0
Thursday 1 Dec 2016 15:06
سعودی عرب نے میرے والد صاحب کو "مجاہد اسلام" کا خطاب دیا تھا

امریکہ خطے میں بڑی دہشتگردی کا منصوبہ رکھتا ہے، عبداللہ گل

پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں آئی ایس آئی نے اہم کردار ادا کیا
امریکہ خطے میں بڑی دہشتگردی کا منصوبہ رکھتا ہے، عبداللہ گل
عبداللہ گل "تحریک جوانان پاکستان و کشمیر" کے چیئرمین ہیں، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل کے فرزند ہیں۔ کہتے ہیں جنرل حمید گل کی وفات کے بعد اُنکے مشن کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ تحریک آزادی کشمیر کے بھرپور حامی ہیں۔ دفاع پاکستان کونسل میں بھی شامل ہیں۔ کہتے ہیں میرے والد نے جہاد کیلئے پاکستان میں نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں اور میں بھی انہی کے مشن کو آگے بڑھاؤں گا۔ "اسلام ٹائمز" نے جنرل حمید گل کی خدمات، موجودہ ملکی سیاسی صورتحال اور کشمیر سمیت دیگر قومی امور پر ان کیساتھ گفتگو کی، جو اپنے قارئین کیلئے پیش کی جا رہی ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: نئے آرمی چیف کو کن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑیگا اور کیا نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے پاکستان پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔؟
عبداللہ گل:
نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو متعدد چیلنجز درپیش ہیں۔ اول، افغانستان میں حالات بدل رہے ہیں، ہمیں اپنی خارجہ پالیسی ڈونلڈ ٹرمپ یا امریکہ کے مطابق نہیں بلکہ فوجی لحاظ سے متعین کرنا ہوگی۔ امریکہ کا اصل مسئلہ گرم پانی تک رسائی ہے، اس لئے وہ ہماری فوج کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوششوں میں ہے۔ دہشتگردی سب سے بڑا مسئلہ ہے، باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت مسائل کھڑے کئے جا رہے ہیں، تاکہ نئے آرمی چیف کی توجہ دہشتگردی کی روک تھام اور اہم ایشوز سے ہٹ جائے۔ سمندری حدود میں بحری جہازوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور امریکہ اس خطے میں بڑی دہشتگردی کا منصوبہ رکھتا ہے۔ جس کیلئے افغانستان میں اپنی من مانیاں کر رہا ہے، بھارت اور امریکہ کے خفیہ عزائم یہی ہیں کہ پاک فوج کو اس قدر الجھا دیا جائے کہ وہ کشمیر پر توجہ نہ دے سکے۔ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا کردار لائق تحسین ہے۔ دوسری بات یہ کہ نہ تو بش نے ہمیں کچھ دیا نہ ریگن نے، نہ ہی اوباما نے اور نہ ہی ٹرمپ سے توقعات رکھنی چاہیں، کیونکہ وہ تو وہی کریں گے جو ان کے پیشرو کرتے چلے آ رہے ہیں۔ امریکہ کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ خطے میں امن قائم ہو، وہ دراصل پاکستان کو دباؤ میں رکھنا چاہتا ہے۔

اسلام ٹائمز: جنرل حمید گل نے افغانستان سے
روس کو نکالا اور اسکے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں بھی کہا جاتا ہے انہیں کی محنت شامل تھی، کیا آپ سمجھتے ہیں اسوقت افغان جنگ کی صورتحال تبدیل ہوچکی ہے۔؟؟
عبداللہ گل:
سعودی عرب نے میرے والد صاحب کو "مجاہد اسلام" کا خطاب دیا تھا۔ میرے والد نے پاکستان کا وقار بلند کیا۔ صلاح الدین ایوبی کے 400 سال بعد حمید گل مسلمانوں کو ایسے رہنما ملے، جنہوں نے افغان قوم کو متحد کیا۔ آج دیکھیں کہ کل تک متحد ہو کر روس کے ٹکڑے کرنیوالے اب کئی گروپوں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔ اُس زمانے میں پاکستان ایٹمی قوت تھا، نہ ہی اس کی دفاعی پوزیشن اتنی مضبوط تھی۔ معیشت بھی دگرگوں تھی، کیونکہ اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے صنعتوں کو قومیا لیا تھا۔ ضیاء الحق نے جنرل صاحب پر اعتماد کرتے ہوئے افغان امور انہیں سونپ دیئے تھے۔ جنرل صاحب کم عمر ترین جنرل تھے۔ آئی ایس آئی کے فور سٹار جنرل اختر عبدالرحمان کی جگہ ٹو سٹار جنرل بنایا گیا۔ جب بہاولپور کے فضائی سانحہ میں جنرل ضیاء الحق سمیت پاک فوج کی اعلٰی قیادت جاں بحق ہوگئی تو ایسے مشکل حالات میں جنرل صاحب نے تن تنہا کام کیا۔ وہ چاہتے تو جمہوریت کی بساط لپیٹ سکتے تھے، لیکن انہوں نے جمہوریت کو پٹڑی پر لانے میں اہم کردار ادا کیا اور بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں۔ روس نے گرم پانیوں تک رسائی کیلئے افغانستان پر چڑھائی کی تھی، لیکن جنرل حمید گل نے بہترین حکمت عملی سے روس کو عبرتناک شکست دی۔ گوریلا جنگ لڑی گئی اور پاکستان اس محاذ پر سرخرو ہوا، روس کو 16 ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ 6 اسلامی ممالک دنیا کے نقشے پر وجود میں آئے۔ 10 نئے اور ملک بنے۔ اس سلسلے میں وسطی ایشیائی ممالک پاکستان کے آج بھی شکر گزار ہیں۔ حالانکہ جنرل صاحب صرف 2 سال اور 2 ماہ آئی ایس آئی کے سربراہ رہے۔ لیکن اتنے کم عرصے میں انہوں نے پاک فوج کا مورال بلند کیا۔

1989ء میں کشمیر کی آزادی کی تحریک کو دوبارہ زندہ کیا گیا، بلکہ بھارت تو اپنے سیون سسٹر ممالک میں بھی آزادی کی تحریکوں کا ذمہ دار جنرل حمید گل کو ہی ٹھہراتا ہے جبکہ اس دور میں انڈیا، بنگلہ دیش، بھوٹان، نیپال میں پھنسا ہوا تھا۔ جنرل صاحب نے کشمیر
ایشو کو اجاگر کیا کیونکہ اصل مقصد کشمیر کی آزادی ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں آئی ایس آئی کا اہم رول ہے۔ روسی بٹالین جب چاہتیں افغانستان پر حملے کر دیتی تھیں۔ دہشتگردی کروائی جاتی تھی، تاہم ان کا سب سے بڑا کارنامہ دینی و سیاسی جماعتوں کو یکجا کرکے آئی جے آئی تشکیل دینا ہے۔ دو پارٹی نظام بنایا، دائیں اور بائیں بازو کو فروغ دیا، مگر افسوس جنرل صاحب کی رحلت کے بعد افغان جنگ کی صورتحال بدل چکی ہے۔ روس کیخلاف لڑنے والوں کو دشمن بنا دیا گیا ہے۔ پاکستان کو افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کرنا ہوگی۔ اس دور میں جارج بش سینیئر امریکہ کا صدر تھا، اس نے کہا تھا کہ آئی ایس آئی کے پر کاٹ دو، باقاعدہ جنرل حمید گل کی شکل میں اس کا ایک پر کاٹ دیا گیا، جس کی وجہ سے کشمیر پالیسی کو نقصان پہنچا۔ افغانستان میں بھی تاحال امن قائم نہیں ہوسکا۔ جنرل حمید گل نے آئی ایس آئی کو نمبر ون بنا دیا، حالانکہ اس وقت روس کی انٹیلی جنس پہلے نمبر پر تھی۔ جب دیوار برلن ٹوٹی تو اس کا ایک ٹکڑا جرمنی کی حکومت نے حمید گل صاحب کو تحفتاً بھیجا تھا، جس پر یہ الفاظ کنندہ ہیں کہ "دیوار برلن 1989ء ادب و احترام کیساتھ اس شخص کے نام جس نے اس دیوار پر پہلی ضرب لگائی۔" جب حمید گل کی وفات ہوئی تو کہا گیا تھا کہ دنیا کے پانچ بڑے دماغوں میں سے ایک چلا گیا۔ وسطی ایشیائی ریاستوں میں غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی گئی اور انہوں نے کہا کہ جنرل حمید گل کی وجہ سے ہماری مسجدیں محفوظ ہیں۔

اسلام ٹائمز: بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ایک جلسے میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جنرل حمید گل نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کیخلاف سازش کی تھی۔؟؟
عبداللہ گل:
بلاول کی والدہ میرے والد کی بہت عزت کرتی تھیں۔ مگر بلاول جواب دے کہ ان کے والد نے اپنے دور حکومت کے 5 سال میں اپنی بیوی کے قاتلوں کو کیوں نہیں پکڑا۔ میرے والد کی خدمات کی دنیا معترف ہے۔ اس لئے ان کیخلاف بات کرنے سے پہلے ذرا سوچ لیا کرے کہ کیا بول رہے ہیں، بلکہ جنرل حمید گل نے پیپلز پارٹی کی حکومت کیخلاف کوئی سازش نہیں کی۔ ان کی جمہوریت کیلئے خدمات قابل فخر
ہیں۔

اسلام ٹائمز: اب اپنی تنظیم کے حوالے سے بتائیں، وہ کس طرح نوجوانوں کیلئے کام کر رہی ہے۔؟
عبداللہ گل:
ہمارا اصل کام نوجوانوں کو اپنی اقدار سے آگاہ کرنا اور نوجوانوں کی کردار سازی پر توجہ دینا ہے۔ ہماری تحریک کا مقصد یہی ہے کہ ہماری نوجوان نسل اپنے فرائض سے روشناس ہو بلکہ سیاسی معاملات میں بھی دلچسپی لے۔ موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ ہمارا نوجوان طبقہ آگے بڑھے اور کل کا اقتدار ان کے ہاتھ میں ہو۔ اگر آپ مقبوضہ کشمیر میں بھی جائزہ لیں تو آزادی کیلئے زیادہ قربانیاں کشمیری نوجوان ہی دے رہے ہیں۔ برہان وانی کی شہادت اس کی روشن مثال ہے۔ دراصل ہماری سیاست مایوسیت کی طرف چلی گئی ہے۔ سیاست دان اپنے مقصد کیلئے ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تو یہ ہے کہ سورج وہ نہیں جو ان کے آنگن سے طلوع نہ ہو، لیکن ہم کشمیریوں بالخصوص نوجوانوں کو کشمیر کے جھنڈے تلے جمع کر رہے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ نوجوان قرآن سے رشتہ جوڑیں اور تفرقہ بازی میں نہ پڑیں۔ نوجوانوں کو اقبال کے صیح معنوں میں شاہین بن کر دکھانا ہوگا اور قائد اعظم کے رہنما اصولوں کی پیروی کرنا ہوگی، کیونکہ ہماری منزل اسلام ہے، اسلام آباد نہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا کشمیر کا مسئلہ مذاکرات سے حل ہوسکتا ہے۔؟؟
عبداللہ گل:
میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ کشمیر کو مذاکرات سے نہیں بلکہ آزادی کی جنگ لڑ کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے اور دشمن پر یہ واضح کرنا ہوگا کہ کشمیر ہمارا ہے۔ ہم اسے کسی صورت بھی بھارت کے قبضے میں نہیں رہنے دیں گے، یہ دشمن کو کھلے لفظوں میں بتانا ہوگا کہ ہم کشمیر پر ہزار سال تک جنگ لڑنے کیلئے تیار ہیں۔ کیونکہ ہمارا دشمن نہ ایران ہے اور نہ ہی چین اور نہ ہی افغانستان، ہمارا دشمن صرف اور صرف ہندوستان ہے۔ بھارت کے زیرتسلط کشمیر میں رہنے والے بھی ہمارے لوگ ہیں۔ وہ کمزور ہیں، انہیں ہماری ضرورت ہے، اس لئے لازم ہے کہ انہیں بھارت کے پنجہ استبداد سے نجات دلائی جائے۔ قائداعظم نے کشمیر کو شہ رگ قرار دیا تھا اور وہ دشمن کے قبضے میں ہے۔ اس کی آزادی کیلئے اگر ایٹمی جنگ بھی لڑنا پڑی تو ہماری حکومت کو پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ اگر
ہم اعلان کر دیں کہ ہم کشمیر کی آزادی کیلئے نیوکلیر جنگ لڑنے کیلئے تیار ہیں تو دنیا بھی ہمارا ساتھ دے گی، کیونکہ دنیا ہمیشہ طاقتوروں کا ساتھ دیتی ہے۔

اسلام ٹائمز: کشمیر کے مسئلے پر بھارت مسلسل اپنی روایتی ہٹ دھرمی پر قائم ہے، اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟؟
عبداللہ گل:
یہ درست ہے کہ کشمیر کے معاملے پر بھارت مسلسل روایتی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔ وہ کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ کشمیر اس کے ہاتھ سے نکل جائے۔ اس لئے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو کچلنے کیلئے وہ ہر حربہ استعمال کر رہا ہے۔ اس کا صرف فوجی حل ہی ممکن ہے، اخلاقی، سیاسی لحاظ سے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ کشمیریوں کا ساتھ دیں، وہاں کے نوجوان پاکستانی جھنڈوں کو اپنے جسموں پر لپیٹ کر اپنی جانیں دے رہے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب کشمیر کی آزادی کا خواب پورا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کشمیر کے حوالے سے ہماری خارجہ پالیسی واضح ہے یا نہیں۔؟؟
عبداللہ گل:
ہماری خارجہ پالیسی درست سمت پر گامزن نہیں۔ پاکستان کو اپنے خارجہ معاملات آزادنہ اور کشمیر کے معاملے کو مدنظر رکھ کر متعین کرنا ہوں گے۔ ہماری خارجہ پالیسی کی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ امریکہ کیا کہتا ہے، اسرائیل کیا چاہتا ہے، ہم سے کون ناراض ہے اور کون خوش۔ ہماری خارجہ پالیسی کا محور صرف کشمیر ہونا چاہیے اور اس حوالے سے بغیر حکمت عملی کے دنیا سے توقع رکھنا خام خیالی ہوگا۔ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے کشمیر کیلئے بروقت اقدامات نہیں اٹھائے، جبکہ کشمیر کے حوالے سے ہمارا موقف یہ ہونا چاہیے کہ ہم کشمیر کیلئے جان دے سکتے ہیں تو اس کیلئے جان لے بھی سکتے ہیں اور اسی اصول کو خارجہ پالیسی میں اپنانا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کیا مسئلہ کشمیر کے حل میں اقوام متحدہ کا کردار مایوس کن رہا ہے۔؟
عبداللہ گل:
اقوام متحدہ کا ادارہ اس کو دو ملکوں کو مسئلہ سمجھ کر مسلسل نظرانداز کر رہا ہے اور آج تک کشمیر کے حوالے سے عالمی ادارے کے پلیٹ فارم سے کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھائے گئے۔ سلامتی کونسل کی منظور کردہ قرارداد پر بھارت سے عمل نہ کرانا عالمی ادارے کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس غیر سنجیدگی کی سب سے بڑی وجہ ہمارا غیر سنجیدہ
رویہ ہے، کیوںکہ جب تک پاکستان کشمیر کی آزادی کیلئے سنجیدہ نہیں ہوگا، دنیا ہمیں یونہی نظرانداز کرتی رہے گی۔

اسلام ٹائمز: ایل او سی پر بلا اشتعال بھارتی فائرنگ اور شہری آبادی پر حملوں کا مقصد کیا ہے، کیا نریندر مودی ایک بڑی جنگ کا خواہشمند ہے۔؟؟
عبداللہ گل:
ایل او سی پر فائرنگ کا مقصد کشمیر میں جاری جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے دنیا کی توجہ ہٹانا ہے۔ اب شہری آبادی پر حملہ، مسافر بس اور ایمبولینس کو نشانہ بنا کر وہ کشمیر میں اٹھی تحریک کو دبانا چاہتا ہے۔ سویلین پر حملے کرنے کے علاوہ کوئی اور گھٹیا عمل نہیں ہوسکتا۔ دراصل بھارت کشمیر میں لوگوں پر ظلم کر رہا ہے۔ کشمیری آبادی کیخلاف جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ وہ ایک سازش کے تحت آبادی کا تناسب تبدیل کر رہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ سیاسی قیادت دھرنے، سوشل میڈیا پر انقلاب اور کرپشن کی سیاست اور اختلافات کے بجائے پاکستانی پرچموں کو کفن بنانے والے کشمیریوں کا سہارا اور بازو بن کر بھارت کو آئینہ دکھائے اور مسئلہ کشمیر کو مثبت سمت میں اجاگر کرے۔ ایل او سی پر فائرنگ کی مذمت کرتا ہوں، بھارت پاکستان کے امن کے پیغام کو کمزوری نہ سمجھے۔ اگر پاکستان نے بروقت اقدام نہ اٹھایا تو کشمیر بطور ایک آزاد ریاست تشکیل پا سکتا ہے اور کشمیر کی آزاد ریاست کا نعرہ صرف امریکہ کے حق میں ہوگا، یہ نہ بھارت کیساتھ رہے گا اور نہ اس کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہوگا، بلکہ الگ ہو جائے گا۔ امریکہ یہی چاہتا ہے کہ یہ الگ ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر آئے۔ ایسے وقت میں اقوام متحدہ یہ عذر پیش کرے گا کہ کشمیری پاکستان کیساتھ نہیں رہنا چاہتے اور یہ فتنہ روس سمیت چین کی جانب سے بھی کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان کشمیر کے حوالے سے اپنا فرض ایمانداری سے پورا کرے، کیوںکہ پاکستان کی فصلوں میں بھی کشمیریوں کا خون ملا ہوا ہے۔ صرف مسئلہ کشمیر صرف رسمی بات چیت تک محدود نہ ہو، کیونکہ بھارت مسلسل قانون کی خلاف ورزی کرکے سویلین کو نشانہ بنا رہا ہے اور ہمیں وقت کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے کشمیر کی آزادی کا برملا اعلان کرنا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 587748
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش