں، اس میں بلوچستان کے لوگوں کیلئے زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو۔

اسلام ٹائمز: آج تو آپ اقتدار میں ہیں، لیکن کل جب آپ حکومت میں نہیں‌ ہونگے تو پھر دوسروں کی طرح کہیں گے کہ وفاق ہمارے حقوق کو نظر انداز کر رہا ہے۔ آپ چونکہ ابھی حکومت میں ہیں، لہذا ابھی اپنے جائز مطالبات کو وفاق کے سامنے نہیں‌ رکھتے۔؟
سینیٹر کبیر احمد:
بلوچستان میں نئی حکومت بننے سے پہلے انتخابات کے موقع پر صوبے کے عوام ہم سے مطالبہ کر رہے تھے کہ انہیں نئی سڑکیں، پانی، بجلی یا گیس کچھ نہیں چاہیئے، بلکہ صرف جان کی حفاظت چاہیئے۔ لیکن الحمد اللہ آج ڈاکٹر مالک کی زیر قیادت بلوچستان میں گذشتہ دو سال قبل والے حالات نہیں رہے۔ امن و امان کی حالت 80 فیصد بہتر ہوئی ہے۔ اتنے کم وقت میں اتنی بہتر کارکردگی تینوں صوبوں کے وزرائے اعلٰی نے نہیں‌ دیکھائی۔ لہذا قابلیت کے اعتبار سے بھی ہم اپنی ذمہ داریاں بھرپور طریقے سے نبھا رہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ وفاق بھی زیادتی نہیں کرے گا۔

اسلام ٹائمز: گوادر کاشغر روٹ کی تبدیلی کے حوالے سے کافی باتیں ہو رہی ہے۔ کیا آپ نے مرکز سے پوچھا کہ حقیقی معنوں میں منصوبے کس طرح ہوگا۔؟
سینیٹر کبیر احمد:
یقیناً پہلا راستہ جو تھا وہ آپکے علم میں ہوگا۔ وہ گوادر سے پنجگور، پنجگور سے خضدار، خضدار سے قلات، قلات سے مستونگ، مستونگ سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے شمالی بلوچستان سے ہوتے ہوئے خیبر پختونخوا میں جاتا تھا۔ ابھی جس روٹ کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ خضدار سے صوبہ سندھ کے شہر شہداد کوٹ، اور وہاں‌ سے نکل کر صوبہ پنجاب میں شامل ہوتا ہیں۔ ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اس پروجیکٹ کیلئے کتنے روٹ بنائے جاتے ہیں، لیکن ایک بات ضرور ہے کہ چونکہ گوادر ایک تو بلوچستان میں‌ اور دوسرا بلوچستان پاکستان کا سب سے پسماندہ صوبہ ہے۔ لہذا ہم کہتے ہے کہ سب سے زیادہ بلوچستان کو فائدہ ملنا چاہیئے۔ اب جس روٹ کی بات ہو رہی ہے، اسے بھی فائنل نہیں کیا گیا۔ اس بارے میں صرف بات ہوئی ہے لیکن حتمی طور پر فیصلہ نہیں کیا گیا۔

اسلام ٹائمز: کیا یہ نئی تجویز آپ سے مشاورت کے بعد سامنے آئی ہے یا آپ سے رابطہ کئے بغیر دوسرے راستے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔؟
سینیٹر کبیر احمد:
روٹ کی تبدیلی سے متعلق ہم سے کوئی مشاورت نہیں ہوئی، لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ روٹ کی تبدیلی حتمی نہیں۔ ابھی اسمبلیوں میں بولنے والے ہیں۔ پہلا راستہ بلوچستان کے پانچ اضلاع سے گزرے گا، جبکہ دوسرا راستہ تین اضلاع کو طے کریگا۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ گوادر میں آج لوگ دو وقت کی روٹی کیلئے محتاج ہیں۔ وہاں پر انفراسٹریکچر نام کی کوئی چیز نہیں۔ اس پر کوئی بات نہیں ہوتی۔ یقیناً یہ روٹ 2030ء تک مکمل ہوگا۔ لیکن پہلے ہمیں گوادر کی مقامی آبادی کو ترقی دینا ہوگی اور اس سے متعلق قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بحث ہو رہی ہے کہ اس روٹ کو پہلے راستے کے مطابق بننا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کیا گوادر پروجیکٹ کا منصوبہ بھی کالا باغ ڈیم کی طرح ناکام تو نہیں ہوگا۔؟
سینیٹر کبیر احمد:
وہ بالکل پاکستان کا دوست نہیں ہے جو اس پروجیکٹ کی مخالفت کرے۔ یہ ایسا موقع ہے کہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کا بہترین وقت آیا ہے۔

اسلام ٹائمز: چین کی دوستی پاکستان سے شہد سے زیادہ میٹھی اور پہاڑ سے زیادہ اونچی ہے اور سمندر سے زیادہ گہری ہے، کیا آپ اس پر یقین رکھتے ہیں۔؟
سینیٹر کبیر احمد:
اب دیکھئے آج کل اس میٹھاس میں تو کمی ضرور آئی ہے۔ مثال کے طور پر ابھی ریکوڈک یا سینڈک کے منصوبے کو دیکھ لیں۔ اگر ان منصوبوں کو بہتر انداز میں چلایا جائے تو پورے ملک میں ایک پاکستانی بھی غریب نہیں رہے گا۔ اب گذشتہ حکومتوں‌ نے چینی کمپنی کیساتھ ایسا معاہدہ کیا ہے، جس سے بلوچستان کو صرف دو فیصد منافع ملے گا۔ تو یہ انتہائی ناانصافی ہے۔
خبر کا کوڈ : 457267
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش