0
Sunday 24 May 2015 18:11
امریکہ، اسرائیل اور بھارت پاکستان کیخلاف سازشوں میں مصروف ہیں

داعش وہ فتنہ ہے جو اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کیلئے اٹھایا گیا ہے، حاجی حنیف طیب

داعش وہ فتنہ ہے جو اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کیلئے اٹھایا گیا ہے، حاجی حنیف طیب
حاجی حنیف طیب 19 نومبر 1947ء کو ہانٹوا بھارت میں پیدا ہوئے، قیام پاکستان کے بعد والدین کے ہمراہ کراچی ہجرت کی۔ 1964ء میں قریشی ہائی سکول سے میٹرک کرنے کے بعد ڈی جے سائنس کالج میں انٹر پری میڈیکل میں کیا۔ اس کے بعد سائنس کے مضامین ترک کر کے آرٹس کے مضامین کا انتخاب کیا اور بی اے کرنے کے بعد کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات فرسٹ پوزیشن میں پاس کیا۔ اس کے بعد اردو کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ اپنے زمانہ طالب علمی میں 20 جنوری 1968 کو انجمن طلباء اسلام کی بنیاد رکھی اور کئی برس اے ٹی آئی کے مرکزی صدر کی ذمہ داری پر رہے۔ عملی سیاست کا آغاز جمعیت علما پاکستان کے پلیٹ فارم سے کیا اور اسی پلیٹ فارم سے تحریک ختم نبوت اور تحریک نظام مصطفیٰ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ کراچی سے 3 مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، تین سال تک وفاقی وزیر رہے، مسلسل دس سال آل پاکستان میمن فیڈریشن کے بھی صدر منتخب ہوتے رہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ 30 سال قبل کراچی میں المصطفٰی ویلفیئر سوسائٹی کی بنیاد رکھی جس کی شاخیں پاکستان کے علاوہ بیرون ملک بھی قائم ہو چکی ہیں۔ اسلام ٹائمز نے حاجی حنیف طیب کے ساتھ مختصر نشست کی جس کا احوال اپنے قارئین کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: کراچی کے حالات کے حوالے سے کیا کہیں گے، اب تو اسماعیلی برادری بھی محفوظ نہیں، آپ کے خیال میں اس دہشت گردی میں کون ملوث ہو سکتا ہے؟

حاجی حنیف طیب:
یہ واقعہ اسلام اور پاکستان مخالف عناصر کی کارستانی ہے، جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ قوتیں پاکستان کو مضبوط ہوتا نہیں دیکھ سکتیں، اس اندوہناک واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس لئے یہ پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش ہے۔ اتنی زیادہ انسانی جانوں کا ناحق قتل سنگین جرم اور غیر انسانی فعل ہے، بلاشبہ اس سے سندھ حکومت کی ناکامی اور نااہلی واضح ہو گئی ہے۔ محض علاقہ ایس ایچ او اور ڈی ایس پی معطل کر دینے سے معاملات حل نہیں ہوتے بلکہ بیرونی دشمنوں کے ساتھ اندرونی دشمنوں پر بھی گہری نظر رکھنی ہو گی۔ جو گاہے بگاہے قتل و غارت گری کا بازار گرم کر کے پاکستان کو خون آلود کر رہے ہیں۔ ایسے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی ضرورت ہے، کراچی میں رینجرز کے آپریشن کی سست روی کے سبب دہشت گرد ایسی کارروائی کرنے میں کامیاب ہو سکے۔ رینجرز کو چاہیئے کہ وہ بلا تفریق کارروائی کرے اور ملک دشمنوں کی مکمل سرکوبی تک یہ سلسلہ جاری رکھا جائے۔ ہمیں ایسے واقعات پر محض بیان بازی کی بجائے ان عناصر کے خلاف کارروائی کرنی چاہیئے یہ ملک دشمن عناصر کی سنگین کارروائی ہے۔ جس سے ہر ذی روح کے دل افسردہ ہوئے ہیں۔

سانحہ کراچی کے بعد تو دہشت گردوں کو سخت جواب دینے کا وقت آ گیا ہے، پھر جب اس دہشت گردی میں "را" کے ملوث ہونے کے شواہد مل گئے ہیں تو ایسے میں بھارت کو سخت جواب دینے کی ضرورت ہے۔ دشمن کو ہماری اقتصادی ترقی قطعی پسند نہیں، چین کے ساتھ ہمارے معاہدوں کے بعد دشمن نے کھل کر ہمارے خلاف محاذ آرائی شروع کر دی ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کے خلاف بلا تفریق آپریشن کیا جائے۔ اب تو فوجی عدالتوں کے قیام کی اشد ضرورت پڑ گئی ہے۔ اس کے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ سانحہ کراچی سے ہمیں سبق سیکھتے ہوئے سکیورٹی انتظامات کو سخت کرنا ہو گا۔ عوام کے جان ومال کی حفاظت کرنا ہو گی۔ ایپکس کمیٹی سندھ کے فیصلوں پر فوری عمل درآمد کروایا جائے اور سول ملٹری انٹیلی جنس رابطوں کو موثر بنایا جائے۔ صفورا میں دہشت گردی کے واقعہ سے تو حکومت کے دعوؤں کی قلعی کھل گئی ہے کہ انہوں نے دہشت گردوں پر قابو پا لیا ہے، ہم سجھتے ہیں کہ سندھ حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ کی نظر میں کراچی میں حالات کی خرابی کے بنیادی اسباب کیا ہیں اور شہر میں امن کا قیام کیسے ممکن ہے؟
حاجی حنیف طیب:
کراچی پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے، کراچی روشنیوں کا شہر تھا لیکن اب لاشوں کا شہر بن چکا ہے۔ آج کراچی لہولہان ہے، کراچی کو کرچی کرچی کیا جا رہا ہے، اور یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہو رہا ہے۔ شہر قائد کو ایک سازش کے تحت خانہ جنگی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ عالمی سازشوں کے تحت کراچی میں لسانی تنازعات کو ہوا کر دے کر خونیں کھیل کھیلا جا رہا ہے تاکہ پاکستان کو معاشی طور پر تباہ کر کے پاکستان کو ناکام ریاست بنایا جا سکے۔ کراچی عالمی سازشوں کی آماجگاہ بن چکا ہے، کراچی میں کئی برسوں سے بندوق اور بارود کا راج ہے، حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں آپس میں لڑ جھگڑ کر بے گناہ اور معصوم انسانوں کا خون بہا رہی ہیں۔ کراچی میں بدامنی کے ذمہ دار لسانی اور لبرل طالبان ہیں۔ کراچی میں قیام امن کے لئے گولی اور گالی کا کلچر ختم کرنا ہو گا۔ بلٹ کی بجائے بیلٹ کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔ کراچی اسلحہ کا ڈپو بن چکا ہے، جب کہ پائیدار امن کے لئے کراچی کو اسلحہ سے پاک کرنا انتہائی ضروری ہے۔ بھتہ خوروں، دہشت گردوں، لینڈ مافیا، ڈرگ مافیا اور جرائم پیشہ عناصر نے کراچی کو یرغمال بنا رکھا ہے جب تک قانون شکن عناصر کو قانون کی گرفت میں نہیں لایا جاتا اس وقت تک کراچی میں امن ناممکن ہے، کراچی میں بدامنی کے لئے تمام جماعتیں جرائم پیشہ عناصر غنڈہ گردوں کو اپنی صفوں سے نکالیں، اور تمام جماعتیں مجرموں کی حمایت نہ کرنے کا حلف اٹھائیں۔ لسانی تعصبات چھوڑ کر پاکستانیت کی سوچ اپنانا ہی حب الوطنی کا تقاضا ہے۔ کراچی کی تمام جماعتیں جیو اور جینے دو کا اصول اپنائیں، اور ایک دوسرے ک و برداشت کرنے کا جذبہ پروان چڑھائیں، نظریات کا مقابلہ طاقت کی بجائے نظریات سے کرنے کی روش اپنا کر کراچی کو امن آشنا کریں۔

اسلام ٹائمز: ملک کے سیاسی منظر نامے کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں، مجموعی ملکی حالات اور مسائل پر آپ کا کیا ردعمل ہے؟
حاجی حنیف طیب:
بدقسمتی سے ملک کے حالات انتہائی مایوس کن ہیں، غربت اور افلاس نے غریب عوام کو زندہ لاشیں بنا دیا ہے، مہنگائی کا سورج سوا نیزے پر ہے، بے روز گاری روز بروز بڑھ رہی ہے، لوڈشیڈنگ کے عذاب نے نظام زندگی درہم برہم کر دیا ہے، غریبوں کے چولہے ٹھنڈے ہو چکے ہیں، کاروبار تباہ اور انڈسٹری آخری سانسیں لے رہی ہے، مسائل زدہ اور مفلوک الحال عوام کو کوئی پرسان حال نہیں، قومی خزانے کو عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے حکمران اپنی عیاشیوں پر خرچ کر رہے ہیں۔ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، لسانی فسادات اور فرقہ وارانہ قتل و غارت کی آگ بھڑک رہی ہے، لیکن حکومت اور اپوزیشن الزام تراشیوں، پوائنٹ سکورنگ اور بےمعنی محاذ آرائی میں مصروف ہے، آدھے سیاست دان حکومت بچانے اور آدھے حکومت کو گرانے میں مصروف ہیں، حکومتی ایوانوں میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے، ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی معیشت کے صرف تین شعبوں میں یومیہ 5 ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے، اس طرح قومی خزانے کو سالانہ 18 سو ارب روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

دوسری جانب امریکہ، اسرائیل اور بھارت پاکستان کے خلاف نت نئی سازشوں میں مصروف ہیں لیکن ہمارے حکمران اور سیاست دان عالمی سازشوں کے مقابلے میں قوم کو متحد کرنے کی بجائے تقسیم کر رہے ہیں حالانکہ خطرات میں گھرے ہوئے پاکستان کو اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے، اس لئے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے۔ بے معنی محاذ آرائی کے ذریعے ملک کو 90ء کی دہائی میں نہ لے جائیں سارے سیاست دانوں کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ ایسا نہ ہوا تو بھاری بوٹوں کی آواز سب کو خاموش کرا دے گی۔ اور دما دم مست قلندر کا راستہ اختیار کیا گیا تو سب کا نقصان ہو گا اور غیر جمہوری قوتیں فائدہ اٹھائیں گی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ سیاست دان آمریتوں کے دور میں خاموش رہتے ہیں، جبکہ جمہوری دور میں آپس میں لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ وقت اپنی اپنی سیاست نہیں ریاست بچانے کا ہے۔ اس لئے حکومت اور اپوزیشن عوامی مسائل کے حل اور ملک کو بحرانوں سے نجات دلانے کے لئے میثاق پاکستان کے نام سے نیشنل ایجنڈا تیار کریں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مذہبی وسیاسی جماعتیں امریکی غلامی سے آزادی، دہشت گردی کے خاتمہ اور لوڈشیڈنگ سےنجات کے ایجنڈے پر متحد ہو جائیں اور متفقہ قومی لائحہ عمل تیار کر کے یکساں موقف اختیار کریں۔

اسلام ٹائمز: نئے صوبوں کے قیام کی بازگشت کبھی کبھی سنائی دیتی ہے، پھر کچھ عرصے کے لئے وہ شور تھم جاتا ہے، آپ کا اس حوالے سے کیا موقف ہے؟
حاجی حنیف طیب:
ہم لسانی بنیادوں پر نئے صوبوں کے قیام کی مخالفت اور انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں کے قیام کے حق میں ہیں۔ نئے صوبوں کے قیام کا مسئلہ انتہائی حساس اور احتیاط طلب ہے۔ ماضی میں بعض جماعتیں محض پوائنٹ سکورنگ کے لئے قومی اور پنجاب اسمبلی میں نئے صوبوں کے حق میں قراردادیں منظور کرواتی رہی ہیں، حالانکہ ابھی تک نئے صوبوں کے قیام کے لئے قومی سطح پر مشاورت اور ہوم ورک کی ضرورت ہے، اس مقصد کے لئے قومی کمیشن تشکیل دیا جائے اور نئے صوبوں کے قیام کے لئے اتفاق رائے پیدا کیا جائے تاکہ قومی وحدت پارہ پارہ نہ ہو، نئے صوبوں کے قیام کو سیاست کی نذر کر دیا گیا تو یہ بہت بڑا المیہ ہو گا۔

اسلام ٹائمز: توانائی بحران کے حوالے سے ابھی تک حکومت دلاسے ہی دے رہی ہے، آپ کی نظر میں اس بحران کا کوئی حل ہے؟
حاجی حنیف طیب:
بجلی بحران ماضی اور حال کی حکومتوں کی نااہلی، غفلت اور بدانتظامی کا نتیجہ ہے، کسی بھی حکومت نے نئے ڈیم بنانے پر توجہ نہیں دی۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم نے ایٹم بم تو بنا لیا ہے لیکن بجلی نہیں بنا سکے، بجلی صرف پانی سے نہیں بلکہ ہوا، روشنی، کوئلے، گوبر اور کوڑا کرکٹ سے بھی پیدا ہو سکتی ہے، لیکن ہماری حکومت نے بجلی کے متبادل ذرائع کو استعمال نہیں کیا۔ حکومت کو چاہیئے کہ تھرکول منصوبے کی جلد تکمیل کے لئے ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو مطلوبہ فنڈز فراہم کرے تاکہ بجلی کا بحران ختم کر کے عوام کو اندھیروں سے نجات دلائی جا سکے۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب میں اہل تشیع کی مسجد میں حملہ ہوا، داعش نے اس کی ذمہ داری بھی قبول کر لی، آپ کیا کہیں گے؟
حاجی حنیف طیب:
داعش بہت بڑا فتنہ ہے جسے اسلام دشمن قوتوں نے اسلام کو بدنام کرنے کے لئے خلق کیا ہے۔ امت مسلمہ کو اس فتنہ کے تدارک کے لئے مشترکہ پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اب تو اس فتنے کے زد میں خود سعودی عرب آ گیا ہے۔ تو اس حوالے سے اب ایران اور سعودی عرب مل کر داعش کا کوئی مشترکہ اور شافی علاج تلاش کریں تاکہ اسلام کو بدنامی سے بچایا جا سکے۔ داعش والے خوارج ہیں، ان کا اسلام سے دور دور تک کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ اس لئے ہم تو یہی کہیں گے کہ امت مسلمہ کو اس فتنے کا سدباب کرنا ہو گا۔ اگر آج امت نے بیداری کا مظاہرہ نہ کیا تو جیسا کہ داعش نے کہا کہ پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر قبضہ کر سکتے ہیں تو اس سے داعش کے ناپاک عزائم واضح ہوتے ہیں کہ ان کا ہدف کیا ہے۔ اسلام کی بقا کے لئے ضروری ہے کہ شیعہ اور سنی متحد ہو جائیں۔ ہمیں فرقوں کے حصار سے نکل کر صرف بطور مسلمان سوچنا ہو گا، اگر آج ہم نے اپنی ان ذمہ داریوں کا احساس نہ کیا تو کل یہ داعش کعبہ پر بھی حملہ کر دے گی۔ ہمیں اس کا تدارک کرنا ہو گا۔ پاکستان میں الحمدللہ شیعہ اور سنی متحد ہیں، اسی طرح پوری دنیا میں امت مسلمہ کے اتحاد کی ضرورت ہے بالخصوص عرب حکمرانوں کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ داعش وہ فتنہ ہے جو صرف مسلمانوں کے خلاف لڑ رہا ہے، اس کی جنگ اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ نہیں ہے بلکہ امریکہ اور اسرائیل ہی داعش کے سرپرست ہے۔ داعش کی ڈوریاں وائٹ ہاؤس اور تل ابیب سے ہلتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں اتحاد امت کے لئے آپ کی تجویز کیا ہے؟
حاجی حنیف طیب:
اتحاد امت کے لئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کی محترم ہستیوں کا احترام کیا جائے، شیعہ اور سنی میں اختلافات اتنے شدید نہیں کہ قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا جائے۔ اس کے لئے تمام مسلمان ایک دوسرے کی مساجد میں جائیں، ایک دوسرے کے پروگرامز میں شرکت کریں۔ سنی شیعوں کے اور شیعہ سنیوں کے پروگرامز میں شرکت کریں اس سے جہاں اتحاد اور بھائی چارے کو فروغ ملے گا وہاں اگر کوئی ایک دوسرے کے خلاف بولتا ہے تو ظاہر ہے مخالف فرقے کے افراد کی موجودگی میں نہیں بولے گا۔ تکفیری سوچ کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی۔ علما بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ علما اپنے اپنے پیروکاروں کو بھائی چارے اور برداشت کا درس دیں۔ اس سے بھی بہتری آئے گی۔ "اپنا عقیدہ چھوڑو نہ دوسرے کا عقیدہ چھیڑو نہ" کی پالیسی پر عمل درآمد کیا جائے تو ملک میں مثالی امن قائم ہو سکتا ہے۔ مذہبی قوتیں متحد ہو گئیں تو ملک میں انقلاب آ جائے گا۔ آپ نے دیکھا کہ اپنے ذاتی مفاد کے لئے سیاسی قوتیں پیپلز پارٹی اور نون لیگ ایک ہو سکتی ہیں تو اسلام کے مفاد کے لئے دینی قوتیں ایک نہیں ہو سکتیں؟ دینی رہنماؤں کو اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔ اس وقت ملک نازک ترین صورت حال سے دوچار ہے۔ ایسے میں ہر فرد کو انفرادی طور پر سوچنا ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 462814
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش