0
Thursday 28 Dec 2017 20:40
فاٹا کے عوام علیحدگی کا نہیں اپنائے جانیکا مطالبہ کر رہے ہیں

ایران، پاکستان باہمی تعلقات میں اضافہ خطے میں خوشگوار تبدیلی کا موجب ہوگا، محمد اکرم ذکی کا آخری انٹرویو

عرب سپرنگ کیصورت میں عوامی لہر جو اٹھی، اس میں بڑی طاقتوں نے اپنے مفاد کا کھیل کھیلا
ایران، پاکستان باہمی تعلقات میں اضافہ خطے میں خوشگوار تبدیلی کا موجب ہوگا، محمد اکرم ذکی کا آخری انٹرویو
سینیٹر (ر) محمد اکرم ذکی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک باب ہے، جو کہ یکم دسمبر 2017ء بمطابق 12 ربیع الاول 1439ھ کو بند ہوا۔ پاکستان کی تاریخ میں اب تک وزارت خارجہ کی دو شخصیات کو فارن سیکرٹری جنرل ہونیکا اعزاز حاصل ہوا ہے، جن میں ایک اکرم ذکی (مرحوم) ہیں۔ انہوں نے چین، امریکہ، نائیجیریا اور فلپائن کے علاوہ دنیا کے متعدد ممالک میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں۔ انکو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ ان سے تربیت پانے والے وزارت خارجہ کے کئی افسران نے قابلیت کے بل بوتے پر اعلٰی ترین عہدوں پر رسائی حاصل کی۔ سابق سینیٹر اکرم ذکی 1991ء سے 1993ء تک وزارت خارجہ کے سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز رہے، جو کہ وزیر مملکت کے برابر شمار کیا گیا۔ 1997ء سے 1999ء تک سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے چیئرمین اور نیشنل ایجوکیشن کمیشن کے وائس چیئرمین رہے ہیں۔ سابق سینیٹر اکرم ذکی انجمن فروغ تعلیم کے بانی صدر بھی تھے اور انکو پاکستان یورپ فرینڈ شپ ایسوسی ایشن کے بانی صدر ہونیکا بھی اعزاز حاصل رہا۔ صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں انہوں نے پاکستان انٹرنیشنل ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی۔ آج بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی اور اہم فیصلوں میں انکی رائے سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ اور اسکے ذیلی اداروں سمیت کئی بین الاقوامی اداروں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ جن میں جنرل اسمبلی، یو این ایچ سی آر، او آئی سی، ای سی او، اے بی ڈی، یو این سی ٹی اے ڈی، این اے ایم وغیرہ شامل ہیں۔ سینیٹر (ر) محمد اکرم ذکی کئی پالیسی ساز تحقیقی اداروں اور سول سوسائٹی کے نمائندہ اداروں سے منسلک رہے۔ پاکستان انٹرنیشنل ہیومین رائٹس آرگنائزیشن، پاکستان یورپ فرینڈ شپ ایسوسی ایشن اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کانفلیکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے چیئرمین رہے۔ اسی طرح پاکستان سنٹر فار گلوبل سٹڈیز اینڈ اسٹریٹجک سٹڈیز، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز،
سنٹر فار پاکستان اینڈ گلف سٹڈیز، چائینہ سٹڈی سنٹر (کامسٹ) کے بورڈ ممبر رہے۔ اسی طرح بیداری فکر فورم کے پیٹرن ان چیف جبکہ سی پی ایف اور سی ایل سی کے چیئرمین رہے۔ محمد اکرم ذکی شاہ فیصل ویلفیئر ٹرسٹ پاکستان کے چیئرمین جبکہ انجمن فروغ تعلیم کے صدر بھی رہے۔ ان سب کے علاوہ اکرم ذکی ایک شاعر، دانشور، ادیب اور مضمون نگار تھے۔ انہوں نے اسلام ٹائمز کیلئے متعدد تحقیقی و تجزیاتی مضامین رقم کئے۔ انکی شاعری کی ایک کتاب، انکے کالمز و مضامین اور انٹرویوز کا ایک مجموعہ اپنی اشاعت کے آخری مرحلے میں تھا کہ وہ اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔ محمد اکرم ذکی (مرحوم) نے اپنی زندگی کا آخری خصوصی انٹرویو اسلام ٹائمز کو دیا۔ انہوں نے اپنی وفات سے محض اڑھائی گھنٹے قبل اسلام ٹائمز سے گفتگو کی، جس میں پاکستان کے داخلی و خارجی مسائل پہ گفتگو کی۔ اکرم ذکی (مرحوم) کی یہ آخری گفتگو انٹرویو کیصورت پیش خدمت ہے۔(ادارہ)


اسلام ٹائمز: قبائل کا مطالبہ ہے کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کیا جائے، اس عمل سے کیا فاٹا کے مسائل پہ قابو پایا جاسکتا ہے۔؟
محمد اکرم ذکی:
قیام پاکستان کے وقت جس طرح پاکستان کے حصے میں قبائلی علاقے آئے تھے، اسی طرح بھارت کے حصے میں بھی ایسے علاقے آئے تھے، جہاں براہ راست حکومتی عملداری نہیں تھی۔ بھارت نے بڑی قلیل مدت میں ان علاقوں کو باقاعدہ تصرف میں لیا اور باقی ملک کی طرح وہاں بھی یکساں آئین اور قانون کی عملداری کو یقینی بنایا، نتیجے میں وہاں ایسے مسائل پیدا ہی نہیں ہوئے کہ جن مشکلات سے ہم دوچار ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری حکومتوں نے اخلاص کے ساتھ کبھی ان معاملات پہ غور کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ عمومی طور پر پوری دنیا میں چلنے والی تحریکیں آزادی اور علیحدگی سے متعلق ہیں، فاٹا کے عوام علیحدگی کا مطالبہ نہیں کر رہے بلکہ اپنائے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ آئین و قانون کے خلاف نہیں بلکہ آئین و قانون کے
دائرے میں آنے کیلئے کوشش کر رہے ہیں، اس کے باوجود کہ ہم فاٹا کو نظر انداز کرنے کا نقصان بھی برداشت کرچکے ہیں، پھر بھی قبائل کے جائز مطالبے کو پورا کرنے کیلئے پس و پیش سے کام لیا جا رہا ہے، جس پہ افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ وفاق کے زیرانتظام جو قانون وہاں رائج ہے، اس سے پاکستان اور قبائل کو کیا فائدہ ہوا ہے۔؟ موجودہ رائج نظام فاٹا کی تعلیم و ترقی میں حائل تھا بھی سہی اور ہے بھی سہی، یہی نظام فاٹا کی پسماندگی کی ایک وجہ بھی ہے اور اس علاقے کی پسماندگی سے ہی دشمن نے فائدہ اٹھایا ہے۔

اسلام ٹائمز: خیبر پختونخوا میں ضم کرنیکے بجائے فاٹا کو علیحدہ صوبہ بھی تو بنایا جاسکتا ہے۔؟
محمد اکرم ذکی:
اس کے لئے آئینی ترامیم کی ضرورت پیش آئیگی، سینیٹ کی سیٹوں کی ازسر نو ترتیب و ترکیب مرتب کرنا ہوگی۔ تو یہ ایک طویل اور مشکل عمل ہے۔ نئے صوبوں کے قیام کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں، مگر پاکستان میں نئے صوبوں کا قیام انتظامی بنیادوں پہ ہونا چاہیئے، لسانی، قومی بنیادوں پہ قائم ہونے والے صوبوں کے مابین ہم آہنگی و ہم کاری شائد مشکل ہو۔ خیبر پختونخوا میں فاٹا کے انضمام کی صورت میں قلیل وقت کے اندر زیادہ مسائل پہ قابو پایا جاسکتا ہے۔ مسئلہ تو یہ بھی ہے کہ وہاں کے عوام سے ہم تعاون کی توقع پاکستان کے دیگر شہریوں سے بھی زیادہ رکھتے ہیں، جبکہ انہیں وہ حقوق دینے سے بھی انکاری ہیں کہ جو پاکستان کے عام شہریوں کو حاصل ہیں تو اس چلن کو بدلنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کیا خیبر پختونخوا میں فاٹا کے انضمام سے دہشتگردی کا مسئلہ بھی حل ہوجائیگا۔؟
محمد اکرم ذکی:
یہ دونوں مسئلے جدا جدا ہیں۔ دہشت گردی کو عالمی طاقتیں بالخصوص امریکہ وغیرہ ہتھیار کے طور پہ اپنے مفادات اور ضرورت کے تحت استعمال کرتے ہیں۔ ضرورت کے تحت مسلح گروہوں کو مجاہدین، فریڈم فائٹر (حریت پسند) قرار دیتے ہیں اور اپنے مفادات کے تحت ہی انہیں شدت پسند اور دہشت گرد بھی گردانتے ہیں۔ کیا
اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کے تعاون سے ہم نے جنہیں پروان چڑھایا، وہی آج دہشت گرد بھی ہیں اور دشمن بھی۔ کیا امریکی انتظامیہ نے داعش کے قیام کا اقرار جرم نہیں کیا۔؟ کیا اس حقیقت سے بھی منہ موڑنا ممکن ہے کہ شام میں قائم حکومت کے خلاف مسلح گروہوں ترتیب دیئے گئے اور امریکہ و سعودی عرب نے ان کی اعلانیہ مدد کی۔؟ اب ایک ملک میں ہتھیار بند گروہوں کو حکومت مخالف عسکریت پسند اور آزادی پسند قرار دینا اور دوسرے ملک میں اسی طرح کے لشکروں کو دہشت گرد دینا مفادات کا ہی حصہ ہوسکتا ہے۔ رہی بات فاٹا کی تو ایسا نہیں کہ فاٹا کے انضمام سے دہشت گردی ختم ہو جائے، دونوں کو لنک کرنا ہی غلط ہے، البتہ یہ ضرور ہے کہ داخلی حالات کی بہتری میں مدد ضرور ملے گی۔

اسلام ٹائمز: دہشتگردی عالمی طاقتوں کا ہتھیار ہے، مشرق وسطٰی میں یہ ہتھیار کون اور کس کیخلاف استعمال کر رہا ہے۔؟
محمد اکرم ذکی:
عرب سپرنگ کی صورت میں عوامی لہر جو اٹھی، اس میں بڑی طاقتوں نے اپنے مفاد کا کھیل کھیلا۔ بیشتر ممالک کو طویل عرصے تک انتشار میں مبتلا رکھنے کیلئے بیک وقت وہاں کئی گروہوں کی سرپرستی کی، جیسا کہ لیبا وغیرہ۔ جہاں ان کی مرضی کے برخلاف کوئی عوامی حکومت وجود میں آئی۔ اسے فوراً سے پیشتر ریورس کیا جیسا کہ مصر۔ اسرائیل کے قریب موجود عراق و شام میں استحکام دنیا کے مفاد میں تھا مگر اسرائیل کے مفاد میں نہیں تھا۔ صدام کے بعد عراق میں شیعہ حکومت پہ ایران کا اثر غالب تھا، چنانچہ امریکہ کو یہ بھی قبول نہیں تھا، جبکہ شام شروع سے ہی اسرائیل مخالف تحریکوں کا حامی تھا، یہیں سے داعش کا کھیل شروع ہوا، جبکہ شام میں بیک وقت کئی مسلح گروہ حکومت کے خلاف کھڑے کئے گئے۔ کسی بھی ملک میں حکومت کے خلاف مسلح گروہوں کی تخلیق گرچہ قانون کے منافی ہے، مگر اس کے باوجود یہ کیا گیا۔ جس کا فائدہ اسرائیل کو ہوا، جبکہ نقصان صرف ان ممالک اور یہاں کے عوام کا ہوا۔
بنیادی طور پر مشرق وسطٰی میں امریکہ نے اپنی پالیسی بنانے کا تکلف چھوڑ کر اسرائیل کی ہی پالیسی کو اپنایا ہے، نتیجے میں پورا خطہ بدترین انتشار سے دوچار ہوا۔ اس معاملے میں بعض عرب ممالک نے کھل کر اسی امریکی پالیسی کا ساتھ دیا، جو کہ اسرائیل کی ترتیب شدہ تھی۔

اسلام ٹائمز: اگر عرب ممالک اسرائیل کی پالیسی پہ کاربند ہیں تو کیا انہوں نے مسئلہ فلسطین پہ اپنے موقف سے دستبرداری اختیار کر لی ہے۔؟
محمد اکرم ذکی:
دستبرداری تو اس وقت ہی اختیار کر لی گئی تھی، جب اس سوچ نے جنم لیا کہ اقتدار امریکہ کی مرہون منت اور نوازش سے ہی قائم رہ سکتا ہے۔ عرب پہ امریکی اثر و رسوخ کا اندازہ اس چھوٹی سے بات سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ اگر ابوظہبی سے امریکہ کیلئے اڑان بھریں تو امریکی ائیر پورٹ کی تمام تر کارروائی ابوظہبی ائیر پورٹ پہ ہی انجام دے دی جاتی ہے جبکہ سعودی عرب آج بھی امریکہ کے جنگی اخراجات کی مد میں ادائیگی بھی کرتا ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان نے اسرائیل کیخلاف سخت موقف چھوڑ کر نرم موقف کب سے اپنایا۔؟
محمد اکرم ذکی:
پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کے خلاف اسرائیل نے بین الاقوامی سطح پہ پاکستان مخالف ایک مہم شروع کی ہوئی تھی، جس کی وجہ سے عالمی برادری میں پاکستان مشکلات کا شکار تھا۔ اگر وہ مہم ہنوذ برقرار رہتی تو شائد ایٹمی پاکستان کا خواب یوں شرمندہ تعبیر نہ ہوتا۔ اس مہم کو روکنے کیلئے پاکستان نے عالمی سطح پہ اسرائیل کے خلاف اپنے کردار کی ادائیگی میں تھوڑی کمی برتی اور اسرائیل کی جانب سے یہ مہم رفتہ رفتہ سرد ہوئی۔ البتہ پاکستان نے مسئلہ فلسطین پہ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور نہ ہی اپنے اصولی موقف سے روگردانی کی۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کی حالیہ سیاسی صورتحال کیا رنگ لائیگی۔؟
محمد اکرم ذکی:
کسی بھی سیاسی شخصیت کو غیر سیاسی طریقے سے ہٹایا نہیں جاسکتا، بھٹو کی صورت میں ایک مثال ہمارے سامنے ہے۔ پھانسی سے پہلے بھٹو اتنا زندہ نہیں
تھا، جتنا پھانسی کے بعد ہوا۔ لٰہذا غیر سیاسی عمل سے کوئی بھی تبدیلی پائیدار نہیں ہوگی۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کے پڑوسی ممالک سے تعلقات میں عدم بہتری کیا خارجہ پالیسی کی ناکامی نہیں۔؟
محمد اکرم ذکی:
خارجہ پالیسی اس وقت تک کوئی معنی نہیں رکھتی، جب تک آپ داخلی سطح پہ مضبوط و محفوظ نہ ہوں۔ دنیا آپ کی بات تبھی غور سے سنتی ہے، جب آپ اندر سے قوی ہوں۔ عالمی برادری کیلئے افغانستان، شام، عراق، لیبیا کے موقف کی کتنی اہمیت ہے۔؟ بات یہ ہے کہ داخلی استحکام ہی خارجی کامیابی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ جہاں تک ہمسایہ ممالک سے تعلقات کی بہتری کی بات ہے تو ایک ہمسایہ (بھارت) کی ایسی پالیسی ورثے میں ملی ہے، جو کہ ہمارے وجود سے ہی انکار کے مترادف ہے، چنانچہ ایک ازلی دشمن سے چوکنا تو رہا جاسکتا ہے، اس سے بہتر توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتی۔ ملک میں ہونے والے کتنے ہی سانحات کے تار اسی سے جا ملتے ہیں۔ عالمی سطح پہ پراپگینڈہ مہم الگ سے اس نے شروع کی ہوئی ہے۔ کشمیر میں ریاستی جبر و تشدد کی ہولناک داستانیں رقم کرنیوالا بھارت کبھی گلگت تو کبھی بلوچستان کی بات کرنے لگا ہے۔ بھارتی کارستانیوں کے آگے بند باندھنا خارجی کامیابی تو ہوسکتی ہے۔ افغانستان میں ایک ایسی حکومت موجود ہے، جس کا اپنا دائرہ اختیار نصف سے زائد ملک پہ ہے ہی نہیں۔ امریکہ نے افغانستان میں بھارت کو مضبوط کیا۔ افغان حکومت کے موقف سے افغانستان سے زیادہ بھارتی مفادات کی بو آتی ہے۔ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، جس کا اعتراف بھی کیا جا چکا ہے اور ثبوت بھی آن دی ریکارڈ ہیں۔ رہی بات چین اور ایران کی تو۔ دونوں کے ساتھ ہمارے تعلقات کی اہمیت و افادیت سے کسی طور انکار ممکن نہیں۔ دونوں کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے ہیں۔ ایران کے ساتھ تعلقات کو بتدریج عروج حاصل ہو رہا ہے۔ ایران، پاکستان باہمی تعلقات میں اضافہ خطے میں خوشگوار تبدیلی کا موجب ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 691380
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش