0
Tuesday 22 Nov 2016 22:01
مرثیہ کرب کا بیان ہے، مگر اب صرف امام حسین (ع) سے منسوب ہے

نواب کربلاء کے کرب کا زیادہ ذکر مرثیہ میں ملتا ہے، جمیل ترابی

ظہور جارچوی، وحیدالحسن ہاشمی، سبط جعفر زیدی کے بعد مرثیہ کا میدان خالی نظر آتا ہے
نواب کربلاء کے کرب کا زیادہ ذکر مرثیہ میں ملتا ہے، جمیل ترابی
جناب جمیل اثر ترابی مشہور و معروف مرثیہ خواں ہیں، ایام عزا میں منبر حسینی سے خانوادہ رسول خدا کا ذکر مصائب، شاعری کی مخصوص صنف مرثیہ کی صورت میں بیان کرتے ہیں۔ جمیل اثر ترابی معروف شاعر اثر ترابی کے بیٹے اور مشہور و نامور مرثیہ نگار و مرثیہ خوان فیروز کربلائی کے پوتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ’’مرثیہ‘‘ کے موضوع پر جمیل اثر ترابی کیساتھ جو گفتگو کی ہے، قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: مرثیہ کیا ہے۔؟
جمیل اثر ترابی:
مرثیہ سے مراد وہ صنفِ شعر ہے، جس میں حضرت امام حسین (ع) کے خاندان اور اصحاب و انصار پر کربلا اور کربلا کے بعد پیش آنے والے حالات واقعات (مصائب و آلام، کرب اور حسرت) کو بیان کیا جاتا ہے۔ اردو زبان میں مرثیہ نگاری کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کربلا کے کرب کا تفصیلی ذکر مرثیہ میں ہے۔ مرثیہ گوئی اور مرثیہ نگاری کا فن دنیا کے تمام ملکوں اور زبانوں میں موجود ہے۔ لفظ مرثیہ خود عربی کلمہ ’’رثا‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کا لغوی مطلب میت پر رونا ہے۔ اردو مرثیہ کی بات کریں تو نظر سب سے پہلے میر انیس پر ٹھہرتی ہے اور ان کے ذکر کے بغیر مرثیہ کی تاریخ نامکمل ہے۔

اسلام ٹائمز: اپنے خاندنی پس منظر کے بارے میں بتائیں۔؟
جمیل اثر ترابی:
میرے دادا فیروز علی کربلائی اور میرے والد اثر ترابی مرثیہ نگار تھے۔ ہمارے خاندان میں مرثیہ خوانی کی روایت سو سال سے زیادہ پرانی ہے۔ میرے دادا فیروز علی کربلائی مرثیہ خوانی اور شاعری میں ایک مستند نام جانا جاتا ہے، انہوں نے سوز خوانی کا آغاز کیا، مجھے ان کے زمانے کا ہلکا سا عکس یاد ہے، وہ اس رقت کیساتھ مرثیہ پڑھا کرتے تھے کہ ان کی داڑھی سے آنسو ٹپک رہے ہوتے تھے۔ لوگ ان سے پوچھا کرتے تھے کہ کربلائی صاحب اس کے بعد کہاں پڑھنا ہے؟ محبان حسین (ع) ان کا مرثیہ سننے کے لئے ریڑھوں اور سائیکلوں پر ان کے پیچھے پیچھے جایا کرتے تھے۔ میرے والد نے ابتداء میں عشق اور غزل وغیرہ پر لکھا، میرے دادا نے کربلا میں امام عالی مقام کے مزار اقدس پر جا کر دعا کی کہ میرے بیٹے کو یہ شرف عطا ہو کہ خاندان عصمت و طہارت کے بارے میں لکھا کرے، پھر ایسا شرف عطا ہوا کہ ان کے پچاس سے زیادہ مرثیے ہیں، جو ہم ہر سال پڑھتے ہیں۔ تو ہمارا خاندان ہی مرثیہ خوانی اور شاعری کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: مرثیہ خوانی کی تاریخ کے بارے میں بتائیں؟ اسکا آغاز کہاں سے ہوا اور یہ روایت برصغیر میں کب سے ہے۔؟
جمیل اثر ترابی:
مرثیہ نگاری کی روایت بہت قدیمی ہے، جب سانحہ کربلا برپا ہوا تو اس کے بعد آئمہ طاہرین نے بھی اپنے فرامین، خطبات، گفتگو میں اسی پہ بیان فرمایا اور مورخین نے اسے نثر میں لکھا تو شعراء نے اسے مرثیہ اور سلام اور قصیدہ میں بیان کیا۔ مرثیہ کو اصل میں اس لئے امام سے خاص نسبت ہوگئی کہ جن مورخین نے سانحہ کربلا کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا، جیسے کہ تاریخ میں بشیر ابن جذلم اور حمید ابن مسلم کا ذکر ملتا ہے، انہوں نے روایات بیان کیں، جو بعد میں قلم بند کی گئیں۔ ان روایات کو شعراء نے اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ مرثیہ کی صنف کو برصغیر میں میر ببر علی انیس اور مرزا دبیر نے عروج تک پہنچایا۔ یعنی پوری روایت کو ایک مرثیہ کی شکل میں بیان کیا جاتا تھا جو کہ مسدس کی شکل میں ہوتا ہے، یعنی چھ مصرعوں میں۔ مرثیہ نگاری میں کمال فن یہ ہے کہ ایک مرثیہ میں پوری روایت کو بیان کرنا۔ اگر میر انیس وغیرہ کے غیر مطبوعہ کلام کو دیکھیں تو اتنے اتنے طویل مرثیے موجود ہیں، جن کو پڑھنے کے لئے بھی ڈیڑھ سے دو گھنٹے درکار ہیں۔ مرثیہ اردو ادب کی ایسی صنف ہے جو کہ کسی پر بھی ہونے والے ظلم اور استبداد کی داستان بیان کرنے لئے لکھی جاتی ہے، لیکن اب مرثیہ صرف امام عالی مقام سے منسوب ہے، مرثیہ میں خاندان اہل بیت پر ہونے والے مظالم کو شاعرانہ انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: مرثیہ خوانی آپ نے کب شروع کی۔؟
جمیل اثر ترابی:
مرثیہ خوانی میں نے بہت کم عمری میں شروع کر دی تھی۔ دادا فیروز علی کربلائی کا دور تو میں نے نہیں دیکھا، لیکن اپنے تایا نذیر علی کربلائی کے ساتھ پسران فیروز علی کربلائی کے ساتھ پڑھنا شروع کیا۔ مجھے مرثیہ پڑھتے کم از کم پچیس سال کا عرصہ ہوچکا ہے، بعد ازاں میرا بیٹا بھی میرے ساتھ پڑھنے لگا ہے۔

اسلام ٹائمز: میر انیس اور مرزا دبیر کی شاعری کے بعد آنیوالے زمانے میں مرثیہ کے انداز میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں۔؟
جمیل اثر ترابی:
بالکل تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ مرثیوں کو مدنظر رکھیں تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سانحہ کربلا میر انیس اور مرزا دبیر کی روحوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، کیونکہ جس طرح روایات کو انہوں نے مرثیہ کی مسدس میں قلم بند کیا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی، یہ مرثیہ کے عروج کا زمانہ تھا، میر انیس اس ضمن میں کہا کرتے تھے کہ
مدت گذری ہے اس دشت کی سیاحی میں
پانچویں پشت ہے حضرت شبیر کی مداحی میں

ان کے اگر دیوان دیکھے جائیں تو 300 مسدس پر مبنی مرثیے بھی ملتے ہیں، جو کہ اتنے طویل ہیں جنھیں سننے کے لئے کئی گھنٹے درکار ہیں۔ ان میں ایک مرثیہ دہم کی اردو کی کتاب میں بچوں کو پڑھایا جاتا ہے۔ میدان کربلا میں گرمی کی شدت، جس کے صرف پانچ مسدس میں صرف گرمی کی شدت کا ذکر کیا گیا ہے۔ تو اس کے بعد برصغیر میں محرم کا اہم جزو مرثیہ شمار ہوتا تھا، مرثیے کے بغیر مجلس حسین (ع) نامکمل سمجھی جاتی تھی، لیکن آج کے زمانے میں اتنا وقت کسی کے پاس نہیں ہوتا۔ میرے والد مرحوم اثر ترابی نے وقت کی ضرورت کو سمجھا اور دریا کو کوزے میں بند کیا۔ بارہ سے پندرہ مسدس میں مرثیہ کو تمام کرتے ہوئے پوری روایت کو قلم بند کیا ہے، یہ ان کا خاص اسلوب تھا، اتنے مرثیے کو سننے یا پڑھنے کے لئے صرف دس سے پندرہ منٹ درکار ہوتے ہیں، جو کہ آج کی ضروریات کے عین مطابق ہے۔

اسلام ٹائمز: جب مرثیہ خوانی کی جا رہی ہوتی ہے، اسکا ایک خاص ادب ہوتا ہے، لاہور میں آپ ایسا کونسا مقام سمجھتے ہیں، جہاں آپکو پڑھنے کا لطف آتا ہے۔؟
جمیل اثر ترابی:
وہ جگہ امام بارگاہ گلستان زہرا (س) ایبٹ روڈ ہے، جہاں ہمیں پڑھنے کا بھی لطف آتا ہے اور سنانے کا بھی، خواہ وہاں چار افراد ہی کیوں نہ ہوں، خلیفہ حسن مہدی صاحب کی موجودگی میں مرثیہ خوانی کی قیمت ادا ہو جاتی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا یہ سننے والوں پر منحصر ہے یا ماحول کا اثر ہوتا ہے۔؟
جمیل اثر ترابی:
دیکھیں جی مرثیہ کا ایک اپنا تقدس ہوتا ہے، اب اس معیار کے سننے والے ختم ہوگئے ہیں۔ وجہ یہ کہ سننے والے بھی اب اس نظریئے سے نہیں سننے آتے، پھر کچھ بدنظمی بانیان مجالس کی جانب سے بھی ہوتی ہے کہ پہلے لنگر تقسیم کر دیا جاتا ہے، لوگ وہیں مجلس کے دوران کھانا پینا شروع کر دیتے ہیں۔ جس وجہ سے دھیان بٹ جاتا ہے اور پڑھنے والے کا پڑھنا بھی اکارت ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے میں نے کئی مقامات پر پڑھنا چھوڑ دیا۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ بانی خود ہمارے ساتھ بیٹھ کر مرثیہ سنا کرتے تھے، لیکن اب وہ محفل میں ہی موجود نہیں ہوتے۔ بے اعتنائی سے ادھر ادھر انتظامات میں مگن ہوتے ہیں۔ وقت کا حساب گن گن کر رکھا جاتا ہے، اب ہم پوری روایت کو کیسے پانچ منٹ میں بیان کرسکتے ہیں؟ لہذا چند ایسی باتیں ہیں، جن کا بانیان کو ملحوظ خاطر رکھنا بہت ضروری ہے۔ بعض جگہیں ایسی ہیں، جہاں پڑھنے کا روحانی لطف آتا ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں مر ثیہ خوانی یا مرثیہ نگاری کے حوالے سے کیا کہتے ہیں کہ آئندہ پاکستان میں مرثیہ کے فروغ کے امکانات روشن نظر آتے ہیں یا تاریک۔؟
جمیل اثر ترابی:
پاکستان میں مرثیہ پنپ نہیں رہا، اس میں شعراء کرام کا بھی قصور ہے، نہ ہی لکھ رہے ہیں اور نہ کسی کو شوق ہے، بشمول میں خود کہتا ہوں کہ ہم لوگ مرثیہ کے لئے کام نہیں کر رہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر میر تکلم جیسے نئے شاعر حضرات کوشش کریں، جو وہ نہیں کر رہے، ان کی شاعری میں نے پڑھی ہے، بہت اچھی ہے۔ ظہور جارچوی، وحید الحسن ہاشمی صاحب، اثر ترابی، استاد سبطِ جعفر زیدی کے بعد پاکستان میں مرثیہ کا میدان خالی نظر آتا ہے۔ اس کہ وجہ یہ کہ آج کے شعراء سلام کہہ رہے ہیں، نوحہ جات لکھے جا رہے ہیں کہ اس کی بڑی وجہ کام کا کمرشل ہو جانا ہے۔ کیونکہ نوحے پڑھ کر ہر سال البم تیار ہو جاتے ہیں اور دنیا بھر میں سنے جاتے ہیں، اگر نامور پڑھنے والا ہو تو اس کے ساتھ لکھنے والا بھی مشہور ہو جاتا ہے۔ یہ تو آجکل روایت بن چکی ہے کہ ایک شاعر کے ساتھ نوحہ خواں کی جوڑی بن چکی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا اس امر کی ضرورت نہیں محسوس کی جاتی کہ پاکستان میں بالخصوص لاہور میں مرثیہ خوانی اور مرثیہ نگاری سکھانے کا باقاعدہ کوئی ادارہ یا مرکز ہونا چاہیئے۔؟
جمیل اثر ترابی:
بات دراصل یہ کہ یہاں مرثیہ کو پنپنے نہیں دیا جا رہا ہے، کیونکہ مرثیہ میں ایک روایت کو بیان کرنے میں کم از کم پندرہ سے بیس منٹ درکار ہوتے ہیں۔ جب آپ کو بیٹھتے ساتھ ہی کہہ دیا جاتا ہے کہ آپ نے صرف پانچ منٹ پڑھنا ہے تو بتائیں اب پانچ منٹ میں کیا پڑھا جائے، پھر پڑھنے والا بھی کوئی بند ادھر سے پڑھے گا کوئی ادھر سے، اس طرح مضمون نہیں بن پاتا۔ بات یہی کہہ رہا ہوں کہ مرثیہ کو پنپنے کا موقع نہیں دیا جا رہا۔ میری بانیان مجالس سے درخواست ہے کہ آپ بے شک ایک مرثیہ خوان بلا لیں، جس کے بعد مجلس ہو، یہ بہتر ہے جہاں پانچ پڑھنے والے بلا لئے جاتے ہیں پھر آپ گھڑی دکھانا شروع کر دیتے ہیں، جس سے پڑھنے والا تذبذب کا شکار ہو جاتا ہے اور اپنی بات کو بیان نہیں کر پاتا۔

اسلام ٹائمز: اردو ادب میں سوگواری سے متعلق مرثیہ نگاری اور نوحہ کے علاوہ دیگر کونسی اصناف پائی جاتیں ہیں۔؟
جمیل اثر ترابی:
مرثیہ مسدس پر مشتمل شاعری کا نام ہے، جو کہ منسوب ہے حضرت امام عالی مقام (ع) سے، جبکہ نوحے میں بھی مصائب بیان کئے جاتے ہیں، اس کے علاوہ سوز و سلام میں بھی مصائب کے اشعار ہوتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاعری میں سب سے مشکل صنف نوحہ ہے، کیونکہ مرثیہ میں تو چھ سطروں میں اپنی بات کی جاتی ہے، جبکہ نوحے میں صرف ایک مصرعے میں بات بتانا ہوتی ہے۔

اسلام ٹائمز: جو کوئی مرثیہ پڑھنے کا شوق رکھتا ہے، اسکو آپ کیا خاص تجویز دیں گے۔؟
جمیل اثر ترابی:
مرثیہ خوانی ایک ایسا فن ہے جو کہ سیکھنا کوئی مشکل نہیں ہے، یہ ایک ہی Tune پر پڑھا جاتا ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ بانیان مجلس کو چاہیئے کہ نئے پڑھنے والوں کو جگہ دینی چاہیئے، ان کو موقع ملنا چاہئے۔ اگر ہم نے ان کا شوق ہی مار دیا تو ان کی حوصلہ افزائی نہیں ہوگی تو اس طرف کوئی نہیں آئے گا۔ پہلے پہل چھوٹے غلام علی صاحب، بشیر علی ماہی صاحب، استاد امانت علی خان صاحب پڑھا کرتے تھے، سوز خوانی کا ایک تقدس تھا۔ لوگوں کا ہجوم ہوا کرتا تھا، وہ تقدس اب کم ہوگیا ہے۔ باقی میں کہوں گا کہ یہ فن سیکھنا بہت آسان ہے، اس کو ایک ہی ردھم میں پڑھا جاتا ہے۔ یہ تب فروغ پائے گا، جب لوگ خود اس کی اہمیت کو سمجھیں گے، کیونکہ یہ رواج بن گیا کہ مرثیہ صرف محرم میں پڑھا جاتا ہے، ورنہ سارا سال خاموشی سے گذر جاتا ہے۔
غمِ سبط پیغمبر میں جو گریہ ہوگئیں
حشر میں آنکھیں میری بخشش کا سامان ہوگئیں
خبر کا کوڈ : 585854
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش