0
Monday 2 Oct 2017 01:13

مضبوط اور مستحکم پاکستان امریکہ اور انڈیا کے مفاد میں نہیں، اس لئے پریشر ڈالا جا رہا ہے، لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم

مضبوط اور مستحکم پاکستان امریکہ اور انڈیا کے مفاد میں نہیں، اس لئے پریشر ڈالا جا رہا ہے، لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم کا نام ملک کے ممتاز محققین اور سیاسی نشیب و فراز پر گہری نظر رکھنے والے بلند پایہ دفاعی و سیاسی تجزیہ نگاروں میں ہوتا ہے، جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم، پاکستان آرڈینسنس بورڈ اور پاکستان سٹیل ملز کے سابق چیئرمین رہے ہیں، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے ممبر اور سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے ملٹری سیکرٹری کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔ وہ مسلم لیگ نون کیجانب سے سینیٹ کے رکن بھی ہیں۔ اسلام ٹائمز نے سینیٹر عبدالقیوم سے ملکی صورتحال، پاک امریکہ کشیدہ تعلقات، ایل او سی پر آئے روز کی خلاف ورزی سمیت خطے کی صورتحال پر اہم انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: ٹرمپ نے جو نئی پالسی کا اعلان کیا ہے، اسکے کیا اثرات ہونگے اور پاکستان کی اپنی سمت کیا ہے۔؟
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم:
دیکھیں بنیادی طور پر ٹرمپ نے جو پالیسی دی ہے، یہ نئی پالیسی نہیں بلکہ یہ امریکہ کے مفادات ہیں، جن کو بیان کیا گیا ہے، یہ ان کی چالیں ہیں کہ انڈیا کو طاقت میں لانا ہے اور چین کو کمزور کرنا ہے، چین کی منڈی کو بھی قابو کرنا ہے۔ کیا امریکہ کو یہ نہیں پتہ کہ آدھا افغانستان خود امریکہ کے کنٹرول میں نہیں ہے اور یہ وہاں قیدی بنے ہوئے ہیں، یہ امریکہ کے توہین آمیز الزامات ہیں کہ یہاں دہشتگردوں کی پناہ گاہیں ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آدھا افغانستان تو امریکیوں کے کنٹرول میں بھی نہیں، ہم جی ایچ کیو گئے تو انہوں نے بتایا کہ فوج نے سرحد پر 936 چیک پوسٹیں بنا دی ہیں جبکہ دوسری طرف افغانستان نے صرف 230 چک پوسٹیں بنائی ہیں، افغانستان کا جنوب والا علاقہ جو پاکستان کے ساتھ لگتا ہے، وہ کوئی 600 کلومیٹر پر محیط ہے، اس علاقہ میں تو ان کی کوئی ایک بھی چیک پوسٹ نہیں ہے، افغانستان اس علاقے کو منظم کرنے آتے ہی نہیں، سچی بات یہ ہے کہ ان کے پاس وسائل ہی نہیں ہیں، جبکہ امریکی اس علاقے میں آنے سے ڈرتے ہیں۔ اب آپ بتائیں کہ ہم تو پھر بھی کام کر رہے ہیں، بارڈر فورسز بڑھائی ہے، 720 کلومیٹر پر ایف سی تعینات کی ہوئی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ دہشتگردی کو کنٹرول کرنے کیلئے یہ سب کام پاکستان کر رہا ہے، پاکستان ایک غریب ملک ہے، اس کے باوجود بھی ہم کام کر رہے ہیں، اس لئے جو ٹرمپ کی پالیسی ہے، وہ ٹھیک نہیں ہے، یہ پالیسی خواہشات پر بنی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں کامیابی کیوں نہیں ملی، اب یہ کامیابی بندوق اور ڈرون حملوں یا طاقت کے استعمال سے تو نہیں مل سکتی، یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے، جو سیاسی طور پر حل ہوگا، جو بات چیت سے ہی حل ہوگا۔ افغانستان افغانیوں کا ہے، امریکہ کا نہیں۔

اسلام ٹائمز: اہم بات یہ ہے کہ اس صورتحال میں حکومت یا ریاست کی سمت کیا ہے۔؟
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم:
ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ انگیج کرنے کی ضرورت ہے، ہر لیول پر یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ آپ کے اپنے مفادات ہوں گے، لیکن ہمارے بھی مفادات ہیں، ہم دہستگردی کا شکار ہیں، ہم دہشتگردی کی لعنت کی مذمت کرتے ہیں، اس کا آپ کو احساس ہونا چاہیئے، ہم بہت سی جگہوں پر لڑ رہے ہیں اور انڈیا سے بھی ایل او سی پر ہر وقت حالت جنگ میں ہیں، اب وہ کہتا ہے کہ لشکر طیبہ کو بھی ختم کر دو، تو ظاہر ہے کہ وہ بھی ہم اپنی حکمت عملی سے ہی ختم کرسکیں گے اور کر رہے ہیں، کیا یہ کم ہے کہ ہم نے ان کے 102 مدرسے بند کر دیئے ہیں، اسی طرح اربوں روپے کے اثاثے منجمد کر دیئے ہیں، ان کے لوگوں کو ٹی وی پر نہیں آنے دیتے اور دو کروڑ سمیں بند کی ہیں، بہت سے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ منسوخ کر دیئے ہیں، ہم نے کوشش کی ہے اور اس کا اچھا رزلٹ بھی مل رہا ہے، آپ اندازہ کریں کہ 100 سال پہلے میران شاہ کوئی جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا، یہ وہ علاقہ ہے جہاں انگریز نہیں جا سکتے تھے، آج ان کے صحافی کرکٹ کا میچ دیکھنے جا رہے ہیں، بلوچستان بہت کنٹرول میں ہے، کراچی اپنی حالت میں واپس آگیا ہے، وہ کہتے ہیں آپ کی افغانستان اور بھارت میں مداخلت ہے، اب الزامات لگانے کے بجائے آپ ہمیں ثبوت دیں، ورنہ تو یہ ہوائی باتیں ہیں۔

اسلام ٹائمز: اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ نون لیگ کی خارجہ پالیسی اس وقت ہے کیا۔؟
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم:
دیکھیں ہماری خارجہ پالیسی وہ ہے، جو ہمیں قائد اعظم نے دی تھی، جس کے پوائنٹس کچھ یہ ہیں۔
1۔ سب سے دوستی، مطلب کسی سے دشمنی نہیں رکھنی۔
2۔ کسی کے خلاف جارحیت نہیں کرنی،کبھی کسی کیخلاف پہل نہیں کرنی۔
3۔ ہم اقوام متحدہ کے چارٹر پر چلیں گے۔
4۔ بین الاقوامی تعلقات میں دیانتداری اور فیئر معاملات میں ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔
5۔ ہم اُن لوگوں کا ساتھ دیتے رہیں گے، جنہیں اس زمین پر کمزور کیا گیا ہے یا بنا دیا گیا ہے، جو مظلوم ہیں، جیسے کشمیر اور فلسطین ہیں۔ ہم انڈیا کے ساتھ بھی اچھے تعلقات چاہتے ہیں اور افغانستان تو ہمارا ہے ہی دوست اور برادر ملک۔ اسی طرح ایران ہمارا خیرخواہ ملک ہے، اگر کوئی غلط فہمی ہے تو ہم اس کو بھی دور کریں گے، اس کے ساتھ ساتھ ہم سی پیک کو آگے لے کر جائیں گے، روس کے ساتھ تعلق کو بہتر کریں گے، امریکہ کے شکوک شبہات دور کریں گے، یہ ہماری خارجہ پالیسی ہے۔

اسلام ٹائمز: افغانستان برادر ملک ہوکر بھی پاکستان پر اعتماد نہیں کرتا، اسکی کیا وجہ ہے۔؟
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم:
دیکھیں اگر افغانستان میں کوئی نامی گرامی شخصیت ہو تو ہم اس کے ساتھ بات بھی کریں گے اور ان کی بات سنیں گے بھی، حتٰی ان کو اعتماد میں بھی لیں گے، ابھی تو وہاں امریکہ ہے، جو ان کو پیسہ دے رہا ہے، ان کے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے، افغان حکومت کی ملک کے چالیس فیصد حصے پر رٹ ہی نہیں ہے۔  باقی بیس فیصد پر صدر اور بیس فیصد حصے پر عبداللہ عبداللہ کی رٹ ہے۔ یہ ان کے اپنے مسائل ہیں اور اب یہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نمبر دو امریکہ اپنی شکست کو چھپانے کے لئے اپنی عوام کے سامنے ہمارے اوپر الزام لگا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز۔: شہید ارسلان کے اہلخانہ سے ملاقات کے بعد اپنے ویڈیو پیغام میں آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ہم ملک کے باہر پاکستان اور فوج کو گالیاں دینے والوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ اس پیغام سے کیا مراد ہے۔؟
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم:
دیکھیں ہمارے بہت سے بدنصیب ایسے لوگ ہیں، جن کو پاکستان نے شناخت دی، لیکن اب وہ دشمن کی زبان بولتے ہیں، جن کو ہم نے امریکہ جیسے ملک کا سفیر بنایا، آج وہ دشمن کے ساتھ نظر آتے ہیں، اب یہ لوگ غیروں کی زبان استعمال کریں تو ان کو ضرور اپنے انجام تک لے جانا چاہئے، اپنی رائے دینا اور حکومت کے خلاف بات کرنا سب کا حق ہے، لیکن دشمن کے ساتھ ملکر پاکستان کے خلاف چالیں چلنا یہ تو غداری ہے، ان غداروں کو عالمی قوانین پر چلتے ہوئے اپنے انجام تک پہنچائیں گے۔

اسلام ٹائمز: زرداری صاحب نے بھی اور موجودہ حکومت نے بھی کہا تھا کہ ہم ناراض بلوچوں کو راضی کرینگے تو اس پر ابھی تک کیوں عمل نہیں ہوسکا۔؟
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم:
دیکھیں آپ تائید کریں گے کہ ہمارے وقت میں تبدیلی آئی ہے، ہم نے اڑھائی سال تک بلوچوں کو حکومت کرنے دی ہے، تاکہ ان کی ناراضگی میں کمی آئے، یہ جو آپ بات کر رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک دشمنوں کو مودی دانہ ڈال رہا ہے، لیکن وہاں کے لوگ ہمارے ساتھ اتحاد کر رہے ہیں، ابھی گوادر پورٹ بن رہی ہے، وہاں سرمایہ کاری کی جا رہی ہے، اسکولز اور کالجز بنائے جا رہے ہیں۔ امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے، یہ سب ہماری حکومت نے ہی کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: یہ مودی صرف پاکستان کیخلاف ہی کیوں ہے، جبکہ بنگلہ دیشن ہے، نیپال ہے وہاں تو کوئی مسئلہ نہیں، آئے روز ایل او سی اور ورکنگ باونڈری پر سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزیاں چل رہی ہیں۔ اصل معاملہ ہے کیا۔؟
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم:
مودی یہ چاہتا ہے پاکستان کو پریشر میں لایا جائے، کیونکہ مودی آیا ہی اسی نعرے پہ تھا کہ ہم پاکستان کو سبق سکھائیں گے، وہ یہ نہیں کہتا کہ جو لوگ غریب ہیں، جن کی آمدن کم ہے، ان کی غربت دور کرنے کیلئے کام کروں گا، وہ یہ نہیں کہتا کہ ملک کی پچاس فیصد آبادی کے پاس لیٹرین کی سہولت نہیں تو ان کی یہ کمی پوری کروں گا، آئے روز انڈیا میں ریپ کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے، اسی طرح خودکشیوں کی شرح بڑھ رہی ہے، اس کیلئے مودی کچھ نہیں کر رہا۔ 60 فیصد تک ملک میں گندگی جمع ہے، جس کے باعث بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں، مودی ان مسائل پر بات کرنے کے بجائے عوام کو پاکستان مخالفت پر اکسا رہا ہے، تاکہ اصل مسائل جوں کے توں ہی رہیں۔ انڈیا پاکستان سے خوف کھاتا ہے، بھارت کو ایٹمی پاکستان پسند نہیں، ایسا ملک جس کی معیشت مضبوط ہو، وہ ایک مستحکم پاکستان کو برداشت نہیں کرسکتا۔ بنگلہ دیش کے ساتھ اس لئے مسائل نہیں کرتا کیونکہ ان سے ان کو خوف نہیں۔

اسلام ٹائمز: کردوں کے ریفرنڈم کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم:
صدام سے تو ہماری کوئی ہمدردی نہیں تھی، لیکن ایک بات واضح ہے کہ اس نے ملک کو کنٹرول میں رکھا ہوا تھا، امریکہ وہاں پر وسیع پیمانے پر تباہی پھییلانے ہتھیاروں کی موجودگی کا الزام لگا کر آیا اور اس ملک کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی کوشش میں ہے۔ امریکہ کا مقصد ہے کہ عراق کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے، ایک حصہ شیعوں کے پاس ہو، دوسرا سنیوں اور تیسرا کردوں کو دے دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کبھی داعش کی مدد کرتے ہیں، کبھی مسلمان ملکوں کو آپس میں لڑانے کی سازش کرتے ہیں۔ لیبیا، عراق، شام اور اب یمن میں انہوں نے آگ لگائی ہوئی ہے، اب یہ قطر کو لڑوانا چاہتے ہیں۔ کبھی ایران کو دھمکی تو کبھی پاکستان کو دھمکی دی جاتی ہے۔ یہ مسلم دنیا پر قبضہ چاہتے ہیں۔ جو او آئی سی شاہ فیصل کے دور میں قائم ہوئی تھی، اس کے تمام قائدین کو مروا دیا گیا ہے۔ شاہ فیصل کو قتل کروا دیا گیا، انور سعادات قتل ہوا، معمر قذافی قتل ہوا۔ صدام کا قتل ہوا، یاسر عرفات کو زہر دی گئی۔ اسی طرح ذوالفقار بھٹو کو قتل گیا۔ مسلم دنیا ان کے نشانے پر ہے۔
خبر کا کوڈ : 673250
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش