0
Tuesday 26 May 2015 02:19

نواز حکومت مخلص ہوتی تو گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دیکر ایم ڈبلیو ایم کو اپنے حق میں دستبردار کراتی، شیخ زاہدی

نواز حکومت مخلص ہوتی تو گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دیکر ایم ڈبلیو ایم کو اپنے حق میں دستبردار کراتی، شیخ زاہدی
علامہ شیخ زاہد حسین زاہدی کا تعلق اسکردو کرسمہ تھنگ سے ہے اور ان کا شمار اسکردو کے جید، مبارز اور انقلابی علماء کرام میں ہوتا ہے۔ انہوں نے دینی تعلیم حوزہ علمیہ قم سے حاصل کی ہے۔ قم سے فارغ ہونے کے بعد وہ لاہور میں امام جمعہ کی حیثیت سے خدمات بھی سرانجام دے چکے ہیں۔ اسکردو میں تمام انقلابی تحریکوں کے ساتھ ان کی وابستگی مضبوط بنیادوں پر استوار ہے۔ وہ انجمن امامیہ بلتستان کے سابق سیکرٹری تعلیم بھی رہ چکے ہیں اور اس وقت مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی انتخابات میں وہ ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے حلقہ1 اسکردو کے امیدوار بھی ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے گلگت بلتستان کی سیاسی صورتحال پر انٹرویو کیا ہے، جو اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی انتخابات آئینی ہے اور کیا اس میں شفافیت کا امکان موجود ہے۔؟
شیخ زاہد حسین زاہدی:
اس وقت گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہونے کو ہیں، لیکن وفاقی جماعت کے فارمولے کے مطابق یہ انتخابات بھی غیر قانونی اور غیر آئینی ہیں کیونکہ وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا ہوا ہے وہ شرمناک ہے، جو جماعت گلگت بلتستان کو آئینی حصہ سمجھنے کے لئے تیار نہیں، وہ کس آئین کے تحت نگران وزیراعلٰی اور الیکشن کمشنر کا تقرر کرسکتی ہے۔ نگران وزیراعلٰی اور الیکشن کمشنر دونوں کی تعیناتی غیر قانونی ہے، کیونکہ انکے مطابق گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ ہی نہیں، جو خطہ پاکستان کا حصہ ہی نہیں وہاں کے انتخابات کو منظم کرنا کیا آئینی ہے؟ یہ تھی وفاقی حکومت کی رائے جبکہ میری رائے ہے کہ گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ تھا، ہے اور رہے گا۔ پاکستان کی ان وفاقی جماعتوں کو یہاں الیکشن کرانے کا حق ہے، جو اسے پاکستان کا حصہ سمجھیں۔ جہاں تک شفافیت کا تعلق ہے، دیکھیں! الیکشن کمشنر یکسر جانبدار ہے اور شفاف الیکشن کے انعقاد کے لیے غیر جانبدار الیکشن کمشنر ضروری ہے، اسی طرح نگران حکومت بھی نواز شریف پروف ہے، گورنر بھی انکا اپنا کارکن، ایسی صورتحال میں آپ خود بتائیں کہ ایسا ممکن ہے کہ شفاف انتخابات ہوں۔ لگتا ہے وفاقی حکومت سنگینوں کے سائے میں زبردستی نگران حکومت قائم کرنا چاہتی ہے اور آئندہ حکومت بھی جبر اور طاقت کی بنیاد پر بنانا چاہتی ہے، ہم اس طالبانی سوچ کو کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے، مسلم لیگ نون جمہوری مزاج سے یکسر ناواقف ہے بلکہ انہوں نے بادشاہت قائم کر رکھی ہے، جس کی مثال گلگت بلتستان میں یمن کے مسئلے پر گلگت کے ایم ڈبلیو ایم کے رہنماوں پر دہشتگردی کی دفعہ لگانا ہے۔ ان تمام چیزوں کے باوجود ہم الیکشن میں راہ فرار اختیار نہیں کریں گے اور آخری دم تک مقابلہ کریں گے۔
 
اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان میں حالیہ دنوں میں پولنگ اسٹیشنز میں کمی کی جا رہی ہے، کیا یہ عمل درست ہے اور حلقہ نمبر1  سے آپکے تحریک انصاف کے حق میں دستبرار ہونے کی خبروں میں کس حد تک صداقت ہے۔؟
شیخ زاہد حسین زاہدی:
بلتستان کے مختلف حلقوں میں پولنگ اسٹیشنز کو بڑھانے کی بجائے کم کرنا پری پول رگنگ کا حصہ اور انتظامیہ کی بدنیتی ہے۔ بلتستان کے تمام حلقوں میں پولنگ اسٹیشنز کا اضافہ نہ کیا گیا تو احتجاج کرنے پر مجبور ہونگے۔ انتخابات میں حصہ لینا یہاں کی عوام کا جمہوری حق ہے، اس حق رائے دہی کو چھیننا ناانصافی اور مسلم لیگ نواز کی ملک بھر کے عام انتخابات کی طرح گلگت بلتستان کے انتخابات میں بھی پنکچر لگانے کی سازش ہے، جسے کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ مسلم لیگ شکست کے خوف سے غیر جمہوری ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔ بلتستان میں کسی بھی حلقے میں سیٹ ایجسمنٹ نہیں ہوئی، بالخصوص حلقہ نمبر1 اسکردو میں کسی بھی جماعت کے حق میں نہیں بیٹھا جا رہا، انشاءاللہ انتخابات میں بھرپور حصہ لیا جائے گا اور کامیابی مجلس وحدت کو ہی ملے گی۔

اسلام ٹائمز: نواز حکومت پاک چین اقتصادی راہداری کے ذریعے گلگت بلتستان میں معاشی انقلاب لانے اور جی بی کو ترقی دینے کی خواہاں ہے اور یقیناً اقتصادی راہدی سے جی بی میں معاشی تبدیلی آئی گی، اس بارے میں آپ کیا کہیں گے۔؟
شیخ زاہدی حسین زاہدی:
نواز لیگ گلگت بلتستان میں اپنی تجارت کو توسیع دینے اور یہاں کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتی ہے، اگر نواز لیگ گلگت بلتستان کے عوام سے مخلص ہوتی تو اکنامک کوریڈور کو حویلیاں منتقل کرنے کی پلاننگ نہیں کرتی۔ اکنامک کوریڈور کو حویلیاں منتقل کرنے کی کوشش یہاں کے عوام کا معاشی قتل اور عوام پر ظلم ہے، جسے کسی صورت کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔ اکنامک کوریڈور کو گلگت بلتستان سے حویلیاں منتقل کرنے کی کوشش کے بعد مسلم لیگ نواز کی نیت عوام پر واضح ہوگئی ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام ہوشیار رہیں، اگر گلگت بلتستان کو چھوڑ کر حویلیاں میں نواز شریف اپنے خاندان کو نوازنے کی کوشش کی تو بھرپور طاقت کا اظہار کیا جائے گا۔ ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ اکنامک کوریڈور کا حویلیاں سے کیا تعلق ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کی صورت میں گلگت بلتستان میں معاشی انقلاب آسکتا ہے، لیکن اس معاشی انقلاب کو حویلیاں اور جاتی عمرہ لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جسے کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ حکمران جماعت یہاں کے وسائل پر پہلے کی طرح قبضہ چاہتی ہے۔ میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ نواز حکومت جی بی سے بلکل مخلص نہیں، اگر نواز لیگ مخلص ہوتی تو ہماری قیادت کی اس آفر کو تسلیم کرکے گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دے دیتی۔ ہماری قیادت نے کھلے دل کے ساتھ نواز لیگ کو آفر دی تھی کہ اگر نواز شریف گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دے دیتے ہیں، گلگت بلتستان کو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں نمائندگی دیتے ہیں، این ایف سی ایوارڈ میں شامل کرتے ہیں، تو یقیناً ہم پورے گلگت بلتستان میں انکے حق میں دستبردار ہونے کیلئے تیار ہیں، لیکن ہمیں یقین ہے کہ وہ ایسا نہیں کرسکتے۔

اسلام ٹائمز: آپکی جماعت پر مسلم لیگ نواز کے صوبائی عہدیداران بالخصوص حفیظ الرحمان کیجانب سے فرقہ وارانہ جماعت ہونے کا الزام ہے، اور کیا یہ درست ہے کہ آپکی جماعت کی سرگرمیوں کے سبب خطے میں فرقہ واریت کو ہوا ملی ہے۔؟
شیخ زاہد حسین زاہدی:
ایک جماعت ایسی ہے جو فرقہ واریت کے خلاف بیانات دے، انکے چہرے سے نہ ضیاءالحق کی باقیات ہونے کا داغ دھل سکتا ہے اور نہ ہی وہ افسوسناک تاریخ دب سکتی ہے، جس کی وجہ سے ملک میں فرقہ واریت کو ہوا ملی۔ پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کس کی عاقبت نااندیشی کا نتیجہ تھا یہ دنیا جانتی ہے، میں تفصیلات میں جانا نہیں چاہتا۔ آپ مجھے بتائیں کہ افغانستان کی جنگ میں وارد ہو کر طالبان جیسی ریاستی دشمن طاقت کو پنپنے کا موقع کس نے دیا اور یہ کس کی کوشش تھی کہ افغانستان کی تاریخ کو دہراتے ہوئے یمن کی جنگ میں فریق بن کر پاکستان کی فوج کو دھکیلنے کی کوشش کرے۔ تاریخ سے واضح ہے کہ کونسی جماعت فرقہ وارانہ سوچ رکھتی ہے اور کون وحدت کے حقیقی داعی ہیں۔ خدا کا شکر ہے ہم نے پاکستان کی سرزمین پر دہشتگردوں کے خلاف نظریاتی محاذ پہ سپہ سالار کا کردار ادا کیا، وہ ہم ہی تھے جنہوں نے دہشتگردوں کیساتھ مذاکرات کو شیطان سے مذاکرات قرار دیا، وہ ہم ہی تھے جنہوں نے دہشتگردوں کی نظریاتی پشت پناہی کرنے والی جماعتوں کو بے نقاب کرکے رکھ دیا، وہ ہم ہی تھے جنہوں نے ملک میں اقلیتوں کو بھی اپنے ساتھ لے کر مظلوموں کے حقوق کی جنگ لڑی ہے۔ ہم نے تمام مکاتب فکر کو متحد کرنے کا عزم کر رکھا ہے، جس سے دہشتگرد جماعتوں کو بڑی تکلیف ہو رہی ہے۔ ہم نے پاکستان آرمی کی دہشتگردی کے خلاف جنگ کو اخلاقی پشت پناہی کرنی ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر کرنی ہے، ہم دہشتگردی کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والے فوجیوں کو شہدائے اسلام سمجھتے ہیں اور وطن عزیز کی فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے اور انہیں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کرنے سے روکنے والوں کو مجرم سمجھتے ہیں۔ ہمارا ماضی اور حال کھلی کتاب کی مانند ہے، جس میں مادر وطن سے غداری نہیں۔ ہماری زندگی کی کتاب کا ورق ورق قربانی اور حب الوطنی سے بھرپور ہے اور انہی اہداف کی خاطر ہم نے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپکے اپنے حلقے میں آپکی پوزیشن کیسی ہے۔؟
شیخ زاہد حسین زاہدی:
الحمداللہ ہماری پوزیشن مضبوط ہے اور اللہ نے چاہا تو کامیابی بھی ملے گی۔

اسلام ٹائمز: اسلامی تحریک کے رہنماوں سے جب آپکی جماعت سے اتحاد کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین چھوٹی جماعت ہے، اس سے اتحاد ممکن نہیں، اسکے بارے میں آپکی کیا رائے ہے۔؟
شیخ زاہد حسین زاہدی:
میں تحریک کے رہنماوں کو اپنا بڑا بھائی سمجھتا ہوں، انہوں نے ہمیں چھوٹا بھائی کہا ہوگا یا یہ بیان اخبارات میں توڑ موڑ کے آیا ہوگا، کیونکہ مذہبی جماعتوں کے رہنماء ایسے نہیں کہتے جس کا مجھے یقین ہے۔ جہاں تک اتحاد کا تعلق ہے ہماری خواہش ہے کہ اتحاد کی کوئی صورت نکلے، بالاخر وہ ہمارے بھائی ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آپکی جماعت انتخابات میں مذہب، ولایت فقیہ، عمامہ اور عبا کی بنیاد پر کمپین چلا رہی ہے یا کوئی اور طریقہ ہے۔؟
شیخ زاہد حسین زاہدی:
دیکھیں! خدا شاہد ہے کہ ہم مذہبی بلیک میلنگ کے ہرگز قائل نہیں، اگر میں عالم کے لباس میں ہوں تو کیا عالم کو سیاست میں آنے کا حق نہیں؟ اسی طرح فرقہ وارانہ بنیادوں پر ووٹ بٹورنا غیر جمہوری اقدار ہے، ہم جہاں جہاں جاتے ہیں ہم کہتے ہیں کہ ہمارا عمامہ دیکھ کے ووٹ مت دو، یہ دیکھو کونسی جماعت غریبوں کے حقوق کی جنگ لڑنے والی جماعت ہے، کونسی جماعت کی کارکردگی سب سے اچھی ہے اور کس جماعت میں عوامی خدمت کرنے کی صلاحیت ہے۔ میں یہان تک کہتا ہوں کہ سابقہ ماضی، حال، دینی تعلیم، دنیوی تعلیم، ڈیلیور کرنے کی صلاحیت اور قائدانہ صلاحیت کے اعتبار سے اگر مجلس وحدت مسلمین کے نمائندوں سے بہتر کوئی جماعت ہو اور جماعت کا نمائندہ ہو تو ووٹ انکا حق ہے انکو دیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 463086
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش