0
Tuesday 26 Sep 2017 18:02
اسلامی ممالک کے پاس جو بچی کچھی عزت تھی، او آئی سی نے اسکا بھی جنازہ نکال دیا

امام عالی مقام نے کربلا میں جو جنگ لڑی وہ صبح قیامت تک کیلئے ہے، مولانا محمد حیدر علوی

سعودی عرب آل سعود کی حکمرانی میں امریکہ کی بی ٹیم کے طور پہ موجود ہے
امام عالی مقام نے کربلا میں جو جنگ لڑی وہ صبح قیامت تک کیلئے ہے، مولانا محمد حیدر علوی
مولانا محمد حیدر علوی جمعیت علماء پاکستان (نورانی) پنجاب کے ترجمان ہیں، ملک میں مذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے اہم خدمات سرانجام دے رہے ہیں، وہ اس سے پہلے سنی تحریک کے اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں، طالب علمی کے زمانے میں انجمن طلبہ اسلام پنجاب کے ناظم رہے ہیں، اسکے علاوہ دعوت اسلامی میں بھی مختلف عہدوں پر کام کیا ہے، مولانا حیدر علوی پاکستان عوامی تحریک راولپنڈی کے رہنما بھی رہ چکے ہیں، تاہم دھرنے سے چند روز قبل اختلافات کے باعث انہوں نے عوامی تحریک کو خیر باد کہہ دیا۔ حالیہ سیاسی صورتحال اور محرم الحرام کے حوالے سے اسلام ٹائمز نے مولانا محمد حیدر علوی صاحب کیساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا، جسکا احوال انٹرویو کیصورت میں پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: سپریم کورٹ نے ایک شخص کو کرپشن کے الزامات میں نااہل قرار دیا، ایوان بالا نے اسی شخص کو فائدہ پہنچانے کیلئے آئین و قانون میں ہی ترمیم کر دی، اخلاقی لحاظ سے اسکی کیا تاویل ہوسکتی ہے۔؟
مولانا حیدر علوی:
بنیادی طور پر میں تو اس اقدام کو قانون و انصاف کی نااہلی سمجھتا ہوں کہ ایک نااہل شخص کو فائدہ پہنچانے کیلئے قانون میں ہی تبدیلی کر لی جائے۔ ہمارے ساتھ بہت بڑا المیہ یہ ہوا ہے کہ عوامی مینڈیٹ کے نام پر جمہور پر ایسے لوگ مسلط ہیں کہ جنہیں اپنے سوا نہ کچھ دکھائی دیتا ہے اور نہ سوجھائی دیتا ہے۔ آج تک آئین میں جتنی بھی ترامیم ہوئی ہیں، ان میں سے کوئی ایک بھی عوام سے متعلق نہیں تھی۔ تمام ترامیم کا تعلق انہی حکمرانوں سے تھا کہ جن کا مقصد کسی بھی طور اپنے اقتدار کو دوام بخشنا یا اپنی جرائم کی ممکنہ سزا سے خود کو محفوظ رکھنا تھا۔ حالیہ ترمیم بھی آل شریف کو تحفظ دینے کیلئے کی گئی ہے۔ میرے خیال میں اگر اس ترمیم کے نتیجے میں نااہل وزیراعظم دوبارہ سے کوئی سیاسی یا حکومتی عہدہ حاصل کرتے ہیں تو یہ سپریم کورٹ کی نااہلی شمار ہوگی۔ سینیٹ ایوان بالا کہ جسے مفادات عامہ مقدم رکھنا چاہیے، وہ ایک کرپشن زدہ انسان کے تحفظ کیلئے باقاعدہ قانون سازی کرے، پاکستان میں تو اس سے بڑھ کر کوئی اور ایوان ہی نہیں ہے۔ اس ترمیم کے نتیجے میں اگر سابق وزیراعظم نے کوئی عہدہ لینے کی کوشش کی تو سپریم کورٹ اس میں مداخلت کرسکتی ہے اور توقع ہے کہ سپریم کورٹ مداخلت کرے گی۔ سپریم کورٹ میں پٹیشن بھی دائر ہوچکی ہے۔ عوام جنہیں منتخب کرکے ایوان میں بھی بھیجتے ہیں تو انہیں عوامی مفاد سے زیادہ پارٹی مفاد کو مقدم رکھنا پڑتا ہے۔ وہ حق سچ بات کہہ ہی نہیں سکتے۔ کہیں پہ عوامی مفاد پارٹی پالیسی سے متصادم ہو تو نمائندے کو پارٹی مفاد کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ میرے خیال میں پارٹی پالیسی کی پابندی بھی آئین و قانون سے غداری کے مترادف ہے۔ اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کبھی بھی آزادانہ کام نہیں کرسکتا۔ جب ایک ادارے کے سربراہ کی تقرری ہی وزیراعظم اور اپوزیشن کے ذریعے عمل میں آئے گی تو وہ کیسے کسی آزاد
سوچ رکھنے والے شخص کا تقرر کریں گے۔ پہلے تقرر ہوتا ہے اور بعد ازاں الیکشن کمشنر ان کے مفادات کا خیال رکھتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایوان بالا ہو یا ایوان زیریں، سپریم کورٹ ہو یا کوئی اور ادارہ، انہیں چاہیئے کہ ان تمام چور دروازوں کو بند کریں، جہاں سے مجرموں کو داخلے یا فرار کے راستے میسر آتے ہیں۔ جھوٹ، فراڈ اور مفاہمت سے ہٹ کر مفاد عامہ کو مقدم رکھنا ضروری ہے۔

اسلام ٹائمز: حال ہی میں لاہور کے حلقہ این اے 120 میں انتخابات ہوئے، مذہبی جاعتوں نے بھی اپنا وزن مسلم لیگ نواز کے پلڑے میں ڈالا حالانکہ چند روز قبل تک یہی جماعتیں نواز حکومت کو اسلام و عوام دشمن قرار دے رہی تھیں، اسکی کیا وجہ ہے۔؟
مولانا حیدر علوی:
این اے 120 کے انتخابات میں وفاق اور پنجاب میں حکمران جماعت یعنی مسلم لیگ نواز اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی تھی۔ اس انتخاب کو ہر قیمت پہ جیتنے کیلئے انہوں نے ہر قیمت ادا کی۔ حکومتی وسائل کا استعمال کیا۔ کہیں وعدے، کہیں دعوے اور کہیں جوڑ توڑ کرکے انہوں نے انتخاب لڑا۔ اب جہاں عام ووٹر کو ووٹ کے بدلے پانچ ہزار دیئے گئے ہوں تو یقیناً ان مذہبی جماعتوں پہ بھی ان کی حیثیت کے مطابق پیسہ خرچ کیا گیا ہوگا۔ ہمارے یہاں بڑا المیہ یہی ہے کہ ووٹر کے پاس شعور نہیں ہے۔ اس کے پاس تعلیم نہیں ہے۔ اس کے ووٹ کی قیمت اچھے کھانے کی ایک پلیٹ بھی لگائی جاتی ہے اور مفت کی آمدورفت کی سہولت سے استفادہ بھی۔ پاکستان تعلیم پہ کم ترین بجٹ خرچ کرنے والا ملک ہے۔ معمولی سے وقتی مفاد کے عوض ووٹر اپنی قسمت کا خراب فیصلہ اپنے نصیب میں لکھتا ہے۔

اسلام ٹائمز: کسی ایسے ملک میں ترقی کے کتنے فیصد امکان ہوسکتے ہیں کہ جسکے وزیراعظم، وزیر خزانہ و دیگر پر کرپشن، اقربا پروری کے جرائم ثابت ہوں مگر اسکے باوجود بھی وہ اپنے اپنے مناصب پہ موجود رہیں۔؟
مولانا حیدر علوی:
جن ممالک میں یہ صورتحال ہو، وہ ترقی کرنا تو درکنار اگر وہ ترقی یافتہ بھی ہوں تو اپنی ترقی کھو بیٹھیں۔ پاکستان کی ترقی کی راہ میں یہی لوگ حائل ہیں کہ جو ہر وقت ترقی کا راگ الاپتے تھے اور ابھی تک الاپ بھی رہے ہیں۔ وزیراعظم تو نااہل قرار پائے جبکہ وزیر خزانہ کو اب ڈار صاحب کے بجائے ڈالر صاحب کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اخلاق کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ثابت ہونا تو بعد کی بات اگر یہ الزام ہی آجائے کہ منصب سے غفلت برت رہے ہیں تو اس کی مکمل صفائی آنے تک انسان کو اس منصب کے قریب نہیں جانا چاہیئے، یہاں تو یہ جرم ثابت ہیں اور پھر بھی عہدوں پہ موجود ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ کمزور کردار الیکشن کمیشن ادا کر رہا ہے۔ اگر انتخابات سے پہلے سے لیکر بعد الیکشن کمیشن اپنا کردار بطریق احسن ادا کرے تو کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور یہاں کے عوام کو لوٹنے والا کوئی لٹیرا وسائل تک دسترس ہی حاصل نہ کرے۔ پاکستان کا الیکشن کمیشن OIC بنکر رہ گیا ہے۔ ایک کے بعد ایک اسلامی ملک تباہی کا شکار ہو رہا ہے اور او آئی
سی عضو معطل کی طرح کوئی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ افغانستان سے عراق، شام، اردن، لیبیا میں کیا کیا نہیں ہوا۔ یمن کو ہی دیکھ لیں۔ اتنی تباہی کے باوجود او آئی سی کا نام کی حد تک ہی سہی کوئی کردار نظر نہیں آیا۔

اسلام ٹائمز: کیا یہ درست ہے کہ او آئی سی پہ چند ممالک کی اجارہ داری ہے۔؟
علامہ حیدر علوی:
اب کیا او آئی سی اور اس کے اثرات۔ اب تو اس کا نام ہی خال خال سننے کو ملتا ہے۔ او آئی سی اسلامی دنیا کی نمائندہ تنظیم کے بجائے ان چند مخصوص عرب ممالک کی کنیز بن کے رہ گئی ہے کہ جو خود امریکہ کے خادم ہیں، تو ایسی صورت میں او آئی سی سے اسلامی دنیا کے عوام کیا امید رکھ سکتے ہیں کہ یہ ہمارے درد کی دوا کریگی۔ یمن کے معاملے میں او آئی سی نے کیا کردار ادا کیا ہے۔ کیا یمن پہ مسلط جنگ کی کوئی قانونی، اخلاقی تاویل دلیل پیش کی جاسکتی ہے۔؟ کیا یمن سے واقعی حرمین کو کوئی خطرہ تھا۔ جب اور جہاں سعودی شاہی خاندان نے اپنے اقتدار کیلئے خطرہ محسوس کیا، انہوں نے اپنے اقتدار کے خطرے کو ہمیشہ حرمین کیلئے خطرہ بنا کر پیش کیا۔ یمن میں ہزاروں بچے خوفناک گولہ بارود کا شکار بن چکے ہیں۔ غریب سے ملک اور اسکے مفلوک الحال شہریوں پہ روزانہ کی بنیاد پہ حملے جاری ہیں، کیا ان حملوں کا نشانہ بننے والے مسلمان نہیں۔؟ یمن کے مسلمانوں کو تہ تیغ کرنے میں او آئی سی نے باقاعدہ کردار ادا کیا ہے۔ برما کو دیکھ لیں، کیا برما اتنی بڑی طاقت ہے کہ اسلامی ممالک کا نام نہاد نمائندہ پلیٹ فارم اس کے خلاف کوئی واضح سٹینڈ نہ لے سکے۔ او آئی سی کی جانب سے تو برما کی صورت حال پہ موقف ہی تاخیر سے آیا۔ اگر یہ واقعی اسلامی نمائندہ تنظیم ہو تو کیا روہنگیا مسلمانوں پہ ظلم کے پہاڑ ٹوٹنے کے بعد بھی کوئی ردعمل نہ دیتی۔ اگر واقعی ان مسلمانوں کا تحفظ مقصود ہوتا تو او آئی سی قرارداد کے ذریعے تمام مسلمان ملکوں کے سفیروں کو واپس بلاتی۔ وہاں فوجی ٹروپس بھیجنے کی بات کرتی۔

او آئی سی کے پلیٹ فارم سے ہی علماء کرام کے مشترکہ فتوے جاری کئے جاتے، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا اور نہ کبھی ہوگا۔ میں تو یہ کہوں گا کہ او آئی سی نے ہی دنیا کو یہ باور کرانے کی کامیاب کوشش کی کہ اسلامی دنیا کتنے پانی میں ہے، دفاعی حوالے سے مسلمان ملکوں کے پاس جو بچی کھچی عزت تھی، او آئی سی نے اس کا بھی جنازہ نکال دیا۔ یہ جنازہ نکلتا بھی کیسے نا، امریکہ جو کہ دنیا بھر کے اسلامی ممالک کو درپیش چیلنجز کا ذمہ دار ہے، اسی امریکہ کا صدر اسلامی دنیا کی نام نہاد نمائندہ تنظیم کے اجلاس کی صدارت بھی کرتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ قطر معاملے کیلئے او آئی سی کے پاس وقت ہے، جبکہ کشمیر، فلسطین، یمن، افغانستان سمیت دیگر اسلامی ممالک اس کی توجہ کے منتظر ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ او آئی سی کے پاس ان مسائل کیلئے نہ وقت ہے اور نہ ان کے حل کی سکت۔ اسلامی دنیا کے دیرینہ مسائل کے حل کیلئے دنیا بھر میں بہت بڑے عوامی
مظاہرے برسوں سے منعقد ہوتے ہیں، ان میں سب سے زیادہ او آئی سی کے کردار پر اظہار شرمندگی کیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں تو اس پلیٹ فارم کو اب ختم کر دیا جائے۔ شائد اس پلیٹ فارم کی عدم موجودگی ہی ہر اسلامی ملک کو اپنی پالیسیاں آزاد اور دفاع مضبوط بنانے کا موقع فراہم کرے۔

اسلام ٹائمز: ابھی آپ نے حرمین کو خطرات کی بات کی، امریکی سیاستدانوں نے آن دی ریکارڈ حرمین پہ حملے کی دھمکی دی، اسکے باوجود ٹرمپ ریاض سمٹ کی صدارت بھی کرتا ہے، سعودی عرب امریکہ سے ناکارہ اسلحہ بھی خریدتا ہے، امریکی فوج بھی سعودی عرب میں موجود ہے، کیا سعودی عرب اپنے دوستوں اور دشمنوں سے آگاہ نہیں۔؟
مولانا حیدر علوی:
امریکہ کا ڈبل سٹینڈر یا دوغلی پالیسی دنیا کیلئے نئی نہیں ہے، جہاں اسے بادشاہت سوٹ کرتی ہے، وہاں وہ جمہوریت کو فراموش کرتا ہے اور جہاں اس کے مخالف کوئی بادشاہ یا ڈکٹیٹر موجود ہو تو وہاں امریکہ جمہوریت کا راگ الاپتا ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کو امریکہ اور آل سعود کے مابین تعلقات کے تناظر میں دیکھنا چاہیئے۔ ضروری نہیں ہے کہ آل سعود سے تعلقات سعودی عرب کے مفاد میں ہوں۔ دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہے کہ کسی ایک خاندان یا فرد کے نام پر ایک ملک کا نام ہو اور اس ملک پہ وہی ایک خاندان مسلط ہو، جیسا کہ سعودی عرب میں ہے۔ آل سعود جو کہ نحوست ہیں، وہ سرزمین نجد و حجاز پر مسلط ہیں۔ آل سعود کے امریکہ سے تعلقات وہاں کے عوام یا اس ملک کے مفاد میں نہیں بلکہ آل سعود کے اقتدار کے دوام کی قیمت پر ہیں۔ سعودی شاہی خاندان جب بھی اپنے اقتدار کو خطرہ محسوس کرتا ہے تو وہ اس خطرے کو حرمین کیلئے خطرے کا پروپیگنڈہ کرتا ہے۔ یہ ہوس اقتدار ہی ہے کہ اب موجودہ حکمران دیگر شہزادوں کو مار رہے ہیں، اغواء کر رہے ہیں۔ بیسیوں ایسے واقعات منظر عام پر آچکے ہیں جن میں سعودی شہزادوں کو نہ صرف سعودی عرب بلکہ دیگر ممالک سے اغوا کیا گیا۔

موجودہ سعودی حکمران ہر اس شے کو اپنی راہ سے ہٹانا چاہتے ہیں کہ جنہیں وہ اپنے اقتدار کی راہ میں حائل یا خطرہ سمجھتے ہیں۔ اقتدار چھننے کا خوف ہی انہیں دشمنوں کی گود تک لے گیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو آل سعود و اسرائیل کو ایک ہی طرح کے خوف و خطرے کا سامنا ہے اور یہی خوف و خطرہ انہیں آپس میں ایک دوسرے کے قریب بھی لایا ہے۔ امریکہ دونوں کا تحفظ کر رہا ہے، جبکہ سعودی عرب آل سعود کی حکمرانی میں امریکہ کی بی ٹیم کے طور پہ موجود ہے۔ سعودی شاہی خاندان اور امریکہ دونوں حالات و مشکلات سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں کے درمیان اگر کوئی معاہدہ بھی ہوتا ہے تو وہ بھی یکطرفہ یعنی امریکی مفاد میں ہوتا ہے۔ دوسری جانب آل سعود خاندان کی ساری دولت امریکی بینکوں میں موجود ہے، جبکہ سعودی عوام اس وقت معاشی گرداب کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اگر آج بھی آل سعود امریکہ کے بینکوں سے اپنا تمام تر پیسہ نکال لیں تو امریکی معیشت کا توازن
ڈانواڈول ہو جائے۔

اسلام ٹائمز: تو آپکے خیال میں اسکا سدباب کیسے ہوسکتا ہے۔؟
مولانا حیدر علوی:
دیگر عرب ریاستوں سمیت سعودی عرب کے بھی اندر پڑھا لکھا طبقہ موجود ہے، بالخصوص نوجوان کہ جو تعلیم حاصل کرکے اتنے باشعور ہوچکے ہیں کہ اپنا فائدہ نقصان اور سرزمین نجد و حجاز کے دوستوں دشمنوں سے آگاہ ہیں۔ سعودی عوام میں شعور بیدار ہو رہا ہے اور مسلط شاہی خاندان کے خلاف ان کے اندر ہی اندر لاوا پک رہا ہے، یہی لاوا جب ابھر کے باہر آئے گا تو امریکی و صہیونی مفادات کے نگہبانوں کو اپنے ساتھ خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا اور پھر وہاں بھی ایسا نظام حکومت ترتیب پائے گا کہ جو نہ صرف سعودی عوام کے حقوق کا محافظ بلکہ انکا حقیقی نمائندہ بھی ہوگا۔ مثبت تبدیلی وہی ہوتی ہے جو اندر سے پھوٹے۔

اسلام ٹائمز: محرم الحرام ہے، پیغام امام حسین (ع) عصر حاضر کے چیلنجز سے نبٹنے کیلئے کتنی اہمیت کا حامل ہے۔؟
مولانا حیدر علوی:
امام عالی مقام نے کربلا میں جو جنگ لڑی، وہ صبح قیامت تک کیلئے ہے، ناکہ صرف اسی وقت تک ہی محدود تھی۔ یزیدیت ایک استعارہ ہے، برائی کا، بدی کا، ظلم کا اس کے مقابلے میں امام عالی مقام کا قیام رہتی دنیا تک اس ظلم، بدی، برائی کے خلاف قیام کرنے اور اس قیام پہ قائم رہنے کا درس ہے، راستہ ہے۔ پیغام امام حسین (ع) یہی ہے کہ جہاں جہاں ظلم و برائی ہو وہاں، وہاں صدائے حق بلند کرکے حسینیت کا پرچم بلند کرو اور اس ظلم و برائی کے خلاف ڈٹ جاو۔ عصر حاضر میں بھی چہار جانب ظلم و برائی کا دورہ ہے۔ ایسے میں پیغام امام عالی مقام ہی نجات کا اکلوتا ذریعہ ہے۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ حسینیت صرف ایک نعرہ بن کر رہ گئی ہے، اس کی عملی تشریح میدان میں معاشرے میں نظر نہیں آتی۔ اگر دنیائے عالم کو ظلم کے نظام اور ظالم سے نجات کی واقعی ضرورت ہے تو عالم انسانیت کو حسینیت کی طرف پلٹنا ہوگا۔ حسینی خیمے میں قیام پذیر ہوکر یزید وقت کے سامنے کلمہ حق ادا کرنا ہوگا۔ تبھی ہر ظالم، ہر جابر کا مثل یزید نام و نشان مٹ جائیگا اور دنیا کیلئے وہ فقط نشان عبرت بن کر رہ جائے گا۔ میں یہی کہوں کا عالم انسانیت کو درپیش مسائل کی نجات تعلیمات امام حسین (ع)، پیغام کربلاء میں مضمر ہے۔

اسلام ٹائمز: ایک نیا فتنہ ابھر کر سامنے آرہا ہے جو کہ یزید کے جرائم و گناہوں کی نہ صرف پردہ پوشی کرتا ہے بلکہ انکی تاویلیں پیش کرتا دکھائی دیتا ہے، اس فتنے کا سرخیل کون ہے۔؟
مولانا حیدر علوی:
جیسا کہ میں نے بتایا کہ تمام مسائل کا سدباب پیغام امام عالی مقام میں مضمر ہے۔ میں یہاں ایک بات کہنا چاہونگا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ میدان کربلا میں یزید خود تو موجود نہیں تھا۔ وہی لوگ حضرت عمر کے اس فرمان کا سب سے زیادہ حوالہ دیتے ہیں کہ ’’دریا کنارے اگر کوئی بکری کا بچہ بھی مارا جائے تو میں عمر اس کا جوابدہ ہوں۔‘‘ تو پھر یہ تو نواسہ رسول کا قتل عمداً تھا۔ اولاد پیغمبر کو تہہ تیغ
کر دیا گیا، تو جو لوگ سانحہ کربلا سے یزید کو بری الذمہ قرار دینے پہ کمربستہ ہیں، انہیں حضرت عمر کے اس قول کو غلط کہنا ہوگا۔ اگر اس قول کا حوالہ دیتے ہیں تو انہیں ماننا پڑیگا اولاد پیغمبر کے قتل کا ذمہ دار یزید ہے اور یزید ہی رہے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ کیا ان لوگوں نے تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا کہ جب امام عالی مقام کا سر مبارک اس کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے چھڑی سے گستاخی کی اور وہ جملے کہے جو تاریخ میں رقم ہیں۔ کیا کہا تھا یزید نے، یہی نہ کہ آج میں نے بدر و حنین والے سارے بدلے چکا دیئے۔ کیا یزید کا یہی ایک جملہ ہی اس کی تمام تر خباثتوں و نجاستوں سے آلودہ سوچ و کردار کا آئینہ دار نہیں ہے۔؟ اور کیا یہ نہیں جانتے کہ بدر و حنین کے معرکے کن کے درمیان ہوئے تھے، اگر یزید نے وہی بدلے چکائے تو یزید ان معرکوں کے کس گروہ کی نمائندگی کر رہا تھا اور وہ لوگ جو یزید کے حکم پر کربلا میں خاندان نبوت کے لہو سے اپنے ہاتھ رنگ رہے تھے، وہ کس سوچ و فکر کے نمائندے تھے۔ صدیاں گزر گئیں، اپنے اپنے وقت کے کئی یزید بلکہ اس سے بھی جابر حکمران آئے، مگر ہر کوشش کے باوجود امام عالی مقام کی شہادت کو نہ چھپا سکے، نہ ان کے پیغام کو مٹاسکے، یہاں تک کہ خود مٹ گئے۔

عملی طور پر معاشرہ حسینیت و یزیدیت کے مابین تقسیم ہوچکا ہے۔ حسینیت اچھائی، مظلومیت، حق اور ظالم کے سامنے کلمہ حق کی ادائیگی کی علامت ہے جبکہ یزیدیت برائی، بدی، جور و ظلم کی علامت ہے۔ گروہ یزید میں شامل وہی ہیں، جو یزید کے جرائم و گناہوں سے چشم پوشی بھی کرتے ہیں اور یزید کی طرح ان کے دلوں میں بغض اہلبیت (ع) بغض پیغمبر ہے، کیونکہ اولاد پیغمبر کے قاتل کیلئے نرم گوشہ انہی کے دل میں ہوسکتا ہے کہ جن کے دل میں پیغمبر اکرم کیلئے بغض و حسد ہو۔ باقی جس کے دل میں حب نبی (ص) ہے، وہی نام حسین (ع) لیتا بھی ہے، وہی راہ حسین (ع) پہ چلتا بھی ہے اور وہی پرچم حسینیت کے نیچے کلمہ حق بھی بلند کرتا ہے۔ حسین (ع) والے وہی ہیں کہ جنہیں آخرت پہ یقین ہے، جنہیں یہ بھی یقین ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) آخرت میں ان کی شفاعت کے ضامن ہیں۔ یزیدیوں کیلئے تو نہ کل آخرت تھی نہ آج ہے۔ کیا یہ بھول جاتے ہیں کہ پیغمبر اکرم کے وہ صحابی کہ جن کا نام عشرہ مبشرہ میں ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص کے بیٹے ابن سعد سے امام عالی مقام نے جو باتیں کیں، وہ راہ حق و باطل میں تفریق کا پیمانہ ہیں۔ امام عالی مقام نے فرمایا کہ اے ابن سعد تو جانتا ہے کہ میں آخرت کی ضمانت دے سکتا ہوں، روز قیامت میرے نانا کو کیا منہ دیکھاؤ گے۔؟ کیا تمہیں اپنی آخرت کی بھی پروا نہیں ہے۔ تو ابن سعد نے جواب دیا کہ آپ آخرت کی بات کر رہے ہیں، جو کہ موت کے بعد کی ہیں۔ یزید اس کا صلہ فوری دے گا، تو جو لوگ کردار یزید سے متعلق صفائیاں پیش کرتے ہیں، وہ اسی سوچ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انہیں آخرت سے نہیں بلکہ دنیا سے مطلب ہے۔ حسین (ع) والے اپنی عاقبت سنوار رکھتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 672140
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش