0
Wednesday 9 Dec 2015 23:10
داعش اور طالبان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، جنکے پیچھے امریکا، اسرائیل، سعودی عرب، مغربی ممالک ہیں

دہشتگردی کے خاتمے اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کی راہ میں خود حکومت رکاوٹ ہے، محمد ثروت اعجاز قادری

فرقہ وارانہ، سیاسی و معاشی دہشتگردی کے خاتمے کیلئے فوج کو 245 کے تحت اختیارات دیئے جائیں
دہشتگردی کے خاتمے اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کی راہ میں خود حکومت رکاوٹ ہے، محمد ثروت اعجاز قادری
جس وقت پاکستان میں اہلسنت (بریلوی) مسلک کی مساجد پر قبضوں کا سلسلہ شروع ہوا اور عقائد اہلسنت کو مسخ کرنے کی ناپاک سازشیں جنم لینے لگیں تو ایسے حالات میں بانی و قائد سنی تحریک محمد سلیم قادری شہید نے 1990ء میں رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو سنی تحریک کی بنیاد رکھی اور 1990ء سے 1998ء تک بطور سربراہ سنی تحریک عوام اہلسنت کی خدمت کی۔ انکی شہادت کے بعد محمد عباس قادری کو سربراہ سنی تحریک منتخب کیا۔ 11 اپریل 2006ء کے روز جشن عید میلاد النبی (ص) بارہ ربیع الاول کے موقع پر کالعدم لشکر جھگوی و کالعدم سپاہ صحابہ کی جانب سے دہشت گردانہ کارروائی کے نتیجے میں نشتر پارک میں ہونے والے بم دھماکے میں متعدد جید علمائے اہلسنت اور سنی تحریک کے مرکزی عہدیداران سمیت محمد عباس قادری کی شہادت کے بعد محمد ثروت اعجاز قادری کو سنی تحریک پاکستان کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ وہ 2006ء سے لیکر تا حال اس عہدے پر اپنی ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ ”اسلام ٹائمز“ نے دہشتگردی کے خاتمے، نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد، کراچی میں بلدیاتی انتخابات، داعش سمیت مختلف موضوعات پر محمد ثروت اعجاز قادری کے ساتھ کراچی میں قائم پاکستان سنی تحریک کے مرکزی دفتر "مرکز اہلسنت" میں ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: کراچی میں ہونیوالے بلدیاتی انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ نے واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کر لی ہے، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
محمد ثروت اعجاز قادری: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلدیاتی انتخابات جیتنے کے بعد ایم کیو ایم کو اپنا تشخص بہتر بنانے کا موقع ملا ہے، کیونکہ اگر ایم کیو ایم کو بغیر ہتھیار، گولی، تشدد کے یہ سب کچھ مل سکتا ہے تو انہیں کیا ضرورت ہے کہ دہشتگردوں کا استعمال کرکے دہشتگردی کے ذریعے یہ سب حاصل کریں، لہٰذا ایم کیو ایم کو جائز طریقے سے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عوام کی خدمت کرنی چاہیئے، شہر کے مسائل حل کرنے چاہیئے، جن لوگوں نے ان پر اعتماد کیا ہے، اس پر پورا اترنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ عوام آج تک بنیادی سہولیات سے محروم ہے، لہٰذا اب شہر کے عوام کے مسائل حل ہونے چاہیئے، اب عوام کی آزمائش کا سلسلہ ختم ہونا چاہیئے، عوام کو ریلیف ملنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: ایم کیو ایم نے تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ میئر کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے، پھر کیسے عوام کو ریلیف دینے کیلئے کام کیا جا سکتا ہے۔؟
محمد ثروت اعجاز قادری:
میئر کے پاس اختیار نہیں ہونگے، آپ چار سال بعد بھی یہی کہہ رہے ہونگے، تو مجھے بتائیں کہ اس میں عوام کا کیا قصور ہے۔ اربوں روپے اس الیکشن پر خرچ ہوچکے ہیں، اس کا کیا فائدہ ہوگا، پھر کیسے تبدیلی آئے گی، لیکن ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے کہا ہے کہ جو بھی میئر بنے گا، ہم اس کے بااختیار ہونے کیلئے ایک تحریک چلائیں گے، جدوجہد کرینگے، تاکہ اس میئر کو اختیارات حاصل ہوسکیں، اگر یہ ممکن ہوگا تو بہتری ہوگی، کیونکہ اس ملک کی بہتری کیلئے اب ہمیں سنجیدگی کے ساتھ سوچنا ہوگا، بہتری کیلئے مل کر اقدامات کرنے ہونگے۔

اسلام ٹائمز: کہا جا رہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات سے چند ماہ پہلے ایم کیو ایم کے خلاف ہم آہنگی کے ساتھ آپریشن کا آغاز کیا گیا اور پھر الیکشن کے روز متحدہ کے قائد الطاف حسین کے خلاف پاکستان میں ایف آئی آر درج کرا دی گئی، تاکہ ایم کیو ایم جو مہاجر قوم یا اردو بولنے والوں میں اپنی ساکھ کھو رہی تھی، اسے بحال کیا جاسکے اور اسے مہاجر قوم کا ہمدردی کا ووٹ مل سکے، اس حوالے سے آپکی نگاہ کیا کہتی ہے۔؟
محمد ثروت اعجاز قادری:
اس وقت صرف کراچی نہیں بلکہ چاروں صوبوں میں ہی سلسلہ نظر آ رہا ہے، کسی نے بلوچستان کا کارڈ کھیلا ہے، کسی نے سندھ کارڈ کھیلا ہے، کسی نے پنجابی، کسی نے پشتون کارڈ کھیلا ہے، سب کارڈز کھیل رہے ہیں، نہیں پتہ کہ کب پاکستان ایک فیڈریشن بنے گا، ایک قوم، ایک ملت بنے گا، قائد و بانی پاکستان نے اسے ایک ملت بنایا تھا، رنگ و نسل، ذات پات کا کہیں مسئلہ نہیں تھا، آپ نے اپنے سوال میں جس طرف اشارہ کیا ہے، اس حوالے سے ہمیں تھوڑا انتظار کرنا ہوگا، تمام چیزیں سامنے آجائیں گی۔ ایک حلقہ تو یہ بھی کہہ رہا ہے کہ ایک بہت بڑا آپریشن ہونے جا رہا ہے، انتخابات میں سب کو آزادی حاصل تھی، حکومتی نظام نچلی سطح تک بن گیا ہے، اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی کہ کل جب آپریشن کے دوران بڑوں پر ہاتھ ڈالا جائیگا تو کوئی یہ نہیں کہہ سکے کہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جمہوریت کی بساط لپیٹی جا رہی ہے، لہٰذا اب ضروری ہوگیا ہے کہ ملک کو بچانے کیلئے، ملکی ترقی کیلئے کرپٹ عناصر، اربوں روپے کے قرضے معاف کرانے والے لوگ، دہشتگرد عناصر، بھتہ خور عناصر، ٹارگٹ کلرز، معاش دہشتگردی کرنے والے لوگ، رشوت خور عناصر، ان سب کے خلاف بلاامتیاز اور بے رحمانہ آپریشن کرکے ان کی بیخ کنی کی جائے۔ اللہ تعالٰی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو طول عمر عطا فرمائے، انہوں نے دہشتگردوں کے خلاف عملی اقدامات کا آغاز کیا ہے، جو کام جمہوری لوگوں کو کرنا چاہیئے تھا، وہ کام انہوں نے کیا، خالی قوانین و آئین بنانے سے کچھ نہیں ہوتا، جب تک اس پر عمل درآمد نہیں کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کیجانب سے تاحال رینجرز کیلئے خصوصی اختیارات میں توسیع نہیں کی گئی، اس معاملے کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
محمد ثروت اعجاز قادری:
میں سمجھتا ہوں کہ رینجرز کو خصوصی اختیارات میں توسیع مل جائے گی۔ دیر ہونے کی وجہ ہوسکتا ہے کہ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری مسئلہ ہو، شاید ڈاکٹر عاصم کو اس حوالے سے ریلیف مل جائے۔ کراچی میں رینجرز آپریشن میں ہزاروں لوگ گرفتار کئے گئے، مگر کتنے لوگوں کو سزائیں ہوئیں، لیکن ان سب کے باوجود سب تسلیم کرتے ہیں کہ اس وقت کراچی سے تقریباً 80 فیصد دہشتگردی کا خاتمہ ہوچکا ہے، اب یہ حقیقی ہے یا مصنوعی، یہ آنے والا وقت بتائے گا، مگر رینجرز کے خصوصی اختیارات کی توسیع کے معاملے پر سیاست ہو رہی ہے، ایک آرڈر دینے کیلئے اب دبئی سے فیصلے ہونے کا انتظار ہو رہا ہے۔ ہماراموقف یہ ہے کہ دہشتگرد اور کرپٹ عناصر کا تعلق کسی سے بھی ہو، ہر ایک کے خلاف بلاامتیاز آپریشن ہونا چاہیئے، کارروائی ہونی چاہیئے، کسی کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ بات کر رہے ہیں دہشتگرد عناصر کے خاتمے کی، لیکن پاکستان میں ہونیوالے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں کالعدم دہشتگرد تنظیموں نے نام بدل کر ناصرف کھلے عام حصہ لیا، جمہوریت کی دعویدار جماعتوں نے انکے ساتھ مشترکہ امیدوار کھڑے کئے اور کالعدم تنظیمیں بڑی تعداد میں اپنے نمائندے بھی منتخب کرانے میں کامیاب ہوگئیں، اس صورتحال میں دہشتگردی کے خاتمے کیلئے بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان پر موثر عمل درآمد کیسے ممکن ہوسکے گا۔؟
محمد ثروت اعجاز قادری:
جب حکومتی ادارے ناکام ہوجائیں، فعالیت ختم ہوجائے، جب وہ اپنی ذمہ داری نہ نبھائیں، تو کالعدم دہشتگرد تنظیموں کا نام بدل کر راہ حق پارٹی کے نام سے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کو کون روکے گا، دوسری جانب کالعدم دہشتگرد تنظیموں کے ساتھ جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) جیسی قومی سیاسی جماعتوں نے اتحاد کئے، جو انتہائی افسوسناک ہے۔ دوسری جانب آپ اور ہم تو حقیقت سے واقف ہیں، تو کیا ہمارے ادارے کالعدم دہشتگرد تنظیموں کے نام بدل کر انتخابات میں حصہ لینے سے واقف نہیں، کیا ہمارے اداروں کو نہیں پتہ کہ نیول بیس، جی ایچ کیو، دیگر سول و عسکری اداروں، عوام پر پر حملہ آور کون ہیں، سب پتہ ہے، لیکن شاید ہمارے ادارے فیصلہ نہیں کر پا رہے، یہی وجہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے شاید صرف ایک نکتے پر عمل ہو رہا ہے، جس پر پاک فوج عمل کر رہی ہے، باقی انیس نکات بھی تو اور ہیں۔ خدانخواستہ اگر نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد ناکام ہوا، تو اس سے جمہوریت، حکومت، سیاسی جماعتوں، پاک فوج کا تشخص کس مقام پر ہوگا، ہمیں یہ سنجیدگی کا ساتھ سوچنا ہوگا۔ آپ نے سوال کیا کہ کالعدم دہشتگرد تنظیموں کے نمائندے منتخب ہونے سے نیشنل ایکشن پلان پر کیا حرف آئیگا، تو پہلے یہ بتائیں کہ نیشنل ایکشن پلان ہے کدھر، کہاں اس پر عمل درآمد ہو رہا ہے کہ جو اس پر حرف آئیگا، کراچی میں چار پانچ ہزار افراد گرفتار ہیں، کتنوں کو سزائیں ہوئیں، اور جن دہشتگردوں کو اگر سزائے موت ہوئی بھی ہیں تو انہیں فوجی عدالتوں سے ہوئی ہیں، عام عدالتیں سے کتنوں کو سزائیں مل رہی ہیں۔ لہٰذا اس وقت انتہائی سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، کیونکہ جس طرح دہشتگرد آپ کی جان لیتے ہوئے نہیں سوچتے، تو آپ کیوں سوچتے ہو ان دہشتگردوں کو سزائیں دیتے ہوئے۔ لیکن آپ کی مصلحت آڑے آجاتی ہے، جھنگ سمیت پنجاب کے بہت سے شہر ہیں، جہاں دہشتگرد عناصر کھلے عام فعال ہیں، جنہیں دنیا دہشتگرد کہہ رہی ہے، جن کے دہشتگردی کے مراکز قائم ہیں، جنہیں آپ اور ہم سب جانتے ہیں، ہر پاکستانی جانتا ہے کہ جھنگ میں کون بیٹھا ہے، بہاولپور میں کون بیٹھا ہے، رحیم یار خان میں کون ہے، یہ سرائیکی پٹی پر کون کون سے دہشتگرد عناصر ہیں، مدارس کے نام پر کن کے دہشتگردی کے مراکز ہیں، کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، گلگت بلتستان میں دہشتگرد عناصر کی موجودگی سب کے سامنے ہے۔

اسلام ٹائمز: نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشتگردی کے خلاف جاری آپریشن کے مستقبل کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟
محمد ثروت اعجاز قادری:
ہم یہ کہتے ہیں نیشنل ایکشن پلان کے جن انیس نکات پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے، ان پر بھی مکمل عمل درآمد ہونا چاہیئے اور پورے پاکستان میں ہونا چاہیئے، تعصب کی بات نہیں کر رہا، لیکن پنجاب میں آپریشن کا آغاز کیوں نہیں ہو رہا، آپ کو پاکستان مخالف صوفی محمد اور اس جیسے دیگر دہشتگرد نظر کیوں نہیں آرہے، کالعدم دہشتگرد تنظیموں کے سہولت کار پوری آزادی سے اسلام آباد میں گھوم رہے ہیں، ان کے خلاف قانون حرکت میں کیوں نہیں آرہا ہے، اس قسم کے واقعات دہشتگردی کے خلاف آپریشن پر سوال ہونگے، اسلام آباد میں کھلے عام جلسے کرنے والے، جلوس نکالنے والے لال مسجد کے مولوی عبدالعزیز اور انکے ساتھیوں کو کیوں گرفتار نہیں کیا جا رہا ہے، داعش اور طالبان کی دہشتگردی کی مذمت نہ کرنے والے، ان کے حمائتی ہیں، انہیں کیوں گرفتار نہیں کر رہے، بہرحال اسلام و ملک دشمن دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کو ہر حال میں کامیاب بنانا ہوگا، ہمارے اداروں کو سوچنا ہوگا، ایسے خارجی دہشتگرد عناصر کا خاتمہ کرنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: دہشتگردوں کیخلاف کارروائی اور انکے خاتمے کی راہ میں کون مانع ہے۔؟
محمد ثروت اعجاز قادری: دہشتگردوں کیلئے دراصل حکومت کی ہمدردی ہے، حکومت مصلحت کا شکار ہے، دہشتگردی کے خاتمے اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کی راہ میں حکومت مانع ہے، فوج کی طرف سے یہ اعتراض بجا ہے کہ ہم دہشتگردوں کو گرفتار کرتے ہیں، لیکن انہیں کیسز صحیح طرح سے نہیں چلنے کی وجہ سے سزائیں نہیں ہو رہیں، تو ہماری گرفتاری کا تو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا، ہمارا بھی تشخص خراب ہو رہا ہے، بہرحال ہمارا مطالبہ ہے کہ دہشتگرد عناصر، انکے سرپرست، سہولت کاروں کے خلاف آپریشن کا دائرہ پورے ملک میں پھیلایا جائے، نام بدل کر کام کرنے والی کالعدم دہشتگرد تنظیموں اور انکے عہدیداران و کارکنان کی فعالیت پر پابندی لگائی جائے، صوفی محمد، مولوی عبدالعزیز کو فی الفور گرفتار کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے کہا کہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے نیشنل ایکشن پر عمل درآمد کی راہ میں حکومت رکاوٹ ہے، تو پھر کیا حل ہے۔؟
محمد ثروت اعجاز قادری:
اس کا حل یہ ہے کہ جب آپ ملک میں الیکشن لڑنے کیلئے 245 لگا سکتے ہیں، تو دہشتگردی کے خاتمے کیلئے کیوں نہیں لگا سکتے، اسلام آباد میں دھرنوں کے دوران آپ نے 245 لگا کر اسلام آباد کو فوج کے حوالے کیا تھا نا، جبکہ وہاں صرف دھرنا ہی تو تھا، کوئی دہشتگردی تو نہیں ہو رہی تھی، گولیاں تو نہیں چل رہی تھیں، قتل و غارتگری تو نہیں ہو رہی تھی، لیکن آپ نے 245 لگا کر وہاں کے حالات کنٹرول کئے تھے نا، تو اب دہشتگردی کے خاتمے اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کیلئے 245 کیوں نہیں لگایا جاسکتا، لہٰذا اگر ملک سے فرقہ وارانہ دہشتگردی، سیاسی و معاشی دہشتگردی کا خاتمہ کرنا ہے کہ تو پاک فوج کو 245 کے تحت اختیارات دے دیئے جائیں۔

اسلام ٹائمز: شام، عراق سمت عالم اسلام میں داعش کی دہشتگردی کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
محمد ثروت اعجاز قادری:
داعش موجودہ زمانے کے خارجی ہیں، وہی خارجی جنہیں حضور اکرم (ص) نے جہنم کے کتے کہا ہے، داعش ہو یا طالبان، یہ سب ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، سب کو معلوم ہے کہ ان کے پیچھے کون ہے، امریکہ، اسرائیل، سعودی عرب، مغربی ممالک ہیں، کوئی مالی سپورٹ کر رہا ہے، کوئی عسکری سپورٹ کر رہا ہے، انہیں پالا جا رہا ہے، جس طرح طالبان کو پالا گیا تھا، اب داعش کو پالا جا رہا ہے، لیکن داعش کو پالنے والے ممالک بھگتیں گے، جس طرح فرانس بھگت رہا ہے۔ حال میں آپ نے دیکھا کہ ترکی پر الزامات عام ہیں کہ وہ داعش سے تیل خرید رہا ہے، بہرحال اگر داعش کو پالنے والے ممالک نے ہوش کے ناخن نہیں لئے، تو آنے والے وقت میں خود بھی چین سے نہیں رہ پائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 503940
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش