0
Friday 26 Feb 2016 16:53

اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی عملی شکل نظام ولایت فقیہ ہے، سید حسن رضا نقوی

اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی عملی شکل نظام ولایت فقیہ ہے، سید حسن رضا نقوی
سید حسن رضا نقوی ریسرچ اسکالر، مقرر، مصنف اور شاعر ہیں۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو عمر محقق نے حال ہی میں نہایت اہم موضوع ولایت فقیہ پر ایک عمدہ کتاب لکھی ہے، انہوں نے اپنی کتاب میں مذکورہ موضوع کے نظری، عملی، تاریخی، فقہی پہلووں پر بحث کرنے کے ساتھ ساتھ شیعہ فقہاء کی آراء کے علاوہ قائد اعظم محمد علی جناح اور اہلسنت دانشوروں کی ساسی آراء کا ناقدانہ جائزہ بھی لیا۔ سید حسن رضا نقوی کی اسلام ٹائمز کیساتھ خصوصی گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

اسلام ٹائمز: ہمارے پڑوس میں اسلامی نظام رائج اور قائم ہے، لیکن پاکستان میں کیوں نہیں ہوسکا، حالانکہ پاکستان بھی اسلامی نظریہ کی اساس پر قائم ہوا۔؟
سید حسن رضا نقوی:
دراصل اسلامی نظام کے چند عناصر پر مشتمل ہے، اس میں احکام اور قوانین بھی ہیں اور آداب بھی۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اسلامی عبادات اور احکامات کی بات تو کی ہے اور اسلامی نظام کی بات بھی کی ہے لیکن مکمل طور پر اس جد و جہد میں شریک لوگ ان سے متفق نہیں تھے۔ اسی لیے پاکستان میں اسلامی نظام نافذ نہیں ہو سکا۔ بڑی وجہ یہی ہے کہ جو لوگ قائد اعظم کیساتھ شریک تھے، وہ جزوی طور پر اسلامی عبادات اور احکامات کی حد تک مذہب کا تصور رکھتے تھے، لیکن بطور کلی اسلامی نظام کا نہ تصور رکھتے تھے اور نہ ہی اسلامی نظام کے نفاذ کے حامی تھے، اسوقت ایک الگ اور آزاد مملکت کی ضرورت محسوس کی گئی اور وہ قائم ہو گئی، قائد اعظم نے بھی براہ راست اسلامی نظام کے قیام کی بات نہیں کی اور زیادہ وضاحت نھی نہیں کر سکے۔ لیکن قا٪د اعظم نے یہ ضرور کہا کہ مغربی نظام معیثت ہمارے مسائل حل نہیں کر سکتا، بلکہ بنی نو انسان کی مشکلات کا حل اسلامی اصولوں میں ہے، اسی طرح مساوات، حریت جیسے اسلامی اصولوں پر بات ہوتی رہی۔ اسلام کے ذیلی نظاموں کی بات تو ہوتی رہی۔ لیکن بطور کلی اس پہلو پر زیادہ توجہ نہیں دی گی، ابھی اس پر کام کرنے کی ضرورت باقی ہے۔

اسلام ٹائمز: عملی طور پر کیا مشکل رہی کہ بانی پاکستان اسلامی نظام کو نہ رائج کر سکے اور نہ ہی اسکا واضح خاکہ پیش کرسکے۔؟
سید حسن رضا نقوی:
اس حوالے سے جیسا کہ پہلے بات ہوئی ہے کہ قائد اعظم نے جب بار بار اسلامی اصولوں کی بات کی تو مسلمانوں میں یہ رجحان پیدا ہو گیا، لیکن جو لوگ اس جد و جہد میں ان کے ساتھ تھے انہوں نے ایسا نہیں ہونے دیا، بالخصوص جب انہوں نے اسلامی نظام کے کلی نفاذ کی بات کی۔ دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ اسلامی نظام کو نافذ ہوئے چودہ سال کا عرصہ گزر چکا تھا اور عملی طور پر کسی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس زمانے میں کس طرح اسلام کو بطور نظام نافذ کیا جا سکتا ہے، محسوس طور پر ان کے پاس کوئی ماڈل بھی نہیں تھا۔ اس دور جو ملوکیت اور آمریت کی طرز پہ جو حکومتیں قائم رہی ہیں، انکے کھنڈرات پہ کس طرح اسلامی نظام کو کھڑا کیا جا سکتا ہے، اس طرح کے ابہام اور خدشات تھے جو اذہان میں پائے جاتے تھے۔ کیا وہ اس زمانے میں چل بھی سکے گی یا نہیں ، اسلامی حکومت عصر حاضر کے پیچیدہ مسائل کو حل کیسے کرے گی، اسلامی حکومت کا سربراہ کن خصوصیات کا حامل ہو گا، کیسا ہو گا، یہ حکومت دوسری حکومتوں سے کس طرح ممتاز ہو گی، اندرونی ابہام اور بیرونی طاقتوں نے اسی کمزوری سے فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں کو غیر اسلامی اور آمرانہ یا جمہوری نظام نافذ کرنے کے لیے دے دیا، بعد یہی ہوا، ان جزئیات پر قائد اعظم نے بھی کبھی وضاحت نہیں کی، مسلمانوں کے سامنے اسلامی نظام کا نقشہ واضح نہیں تھا۔

اسلام ٹائمز: اب تو اسلامی جمہوریہ ایران کا ماڈل موجود ہے، ولایت فقیہ متکب تشیع کا خاصہ ہے، پاکستان میں بھی اہل تشیع کی نمایاں تعداد موجود ہے، اسلامی نظام کو حقیقی صورت کیوں نہیں مل سکی۔؟
سید حسن رضا نقوی:
نظام اسلامی کے لیے ماحول کیوں ساز گار نہیں ہو سکا، اسکے مختلف مراحل ہیں، اسلامی تعلیمات اور نظام ولایت فقہیہ پہ حسب ضرورت کام نہیں ہوا، ولایت فقہیہ کی بات کریں تو یہ تاثر لیا جاتا ہے کہ یہ ایران نواز ہیں، حالانکہ ولایت فقہیہ کے موضوع کا تصور ہی اسکی تصدیق ہے، چنداں دلائل کی ضرورت نہیں، جس نے بھی اسلام کے احکامات و قوانین کو سمجھا ہو، وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ معاشرے کی بہتری کے لیے اسکی زمام کس کے ہاتھ ہونی چاہیے، کون اس کا اہل ہے، وہ خود بخود اس چیز کو قبول کرتا ہے کہ ایک ایسے اہل فرد کی ضرورت ہے کہ جو دشمن کے مقابلے میں ہماری اسلامی حیثیت کادفاع کر سکے۔ جو اسلامی جمہوریہ ایران کو ماڈل مانتے ہوئے پاکستان کا معاملہ ہے، اس میں ایک نکتہ مدنظر رہنا چاہیے کہ ہمارے پاس فارسی سے اردو میں تراجم آتے ہیں، علمی سرگرمیوں کیساتھ ساتھ وہاں ہماری نسبت اسلامی اقدار اور قوانین زیادہ رچے بسے ہوئے ہیں، فی الحال ہمارے پاس صرف انکی ترجمہ شدہ تعلیمات آئی ہیں۔ ترجمہ کرنیوالوں نے ولایت فقہیہ کیساتھ بھی ایسا ہی کیا ہے کہ اردو زبان کی طرح ہمارے اپنے ماحول میں صرف ولایت فقہیہ پہ بات ہو سکتی ہے، لیکن پاکستان میں اسکا عملی نفاز مشکل ہے۔ اسلامی جموہری ایران میں عملی طور پر ولی فقہیہ موجود ہیں، جو اسلامی قوانین کو جاری کرتے ہیں،لیکن پاکستان میں تو کوئی اسلامی حکومت کا ڈھانچہ نہیں، اس لیے یہاں صرف بات ہوتی ہے کہ اسلامی نظام اس اس طرح سے رائج ہو سکتا ہے۔ پھر یہ بھی غلط فہمی ہے کہ پاکستان میں موجود ڈھانچے میں کچھ اصلاحات کر کے اسلامی نظام نافذ ہو سکتا ہے، جو درست نہیں۔ سب سے پہلے نظریاتی طور پر یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر یہ اختیار کس کو ہے کہ وہ ولایت فقہیہ کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے آگے بڑھے۔ عوام کی خواہش بھی ہو کہ نظام اسلامی نافذ ہونا چاہیے تو یہ اختیار تو ان کے پاس نہیں، قیام کی صورت میں کون حادثات کا زمہ دار ہو گا۔ ایک فقہیہ یہ قدم اٹھاتے ہیں تو وہ اس کے ذمہ دار ہوتے ہیں، جیسا کہ امام خمینی نے متعدد بار یہ فرمایا کہ قیامت کے دن میں اسکا ذمہ دار ہوں۔ سب سے پہلی ذمہ داری علما کی ہے کہ وہ اسکی تشریح کریں، قیادت کریں۔ جیسا کہ امام حسین علیہ السلام نے خطبہ منیٰ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ داری علما پر ڈالی ہے۔ مملکت کا نظم و نسق، حدود و قوانین کا نفاذ علمائے الہیٰ کی ذمہ داری ہے۔

اسلام ٹائمز۔ آپکا مقصود یہ ہے کہ رہبریت سے پہلے مرجعیت کے نظام اور اس سطح کے علماء کی تیاری، پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کی شرط ہے۔؟
سید حسن رضا نقوی:
ہاں یہ ضروری ہے کہ علمی فضا بنے، اس علمی فضا میں علما تیار ہوں، جو اپنی ذمہ داری کو اس طرح سمجھیں کہ اسلامی نظام کس طرح نافذ ہوگا۔

اسلام ٹائمز: مستقبل میں نظام ولایت فقیہ کے حامل مکتب تشیع کے پیروکاروں کی کیا ترجیحات ہونی چاہیں، کہ ولایت فقیہ کے عملی نفاذ کی طرف قدم بڑھا سکیں۔؟
سید حسن رضا نقوی:
ملت تشیع کی موجودہ صورتحال ڈھکی چھپی نہیں ہے، ایک طرف امام خمینی کے نظام کو نافذ کرنے کی بات کرتے ہیں، ولایت فقہیہ کو استعارہ سمجھتے ہیں، دوسری طرف صورت حال یہ کہ ہمارے معاشرے میں لوگ یہی سوال لے کر بیٹھ جاتے ہیں کہ امام خمینی کو امام ہی کیوں کہتے ہیں، جیسے آپ نے امام خمینی کو تیرھواں امام بنا دیا ہو، اسکا مطلب یہ ہے کہ عوام کا شعور اور ذہنیت بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اسلامی تعلیمات اور اسلام کے اجتماعی نظام کے حوالے سے انہیں شعور دینے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے اسلامی معارف کے ذریعے لوگوں کے اذہان کو تبدیل کرنا ہو گا۔ فقط عوام کے جذبات کے سہارے نظام قائم نہیں ہو سکتا، چونکہ صرف اقتدار تک پہنچنا تو مقصد نہیں ہو سکتا۔ ایسی بہت ساری مثالیں ہیں کہ عوام کے جذبات کے ذریعے مطالبات ہی تسلیم کروائے جا سکتے ہیں، اسلامی نظام ممکن نہیں۔ امام خمینی نے بھی ایسا ہی کیا پہلے لوگوں کو شعور دیا، بعد میں انہیں اسوقت کی طاغوتی طاقتوں کیخلاف انقلاب برپا کیا، پہلے شعور دیا بعد ظالم نظام کیخلاف نفرت پیدا کی اور اسکے بعد عوام کو قیام کی دعوت دی۔ لوگ جب ذہنی اور قلبی طور پر اسلامی ںظام کو تسلیم کرتے ہیں تو تب اسلامی نطام نافذ ہو سکتا ہے۔ خود امام خمینی ے فرمایا کہ انقلاب کیسے برپا ہوا، ہم خود اٹھے، اسکے بعد اپنے ساتھ لوگوں کو قیام کے لیے کھڑا کیا اور اسکے بعد اس پر ڈٹ گئے۔ یہی مراحل ہو سکتے ہیں، کہ جو لوگ اسلامی ںظام کے قیام کے خواہشمند ہوں وہ خود سب سے پہلے حالت قیام میں ہوں، پھر دوسروں کو دعوت دیں، اور دوسروں کو ساتھ ملائیں اور پھر اس راستے میں استقامت دکھائیں۔ صرف یہ کافی نہیں کہ ایک مخصوص طبقہ یہ کہے کہ بس ہمیں اسلامی نظام سمجھ آگیا ہے تو ہم کافی ہیں، ضوری ہے کہ دوسرے لوگوں کو اس کا شعور دیں اور انہیں ساتھ ملا کر قیام کریں۔

اسلام ٹائمز۔ ان نکات کی روشنی میں شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی جدوجہد کو کس طرح بیان کریں گے۔؟
سید حسن رضا نقوی:
سیرت معصومین علہیم السلام میں بھی ہے کہ مختلف مراحل دیکھنے کو ملتے ہیں، یعنی بتدریج اور مرحلہ وار یہ جد و جہد جاری رہی ہے۔ وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے معاشرے میں اسلامی تعلیمات اور معارف کا بیان اور تبلیغ ہے۔ دوسرے مرحلے میں لوگوں کو اسلام کے اجتماعی نظام یعنی ولایت کی طرف راغب کرنا ہے، یہ بتانا کہ اسلام کے احکام و قوانین کی بجا آوری کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس نظام ولایت کو قائم کیا ہے، اس نطام امامت و ولایت کو، یہاں سے امت کی طرف سے سیاسی جد و جہد کا آغاز ہوتا ہے، اسکے امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اب لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ اسلام کے اجرا اور نفاذ کے لیے جس نظام کی ضرورت ہے، وہ میں خود ہوں، یعنی امام معصوم علیہ السلام، یہ ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ آئمہ علیہم السلام کے رشتہ دار بھی اس کے دعویٰ دار رہے ہیں کہ وہ امام ہیں۔ اسی طرح یہی مراحل کسی بھی قوم کو بیدار اور تیار کرنے کے ہو سکتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں اسلامی تعلیمات کو ان تک پہنچایا جائے، سیایسی جد و جہد بعد کا مرحلہ ہے، یہی ائمہ علہیم السلام کی سیرت ہے۔ جب شہید عارف حسین حسینی کی بات کرتے ہیں تو انہوں نے ایک مرحلے کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے ہم سیاسی شعور کو بیدار کریں، بعد میں اسلامی نظام اور اسلامی نظام کے نفاذ کی بات ہوسکتی ہے، شہید علامہ عارف حسین حسینی ، امام خمینی کی تعلیمات کی روشنی میں ہی پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کی خواہش رکھتے تھے۔ دشمن نے شروع ہی میں اس چیز کو بھانب لیا اور ابتدائی مراحل میں انہیں روکا گیا۔ شہید علامہ عارف حسین حسینی کی شہادت کے بعد بھی سیاسی شعور کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد بھی اختلاف اس میں نہیں تھا کہ اسلامی حکومت ہونی چاہیے یا نہیں، بلکہ مسئلہ یہ تھا کہ حکومت کا رئیس کون ہو گا۔ شہید علامہ عارف حسین حسینی کے دور میں اسی مرحلہ کا آغاز ہوا تھا کہ اس چیز کا شعور بیدار کیا جائے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کے لیے اسلامی نظام ضروری ہے۔ اسی لیے انہوں نے اسلامی حکومت کی صورت یا خود موجودہ نظام میں کس طرح، کیا کیا، ہو سکتا ہے، اس پر زیادہ وضاحت نہیں کی، البتہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ، جس کے وہ سربراہ تھے، اسکی سیاسی پالیسی کے طور پر وہ نکات بیان فرماتے رہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے کتاب میں ولایت فقیہ کے علاوہ بعض مسلمان دانشوروں کی سیاسی فکر کا جائزہ بھی لیا ہے، ان میں مولانا مودودی بھی شامل ہیں، مولانا مودودی اور امام خمینی کی فکر میں فرق کیا ہے۔؟
سید حسن رضا نقوی:
مولانا مودودی یہ سمجھتے تھے کہ اسلام کے نام پر جو بھی تبدیلی آئے، یا اسکا جو بھی ضابطہ اور راستہ ہو، اس میں سب سے پہلے رائے عامہ کو اپنے ساتھ ملائیں، اسکی اساس لازمی نہیں کہ دینی ہو، بلکہ لوگوں کے بنیادی مسائل جو موجود ہوتے ہیں، ان سے بھی استفادہ کر سکتے ہیں۔ جبکہ امام خمینی کی نظر میں اسلامی تعلیمات کی بنیاد پہ لوگوں کا قیام کے لیے آمادہ ہونا ضروری ہے۔

اسلام ٹائمز: یہ فرمائیں کہ آپ نے اہلسنت رہنما علامہ عنایت اللہ مشرقی کے سیاسی افکار کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ انکی فکر امام خمینی کی فکر کے زیادہ قریب تھی، اسکی وضاحت فرما دیں۔؟
سید حسن رضا نقوی:
علامہ عنایت اللہ مشرقی اور امام خمینی کی فکر میں مختلف چیزوں میں فرق بھی ہے، لیکن ایک نکتہ ملتا بھی ہے۔ امام خمینی نے اسلامی نظام کے قیام کے لیے جو راہیں اختیار کی ہیں، وہ بھی ان سے اتفاق رکھتے ہیں۔ فقیہہ اور عالم کی حکومت سے متعلق علامہ عنایت اللہ مشرقی اور امام خمینی کے نظریات بہت قریب قریب ہیں۔ جس طرح ولایت فقہیہ کے نظام میں ولی فقہیہ اختیارات رکھتے ہیں، اسی طرح علامہ مشرقی بھی یہ کہتے ہیں کہ ایک عالم کو بااختیار ہونا چاہیے، اور وہ اپنی بصیرت پر عمل کرے نہ کہ لوگوں کی، یا رائے عامہ کے مطابق چلے۔ وہ مکمل طور پر تصرف کر سکتا ہے۔ دنیا اس کو غلط سمجھ رہی ہے کہ سپریم لیڈر منتخب صدر کو ہٹا سکتے ہیں، تو یہ اختیارات کا ارتکاز ٹھیک نہیں، یہ ایک اہم اصول کے مطابق ہے۔ عوام کی رائے اگر غلط آئی ہے تو وہ اس پر نظرثانی کریں، ریفرنڈم دوبارہ کر لیں۔ علامہ مشرقی بھی یہ کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ لوگوں کو بعض حقائق معلوم نہ ہوں یا وہ بے خبر ہوں، تو یہ اختیار صاحب رائے عالم کو ہونا چاہیے کہ وہ فیصلہ کرے۔ عالم یہ اختیار رکھتا ہے کہ وہ عوام کی رائے کو رد کر سکتا ہے، دوبارہ انہیں کہہ سکتا ہے، اسکو درست کریں۔

اسلام ٹائمز: آپ نے ولایت فقیہ پہ کتاب لکھی ہے، یہ ایک دینی موضوع ہے، آپ یونیورسٹی کے طالب علم ہیں، آپ نے کس کی رہنمائی میں اسے انجام دیا؟
سید حسن رضا نقوی:
میں تو اپنے آپ کو مصنف نہیں سمجھتا، اسلامی انقلاب کو جب عملی طور پر قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو اس سے مجھے حوصلہ ملا۔ ولایت فقہیہ کی اساس پر وہاں موجود حکومت کی کشش تھی، جس سے مجھے اس کام کو مکمل کرنے جرات بخشی۔ یہ خواہش اس لیے بھی پیدا ہوئی کہ نوجوان نسل اس سے بہتر طور پر آشنا ہو سکے۔ جب میں نے ابتدا کی تو علامہ سید جواد نقوی نے بھی میری اس سلسلہ میں رہنمائی کی۔
خبر کا کوڈ : 523728
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش