0
Thursday 9 Mar 2017 10:15
پاکستان میں ایسے بہت سے مدارس ہیں، جو دہشتگرد گروہوں کو پنیری فراہم کر رہے ہیں

شہید ڈاکٹر ان تمام نوجوانوں کیلئے معین راستہ ہیں، جو دنیا و آخرت میں سرخرو ہونا چاہتے ہیں، سید سرفراز حسین نقوی

انقلاب اسلامی برپا کرنا بہت بڑا کارنامہ تھا مگر اسے بطریق احسن محفوظ رکھنا اس سے بڑا کام ہے، جو کہ رہبر معظم نے انجام دیا
شہید ڈاکٹر ان تمام نوجوانوں کیلئے معین راستہ ہیں، جو دنیا و آخرت میں سرخرو ہونا چاہتے ہیں، سید سرفراز حسین نقوی
سید سرفراز حسین نقوی آئی ایس او کے دوسرے ایسے مرکزی صدر ہیں، جنہیں ایم ٹی ایم کا بھی مرکزی صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے، گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں اور فیصل آباد زرعی یونیورسٹی میں ایم فل مکمل کرچکے ہیں۔ 2009ء میں آئی ایس او میں شامل ہوئے، فیصل آباد یونیورسٹی، فیصل آباد ڈویژن کے صدر کی ذمہ داریاں سرانجام دی ہیں اور دو سال مرکزی نائب صدر کی ذمہ داری پہ فائز رہے ہیں۔ وسیع المطالعہ اور حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ امامیہ نوجوانوں میں ہردلعزیز ہیں، یونیورسٹیز اور فکری تربیت کو ترجیح قرار دیتے ہیں۔ بطور مرکزی صدر آئی ایس او انکی ترجیحات، شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور متحدہ قومی محاذ کے بارے میں اسلام ٹائمز کیساتھ انکی گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: اپنے تنظیمی سفر کے بارے میں آگاہ فرمائیں، مرکزی مسؤلیت سے پہلے کونسی ذمہ داریاں انجام دے چکے ہیں۔؟
مرکزی صدر:
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے ساتھ پہلا تعارف ہی ایگریکلچرل یونیورسٹی فیصل آباد سے ہوا۔ بنیادی طور پر یونیورسٹی میں آنے سے قبل آئی ایس او سے تعارف تو دور، میں نے آئی ایس او کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ یونیورسٹی میں آنے کے بعد پہلے تعارف ہوا، پھر تنظیم ہماری ہوئی اور ہم تنظیم کے ہوگئے۔ یونیورسٹی میں پہلے یونٹ سیکرٹری نشر و اشاعت، پھر یونٹ نائب صدر، پھر ڈویژنل نائب صدر اور پھر ڈویژنل صدر کی ذمہ داریاں انجام دینے کا موقع ملا۔ اس کے بعد مرکز میں آئے اور پھر مرکزی نائب صدر اور بعد ازاں مرکزی صدر کی ذمہ داریاں انجام دے رہا ہوں۔

اسلام ٹائمز: جس وقت مرکزی صدر منتخب ہوئے، اسوقت کونسے تعلیمی ادارے میں کونسا تعلیمی سال چل رہا تھا۔؟
مرکزی صدر:
میں نے ایگریکلچر یونیورسٹی فیصل آباد سے ایم فل کیا، پھر اس کے بعد ابھی پنجاب یونیورسٹی میں ایک سالہ آئی آر کا کورس چل رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: تنظیم میں لانے کا سہرا کس کے سر سجاتے ہیں، کیا واقعہ پیش آیا تھا۔؟
مرکزی صدر:
بنیادی طور پر یونیورسٹی سے پہلے میرا آئی ایس او کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہاں تک کہ آئی ایس او کا نام تک بھی نہیں سنا تھا۔ یونیورسٹی میں آنے کے بعد کچھ دوستوں سے ملاقات ہوئی تو داخلہ کے بعد ابتدائی دنوں میں جب کلاسز کا آغاز ہوا تو ان دوستوں کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ پھر ہاسٹل کی الاٹمنٹ ایوب ہال میں ہوئی تو دوستوں نے بتایا کہ ایوب ہال میں کچھ شیعہ نوجوان ہیں تو ان کی آپ سے ملاقات کرا دیتا ہوں۔ میرے لئے وہاں کے کچھ سینیئرز کا وہ حسن سلوک انتہائی یادگار ہے کہ جو انہوں نے ہمیں پیش کیا۔ ان دوستوں میں ہمارے ایوب بھائی تھے، جو وہاں پر پی ایچ ڈی کر رہے تھے، اسی طرح ایک عباس بھائی تھے، وہ بھی سینیئر تھے۔ باجود اس کے کہ وہ پی ایچ ڈی کے اسٹوڈنٹس تھے، وہ ہمارے ساتھ ہمارے پرانے ہاسٹل میں آئے اور ہمارا سامان خود اٹھا کر چلے۔ انہوں نے بہت گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا۔ یہ چیز ہمارے لئے بہت حیران کن تھی، کیونکہ یونیورسٹی میں نئے طالب علموں کے ساتھ تو جو کچھ ہوتا ہے وہ سب جانتے ہیں، جبکہ یہاں تو پی ایچ ڈی کے سینیئرز اسٹوڈنٹس ہمارا سامان خود اٹھا کر چل رہے تھے۔ بہت اچھے طریقے سے انہوں نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ پھر کمرے الاٹ ہوچکے تو انہی دنوں میں بیمار پڑ گیا تو عباس بھائی خود یونیورسٹی سے باہر گئے، میرے لئے چائے لیکر آئے۔ بسکٹ، دودھ وغیرہ لیکر آئے۔ تو یہ بڑا حیران کن تھا، کیونکہ یونیورسٹی میں جونیئر خدمت کرتے ہیں سینئرز کی، مگر یہاں سب کچھ الٹ تھا۔ ان کی یہ خدمت، انداز خدمت بڑا متاثر کن تھا۔ ہمارے کمرے میں علی عباس بھائی، مرید کاظم بھائی، خود اطہر عمران بھائی بھی تھے۔ نجف زیدی بھائی اور یونٹ کے دیگر کچھ دوست تھے۔ ان کا رویہ بہت مثبت اور دوستانہ تھا۔ جب کمرے میں الاٹمنٹ ہوئی تو کچھ دوست جو یونٹ کے تھے، وہ گروپ کی صورت میں ہمارے کمرے میں آئے تو انہوں نے گروپ کی صورت میں آکر ہمیں خوش آمدید کہا، جو کہ بہت پراثر تھا۔ چنانچہ اس طرح دوستوں کے اخلاق کی وجہ سے ان کے ساتھ اٹیچ منٹ ہوگئی۔ ایثار، پیار، محبت، ہمدردی کی وجہ سے بہت کشش محسوس ہوئی۔ اس کے علاوہ عقیدتی ڈیویلپمنٹ جو ہوئی ہے، وہ اسکاوٹنگ کیمپ، دس روزہ کیمپ اس میں آغا شبیر سعیدی کے لیکچرز تھے کہ جن کی وجہ سے ہماری عقیدتی درستگی بھی ہوئی۔

اسلام ٹائمز: ابھی آپ نے فرمایا کہ یونیورسٹی سے پہلے آپ نے آئی ایس او کا نام نہیں سنا، یہ تنظیم کی عدم فعالیت تھی یا آپکی۔؟
مرکزی صدر:
اس میں تو کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ آئی ایس او کا اسٹرکچر پاکستان بھر کے تمام ایریاز میں نہیں ہے۔ مخصوص اضلاع، مخصوص علاقوں میں آئی ایس او کا اسٹرکچر موجود ہے۔ آئی ایس او کو ابھی پھیلنے کی بہت ضرورت ہے۔ پاکستان میں آئی ایس او کیلئے بہت بڑا پوٹینشل موجود ہے۔ میں نے آئی ایس او کا نام نہ سننے کی بات اس لئے کی، کیونکہ ہمارا اپنا علاقہ ایک سنی علاقہ ہے۔ وہاں آئی ایس او کا وجود سرے سے ہے ہی نہیں۔ میں نے ایف ایس سی خود ایک پرائیویٹ کالج سے کی تھی۔ جو کہ کوئی مشہور بھی نہیں تھا۔ ہمارے حافظ آباد میں تو آئی ایس او ہے ہی نہیں، البتہ پنڈی بھٹیاں میں کوئی یونٹ رہے ہیں، جو کہ شائد اتنے فعال نہیں تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آئی ایس او کو وسعت دینی چاہیئے اور دیگر علاقوں اور اضلاع تک پھیلانا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: پسندیدہ شخصیت اور اس پسندیدگی کی وجوہات بیان فرمائیں۔؟
مرکزی صدر:
آئی ایس او میں آنے سے پہلے کچھ اور شخصیات پسندیدہ تھیں۔ اس وقت نظریات بھی ایسے نہیں تھے۔ آئی ایس او میں آنے کے بعد جب میں نے سفیر انقلاب کا مطالعہ کیا تو وہ بڑی متاثر کن کتاب تھی۔ ابھی اس وقت میری پسندیدہ ترین شخصیت سید علی خامنہ ای ہیں۔ اس کی ظاہر ہے کہ کئی وجوہات ہیں۔ خود ولی فقیہ بھی ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ الحمدللہ حتمی یہ بات ہے کہ ہمارے رہبر جیسی شخصیت کسی بھی مکتب کے پاس نہیں ہے، کیونکہ ایک ایک کلمہ، ایک ایک جملہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے اور جتنی بصیرت کے ساتھ انہوں نے اس انقلاب کو محفوظ کیا ہوا ہے، بے شک انقلاب امام خمینی رضوان اللہ لائے، تاہم اس سے بڑا کام اس انقلاب کو بصیرت کے ساتھ محفوظ رکھنا، بہت متاثر کن ہے۔

اسلام ٹائمز: آپکے سیشن کا نصف دورانیہ گزر چکا ہے، کس قسم کی مشکلات سے واسطہ پڑا۔؟ رواں تنظیمی سال سے متعلق کیا اہداف مقرر کئے تھے اور کس حد تک حاصل کئے۔؟
مرکزی صدر:
میرے خیال میں اگر آپ میرا انٹرویو مشکلات کے حوالے سے کریں تو اس انٹرویو کے برابر میں آپ کو فقط مشکلات بتا سکتا ہوں کہ ہمیں کتنی مشکلات درپیش ہیں۔ مشکلات کی پھر کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک بڑی مشکل جو میں محسوس کرتا ہوں، وہ یہ کہ ہمارے معاشرے کے اندر بڑی تبدیلی آئی ہے۔ معاشرہ تبدیل ہوا ہے، لیکن ہم اس معاشرے کے مطابق اپنے اندر اصلاحات نہیں لا پائے۔ ابھی محسوس یہ ہو رہا ہے کہ نوجوان بڑی مشکل کا شکار ہیں۔ ہمارا پہلا ہدف چونکہ نوجوان ہیں، نوجوانوں میں دینی اقدار کا احیاء ہے تو ابھی ایک نوجوان کو دینی اقدار کی جانب لانا بہت مشکل اور صبرآزما مرحلہ ہوچکا ہے۔ ایک نوجوان پر کام کرنے کیلئے بہت محنت کی ضرورت ہے۔ ابھی ایک طرف ثقافتی یلغار ہے۔ میں عمومی طور پر کہتا ہوں کہ ہم اگر اپنا جی میل کا اکاونٹ بھی کھولیں تو بھی وہاں پر بھی ایسی چیزیں موجود ہونگی کہ ایک نوجوان کو الٰہی راستے سے منحرف کرنے میں شیطانی طاقتیں غالب آجاتی ہیں۔ تو ہماری جنگ اتنی بڑی ایک ثقافتی بدلاؤ پر مبنی دنیا سے ہوگئی ہے کہ جس میں سوشل میڈیا اور دیگر چیزوں نے نوجوان کو جکڑا ہوا ہے۔ ہم نے ان چیزوں میں سے اس نوجوان کو نکال کر اس کا رجوع خدا کی طرف کرنا ہے، جو کہ بہت مشکل کام ہے۔ ہمیں اس جنگ کا مقابلہ کرنے کیلئے بہت امپرومنٹ لانے کی ضرورت ہے۔ اپنے کاموں میں بہتری کی ضرورت ہے۔ ہمارے اسٹرکچر کو ضرور تبدیل ہونا چاہیئے۔ اسٹرکچر کی تبدیلی ناگزیر ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی اصلاحات کی تنظیم میں ضرورت ہے۔ یہ ایک بہت مشکل کام ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ امپرومنٹ لائیں۔ ہم نے یہ بھی کوشش کی ہے کہ ہم تنظیم کے لئے کوئی لانگ ٹرم منصوبہ بناسکیں، مگر اتفاق سے اس دورانیہ میں ہم ابھی تک وہ کام نہیں کرسکے۔ تاہم یہ ہماری امید ہے کہ اس کی بنیاد رکھ دیں گے کہ امپرومنٹ اور ترقی کا سلسلہ یہاں سے شروع ہو۔

اسلام ٹائمز: ثقافتی یلغار کیا دیگر نوجوان تنظیموں کو نہیں ہے، صرف آئی ایس ہی اسکا شکار کیوں ہے۔؟
مرکزی صدر:
میں اس بات سے قطعاً اتفاق نہیں کروں گا، کیونکہ جن یونیورسٹیز میں ہمارے اسٹرکچرز ہیں۔ تو ایسی کوئی بات نہیں کہ کوئی یہ کہہ سکے کہ آئی ایس او کا اسٹرکچر کمزور ہے اور دیگر تنظیموں کے اسٹرکچرز مضبوط ہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ممکن ہے یہ چیز آپ کو اس لئے محسوس ہوتی ہو کیونکہ ہم صرف شیعہ نوجوانوں کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔ باقی تنطیمیں کلی طور پر ہوتی ہیں۔ ابھی بھی یہ دعویٰ ہے کہ جہاں پر بھی ہمارا اسٹرکچر ہے تو ان تعلیمی اداروں میں سب سے زیادہ ہماری ایکٹیویٹیز ہوتی ہیں۔ ہمارے نوجوان نظریاتی، فکری اور دینی لحاظ سے دوسرے نوجوانوں سے زیادہ مضبوط ہیں۔ ابھی متحدہ طلباء محاذ کی مرکزی مسؤلیت کی ذمہ داری بھی میرے پاس ہے۔ باقی تنظیموں نے باقاعدہ طور پر برملا اظہار کیا ہے کہ اس وقت ہمیں نوجوان کو اپنی جانب بلانے میں بڑی مشکل کا سامنا ہے۔ جو چند ایک تنظیمیں مذہبی بیک گراؤنڈ رکھتی ہیں، وہ برملا اظہار کرتی ہیں کہ عصر حاضر میں نوجوان پر کام کرنا بہت مشکل ہے۔

اسلام ٹائمز: رواں تنظیمی سال سے متعلق کیا اہداف مقرر کئے تھے اور کیا حاصل کئے۔؟
مرکزی صدر:
ہماری دو تین بنیادی ترجیحات تھیں اس سال کی، ہم نے چاہا کہ پروفیشنل ادارہ جات پر بھرپور کام کریں، تاکہ ایک اچھی لیڈر شپ تیار کریں۔ شکر الحمدللہ وہ کام ابھی بھی جاری ہے۔ فنانشنل سسٹم کو ڈیویلپ کرنا، ہم اسے منظم انداز میں لیکر چلنا چاہتے ہیں۔ اس میں بھی بہتری آئی ہے۔ بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے، وہ ہم تنظیم میں لانا چاہتے ہیں۔ پانچ سالہ منصوبہ بھی بڑی ترجیح ہے۔ پرفیشنل ادارہ جات کا ہدف کسی حد تک ہم حاصل کر رہے ہیں۔ البتہ لانگ ٹرم منصوبہ بندی میں ہمیں ابھی کچھ مشکلات ہیں۔ فنانس کا ادارہ بن چکا ہے۔ اس میں جو ہماری خواہش تھی کہ اتنی سپیڈ کے ساتھ آگے چلے تو ویسے نہیں ہو پایا۔ ان شاءاللہ امید ہے کہ ہم کسی حد تک اسے کور کرنے کی کوشش کریں گے۔

اسلام ٹائمز: موجودہ نظام تعلیم میں طلباء کیلئے تنظیم کیلئے وقت نکالنا مشکل ہو جاتا ہے، اس تناظر میں توسیع تنظیم پروگرام کو کہاں دیکھتے ہیں۔؟
مرکزی صدر:
ایک تو یہ بات کہ جو کہا جاتا ہے کہ ہمارے یونٹس میں اضافے کے بجائے کمی آئی ہے تو اس حوالے سے ہماری بیشتر احباب کیساتھ بات ہوئی۔ سینیئرز کے ساتھ بھی۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ بڑی ہمت والی بات ہے کہ نوجوان اس دور میں دین کیلئے کام کر رہے ہیں۔ اتنی ثقافتی تبدیلیاں آئی ہیں اس معاشرے میں، اس کے باوجود نوجوانوں کا دین کی خاطر کام کرنا بڑا خوش آئند ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نوجوان کی تعلیمی مصروفیات آج کے دور میں بہت زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ ثقافتی تبدیلیاں بہت زیادہ رونما ہوئی ہیں، جو کہ پہلے نہیں تھیں۔ وہ نوجوان کو دین سے دور کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ پہلے یونیورسٹی میں جب نوجوان پر کام کرنا ہوتا تھا تو باہر مارکیٹ میں گروپ کی صورت میں نوجوان بیٹھ کر اس وقت کو گزارتے تھے۔ یہ ایک بہت بڑا ذریعہ تھا نوجوان کو تبدیل کرنے کا، اسے نظریاتی حوالے سے منظم کرنے کا۔ تاہم آج کا نوجوان بیشتر وقت اپنے کمرے میں اپنے لیپ ٹاپ پر سوشل میڈیا پہ گزارتا ہے۔ اب ٹارگٹ صرف یہ نہیں کہ نوجوان کو اکٹھا کرنا، اسے فکری نظری حوالے سے مضبوط کرنا اور اپنے ساتھ لیکر چلنا نہیں ہے بلکہ اب ٹارگٹ نوجوان کو اپنے کمرے سے، لیپ ٹاپ سے دور کرکے دینی اور فکری دعوت دینا اور اپنے ساتھ لانا۔ چنانچہ ان حالات میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تنظیم سکڑی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: اب جبکہ توسیع کا شعبہ بھی قائم ہے تو اس میں توسیع نہیں دکھائی دیتی بلکہ تنظیم کا دائرہ تسلسل کیساتھ محدود محسوس ہوتا ہے۔؟
مرکزی صدر:
جہاں تک ادارہ توسیع کی بات ہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں۔ چونکہ ہمارے ہاں اداروں کا خیال نیا نیا ہے، لہذا اس لئے ادارتی عمل یا ادارتی سسٹم کے ہم ابھی تک فقط تجربات ہی کر رہے ہیں، اس سے ہم آگے نہیں نکل پائے۔ جس طرح ادارے ہوتے ہیں، اس طرح کام نہیں ہوئے۔ البتہ توسیع کے ادارے نے کچھ ڈیویلپمنٹ کی ہیں۔ شماریات کے حوالے سے بڑا کام کیا ہے، جو کہ قابل تعریف اور قابل استفادہ ہے۔ ہم کسی بھی آرگنائزیشن کے اندر وہ کوئی منصوبہ بندی کرنا چاہتی ہے تو اس کے لئے دو تین چیزیں بڑی اہم ہوتی ہیں۔ ایک اسے اپنی استعداد کا علم ہونا چاہیئے۔ دوسرا یہ کہ میں اس وقت کہاں اور کس جگہ پر ہوں۔ پھر ان دونوں چیزوں کو مدنظر رکھ کر ہی کوئی تنظیم بڑا منصوبہ بنا سکتی ہے۔ اس وقت ادارہ توسیع نے یہ کام سرانجام دیا ہے کہ جو اس وقت ہماری ادارہ جاتی صورت ہے تو اس میں کام ہو رہا ہے۔ ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں۔ ابھی سافٹ ویئر کے ذریعے کچھ فیگر سامنے آجائیں گے اور ہمیں پتہ چلے گا کہ ہم کس سطح پر موجود ہیں۔ کیا صورت حال ہے ہماری، اس کے بعد ہم اگلی منصوبہ بندی کرسکیں گے۔

اسلام ٹائمز: تنظیم میں احتساب کی روش بہت پختہ ہوتی تھی، کیا اب بھی یہ روش قائم ہے، نیز آج کا کارکن زیادہ تربیت یافتہ نہیں، کیا یہ سچ ہے۔؟
مرکزی صدر:
جہاں تک احتساب کی بات ہے تو وہ ابھی بھی تنظیم کے اندر احتسابی روش بڑی کڑی ہے۔ تنظیم کے اندر بڑا کڑا احتساب کیا جاتا ہے۔ خصوصاً مجلس عاملہ کے اندر۔ مجلس عمومی کے اندر۔ جہاں تک بات ہے تربیت یافتہ اور دین کی پابندی کی، پہلے بھی گزارش کی ہے کہ جو ثقافتی تبدیلی ہے اور ایک نوجوان کو دین سے دور کرنے کے بہت سارے مواقع موجود ہیں۔ جس میں سوشل میڈیا، الیکڑانک میڈیا، موویز، فلمیں سب کچھ۔ اس کے مدمقابل نہ حکومت وقت نے کوئی ایسے اقدامات کئے کہ نوجوانوں کو اس سے محفوظ رکھنے سے کوئی طریقہ کار وضع کرے۔ نہ حکومت کی ترجیحات میں یہ چیز شامل ہے کہ نوجوانوں میں دینی اقدار کا احیا کریں۔ جو کہ کسی بھی مسلمان حکومت کا بنیادی ترین فریضہ ہونا چاہیئے کہ وہ نوجوانوں کو ثقافتی بیرونی یلغار سے محفوظ رکھنے کا بندوبست کرے تو حکومت یہ کام نہیں کر رہی۔ یہ کام بھی تنظیم کو کرنا پڑ رہا ہے تو تنظیم چونکہ اپنی ہیئت اور وجود میں اس سسٹم کے مقابلے میں کم ہے، جو نوجوانوں پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ اسی عمل کی وجہ سے آج کے نوجوان اتنے تربیت یافتہ نہیں ہیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ اور بھی ہے کہ جن افراد نے تنظیم کے ان ممبران کی تربیت کرنی ہے، وہ خود بھی ان چیزوں کا شکار ہیں۔ یعنی جنہوں نے دین کا پیغام پہنچانا ہے، وہ بھی بڑی مشکلات کا شکار ہیں۔ وہ بھی اس گندے معاشرے میں رہ رہے ہیں اور اس کے اپنے اثرات ہیں۔ ہمیں تربیت کا نظام بنانا چاہیے اور اسے بتدریج ترقی دینی چاہئے، تاکہ ایک نوجوان کو ہم مرحلہ وائز اتنا مضبوط کریں کہ اس پر ان چیزوں کے اثرات کم پڑیں۔

اسلام ٹائمز: آئی ایس او طلباء تنظیم ہے، طلباء کی فلاح بہبود اور رہنمائی کیلئے تنظیم کے کونسے پروگرام روبہ عمل رہتے ہیں۔؟
مرکزی صدر:
ایک بولڈ کے زیراہتمام سکالر شپ کی بڑی اماؤنٹ نوجوانوں کو دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سکالر شپ کے عنوان سے شعور و آگاہی ہمارے جو یونٹس ہیں، ان کو بھی دیا گیا کہ وہ اپنے یونٹس کی سطح پر وہ سکالر شپ سسٹم متعارف کرائیں اور نوجوانوں کو سکالر شپ دیں۔ مثلاً ہمارا ایگریکلچر یونیورسٹی میں سکالر شپ کا نظام بہت اچھا ہے۔ مثلاً وہ کچھ لوگوں کو ماہانہ بنیادوں پر وہ پے کرتے ہیں۔ اسی طرح یو ای ٹی میں یہ سسٹم موجود ہے۔ کراچی ڈویژن کا اپنا الگ سے ایک سکالر شپ سسٹم ہے۔ اس طرح خود ڈویژنز اور یونٹس بھی سکالر شپ نوجوانوں کو دیتی ہیں۔ جو کہ ایک بہت بڑی کنٹری بیوشن ہے۔ پچھلے دو تین سالوں سے ہم ایک ایکٹیوٹی کر رہے ہیں۔ اس میں ایک بڑا پورشن کیریئرگائیڈنس کا ہے۔ جو نوجوانوں کو کیئرئر کے بارے میں گائیڈ کرتے ہیں۔ ابھی ہمارا ایک بہت اچھا سسٹم ہے، ایجوکیشن موٹیویشن کے نام سے۔ جو ابھی مختلف علاقوں میں جاکر لوگوں میں تعلیم سے متعلق شعور بیدار کرنے سے متعلق ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو تعلیم کی جانب راغب کریں۔ اس کے علاوہ ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ اولیپیراڈ کرائے گئے۔ اس کے علاوہ لمز اور آئی بی اے کے پروگرام ہیں، جس میں وہ ٹیلنٹ کو ہنٹ کرتے ہیں۔ اس سسٹم کے بارے میں آگاہی بھی مختلف سطحوں پر پروگرام کرائے گئے۔ گلگت بلتستان، پاراچنار کے جو بچے سردیوں کی چھٹیوں میں یہاں پنجاب میں آتے ہیں۔ ان 176 بچوں کا ایک پروگرام کیا، جس میں انہیں سلیبس کی مکمل ریویژن اور امتحانات کی تیاری کرائی۔ اس کے علاوہ ان میں مختلف سکلز کو ترقی دی۔ ہمارا ایک طلوع فجر تعلیمی کنونشن دو سطح پر ہوتا ہے، ایک پنجاب، کے پی کے اور گلگت کیلئے جبکہ دوسرا سندھ اور بلوچستان کیلئے، دو پروگرام ہوتے ہیں۔ اس میں بہت ساری چیزوں سے آگاہی ہوتی ہے۔ اس طرح کے تعلیمی کنونشن ڈویژنل سطح پر بھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہمارا پری بورڈ کا سسٹم ہے۔ پری بورڈ ایگزام، امتحان سے پہلے امتحان۔ وہ بھی ایک بڑا مضبوط سسٹم ہے، جس میں کراچی، گلگت بلتستان، پشاور، راولپنڈی، ڈی آئی خان اور دیگر بڑی تعداد میں نوجوانوں کے نہم دہم کے پیپر لیتے ہیں اور اگلے پیپرز آنے سے پہلے انہیں رزلٹ دیتے ہیں، تاکہ نوجوانوں کو معلوم ہو جائے کہ ان کی تیاری کس حد تک ہے۔

اسلام ٹائمز: آئی ایس او اور متحدہ طلباء محاذ کی صدارت بھی آپکے پاس ہے، دونوں میں کس طرح انصاف کرتے ہیں۔؟ کیا اس ذمہ داری سے آئی ایس او کے پروگرام متاثر نہیں ہوتے۔؟
مرکزی صدر:
چونکہ آئی ایس او میں مرکزی سطح پر ہر شعبے کا ایک مسئول ہے اور الحمدللہ ہر شعبے کے اندر اس مسئول کی معاونت کیلئے کچھ طالب علم بھی ہیں۔ کسی شعبے میں مختلف تعداد میں معاونین بھی ہیں، جو اس کے ساتھ کام کرتے ہیں اور کچھ شعبوں کے ساتھ مختلف ادارے بھی بنے ہوئے ہیں۔ ابھی ہمارے ادارے بھی ایکٹیو ہو رہے ہیں۔ سینیئرز کی ٹیم جس شعبے کا بھی پروگرام کرنا ہو تو وہ ایک اس شعبے کے مسئول کے ساتھ اس پروگرام کو کرانے میں اس کی مدد کرتی ہے۔ لہذا اس میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مرکزی صدر کو کلی طور پر سپروائز کرنا پڑتا ہے۔ البتہ یہ بڑا انرجی والا کام ہے، بروقت کام لینے کا۔ اس کے علاوہ الگ سے جو متحدہ طلباء محاذ کی ذمہ داری ہے تو اس کیلئے بھی الگ سے ایک دوست کے ذمہ لگایا ہوا ہے کہ وہ ایم ٹی ایم کے تمام امور کو دیکھتے ہیں اور گاہے بگاہے ہم آپس میں مشاورت کر لیتے ہیں۔ تو وہ دوست خود دیکھتے ہیں۔ ویسے بیشتر کام تو ٹیم کرتی ہے۔ ایم ٹی ایم کیلئے بھی ایک ٹیم ہے اور آئی ایس او کی بھی ٹیم ہی ہے۔ میں یہ کہوں گا کہ متحدہ طلباء محاذ کی ذمہ داری کی وجہ سے ممکن ہے کہ آئی ایس او تو متاثر نہ ہوئی ہو، لیکن ایم ٹی ایم میں جس طرح ہمیں کام کرنا چاہیئے، اس میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسے ہمیں کام کرنا چاہیے ہم نہیں کر رہے۔ ہم اتنا وقت اس محاذ کو نہیں دے رہے کہ جتنی اس کی اہمیت ہے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں آپ نے ایم ٹی ایم کے قائدین کے ہمراہ ایران کا دورہ بھی کیا۔ اسکے مقاصد، اثرات اور ان قائدین کے تاثرات سے آگاہ فرمائیں۔؟
مرکزی صدر:
اس میں مختلف تنظیموں کی قیادت ساتھ تھی۔ ہمارا بنیادی طور پر مقصد یہ تھا کہ مختلف طلباء تنظیموں کے دوست احباب ایک ساتھ وقت گزاریں، تاکہ ایک اچھی سی آپس میں انڈر سٹینڈنگ ہوسکے۔ تشیع کے بارے میں مختلف اذہان میں مختلف چیزیں ہیں، ہم نے ان کو بھی ایڈریس کرنے کی کوشش کی۔ الحمدللہ اس دورے کے دوران جتنے بھی دوست وہاں پر گئے تھے، انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہمارے بہت سارے ابہامات تھے ایران کے بارے میں، وہ سب کچھ ہمارا کلیئر ہوا ہے۔ ہمیں اس دورے کے دوران یہ احساس ہونے لگا ہے کہ زیادہ دوریاں نہیں کہ ہم جتنے بھی مسلمان ہیں، چاہے وہ کتنے ہی ممالک ہیں یا کتنے ہی مکاتب ہیں، وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ سکتے ہیں۔ امت واحدہ کی طرح مضبوط ہوسکتے ہیں۔ دشمن کا ایک ساتھ مقابلہ کرسکتے ہیں۔ تمام قائدین نے اس کا برملا اظہار بھی کیا۔ پھر انقلاب کی بدولت جو ایران میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ دینی اقدار کا احیاء، تعلیمی اداروں کی ترقی، انقلاب کی بدولت لوگوں میں خودداری اور معاشرہ سازی، وہاں بلاتفریق ایک قوم کا تاثر، تو یہ قائدین بہت مثبت تاثرات لیکر آئے اور پرامید تھے کہ ہم متحد ہوکر یہاں کی سرزمین پر متحد ہوکر پاکستان کیلئے بہت سارا کام کرسکتے ہیں اور نوجوانوں کا اتحاد یہاں بڑی سطح پر تبدیلی لاسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: قومی سطح پر بزرگان دین کیساتھ آئی ایس او کا موجودہ ارتباط کیا ہے، آپکے سیشن میں تاحال کہیں کوئی اشتراک عمل یا پروگرام نہیں دکھائی دیا۔؟
مرکزی صدر:
بزرگان دین کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔ علامہ شیخ محسن کے ساتھ تین سے چار مرتبہ ملاقات کرچکا ہوں۔ ایک بڑی اچھی فضا قائم ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خود راجہ صاحب کے ساتھ، آغا امین شہیدی صاحب کے ساتھ اور ہم نے تو اس دفعہ لاہور میں بھی ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ میں خود علماء کے گھروں میں جاکر ان سے کئی کئی ملاقاتیں کرچکا ہوں، آغا نیاز نقوی آغا شفیع نجفی ہیں، اور پھر کئی علماء ایسے ہیں کہ جن کے پاس جاکر ہم نے خود ملاقاتیں کیں۔ اس طرح ہمارے ونٹر کیمپ میں کئی شخصیات نے شرکت کی۔ ہماری کافی ملاقاتیں رہیں اور بڑی اچھی فضا بھی قائم ہوئی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپکے سیشن کے دوران کسی قومی جماعت کیساتھ مشترکہ کوئی پروگرام ہوا ہے۔؟
مرکزی صدر:
ابھی ایسا کوئی اس طرح کا موقع نہیں آیا۔ عموماً شہید قائد کی برسی ہوتی ہے، جو ایم ڈبلیو ایم اور آئی ایس او کا جائنٹ ونچر ہوتا ہے۔ ابھی راولپنڈی ڈویژن میں انقلاب اسلامی کا مشترکہ پروگرام ہوا ہے۔ ویسے ایک ہی پروگرام ہوتا ہے مشترکہ جو کہ قائد شہید کی برسی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں سانحہ پاراچنار جو ابھی حال ہی میں گزرا تو اس میں ہم نے بیشتر احتجاج اکٹھے کئے ہیں۔ زیادہ تر شہروں میں احتجاجی مظاہرے ایم ڈبلیو ایم اور آئی ایس او کے مشترکہ تھے۔

اسلام ٹائمز: عقائد کے دفاع اور قومیات کے حوالے سے آئی ایس او فعال نہیں، کیا وجہ ہے۔؟
مرکزی صدر:
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس وقت پاکستان میں بہت بڑی سازش جو مکتب تشیع کے خلاف کی جا رہی ہے، وہ عقیدتی انحراف ہے۔ بیشتر عقیدے مختلف عقیدے ترقی پا رہے ہیں۔ پاکستان میں اس موضوع پر بڑا کام ہو رہا ہے، خصوصاً مرجعیت سے دوری اور مختلف نظام ولایت سے متعلق مختلف نظریات، جھوٹا پروپیگنڈہ اور اس طرح کے کئی سازشیں چل رہی ہیں۔ ہم عقیدتی اصلاح کے حوالے سے کوئی زیادہ بڑا کام نہیں کر پائے، بیشتر مرتبہ اس بات کا ذکر ہوا کہ کرنا چاہیے، تاہم نہیں کر پائے۔ البتہ پاکستان کے مدارس کو یہ کام کرنا چاہیے۔ ان کو اپنے مدرسوں سے نکل کر لوگوں میں، عوام میں نفوذ کرکے ان عقیدتی انحرافات کو ختم کرنا چاہیئے۔ بالخصوص علماء کا بھی یہ بڑا فریضہ بنتا ہے۔ قومیات پہ بھی میں یہ محسوس نہیں کرتا کہ آئی ایس کا جذبہ کوئی کم ہوا ہے۔ جہاں کہیں بھی کوئی مشکل درپیش آتی ہے تو ہم فرنٹ لائن پر ہوتے ہیں، قوم و ملت کے حقوق اور دفاع کیلئے۔ پاکستانی قوم کے حوالے سے بات کریں تو ہم سب سے بڑے محب وطن ہیں۔ ہم نے وطن کی ترقی اور فلاح و بہبود کیلئے اقدامات کئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ملک میں دہشتگردی کا عفریت پھر سے دندنا رہا ہے جبکہ ردالفساد آپریشن کا بھی آغاز کر دیا گیا ہے۔ اس حساس مسئلہ پر آپکا کیا موقف ہے، کیونکہ اس سے قبل بھی آپریشنز ہوچکے ہیں۔؟ وطن عزیز میں پائیدار قیام امن کیلئے اپنی تجاویز دیں۔؟
مرکزی صدر:
ہم شروع سے ہی ہر اس عمل کے حامی رہے ہیں جو دہشت گردی اور دہشتگردوں کی مخالفت کرتا رہا، یا اس کے خاتمے کی کوششوں پر مبنی تھا۔ ہم ہر اس عمل کے حامی ہیں کہ دہشتگردی سے اس ملک کو چھٹکارا نصیب ہو۔ دہشت گردی نہ صرف پاکستان کیلئے نقصاندہ ہے بلکہ خود دین اسلام کیلئے نقصان دہ ہے، جو کہ ایک بڑا نقصان ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جیسے نیشنل ایکشن پلان کا آغاز ہوا تھا، اگر مکمل طور پر اس پہ عمل کیا جاتا تو ممکن تھا کہ اس ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو جاتا۔ ٹھوس اقدامات یہ نہیں ہیں کہ ہم چند دہشت گردوں یا کچھ افراد کو پکڑ کر رپورٹس بنالیں کہ اتنے بندے گرفتار، اس سے ملک اور عوام کو دہشتگردی سے نجات نہیں ملے گی۔ چھٹکارے کیلئے ہم ہر اس طاقت کو ختم کریں، جو دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتی ہے۔ ہم ان تمام بڑے بڑے سہولتکاروں کو پکڑیں، جو دہشت گردوں کے سہولت کار ہیں۔ جو اس ملک کے بھی دشمن ہیں اور یہاں کے عوام اور نسلوں کے بھی دشمن ہیں۔ یہ بڑے بڑے سہولتکار اپنے مخصوص اہداف کی خاطر دہشت گردوں کو تحفظ دے رہے ہیں۔ ان کو ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے بعد بہت سارے ایسے دینی مدارس پاکستان میں موجود ہیں، جو دہشت گردوں کی پنیری تیار کر رہے ہیں اور انہیں پروان چڑھار ہے ہیں۔ ہم ان کی مخالفت کرتے ہیں اور ان کا اس پاک سرزمین سے مکمل طور پر قلع قمع ہونا چاہئے۔ سب سے اہم بات کہ ہر وہ گروہ، جماعت جو تکفیریت کو پاکستان میں پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے، اس کی جڑوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک تکفیری سوچ کو ختم نہیں کیا جاتا، دہشتگردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ یہ تکفیری عناصر حکومتی صفوں اور وزراء میں موجود ہیں۔ ان کے خاتمے سے ہی پاکستان میں امن آسکتا ہے۔ حکومت کو بھی چاہیئے کہ پائیدار قیام امن اور معتدل سوچ کو پروان چڑھانے کیلئے اقدامات کرے اور تمام تر شدت پسند اور تکفیری گروہوں کو ختم کرے تو تب جاکر امن آسکتا ہے۔ دوسری صورت میں اس کا امکان موجود نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: قومی وحدت کیلئے آئی ایس او نے کیا کردار ادا کیا ہے اور اس عظیم مقصد کے حصول کیلئے کیا قربانی دے سکتی ہے۔؟
مرکزی صدر:
میری نظر میں وحدت سے مراد قطعاً یہ نہیں کہ ہر تنظیم اپنا تشخص چھوڑ دے اور دوسرے میں ضم ہو جائے۔ میرے خیال میں وحدت یہی ہے کہ ہر تنظیم اپنے تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے اہداف اور اپنی روش کے مطابق کام انجام دے، اہم ترین بات یہ ہے کہ دوسری تنظیموں کی مخالفت نہ ہو۔ اس کی مخالفت کا برملا اظہار نہ ہو کہ ہم ہی صرف ٹھیک ہیں اور باقی لوگ تو غلط ہیں، تو اتحاد سے یہ مراد ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے یہ اقدام اٹھایا ہے کہ مرکزی سٹیک ہولڈر جو پاکستان میں ہیں، وہ آپس میں مل بیٹھیں، تو ایک کوشش کے بعد ہمیں تھوڑی سی مایوسی ہوئی ہے، تاہم ہم پرامید ہیں کہ یہ اتحاد ہوسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: تعلیمی اداروں میں طلباء یونینز کے وجود اور کردار کے حوالے سے آپکی کیا رائے ہے۔؟
مرکزی صدر:
ہم نے متحدہ طلباء محاذ کا جو پچھلا اجلاس گزرا ہے، اس میں میں بھی ان خیالات کا اظہار کیا کہ طلباء یونین کو بحال ہونا چاہیے اور جو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ طلباء تنظیمیں یونینز کی بحالی کے بعد لڑائی جھگڑے کے چکروں میں پڑ جائیں گی تو بیشتر افراد نے کہا ہے کہ ہم ہر ایسے عمل کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہم بھی لڑائی جھگڑے اور دنگے فساد کی مذمت کرتے ہیں۔ ہمیں مثبت ماحول میں ملک کی ترقی کیلئے کام کرنا چاہئے۔ طلباء یونین کی بحالی کی حمایت ہم اس لئے کرتے ہیں کہ ان طلباء یونینز کی بحالی کی بدولت نوجوانوں میں نئی لیڈر شپ بحال ہوتی ہے۔ نوجوانوں میں اعتماد آتا ہے۔ وہ اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی بیشتر طلباء یونینز کی بدولت شخصیات سامنے آسکتی ہیں۔ ممکن ہے کہ انہی یونینز سے نکلے افراد ہی ملک کی باگ ڈور سنبھالیں۔ جو موروثی سیاست ہے، اس سے بھی ہمار اچھٹکارا ہو اور نئی قیادتیں بھی سامنے آئیں۔ بینک بیلنس اور ذاتی مفادات کے بجائے اس قوم کی بہتری و ملک کی ترقی کے متعلق سوچے۔

اسلام ٹائمز: عصر حاضر میں عملی طور پر بانی آئی ایس او شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شخصیت کتنی قابل استفادہ ہے۔؟
مرکزی صدر:
شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی پاکستانی معاشرے میں نوجوانوں کیلئے نہ صرف ایک آئیڈیل بلکہ ایک معین راستہ ہیں۔ وہ نوجوانوں کیلئے قابل تقلید ہیں۔ ایسے نوجوان جو اپنے دین و معاشرہ سازی کیلئے کام بھی کرنا چاہتے ہیں، عملی زندگی میں بھی پروفیشنل کردار ادا کرنا چاہتے ہیں، تعلیمی میدان میں بھی سرخرو ہونا چاہتے ہیں۔ یعنی جو نوجوان زندگی کے ہر پہلو میں پرفیکٹ ہونا چاہتے ہیں تو ان نوجوانوں کیلئے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ایک بہترین آئیڈیل اور قابل تقلید شخصیت ہیں۔ شہید ڈاکٹر نوجوانوں کیلئے قطب نما ہیں۔ نوجوان اپنی زندگی میں شہید کی زندگی کو سیرت بنا سکتے ہیں۔ شہید کی حیات سے نوجوان ڈائریکشن لے سکتے ہیں، اپنی زندگی کا رخ تعین کرسکتے ہیں۔ ایسا رخ کہ جس پر دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی ہے۔ ایسا رخ کہ جس کو کبھی زوال نہیں۔ شہید کی خدمات نہ ہی بھلائی جاسکتی ہیں اور نہ ہی انہیں نظرانداز کرنا ممکن ہے۔ شہید وہ شخصیت ہیں کہ جنہوں نے پاک سرزمین پر مکتب تشیع کے حقیقی چہرے کو متعارف کرایا، اسے اجاگر کیا۔ شہید ڈاکٹر نے شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی جیسی عظیم شخصیت کو پاکستان کے معاشرے میں متعارف کرایا۔ شہید کا اس قوم و ملت پر بہت بڑا قرض ہے۔ جو کہ شائد کبھی ادا نہ ہو پائے گا۔
خبر کا کوڈ : 616268
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش