0
Friday 22 Apr 2016 19:50
احتساب سب کا ہونا چاہیے، حکومت کرنا جنرل راحیل شریف کے بس میں نہیں ہے

نواز شریف کے بیرون ملک اثاثے لے جانے کا میں خود شاہد ہوں، ان الزامات کی نفی کرنا مناسب نہیں، جاوید ہاشمی

1993ء میں نواز شریف کو بیرون ملک اثاثے نہ لے جانے کا مشورہ دینے کی سزا آج تک بھگت رہا ہوں
نواز شریف کے بیرون ملک اثاثے لے جانے کا میں خود شاہد ہوں، ان الزامات کی نفی کرنا مناسب نہیں، جاوید ہاشمی
مخدوم جاوید ہاشمی یکم جنوری 1948ء کو ملتان میں پیدا ہوئے۔ وہ پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی صدر کے عہدے سے مستعفی ہوئے ہیں۔ مخدوم جاوید ہاشمی کو نواز لیگ چھوڑ کر تحریک انصاف جوائن کرنے پر پی ٹی آئی کا مرکزی صدر نامزد کیا گیا تھا، تاہم قیادت کے ساتھ اختلافات پر انہوں نے تحریک انصاف کو خیر باد کہہ دیا۔ جاوید ہاشمی وفاقی وزیر صحت، وفاقی وزیر یوتھ افیئر بھی رہے ہیں۔ 1999ء میں پرویز مشرف کے شب خون کے بعد جاوید ہاشمی نے نواز لیگ کو سنبھالے رکھا۔ سیاسی بنیادوں پر جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی۔ جاوید ہاشمی نے عام انتخابات میں شیخ رشید کو شکست دی اور رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ جاوید ہاشمی نے اپنے تنظیمی کیریئر کا آغاز زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے کیا، بعد ازاں سیاسی میدان میں قدم رکھا اور خود کو بہترین سیاست دان ثابت کیا۔ اسلام ٹائمز نے پانامہ لیکس، جنرل راحیل شریف کے احتساب کے عمل اور اپوزیشن کے کردار کے حوالے سے ان سے ایک نشست کی، جس کا احوال اپنے قارئین کے لئے پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: ملک کی موجودہ صورتحال کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟ طرح طرح کی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔؟
مخدوم جاوید ہاشمی:
ملک کے حالات اتنے مایوس کن نہیں ہیں جتنا کہا جا رہا ہے، لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ کسی بھی دور میں آئین پر عملدرآمد نہیں کیا گیا، ایوب خان کے دور میں اقتدار سپیکر کے بجائے یحیٰی خان کو دیا گیا، ذوالفقار علی بھٹو نے یقیناً ملک کو ایک متفقہ آئین دیا لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہوا اور بنیادی انسانی حقوق معطل کرکے ایمرجنسی لگا دی گئی، اس حوالے سے ذوالفقار علی بھٹو کی خدمات مسلمہ ہیں، لیکن جب ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا تو اُس نے اسے کاغذ کا ٹکڑا کہا۔ نواز شریف کی اگرچہ خواہش رہی ہے کہ وہ آئین پر عمل کریں لیکن اگر آج بھی آئین پر عملدرآمد شروع ہو جائے تو خوف کے سائے ختم ہوسکتے ہیں، ہمارے ملک کے سیاستدان اپنے لئے مسائل خود کھڑے کرتے ہیں، اگر یہ کرپشن اور مال بنانے سے دور رہیں تو جہاں ملک خوشحال ہوگا، وہیں یہ حکمران بھی محفوظ رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: بعض تجزیہ نگار پاک فوج کے کردار کو بار بار دہرا رہے ہیں، کیا پاکستان میں واقعی جمہوریت کو خطرہ کوئی ہے؟
مخدوم جاوید ہاشمی:
جنرل راحیل شریف کو یقیناً وطن سے محبت ہے اور وہ ہر مشکل گھڑی میں ایک بہادر سپاہی کی طرح کام کرتے ہیں، لیکن اگر راحیل شریف کو حکومت دے دیں تو یہ ان کے بس کی بات نہیں۔ اصل میں سیاستدان اپنی اہمیت کو نہیں سمجھتے، یہی وجہ ہے کہ حالات خراب دکھائی دیتے ہیں، ایوب خان، یحیٰی خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف احتساب کی بات کرتے رہے، لیکن وہ احتساب نہیں کر سکے، ابھی فوج احتساب نہیں کرسکے گی اور نہ ہی مارشل لاء لگایا جاسکے گا، گذشتہ تین چار برسوں میں پاکستان کی سیاسی قیادت اور پارلیمنٹ نے مایوس کیا اور ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل نہیں کیا، احتساب سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔

اسلام ٹائمز: پانامہ لیکس کے مسئلے کو کیسے سلجھایا جا سکتا ہے۔؟
مخدوم جاوید ہاشمی:
اگر نواز شریف پر پانامہ لیکس کا الزام عائد ہوا ہے تو اُنہیں اس کا سامنا کرنا چاہیے تھا، جب انسان اپنے احتساب کی بجائے دائیں بائیں کی مارے گا تو شکوک و شبہات پیدا ہوں گے، آئندہ دس دن حکومت کے لئے انتہائی اہم ہیں، حکومت کو اپوزیشن کے متفقہ فیصلہ کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، اپوزیشن جماعتوں نے جس طرح حاضر سروس سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں کمیشن کا تقاضا ہے، اسے فوری قبول کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد کرانا چاہیے تھا۔ چونکہ یہ مسئلہ قوم اور ملک کا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو اپنے آپ کو شفاف احتساب کے لئے پیش کرنا چاہیے۔ البتہ رحمٰن ملک کا بیان سن کر قوم ہنسی کے سوا کچھ نہیں کہہ رہی، جو کوئی کرپشن میں ملوث ہے، اسے جواب دینا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: پنجاب کے صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے کہا تھا کہ پنجاب میں کوئی نوگو ایریا یا ریڈ زون نہیں ہے، لیکن چھوٹو گینگ کیخلاف 23 روزہ آپریشن اور اس میں پولیس کی بُری طرح ناکامی کو کس طرح سے دیکھتے ہیں۔؟
مخدوم جاوید ہاشمی:
چھوٹو گینگ کا معاملہ ایک ایس ایچ او اور ایک کانسٹیبل حل کرسکتے تھے، لیکن اسے اس قدر آگے بڑھایا گیا کہ سیاستدان ناکام رہے۔ میں پھر کہتا ہوں کہ اس کی وجہ آئین پر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔ چھوٹو (غلام رسول) ایک آلہ کار ہے وڈیروں، جاگیرداروں اور رسہ گیروں کا۔ میں سجھتا ہوں کہ غلام رسول کو زندہ گرفتار کر لیا گیا ہے، اب اس سے تفتیش کی جائے اور اس کے پشت پناہوں کے خلاف کارروائی کی جائے، جنوبی پنجاب کے علاقوں میں سیاستدان اور زمیندار اس طرح کے لوگوں کو پالتے ہیں اور اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ یہ معاملہ ایک ایس ایچ او اور کانسٹیبل حل کرسکتا تھا، لیکن صوبائی انتظامیہ نے انتہائی لاپرواہی کا مظاہرہ کیا، جس کے نتیجے میں 7 اہلکار شہید ہوئے۔

اسلام ٹائمز: پانامہ لیکس کے حوالے سے جو انکشافات کئے گئے ہیں، حکومتی اراکین کیجانب سے انکی نفی کی جا رہی ہے۔؟
مخدوم جاوید ہاشمی:
میں نے 1993ء میں نواز شریف سے کہا تھا کہ آپ اپنے اثاثے باہر نہ لے جائیں اور سرمایہ اپنے ملک میں رکھیں، میں آج تک اس سچ بولنے کی سزا بھگت رہا ہوں، ان الزامات کی نفی کرنا نامناسب ہے، میں اس رقم کا خود شاہد ہوں۔ حکومت کی ذمہ داری ہے اور جن جن پر یہ الزامات عائد کئے گئے ہیں، اُنہیں رضا کارانہ طور پر اپنے اثاثے ظاہر کرنے چاہیں، بیرون ملک منتقل ہونے والے اگر اڑھائی سو ارب ڈالر ملک میں واپس آجائیں تو ملک بجلی، گیس اور دیگر بحرانوں سے نکل سکتا ہے، یہی تو وجہ ہے کہ ہم نے آئین کو بنایا، عمل کرنے کے لئے نہیں بلکہ توڑنے کے لئے۔ اس وقت ہمارا ملک جن بحرانوں کا شکار ہے، اس میں ملک کے اشرافیہ کا بڑا کردار ہے۔ اگر یہ اشرافیہ اپنا مال غیر ملک منتقل کرنے کی بجائے پاکستان میں لگائیں تو اس ملک کی خوشحالی کی مثالیں زبان زدعام ہوں گی۔

اسلام ٹائمز: آپ نے قومی اسمبلی کی نشست سے استعفٰی کسی دبائو میں دیا، کسی لالچ میں آ کر۔؟
مخدوم جاوید ہاشمی:
میں نے پارلیمنٹ کے تحفظ کے لئے استعفٰی دیا، اگر استعفٰی نہ دیتا تو آدھے گھنٹے بعد سپریم کورٹ اسمبلیاں توڑ دیتی۔ میرے استعفٰی پر نواز شریف بھی ناراض ہوئے، لیکن ان کو بھی اصل حقیقت کا علم نہیں تھا۔ میرے بارے میں لوگ کہتے رہے کہ نواز شریف کے کہنے پر یہ استعفٰی دیا گیا ہے، عمران خان کے دھرنے کو ناکام بنانے کے لئے استعفٰی دیا گیا، لیکن میرے استعفٰی کا مقصد ان سے الگ تھا، مجھے ملک کی جمہوریت سے پیار ہے اور اسی جمہوریت اور جمہوری رویوں کو پروان چڑھانے کے لئے اپنی سیٹ سے استعفٰی دیا۔
خبر کا کوڈ : 534710
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش